امت کی اہم ضرورت:نصب العین پرارتکاز
کسی انسانی گروہ کی کامیابی و سربلندی جن خصوصیات پر منحصر ہوتی ہے، اُ ن میں سر فہرست اس کا مقصد و نصب العین ہے۔ نصب العین (goal/objective) اس بات کا نام ہے کہ نگاہوں کے سامنے ایک واضح ہدف ہو، یعنی وہ منزل جہاں پہنچنا ہے وہ اچھی طرح معلوم ہو۔ گروہ کے تمام ارکان کا اس پر اتفاق ہو، اسی پر ان کا ارتکازاور یکسوئی (فوکس) ہو، اسی کو بنیاد بناکر ہر قدم اٹھایا جائے، اسی سے سمتِ سفر کا بھی تعین ہو اور راہِ عمل کا بھی۔ جدید علم انتظام اور علم قیادت میں اسٹریٹجی (strategy) اور اسٹریٹجک مینجمنٹ (strategic management) کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اسٹریٹجی کے بغیر کسی اجتماعیت کو بامعنی اور باشعور اجتماعیت (mature organisation)سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسٹریٹجی میں مقصد و نصب العین کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ مقصد ونصب العین، اعتقادات یعنی بیلیف سسٹم (belief system) کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اگر کسی ادارےیا اجتماعیت کے عقائد کچھ اور ہوں اورہدف کچھ اور،تو یہ ٹکراو اُسے کامیاب ہونے نہیں دیتا۔ اسی طرح اسٹریٹجی کا ایک اہم حصہ اجتماعیت کی بنیادی اقدار (core values)ہوتی ہیں۔ ان قدروں کا تعلق، عقائد سے ہوتا ہے اور یہ مقصد و نصب العین کی سمت آگے بڑھنے میں روشنی کا کام کرتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کی کامیاب اور باشعور اجتماعیتوں کے پاس اپنے عقائد، وژن اور قدروں یعنی کور ویلیوزکا نہایت مستحکم نظام پایا جاتا ہے، ان کا ایک دوسرے سے گہرا ارتباط ہوتا ہے اوراجتماعیت پر ان کی حکمرانی ہوتی ہے۔
وژن یا مقصد و نصب العین، ہمارے کاموں اور اقدامات میں ہم آہنگی پیدا کرتا ہے، انہیں سمت عطا کرتا ہے۔ معنویت فراہم کرتا ہے۔ اسی سے ہر فیصلہ و اقدام کے لیے بنیاد اور محرک فراہم ہوتے ہیں۔ جائزہ و احتساب کے لیے ٹھوس پیمانے ملتے ہیں۔ مسلسل حرکت و پیش قدمی کی تحریک حاصل ہوتی رہتی ہے۔ مقصد و نصب العین کے ذریعہ اہم اور غیر اہم میں فرق کی کسوٹیاں میسر آتی ہیں۔ یہ ہمیں راستے کی رکاوٹوں میں الجھنے نہیں دیتا، ہماری نگاہوں کو فوری اور مختصر المیعاد مسائل کی تنگ نظری کے مقابلے میں طویل المیعاد مفادات کی وسعت نظری، بصیرت اور گہرائی عطا کرتا ہے۔ مشکلات و مصائب کو ہمارے اعصاب پر سوار ہونے نہیں دیتا۔ وہ ہماری صفوں کو منظم و متحد رکھتا ہے۔ اختلاف کے باوجود اتحاد کا جواز فراہم کرتا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی موجودہ پریشان کن صورت حال کا اہم ترین سبب، ہماری نظر میں، ایسے ایک صاف و شفاف نصب العین کا فقدان ہے۔ ہم اگلی سطروں میں واضح کریں گے کہ ہماری کامیابی، سربلندی اور استحکام کے لیے، نیز موجودہ احوال کی پیچیدگیوں کا کامیابی سے سامنا کرنے کے لیے ایک واضح نصب العین کی کتنی اہمیت ہے؟ایسا نصب العین جو امت کی ہر آنکھ کا خواب بن جائے،امت کے ہر فرد کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا اور آرزو بن جائے،ہمارے تمام اداروں اور جمیعتوں کا اصل مطمح نظر ہوجائے۔ جس پر نگاہ جماکر دوڑ لگانے میں ہمیں زندگی کی معنویت اور لطف و سرور کا احساس ہو، جو ہمارے اعصاب پر سوار ہوجائے۔ جو ہم پر چھاجائے، اس طرح کہ اُسے پانے کی آرزو اور اس کے وصل کی تمنا ہمیں دنیا کے ہر غم سے، بے نیاز کردے۔
میرا کمالِ شعر بس اتنا ہے اے جگرؔ
وہ مجھ پہ چھاگئے، میں زمانے پہ چھاگیا
واقعہ یہ ہے کہ ایسے واضح نصب العین کے بغیر ایک اجتماعی گروہ ( قوم یا ملت )ہمیشہ ادھورا اور بے بنیاد رہتا ہے۔ وہ ایک کٹی پتنگ بن جاتاہے۔ اگر ہم واضح ملّی نصب العین سے محروم رہیں تو اس محرومی کی وجہ سے ہم نہ صرف بے سمت اور بے معنی ہوجاتے ہیں بلکہ نہایت کم زور (vulnerable) بھی ہوجاتے ہیں۔ ترقی، جہد و عمل، اور مقابلہ و مسابقہ کے اجتماعی داعیات باقی نہیں رہتے۔ ایک ایسی فٹ بال ٹیم کاخیال کیجئے جو گول کا تصور فراموش کرچکی ہے۔ اس کے ہر کھلاڑی کے پاس اپنے لیے گوشہ عافیت تلاش کرنے یا زیادہ سے زیادہ بے دلی کے ساتھ بال کو ادھر ادھرلڑھکادینے کے سوا اور کیا کام باقی رہ جاتا ہے؟ بغیر کسی گول کے، ٹیم کے تمام ارکان اگر من چاہے طریقہ سے بال کودھکے دیتے رہیں تو قدم قدم پر ٹکرائو اور الجھائو بھی اس عمل کا لازمی اور منطقی نتیجہ ہے،اورایسی بے معنی محنت گھنٹوں کرتے رہنے کے باوجود کسی نتیجہ کا نہ نکلنا بھی عین فطری بات ہے۔ یہی حال، اُن قوموں، ملتوں اور اجتماعی گروہوں کا ہوتا ہے جن کے پاس کوئی واضح نصب العین نہیں ہوتا۔ وہ گوشہ ہاے عافیت میں رہنے لگتے ہیں، ان کو کشمکش سے پریشانی ہونے لگتی ہے اور میدان جہد کی سخت کوشیاں، طبع نازک پر گراں محسوس ہونے لگتی ہیں۔ ان کی صفیں ہمیشہ منتشر اور ان کی کوششیں بے معنی و بے نتیجہ رہتی ہیں۔
قرآن مجید کی رہ نمائی
قرآن مجید نے متعدد جگہوں پر یہ بات واضح کی ہے کہ اہل ایمان کی کامیابی کے لیے صحیح ارتکاز ضروری ہے۔ ان کاایمان یعنی بیلیف سسٹم مستحکم ہونا چاہیے اور ایمان کی ایک اہم علامت یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں جدوجہد اُن کی زندگیوں کا اصل مطمح نظر بننا چاہیے۔ قرآن مجید نے صرف اخروی نجات کے لیے ہی نہیں بلکہ دنیا میں کامیابی، امن و سکون کے لیے بھی پختہ ایمان کو پہلی شرط قرار دیا ہے۔
قرآن میں بہت صاف صاف کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی کامیابی، ایمان کے ساتھ مشروط ہے۔ وَلَاتَھِنُوا وَلَا تَحزَنُوا وَاَنتُمُ الاَعلَونَ اِن کُنتُم مُّؤمِنِینَ ’’دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو، تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو۔‘‘ ( آل عمران ۱۳۹)
اسی طرح یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ معاشی ترقی کا اصل راز بھی ایمان کی پختگی اور ایمان کے عملی تقاضوں کی تکمیل یعنی تقویٰ میں پوشیدہ ہے۔ وَلَو اَنَّ اَھلَ القُرٰٓی اٰمَنُوا وَاتَّقَوا لَفَتَحنَا عَلَیھِم بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآئِ وَالاَرضِ ’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھو ل دیتے۔ ‘‘ (الاعراف ۹۶) یا نوح علیہ السلام نے اللہ کی جانب سے ضمانت دی کہ اگر ان کے مخاطبین اللہ کی طرف رجوع کریں تو یُرسِلِ السَّمَآئَ عَلَیکُم مِّدرَارًا ہلا ۱۱ وَّیُمدِدکُم بِاَموَالٍ وَّبَنِینَ وَیَجعَل لَّکُم جَنّٰتٍ وَّیَجعَل لَّکُم اَنھٰرًا ’’وہ تم پر آسمان سے خوب بارشیں برسائے گا۔ تمہیں مال اور اولاد سے نوازے گا، تمہارے لیے باغ پیدا کرے گا اور تمہارے لیے نہریں جاری کر دے گا۔‘‘ ( سورہ نوح۔ ۱۱،۱۲)
حتی کہ اہل ایمان کے لیے امن وامان کی ضمانت بھی ایمان اور عمل صالح کے نتیجہ ہی میں ملتی ہے۔ وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا مِنکُم وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَستَخلِفَنَّہُم فِی الاَرضِ کَمَا استَخلَفَ الَّذِینَ مِن قَبلِہِم وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُم دِینَہُمُ الَّذِی ارتَضٰی لَہُم وَ لَیُبَدِّلَنَّہُم مِّن بَعدِ خَوفِھِم اَمنًا’’ اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، ان کے لیے ان کے اس دین کو مضبوط بنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے حق میں پسند کیا ہے، اور اُن کی (موجودہ) حالت خوف کو امن سے بدل دے گا۔ ‘‘ (النور ۵۵)۔
قرآن نے یہ بھی واضح کردیا ہے کہ ایمان کی کم زوری اور خدا سے غفلت،نامرادی و پسپائی کا باعث بنے گی۔ وَمَن اَعرَضَ عَن ذِکرِی فَاِنَّ لَہٗ مَعِیشَۃً ضَنکًا ’’اور جو میرے ’ذِکر‘ (درسِ نصیحت) سے منہ موڑے گا اس کے لیے دنیا میں تنگ زندگی ہو گی۔‘‘ ( طٰہ۔ ۱۲۴) قرآن مجید نے اپنے اس اصول کے حق میں متعدد تاریخی واقعات کی بھی شہادت دی ہے۔ وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَریَۃً کَانَت اٰمِنَۃً مُّطمَئِنَّۃً یَّاتِیھَا رِزقُھَا رَغَدًا مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَت بِاَنعُمِ اللّٰہِ فَاَذَاقَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الجُوعِ وَالخَوفِ بِمَا کَانُوا یَصنَعُون ’’اللہ ایک بستی کی مثال دیتا ہے، وہ امن و اطمینان کی زندگی بسر کر رہی تھی اور ہر طرف سے اس کو بفراغت رزق پہنچ رہا تھا کہ اس نے اللہ کی نعمتوں کا کفران شروع کر دیا تب اللہ نے اس کے باشندوں کو ان کے کرتوتوں کا یہ مزا چکھایا کہ بھوک اور خوف کی مصیبتیں ان پر چھا گئیں۔ ‘‘ (النحل ۱۱۲)
ہر مضبوط عقیدہ سے خود بخود زندگی کا ایک متعین نصب العین جنم لیتا ہے۔ جب آدمی کا ایمان اللہ پر، اُس کی کتاب پر، اُس کے رسولوں پر مضبوط و مستحکم ہوتا ہے توخدا اور رسول کی تعلیمات، دنیا اور دنیا کے احوال کو درست کرنے کا ایک وژن بھی فراہم کرتی ہیں۔ مضبوط ایمان،ہماری توجہات کو اسی وژن اور نصب العین پر مرکوز کردیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں متعدد جگہوںپرعملِ صالح کے ساتھ اللہ کی راہ میں اور اسلام کے ہوئے مقصد و نصب العین کی خاطر جدوجہد کو بھی ایمان کا لازمی تقاضہ قراردیا گیا ہے۔ قرآن نے جگہ جگہ مومنین کی خصوصیات میں، اللہ کی راہ میں جدوجہد کو اہم صفت کے طور پر بیان کیا ہے۔ اِنَّمَا المُؤمِنُونَ الَّذِینَ اٰمَنُوا بِاللّٰہِ وَرَسُولِہٖ ثُمَّ لَم یَرتَابُواوَجَاھَدُوا بِاَموَالِھِم وَاَنفُسِہِم فِی سَبِیلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُون ’’حقیقت میں تو مومن وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے کوئی شک نہ کیا اور اپنی جانوں اور مالوں سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے لوگ ہیں۔‘‘ ( الحجرات ۱۵)
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا اسوہ
قرآن مجید نے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کو اہل ایمان کے لیے نمونہ اور ماڈل قراردیا ہے۔ قَد کَانَت لَکُم اُسوَۃ’‘ حَسَنَۃ’‘ فِیٓ اِبرٰھِیمَ ’’تم لوگوں کے لیے ابراہیم اور اس کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔ ‘‘ (الممتحنہ۔ ۴)
سیدنا ابراہیم کی سب سے بڑی خصوصیت ان کی یکسوئی اور ارتکاز تھا۔ ا ن کے بارے میں کہا گیا کہ وہ مسلمِ حنیف تھے۔ (آل عمران۔ ۶۷) وہ ہر طرف سے یکسو ہوکر اللہ کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ (الانعام۔ ۷۹)ان کی حنیفیت کی مزید تشریح کرتے ہوئے قرآن نے کہا کہ اپنی پوری زندگی کو خلیل اللہؑ نے اللہ کے لیے وقف کررکھا تھا۔ ان کی ساری عبادتیں بھی اللہ کے لیے تھیں اور ان کا جینا اور مرنا بھی اللہ کی خاطر ہی تھا۔ ا للہ تعالیٰ کی ذات ا ور اس کا دیا ہوا مشن اُن کی زندگی کی واحد دلچسپی تھا۔ (الانعام۔ ۱۶)
ابراہیم ؑ کا مشن دعوت ِتوحید تھا۔ اس کے لیے پہلے اپنے وطن میں ہر طرح کی آزمائشیں اور قربانیاں آپؑ نے خندہ پیشانی سے قبول کیں۔ پھر اسی مقصد کی خاطر ہجرت کی اور مصر، شرق اردن، فلسطین اور حجازمیں اپنی دعوتی سرگرمیوں کے مراکز بنائے۔ اپنے خاندان کے لوگوں کو یہاں متعین کیا۔ اس مشن کے تسلسل کے لیے اولاد کی تمنا کی۔ اپنے بیٹے اسماعیل اور بیوی کو لق ودق صحرامیںبسانا گوارا کیا۔ اللہ کے گھر اور دعوتِ توحید کے مرکز کی تعمیر کی۔ بیٹے کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوگئے اورزندگی بھر کی،جہد ِمسلسل کے بعد جب وفات کا وقت آیا تو اِس تمنا و دعاکے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے کہ اُن کی اولاد کے ذریعہ اس مشن کے تسلسل کے لیے ایک پوری اجتماعیت یعنی امت وجود میں آئے۔ (البقرہ ۱۲۸)
اس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا جو نمونہ سامنے آتا ہے وہ ایک ایسے مومنِ صادق اور مسلم ِ حنیف کا ہے جو توحیدِ خالص پر پختہ ایمان رکھتا تھا اور دعوت اِلی اللہ اُس کی زندگی کا نصب العین اور اُس کی تمام توجہات، دلچسپیوں اور کوششوں کا فوکس تھا۔
مسلمانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ یکسو ہوکر ابراہیم علیہ السلام کے اسی طریقہ کار کی پیروی کریں اور اس پر فوکس کرلیں۔ وَمَن اَحسَنُ دِینًا مِّمَّن اَسلَمَ وَجھَہٗ لِلّٰہِ وَھُوَ مُحسِن’‘ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبرٰھِیمَ حَنِیفًا وَاتَّخَذَ اللّٰہُ اِبرٰھِیمَ خَلِیلا ’’اس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیم کے طریقے کی پیروی کی، اس ابراہیم کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا۔‘‘ ( النساء ۱۲۵)
نصب العین پر ارتکاز : اصل طاقت
قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ ایمان دنیا اور آخرت دونوں جگہ ثبات (stability) عطا کرتا ہے۔ یُثَبِّتُ اللّٰہُ الَّذِینَ اٰمَنُوا بِالقَولِ الثَّابِتِ فِی الحَیٰوۃِ الدُّنیَا وَفِی الاٰخِرَۃِ وَیُضِلُّ اللّٰہُ الظّٰلِمِینَ وَیَفعَلُ اللّٰہُ مَا یَشَآئُ ’’ایمان لانے والوں کو اللہ ایک قول ثابت کی بنیاد پر دنیا اور آخرت، دونوں میں ثبات عطا کرتا ہے، اور ظالموں کو اللہ بھٹکا دیتا ہے اللہ کو اختیار ہے جو چاہے کرے۔ ‘‘ (سورہ ابراہیم۔ ۲۷)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان و یقین بذات خود ایک قوت ہے اور اس کے مقابلے میں نفاق ایک کم زوری ہے۔ ایمان فرد کو اور قوموں کو ارتکاز عطا کرتا ہے۔ اُن کی ذہنی و عملی قوتیں مرکوز ہوجاتی ہیں۔ اس ارتکاز سے ان کی ہر قوت زیادہ موثر ہونے لگتی ہے۔ اس کے مقابلے میں تشکیک (agnostism) نفاق (hypocrisy) اور تناقض (ambivalence)نفسیاتی کم زوریاں ہیں۔ ان سے ہمارا لاشعور کنفیوژن کا شکار ہوجاتا ہے۔ قوتیں منتشر ہوجاتی ہیں۔ کارکردگی کے لیے کوئی طاقتور داعیہ باقی نہیں رہتا۔
حالیہ دنوں میں مختلف شعبوں کے کئی تجربات نے ایمان و یقین کی اس طاقت کو ثابت کیا ہے۔ تعلیمی نفسیات میں پگمیلین اثر (Pygmalion Effect)ایک بڑا اہم نظریہ ہے۔ اگر طالب علم کے اندر یہ یقین پیدا کیا جائے کہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا ہے تو اس کی کارکردگی حیرت انگیز طور پر بڑھ جاتی ہے۔ بلکہ اگر ٹیچر کے اندر یہ یقین پیدا ہوجائے کہ فلاں طالب علم زیادہ ذہین ہے تو اس کا اثر بھی اُس طالب علم کی کارکردگی پر پڑتا ہے اور اس کی تعلیمی کارکردگی غیر معمولی طور پر بڑھ جاتی ہے۔ اسی طرح،میڈیکل پریکٹس میں پلیسیبو ایفکٹ (placebo effect) کی تھیوری کثرت سے استعمال ہوتی ہے۔ یعنی اگر سادہ شکر کی گولیاں بھی مریض کو کھلادی جائیں لیکن اس کو یہ مضبوط یقین ہو کہ اس سے اس کا مرض دور ہوسکتا ہے تو بہت سی صورتوں میں صرف اس یقین کی وجہ سے ان بے اثر سادہ گولیوں سے وہ صحت یاب ہوجاتا ہے۔
اس بحث سے ہماری کم زوری کا سبب معلوم ہوجاتا ہے۔ اگر ہم اسلام کو بھی مانیں اور اس سے متصادم افکار کے بھی اثرات قبول کرتے رہیں، یا اسلام کو سچ مانیں لیکن جدید دنیا میں اس کے قابل عمل ہونے پر تذبذب کا شکار ہوں، یا اسلام کو مانیں لیکن ہمارا رویہ اور عمل اس کے مطابق نہ ہو یا ہمار ا ہدف اور نصب العین وہ نہ ہو جو اسلام دیتا ہے، تو یہ ساری دو رنگیاں اور تناقض، کم زوری پیدا کرتا ہے۔ یہ کم زوری ہر میدان میں ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہے۔ ایمان کی یہ کم زوری آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا میں بھی نقصان پہنچاتی رہتی ہے۔ اس کا اثر امت کی اجتماعی نفسیات پر پڑتا ہے اور پھر یہ اثر افراد کو بھی کم زور بناتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں ہم تعلیم میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہماری معاشی سرگرمیاں بے فیض ہوجاتی ہیں۔ سیاسی طور پر بے وزن ہوجاتے ہیں۔ اور بالآخر ایک کم زور اور ضعیف گروہ بن کر استحصال اور ظلم کا شکار بنتے رہتے ہیں۔
اسلامی تحریکوں کے مفکرین نے اس بات سے خبردار کیا تھاکہ اسلامی معاشرے یوروپی افکار و نظریات قبول کرکے ترقی نہیں کرسکتے۔ یوروپ اور امریکہ میں تومادہ پرست سیکولر فکر وہاں کی قوموں کا ’دین‘ ہے۔ اس پر انہیں ایمان کامل ہے۔ اور یہ ایمان (چاہے غلط مفروضوں پر سہی) ان کی طاقت بن گیا ہے۔ لیکن ان اجنبی تصورات کو آپ اسلامی معاشروں میں در آمد کریں، جہاں مسلمانوں کے ایمان و یقین سے یہ افکار متصادم ہیں، تو اس کے نتیجہ میں کسی بھی بات پر ان کو مکمل اطمینان حاصل نہ ہوگا۔
ایماں مجھے روکے ہےتو کھینچے ہے مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
یہ کیفیت نفاق اور تناقص کو جنم دیتی ہے جو بہت بڑی اجتماعی کم زوری بلکہ کم زوریوں کا اصل سرچشمہ ہے۔ چنانچہ تجربات سے بھی یہی معلوم ہوا کہ ترکی جیسی مجاہد قوم،مغربی طرز زندگی کے تحت باالکل بے اثر ہوکر ر ہ گئی تھی اور جب اس کی اجتماعی زندگی کا رشتہ دوبارہ اسلام کے ساتھ قائم ہوا تو اس کے تعلیمی، سماجی، معاشی، تجارتی، تہذیبی، سیاسی، فوجی ہر طرح کے عروج کا آغاز ہوا۔
اسی طرح کوئی قوم جو قوم پرستی کے مغربی تصورات میں یقین رکھتی ہے، وہ قومی ترقی اور قومی عروج کو ہدف بناکر ترقی کرسکتی ہے۔ لیکن مسلمانوں کا دین او ر ان کا اعتقاد یہ ہے کہ وہ ایک قوم نہیں ہیں بلکہ ایک دین کی علمبردار امت ہیں۔ محض قومی ترقی کا نصب العین ان کے بیلیف سسٹم سے ہم آہنگ نہیں ہوسکتا اس لیے وہ کبھی بھی ان کا اصل مقصد اور مطمح نطر نہیں بن سکتا۔
مقصد و نصب العین پر ارتکاز اور مشکلات حیات
مقصد و نصب العین پر ارتکاز انسانوں اور انسانی گروہوں کو وقتی مسائل و مشکلات میں نہ الجھنے دیتا ہے اور نہ ان سے پریشان ہونے دیتا ہے۔ جب نگاہیں منزل پر ٹکی ہوں تو راستے کے معمولی مسائل بے معنی ہوکر رہ جاتے ہیں۔ جب ہم منزل پر نگاہیں جماکر دور کے سفر پر نکل جاتے ہیں تو راستے کی ناہم واریاں، رکاوٹیں،گڑھے اور پتھر ہماری توجہات کا مرکز کبھی نہیں بنتے۔ ہم اُن سے اتنا ہی تعرض کرتے ہیں جتنا سفر کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ ہماری توجہ راستے سے زیادہ منزل پر ہوتی ہے۔ منزل پر پہنچنے کے لیے دشوار گذار راستہ ہی ضروری ہو تو راستے کی دشواری کی ہم پروا نہیں کرتے۔ اس کے برخلاف جب ہمارا سفر بے مقصد اور بے منزل ہوتا ہے، یعنی ہم یونہی چہل قدمی کے لیے چل رہے ہوتے ہیں تو راستے کا ہر چھوٹے سے چھوٹا مسئلہ ہمیں متوجہ کرتا ہے۔ راستہ ہی ہماری توجہات کا مرکز و محور بن جاتاہے۔ راستے کی ناہم واری، ہم کو پریشان کرتی ہے اور ہم چہل قدمی کے لیے ہم وار راستہ تلاش کرتے ہیں۔ راستے کا ہر پھول بھی ہمیں متوجہ کرتا ہے اور ہر کانٹا بھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ راستے کی الجھنوں کا شکار ہوجانا سفر کے غیر اہم، بے معنی اور بے منزل ہونے کی علامت ہے۔
مقصد ونصب العین اور بامعنی زندگی کی اہمیت بیان کرنے کے لیے اکثرہولوکاسٹ کے شکار، آسٹریائی یہودی ڈاکٹر اور ماہر علم الاعصاب (neurologist)، وکٹر فرینکل(Victor Frankl) کی مثال دی جاتی ہے۔ وکٹر فرینکل اور اُس کا پورا خاندان نازی جرمنی کے تعذیب خانے(concentration camp) میں قید تھا جہاں بھوک، سردی اور ظلم سہتے سہتے، اُس کی ماں، باپ بھائی اور اس کی محبوب بیوی موت کے شکار ہوگئے۔ اُس کی زندگی بھر کی سائنسی تحقیقات پر مبنی مسودے اس سے چھین لیے گئے۔ اس نے خود بے پناہ مظالم سہے لیکن جرأ ت و حوصلے کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا۔ اس عقوبت خانے میں اس نے مختلف افراد کو اذیتوں کا مختلف طریقوں سے سامنا کرتے دیکھا۔ کچھ لوگ وہ تھے جوبہت جلد زندگی سے مایوس ہوگئے اور موت کو ترجیح دینے لگے جبکہ کچھ افراد وہ بھی تھے جنہوں نے غیر معمولی حوصلہ کے ساتھ اذیتوں اور مظالم کا مقابلہ کیا۔ اس نے دونوں طرح کے لوگوں کے رویّوں پر اپنے علم الاعصاب اور علم النفس کی معلومات اور تجربات کی روشنی میںغور کرنا شروع کیا۔ ان تجربات اور مشاہدوں نے اُسے علم نفسیات کی تیسری اہم ترین تھیوری تک پہنچایا۔
سگمنڈفرائڈ(Sigmund Freud) کے نزدیک زندگی کا اصل محرک مسرت کی خواہش(will to pleasure) ہے، جبکہ الفریڈ اڈلر(Alfred Adler) کے نزدیک طاقت کی خواہش(will to power) ہے۔ ان دونوں کے مقابلے میں، فرینکل کا نظریہ یہ ہے کہ زندگی کی اصل،معنویت کی خواہش(will to meaning) ہے۔ اسی بنیاد پر اس نے نفسیاتی علاج کا ایک اہم طریقہ لوگو تھراپی (logo therapy) ایجاد کیا۔ اس کے مطابق اگر انسانی زندگی، معنویت سے خالی ہو تو ہر چھوٹی چیز زندگی کو پیچیدہ بنادیتی ہے اور معنویت یعنی زندگی کا مقصد وہدف، انسان کو زندہ رہنے اور جدوجہد کرنے کی آرزو،عمل کی ترغیب، ترقی کا محرک اور مشکلات کا سامنا کرنے کا غیر معمولی حوصلہ فراہم کرتاہے۔ فرینکل کی کتاب ’انسان کی جستجوے معنی ‘ (Man’s Search of Meaning) دنیا کی مقبول ترین اور بااثر ترین کتابوں میں سے ایک ہے اور کئی زبانوں میں کروڑوں کی تعداد میں چھپ چکی ہے۔ نیطشے (Friedrich Nietzsche) کے مشہور قول کو اس نے اپنی تھیوری کی بنیاد بنایا کہ:
He who has a why to live can bear with almost any how. ’جس کے پاس زندگی کی کوئی وجہ اور مقصد موجود ہے وہ زندگی کی ہر مشکل اور مسئلے سے آسانی سے گزرسکتا ہے۔‘ مسائل اور مشکلات اس وقت پیروں کی بیڑیاں بن جاتے ہیں جب زندگی کے سامنے کوئی بڑا کیوں (a why to live) یعنی کوئی بڑا مقصد نہیں ہوتا۔ ہم اپنے عام مشاہدہ میں بھی دیکھتے ہیں کہ لوگ جب ریٹائرڈ ہوتے ہیں، اور زندگی کا کوئی مصرف ان کے پاس نہیں ہوتا تو ان کی صحت تیزی سے گرنے لگتی ہے۔ جو بزرگ زندگی کو بامعنی بنالیتے ہیں اور بزرگی میں بھی کوئی اہم اور نفع بخش مصروفیت انہیں میسرا ٓجاتی ہے، وہ خوش اور صحت مند رہتے ہیں۔ یہ بات جس طرح افراد کے لیے درست ہے، اسی طرح قوموں کے لیے بھی ضروری ہے۔ کسی اجتماعی نصب العین کے بغیر ہمارا اجتماعی وجود بے معنی ہوکر رہ جاتا ہے اور کم زور ہوجاتا ہے۔ طاقت و قوت، ترقی، عروج و سربلندی کے لیے ضروری ہے کہ ایک اعلیٰ اجتماعی ہدف ہماری نگاہوں کے سامنے رہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کی صورت حال
مسلمانوں کا مقصد ونصب العین کیا ہونا چاہیے؟ اس سلسلہ میں قرآن و حدیث کی تعلیمات اس قدر واضح ہیں کہ اس میں کسی دو رائے کی گنجائش نہیں ہے۔ تحریک اسلامی نے اقامت دین کو یعنی مکمل دین کے قیام کو اپنا نصب العین بنایا ہے۔ یہ امت مسلمہ کا حقیقی اور مکمل نصب العین ہے۔ امت کے بعض طبقات اس اصطلاح اور اس کی تفصیلات کے بارے میں مختلف رائے بھی رکھتے ہیں۔ لیکن، ہمارے خیال میں، کم از کم اس بات میں نہ کوئی اختلاف رائے ہے نہ اس کی کوئی گنجائش ہے کہ مسلمانوں کی اصل حیثیت داعی الی اللہ کی ہے اور اس حیثیت میں ان کا اصل کام اور وژن، اسلام کی دعوت ہے۔ اس بات کی درج ذیل تفصیلات پر بھی بڑی حد تک اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔
۱۔ اللہ کے بندوں تک اللہ کا پیغام پہنچانا۔ مسلمان اس ملک میں اسلام کے داعی ہیں۔ انہیں ملک کی آبادی کو اسلام کے پیغام سے متعارف کرانا ہے اور دعوت الی اللہ کا فریضہ انجام دینا ہے۔
۲۔ اپنے معاشرہ کو مثالی اسلامی معاشرہ بنانا۔ نہیں اپنی اور اپنے معاشرہ کی اصلاح و تربیت پر اس طرح توجہ دینی ہے کہ وہ ایک مثالی اسلامی سوسائٹی بن جائیں اور ان کا اجتماعی و انفرادی کردار اور رویہ اسلام کی عملی شہادت کا ذریعہ بنے۔
۳۔ سماجی طاقت پیدا کرنا۔ انہیں تعلیمی، سماجی اورمعاشی لحاظ سے اوپر اٹھنا ہے تاکہ ان کی کم زوری دور ہو اور وہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں آسکیں۔
۴۔ انسانوں کی بے لوث خدمت اور ان کے دل جیتنا۔ انہیں انسانوں کی بے لوث خدمت کرنی ہے، اپنے اجتماعی رویہ سے اسلام کے نظام رحمت ہونے کی شہادت دینی ہے۔ عدل و قسط کا علم بردار بننا ہے۔ کم زوروں اور مجبوروں کا سہارا بننا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی شناخت انسانیت کے سچے خیر خواہ کی حیثیت سے قائم ہوجائے۔
ان امور کے سلسلے میں دلائل اور قرآن و حدیث کے تفصیلی حوالوں کی ضرورت اس لیے نہیں ہے کہ یہ تقریباً متفق علیہ باتیں ہیں۔ تمام ہی مکاتب اور مسالک کے اہل علم کی تقریروں و تحریروں میں ان باتوں کی مسلسل تکرار ہوتی رہی ہے لیکن اس کے باوجود واقعہ یہ ہے کہ یہ امور،مسلمانان ہند کے اصل نصب العین کی حیثیت آج تک بھی اختیار نہیں کرپائے ہیں۔ وعظوں اور تقریروں میں خیرامت اور دعوت دین کی مسلسل تکرار کے باوجود، یہ ہمارا ایسا اجتماعی نصب العین نہیں بن سکا، جس پر امت کے سواد اعظم کی نظریں یکسوئی کے ساتھ مرکوز ہوجائیں۔
آزادی کے بعد ہماری اجتماعی کوششیں زیادہ تر جان و مال کے تحٖفظ اور دشمنان اسلام کے مقابلے میں دفاع پر مرکوز رہیں۔ مسلم سیاست نے بھی انہی باتوں کو اپنا محور و مرکز بنایا جس کے نتیجہ میںمدافعانہ ذہن پروان چڑھنے لگا۔ مدافعت اور رد عمل پر مبنی ذہن کبھی تعمیر و ترقی کے طاقتور محرکات فراہم نہیں کرسکتا۔ اس کے نتیجہ میں ہم ہمیشہ حال کی الجھنوں میں گرفتار ہوکر رہ جاتے ہیں اور مستقبل تک ہماری نظریں نہیں اٹھ پاتیں۔ راستے کی رکاوٹوں میں ایسے الجھ جاتے ہیں کہ منزل نگاہوں سے اوجھل ہوجاتی ہے۔ ہم رد عمل کی نفسیات کا شکار ہوکر رہ جاتے ہیں اور کسی اقدامی اور ایجابی ایجنڈے پر صبر کے ساتھ طویل المیعاد جدوجہد ممکن نہیں رہ جاتی۔ ہمارا ایجنڈا، ہم خود نہیں بلکہ ہمارے دشمن سیٹ کرنے لگتے ہیں۔ ان کے نعروں کے مقابلے میں جوابی نعروں، ان کے پینتروں اور ہتھکنڈوں کے رد عمل میںدفاعی اقدمات اور ان کے بچھائے ہوئے جالوں سے خود کو بچانے اور محفوظ رکھنے کی کوششوں میں ہماری ساری اجتماعی توانائیاں صرف ہونے لگتی ہیں۔ مایوسی، خوف و ہراس، انفعالیت اور بے بسی اس دفاعی نفسیات کی لازمی خصوصیات ہیں۔ نگاہیں منزل پر نہ ہوں تو راستے کی ہر چھوٹی سے چھوٹی رکاوٹ، بڑا پہاڑ محسوس ہونے لگتی ہے اور اعصاب پر اس طرح سوار ہوجاتی ہے کہ بس اُس کا ازالہ ہی زندگی کا نصب العین بن جاتا ہے۔ چنانچہ کبھی کوئی این آر سی کا شوشہ چھوڑتا ہے اور اونچے دانش وروں اور قائدین سے لے کر سوشل میڈیا پر مصروف طالب علم تک، ہر ایک کئی مہینوں کے لیے مصروف ہوجاتا ہے۔ کوئی لنچنگ کے واقعات پر ماتم و سینہ کوبی اور لعنت و ملامت کو ملت کی خدمت سمجھ بیٹھا ہے تو کسی کے نزدیک کوئی اور مسئلہ امت مسلمہ کا واحد ایجنڈا ہے۔ ہمارے ذمہ دار لوگوں کی تقریریں ہوں یا دانش وروں کی تحریریں، ہماری صحافت ہو یا سوشل میڈیا پر تحریروں کا سیلاب، ہر جگہ یہی منظرسامنے آتا ہے۔ کہیں بھی کسی لانگ ٹرم ہدف اور حتمی وژن کا ذکر نہیں ملتا۔ یہ الجھنیں اس بات کی علامت ہیں کہ اپنے اصل مقصد و نصب العین کے بارے میں امت کا تصور بہت دھندلا گیا ہے۔ اس تبصرہ سے مذکورہ مسائل کی اہمیت کا انکار مقصود نہیں ہے بلکہ مقصود یہ ہے کہ ہم انہیں وقتی مسائل کی جگہ ضرور دیں، ان کے حل کی ممکنہ تدابیر بھی اختیار کریں لیکن ایسی چھوٹی باتوں کواپنی زندگی کی اصل دلچسپی اور اپنی توجہات کا اصل مرکز کسی مرحلہ میں بھی نہ بنائیں۔ یہ بات اس امت کے مقام و مرتبہ سے فروتر ہے کہ وہ صرف اپنی شہریت کے دفاع کی فکر میں دن رات صرف کرے یا لنچنگ کا خوف اس کےاعصاب پر سوار ہوجائے یا اس کےدانش وروں اور مفکرین کا کام بس یہ رہ جائے کہ وہ امت کی پسماندگی کا رونا روتے رہیں۔
ہم روزانہ سڑک کے حادثوں اور ان میں مرنے والوں کی خبریں پڑھتے رہتے ہیں۔ ہم جب سڑک پر گاڑی نکالتے ہیں تو حادثےکا اچھا خاصا امکان ہمیشہ رہتا ہے۔ لیکن گاڑی چلاتے ہوئے اگر حادثہ اوراس کا امکان ہمارے اعصاب پر سوار رہے تو شاید ہی ہم گاڑی چلا پائیں۔ سڑک پر چلنے کا فلسفہ یہی ہے کہ ہم حادثے سے بچنے کی ضروری تدابیر ضرور اختیار کریں، گاڑی بھی چوکس رہ کر چلائیں لیکن ہماری توجہات کا مرکز ہماری منزل رہے۔ جس طرح راستے کی معمولی رکاوٹوں میں الجھ جانا ہمیں منزل سے دور کردیتا ہے، اسی طرح حادثات کا حقیقی و غیر حقیقی خوف اگر اعصاب پر سوار ہوجائے تو ہم ڈرائیونگ کے لائق نہیں رہتے۔
دانش وروں کی ایک جماعت تعلیمی و معاشی ترقی پر توجہات کو مرکوز کرنے کا مشورہ دیتی ہے۔ اول تو یہ بات بحث طلب ہے کہ کیا صرف تعلیمی و معاشی ترقی کسی قوم یا انسانی گروہ کا مقصد حیات بن سکتی ہے ؟ جیسا کہ ہم نے اوپر واضح کیا ہے، معاشی و تعلیمی ترقی کے لیے بھی محرک درکار ہوتا ہے۔ یہ محرک ایک بلند ملی نصب العین ہی فراہم کرسکتاہے اور وہ نصب العین ایسا ہونا چاہیے جو اہل اسلام کے ایمان و ا عتقاد سے ہم آہنگ ہو۔ ایک فرد اپنی اور اپنے خاندان کی خوش حالی کے لیے تعلیم حاصل کرتا ہے اور معاشی تگ و دو کرتا ہے۔ ایک قوم اور اجتماعی گروہ کے پاس جب تک کوئی اجتماعی مقصد اور ہدف نہ ہو وہ کس لیے ترقی کرے اور کیوں تعلیم میں آگے بڑھے؟
ملت اسلامیہ ہند کی یہ بڑی اہم ضرورت ہے کہ وہ اس ملک میں اپنی اور اپنے اجتماعی وجود کی معنویت کا شعور پیدا کرے۔ یہ یقین پیدا کرے کہ وہ ایک داعی امت ہے اور ایک ہدف اور مقصد کے ساتھ اسے جینا ہے۔ وہ دعوت دین اور مذکورہ چار نکات کو اپنا وژن بنائے اور اس کی لیے یکسو ہوجائے۔ ہمارے جہد و عمل کا محور، ہمارا یہ ہدف بن جائے۔ یہ ہوگا تو ان شاء اللہ، ہمارا قافلہ یکسوئی اور ہم آہنگی کے ساتھ اور اتحاد و اتفاق کے ساتھ آگے بڑھے گا اور چھوٹے مسائل اور روزمرہ کی رکاوٹوں میں الجھ کر رد عمل کی نفسیات کا شکار نہیں ہوگا۔ و ما توفیقی الا بااللہ