صبر: امت کے لائحہ عمل کا اہم عنوان

اشارات کے صفحات میں ہم مسلسل اس اہم سوال کو زیر بحث لارہے ہیں کہ ملک کے مسلمانوں کے لیے کامیابی اور ترقی کا راستہ کیا ہے؟ وہ کس طرح مسائل اور چیلنجوں کا مقابلہ کرسکتے ہیں؟ اور کیسے اپنی ذمہ داریاں ادا کرسکتے ہیں؟

قرآن مجید نے جن صفات کو قوموں کے عروج و ترقی کا ایک اہم ذریعہ قرار دیا ہے ان میں ایک نمایاں صفت صبر کی صفت ہے۔ بدقسمتی سے صبر کا مفہوم یک طرفہ طور پر مزاحمت و کشمکش سے دست برداری سمجھ لیا گیا ہے۔ اس وجہ سے بعض لوگ اسے بزدلی کا رویہ سمجھتے ہیں۔ ذیل کی سطروں میں ہم قوموں کے لیے صبر کی اہمیت بھی واضح کریں گے، اس کے صحیح مفہوم پر بھی روشنی ڈالیں گے اور یہ بھی واضح کرنے کی کوشش کریں گے کہ امت کی حکمتِ عملی اور اس کے رویوں کی تشکیل میں صبر کا کیا رول ہونا چاہیے، نیز یہ کہ ہمارے موجودہ رویّوں میں کیا باتیں صبر کی اسپرٹ کے خلاف ہیں؟

قوموں کی زندگی میں صبر کی اہمیت

قرآن مجید میں صبر کو مومنوں کی اہم ترین صفات میں سے ایک صفت قرار دیا گیا ہے۔ آخرت میں کامیابی کے لیے جن صفات کی ضرورت ہے ان میں صبر کی صفت نمایاںہے۔ سورہ عصر کو قرآن کی جامع ترین مختصر سورت کہا گیا ہے، اس میں دائمی خسارے سے حفاظت کو جن چار صفات پر منحصر قرار دیا گیا ہے ان میں ایک اہم صفت صبر اور تلقینِ صبر ہے۔ قرآن مجید میں متعدد جگہوں پر یہ بھی کہا گیا ہے کہ صبر کی صفت آخرت کے ساتھ دنیا میں بھی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔ ظالم وجابر قوتوں کے مقابلے میں حق پرستوں کا ایک چھوٹا سا گروہ کیسے عروج حاصل کرسکتا ہے، اس کا نمونہ قرآن نے بنی اسرائیل کے واقعہ کی صورت میں پیش کیا ہے۔ اس عروج کے لیے بنی اسرائیل کی کیا صفت سبب بنی اس پر روشنی ڈالتے ہوئے قرآن کہتا ہے کہ: وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الْأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ الْحُسْنَىٰ عَلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ بِمَا صَبَرُوا وَدَمَّرْنَا مَا كَانَ يَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُهُ وَمَا كَانُوا يَعْرِشُونَ (اور اُن کی جگہ ہم نے اُن لوگوں کو جو کم زور بنا کر رکھے گئے تھے، اُس سرزمین کے مشرق ومغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیوں کہ اُنھوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔ الاعراف ۔۱۳۷) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں سیادت و قیادت صبر کی صفت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مخالفین کے ساتھ شدید کشمکش کے پس منظر میں اہل ایمان کو ہدایت دی گئی کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اصْبِرُوا وَصَابِرُوا وَرَابِطُوا وَاتَّقُوا اللَّـهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو، صبر سے کام لو، باطل پرستوں کے مقابلہ میں پا مردی دکھاؤ، حق کی خدمت کے لیے کمر بستہ رہو، اور اللہ سے ڈرتے رہو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے۔ آل عمران ۲۰۰) اگر کوئی طاقت ور حریف طرح طرح کی سازشیں کررہا ہے تو کہا گیا کہ ان سازشوں کا مقابلہ صرف صبر کے ذریعے ممکن ہے۔ اگر تم صبر کرو تو دشمن کی بڑی سے بڑی سازش کو ناکام بناسکتے ہو۔ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا (ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو)۔ سیدنا یوسف علیہ السلام آزمائشوں اور مشکلات کے طویل سلسلے کے بعد مصر کے تخت پر متمکن ہوئے تو انھوں نے اپنے بھائیوں سے کہا کہ ان پر اس انعام و اکرام کی ایک وجہ صبر ہے۔ إِنَّهُ مَن يَتَّقِ وَيَصْبِرْ فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ (حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی تقویٰ اور صبر سے کام لے تو اللہ کے ہاں ایسے نیک لوگوں کا اجر مارا نہیں جاتا” یوسف ۹۰) کامیابی و سربلندی کے لیے قوموں کی ایک بڑی ضرورت اچھی اور موثر قیادت ہے۔ کہا گیا کہ ایسی قیادت کی فراہمی بھی صبر کی صفت کے ساتھ مشروط ہے۔ وَ جَعَلْنَا مِنْهُمْ اَئِمَّةً یَّهْدُوْنَ بِاَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوْا( اور جب کہ انھوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں پیشوا اٹھائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کی رہ نمائی کرتے تھے۔ السجدہ ۲۴) اللہ تعالیٰ سے مدد و نصرت کے حصول کے لیے ایک طرف نماز کی تاکید کی گئی ہے جو اللہ سے تقرب کا ذریعہ ہے تو دوسری طرف صبر کا حکم دیا گیا ہے جو اپنے رویہ کی اصلاح ہے۔ وَاسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلَاةِ (صبر اور نماز سے مدد لو۔ البقرہ ۴۵) دیگر اولوالعزم انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی قرآن نے ان کی ایک اہم صفت صبر قرار دی ہے۔ فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ(پس اے نبی، صبر کرو جس طرح اولوالعزم رسولوں نے صبر کیا ہے۔ احقاف ۳۵) اور یہ کہ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِدْرِيسَ وَذَا الْكِفْلِ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّابِرِينَ (اور یہی نعمت اسماعیل اور ادریس اور ذوالکفل کو دی کہ یہ سب صابر لوگ تھے۔ الانبیاء ۸۵(

صبر قرآن کا نہایت اہم موضوع ہے اور تقریباً نوے مقامات پر صبر کی فضیلت اور اس کے فوائد کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہاں ہم نے صرف اُن حوالوں پر اکتفا کیا ہے جو ہندستانی مسلمانوں کی اجتماعی حکمتِ عملی کے سوال سے راست متعلق ہیں۔

صبر کیا ہے؟

صبر اُن اسلامی اصطلاحات میں سے ایک ہے جن کے ساتھ بڑا ظلم ہوا ہے۔ مصیبتوں اور آفات کے موقع پر اللہ کی ناشکری اور گلہ و شکایت سے بچنے اور اس کی مرضی پر راضی رہنے کا درست مفہوم تو عام طور پر یقیناً رائج ہے لیکن اس کے علاوہ صبر کو مقابلہ و کشمکش سے گریز، ظلم و زیادتی کے مقابلے میں یک طرفہ خاموشی، ہاتھ پر ہاتھ دھرے ظلم کے خاتمے کا خاموشی سے انتظار جیسے معنوں تک محدود سمجھا جاتا ہے۔ بعض صورتوں میں زیادہ بڑے مصالح کے پیش نظر یہ باتیں بھی صبر کا تقاضا ہوسکتی ہیں لیکن صبر کو ان معنوں تک محدود کرنا اور ہمیشہ ان معنوں میں صبر کی تلقین کرنا یقیناً اس عظیم قرآنی اصطلاح کے ساتھ نا انصافی ہے۔ اس مفہوم تک محدود رہنے سے اسلام کے نہ صرف متعدد احکام بے اثر ہوجاتے ہیں، بلکہ اسلام کی روح ہی متاثر ہوجاتی ہے۔

ہماری نظر میں صبر کی سب سے خوب صورت اور جامع تعریف وہ ہے جو امام راغب اصفہانیؒ نے کی ہے، وہ کہتے ہیں: “حبس النفس علی ما یقتضیہ العقل والشرع، أو عما یقتضیان حبسھا عنہ”(نفس کوکسی ایسے کام پرجما دینا جو شریعت اور عقل کی نظر میں اچھا ہو، یا اُس کام سے روک دینا جو شریعت اور عقل کی نظر میں بُرا ہو) [المفردات فی غریب القرآن: کتاب الصاد؛ صبر]، امام غزالیؒ نے بھی اس سے ملتی جلتی بات کہی ہے کہ صبر یہ ہے کہ آدمی “علم وعقل ودین کے داعیے” کو اپنی ذات میں “خواہش وشہوت کے داعیے” پر فتح دلائے۔ [احیاء علوم الدین، الربع الرابع، کتاب الصبر والشکر بیان حقیقۃ الصبر و معناہ] ان تعریفات کی رو سے صبر کا نہایت جامع مفہوم متعین ہوتا ہے۔ صبر اپنی شہوات اور جذبات پر قابو رکھنے کی صلاحیت کا نام ہے۔

افراد اور قومیں غلط راستوں کا انتخاب اکثر جذبات سے بے قابو ہوکر کرتی ہیں۔ جذبات پر عقل اور دین کے کنٹرول کا نام صبر ہے اور جذبات کا بے قابو ہوجانا جذباتیت یا بے صبری ہے۔ صبر یہ ہے کہ آدمی کا ہرعمل عقل و شعور اور اُس فہم و حکمت کے استعمال کے ذریعہ طے پائے جو قرآن وسنت سے حاصل ہوتا ہے۔ اسے اپنے آپ پر پورا کنٹرول حاصل ہو۔ کوئی قدم بھی شعوری فیصلے کے بغیر نہ اٹھے۔ جن اوصاف کو آج ہم قوت ارادی، ضبط نفس، ذاتی کنٹرول وغیرہ کہتے ہیں وہ سب صبر ہی کے ثمرات ہیں۔

جذباتیت یا بے صبری کیا ہے؟

جذبات جب بے قابو ہوجاتے ہیں تو آدمی کو اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا، وہ جذبات کا قیدی بن جاتا ہے۔ اس کا شعور معطل ہوجاتا ہے۔ حواس معذور ہوجاتے ہیں۔ سورج کی طرح روشن مناظر وہ نہیں دیکھتا، نوشتہ دیوار نہیں پڑھتا، فطرت کی بلند آہنگ صدائیں نہیں سنتا، اور دنیا ومافیہا اور امروز و فردا سے بے پروا ہوکر وہ سب کچھ کر گزرتا ہے جو جذبات کی اندھی آندھی اس سے کرانا چاہتی ہے۔ یہ ایک طرح کا نشہ ہوتا ہے۔ نشے میں آدمی بے قابو ہوجاتا ہے، اپنی حرکات وسکنات پر اس کا کوئی کنٹرول باقی نہیں رہتا۔ نقصان کا اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب نشہ اترجاتا ہے۔ اس وقت حقائق نظر آنے لگتے ہیں اورشدید پچھتاوا ہوتا ہے۔ یہی کیفیت جذبات سے بے قابو آدمی کی ہوتی ہے۔ یہی جذباتیت اور بے صبری ہے۔

جذبات بھی اللہ کی دین اور اس کی عطا ہیں۔ آدمی کے اندر غصہ اور غضب نہ ہو تو دنیا کی برائیاں اور ظلم وستم اس کے اندر کوئی ایسی بے چینی اور اضطراب پیدا نہیں کریں گے جو ان برائیوں سے مقابلے کے لیے ضروری ہے۔ اس کے اندر حمیت وغیرت نہ ہو تو وہ اپنے خاندان اور دین کی ناموس کی حفاظت نہیں کرسکے گا۔ اس کے بالمقابل، اس کے اندر ڈر اور خوف کے جذبات نہ ہوں تو خطروں اور دشمنوں سے خود کو بچانا ممکن نہیں ہوگا۔ جنسی جذبہ، آدمی کے سکون و طمانیت اور نسل انسانی کی بقا و تسلسل کے لیے ضروری ہے۔ روزی کمانے کی خواہش اور بیوی بچوں سے محبت کے بغیر خاندان کے ادارے کی تعمیر و بقا ممکن نہیں ہے۔ یعنی جذبات کا انسانی زندگی میں نہایت مثبت رول ہے۔ اُن کا خاتمہ نہ تو ممکن ہے، نہ مفید اور نہ ہی مطلوب ہے۔ مطلوب یہ ہے کہ سارے جذبات، نقطہ اعتدال پر قائم رہیں اور دین کی تعلیمات کی روشنی میں عقل و شعور کے ذریعے ان کو قابو میں رکھا جائے۔ قابو میں رکھنے کی اس صلاحیت کا نام ہی صبر ہے۔

جذباتیت یا بے صبری، رد عمل کے رویے (reactive behavior) کا نتیجہ ہوتی ہے۔ یعنی ایسے لوگوں کا عمل، ان کی سرگرمی، ان کے معمولات، سب کچھ مکمل طور پر بیرونی قوتوں اور ان کے اقدامات پر منحصر ہوتے ہیں۔ عام دنوں میں وہ کچھ نہیں کریں گے مگر حکومت کے کسی غلط فیصلہ پر اچانک مشتعل ہوکر میدان میں آجائیں گے۔ لوگوں کو اپنی بات سمجھانے سے ان کو کبھی کوئی دل چسپی نہیں ہوگی لیکن کسی نے کوئی گستاخی کردی تو غیض وغضب کی پوری شدت کے ساتھ ردعمل کا مظاہرہ کریں گے۔ یعنی ان کے عمل اور اقدام کا تعین دوسروں کے اعمال اور اقدامات سے ہوتا ہے۔

اس مزاج کے حامل لوگ ظالم استحصالی قوتوں کے لیے نرم چارہ اور سستے آلہ کار بنتے ہیں۔ ان قوتوں کے سیاسی مفاد کا تقاضا ہوگا تو وہ جب چاہیں گی ان کے جذبات کو بھڑکا کر یا مشتعل کرکے ان کے ذریعے اپنے من پسند حالات پیدا کرلیں گی۔ وہ غیر شعوری طور پر اپنے حریف کا مہرہ اور اس کے مفاد کی تکمیل کا ذریعہ بنیں گے۔ ان کی حرکات وسکنات دوسروں کی سوچ اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوں گی اور بالآخر اپنے حریفوں ہی کو فائدہ پہنچائیں گی۔

اس کے مقابلہ میں صبر، اقدامی رویّے (proactive behavior) کا نام ہے۔ جس آدمی کے اندر صبر ہو وہ اپنی قدروں پر، اپنے اصولوں پر، اپنے مقصد و نصب العین پر استقامت کے ساتھ جما رہے گا۔ اس کے لیے ہر دم متحرک رہے گا۔ اس کو متحرک کرنے والی اور اس کی سمت کا تعین کرنے والی چیز بیرونی قوتیں نہیں بلکہ اصلاً اس کے اپنے اصول، اس کا نصب العین اور اس کی اقدار ہوں گی۔ وہ اپنے اصولوں کی بنیاد پر، شعور اور عقل کے استعمال سے، اپنے اقدامات کا تعین کرے گا۔ اس کا رویہ اور اس کے اقدامات، اس کی اپنی سوچ اور منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوں گے۔

لیکن یہ بات بھی خاص طور پر پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ صرف اشتعال میں آجانا اور انتہا پسندانہ رویوں کا شکار ہوجانا ہی بے صبری نہیں ہے بلکہ ڈر جانا، اندیشوں کا شکار ہوجانا، پست ہمت ہوجانا بھی بے صبری ہے۔ اس لیے کہ ڈر بھی ایک جذبہ ہے۔ یہ جذبہ بھی جب غلط موقع پر پیدا ہوجائے، بڑھ کر بے قابو ہوجائے اور اُن کاموں کی راہ میں مزاحم ہوجائے جن کا عقل و شعور تقاضا کرتے ہیں تو یہ بھی بے صبری ہے۔ ڈر، خوف، بزدلی، مداہنت اور بے اصولی بھی رد عمل پر مبنی رویے ہی کی پیداوار ہے۔ اس طرح کے جذبات کے شکار لوگ بھی حریفوں کے لیے نرم چارہ ہوتے ہیں۔ ان کے اقدامات بھی ان کی سوچ اور منصوبہ بندی کا نہیں بلکہ شاطر استحصالی طاقتوں کی منصوبہ بندی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔

صبر طویل المیعاد مفاد کو ترجیح دینے کا نام ہے جب کہ بے صبری طویل المیعاد مفاد کو وقتی اکساہٹ اور مختصر المیعاد جذباتی تسکین پر قربان کردینے کا نام ہے۔ قوموں اور گروہوں کی ترقی اور عروج کا راز یہ ہے کہ طویل المیعاد مفاد پر نظر رکھی جائے۔ طویل المیعاد مصالح کی خاطر فوری درپیش مفادات کی قربانیاں دی جائیں۔ آنے والے کل کو دیکھا جائے۔ اس کے لیے اکساہٹوں، جذبات، اور اشتعال پر قابو رکھا جائے۔ ہر قدم سے پہلے یہ سوچا جائے کہ اس کا لانگ ٹرم نتیجہ کیا ہوگا؟

صبر منزل پر نگاہوں کو جماتا ہے اور راستے کی الجھنوں میں اس طرح الجھنے نہیں دیتا کہ ہم منزل سے غافل ہوجائیں۔ صبر اس کی اجازت نہیں دیتا کہ مسافر راستے میں پڑے ہر پتھر اور ہر رکاوٹ کو دیکھ کر غصے سے بے قابو ہوجائے اور اور اس پر لاحاصل مکّے اور لاتیں مار کر خود کو زخمی کرلے اور آگے بڑھنے کے لائق نہ رہے۔ صبر مناسب موقع کے انتظار کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ مناسب موقع و محل کے میسر آنے تک اپنے آپ کو روکے رکھنا بھی صبر کے مفہوم میں داخل ہے۔ منزل کی طرف طویل سفر صراط مستقیم پر مستقل مزاجی کے ساتھ مسلسل آگے بڑھنے کا تقاضا کرتا ہے۔ بے صبری ہمیشہ ایسے موہوم شارٹ کٹ تلاش کرتی ہے جو منزل سے دور کردیتے ہیں، جن پراچانک بگ ٹٹ دوڑ ہمیں بے دم کرکے سفر کے لائق نہیں چھوڑتی۔

صبر کی یہ زبردست صفت اگر اجتماعی طور پر پوری قوم یا کسی گروہ میں پیدا ہوجائے تو ایک بڑی طاقت بن جاتی ہے۔ یہ طاقت اسے سماجی طاقت (social power) فراہم کرتی ہے۔ یہ ان طاقتوں میں سے ایک ہے جن کے بغیر کوئی بھی گروہ کسی لمبی جدوجہد اور کشمکش میں ٹک نہیں سکتا۔ اسی لیے قرآن مجید نے اسے کامیابی و سربلندی کے لیے ایک لازمی صفت قرار دیا ہے۔

صبر اور سیرت نبوی ﷺ

نبی کریم ﷺ کو ہر مرحلے میں اللہ تعالیٰ نے صبر کا حکم دیا اور آپ کی سیرت کے مطالعے سے آپ کے ذاتی کردار میں بھی اور آپ کی اجتماعی حکمتِ عملی میں بھی صبر کی صفت نہایت نمایاں طور پر نظر آتی ہے۔ مکی زندگی میں آپ نے لمبے عرصے تک دشمنوں کی ایذا رسانیوں، طعنوں اور پھبتیوں کے مقابلے میں صبر کیا۔ کبھی مشتعل نہیں ہوئے۔ اپنے آپ کو روکے رکھا۔ آپ کی نگاہوں کے سامنے اسلام لانے والوں کو اذیتیں دی گئیں۔ ان کو شہید کیا گیا۔ آپ کے پورے خاندان کو لمبے عرصے تک شعب ابی طالب کے حصار میں رہنا پڑا۔ آپ صبر کے ساتھ مناسب موقع کا انتظار فرماتے رہے اور اپنے اصل کام یعنی دعوتِ دین کی طرف متوجہ رہے۔ اسی طرح آپ کو لالچ دینے کی کوشش کی گئی۔ بادشاہت، دولت، حسین ترین عورت سے نکاح، غرض ہر طرح کی پیشکش کی گئی۔ اپنے اصل مقصد و نصب العین اور اپنی قدروں اور اصولوں کی خاطر، ایسی ترغیبات کو مسترد کرنا بھی صبر ہی کا مظہر ہے۔

طائف میں آپ پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان کے مقابلے میں بھی آپ نے صبر فرمایا۔ نبی کریم ﷺ نے اس مرحلے میں ظالموں کی سرکوبی کے لیے طاقت کے استعمال کی کوشش نہیں کی۔ اس وقت اپنے آپ کو روکے رہے کہ یہی عقل و شعور کا تقاضا تھا۔ جب مدینہ میں مسلمان منظم ہوئے، ان کی ریاست تشکیل پائی اور ریاست کے سربراہ کی حیثیت سے آپ کو اللہ نے جنگ کی اجازت دی تو پھر طویل انتظار اور صبر کے بعد اہلِ اسلام کو ظالموں کی سرکوبی کا موقع ملا لیکن اس موقع پر بھی صبر کا بڑا امتحان لیا گیا۔ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کے مقابلے میں حق و انصاف کی خاطر تلوار اٹھانا آسان نہیں تھا، اس کے لیے بھی جذبات پر غیر معمولی قابو درکار تھا۔ اللہ کے رسول ﷺ اور صحابہؓ نے اس امتحان میں بھی صبر کی غیر معمولی صلاحیت کا مظاہرہ کیا۔

مدینہ میں منافقوں نے طرح طرح کی سازشوں کا بازار گرم کیا اور بڑے بڑے فتنے کھڑے کیے۔ غزوہ احد میں صریح غداری کی اور مسلمانوں کو شدید نقصان پہنچایا۔ منافقوں نے آپ کی محبوب زوجہؓ پر تہمت لگائی اور ایک ماہ تک مدینے میں فتنوں کا ایسا بازار گرم کیا کہ آپ شدید پریشانی کے شکار رہے۔ حتی کہ مسجد ضرار کی تعمیر کرکے گویا آپ کی لیڈرشپ کو کھلا چیلنج کیا اور گروہ بندی کی کوشش کی۔ ان سب وجوہ سے ان منافقوں کی سرکوبی اور ان کے سرداروں کے قتل کی پرزور مانگ اکابر صحابہ تک کرتے رہے لیکن اس وقت حکمت عملی کا تقاضا یہی تھا کہ ان کے خلاف جنگ کرکے کلمہ گو انسانوں کو دوگروہوں میں تقسیم نہ ہونے دیا جائے۔ یہ صبر کی نہایت اعلی مثال ہے کہ طاقت کے باوجود دین اور مقصد کے طویل المیعاد مفاد کو سامنے رکھ کر ایسے شرپسندوں کو برداشت کیا گیا اور ان کی سرکوبی اور سزا دینے کے فطری داعیے پر نہایت تحمل کے ساتھ قابو رکھا گیا۔ اور ان کے فتنے کے مقابلے کی متبادل حکمت عملی اختیار کی گئی۔

فتح مکہ کے بعد آپ نے اُن سب سرداران قریش کو معاف کردیا جن کے ظالمانہ رویوں کے ساتھ آپ کی انتہائی تلخ یادیں وابستہ تھیں۔

اس طرح سیرت رسول صبر کی متعدد قسموں کا انتہائی خوب صورت عملی نمونہ ہے۔ اس میں ہم ہندستانی مسلمانوں کے لیے بہت سارے سبق موجود ہیں۔

ہندستانی مسلمان اور صبر

ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہندستانی مسلمانوں نے اپنی حالیہ تاریخ میں خود کو سب سے زیادہ نقصان اپنی جذباتیت سے پہنچایا ہے۔ یہ شدتِ جذبات ہی ہے جو ہم میں سے بعض پر انتہا پسندی کا بخار طاری کردیتی ہے اور بعض پر مایوسی و قنوطیت کا مالیخولیا۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم اپنے پسندیدہ لوگوں کی خرابیوں کو نہیں دیکھ پاتے اور ناپسندیدہ لوگوں کی خوبیوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ اسی شدت کی وجہ سے ہم دنیا اور اس کی ہر چیز کو سیاہ اور سفید کے انتہائی خانوں میں بانٹ دیتے ہیں۔ اسی شدت کے نتیجہ میں ہم یہاں کے اکثریتی طبقہ کے ذہن اور جذبات کو نہیں سمجھ پاتے اور نہ ان سے کمیونیکیٹ کرپاتے ہیں۔ یہ جذباتیت ہی ہے کہ ناگوار حالات و واقعات پر ہمارا ردعمل فوری اور غیض وغضب کی پوری قوت کے ساتھ ہوتا ہے، لیکن اصلاحِ احوال کی سنجیدہ، دھیمی اور طویل المیعاد کوششوں کے لیے ہم خود کو تیار نہیں کرپاتے۔

ہمارا المیہ یہ ہے کہ قیادت کا عمل بھی زیادہ تر عوامی جذبات کی ترجمانی بن کر رہ گیا ہے، الا ماشاءاللہ۔ قیادت تبدیلی کے وژن کا نام ہے۔ صحیح قیادت وہ ہے جو موجود کو بدلنے کا خواب دکھائے، اس کا راستہ روشن کرے اور اس پر چلنے کا حوصلہ پیدا کرے۔ یہ ہماری قیادتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ امت کے اندر سنجیدہ مزاج پیدا کریں۔ عوام کو جذبات کے ریلے میں بہنے نہ دیں۔ خود کو عوام کے بے لگام جذبات کے تابع نہ کریں بلکہ عوام کی تربیت کریں اور ان کے اندر ٹھنڈے دل ودماغ کے ساتھ سوچنے اور کام کرنے کی صلاحیت بیدار کریں۔ اس کے لیے ضرورتاً سخت فیصلے کریں۔ وقتی طور پر عوام کی ناراضی بھی برداشت کریں۔ پاپولزم (عوام پسندی) بھی قیادت کی سطح پر بے صبری کا مظہر ہے۔ سخت حالات میں قیادتوں کا پاپولزم کا شکار ہوجانا نہایت ہلاکت خیز ہوتا ہے۔

بے صبری کے مختلف مظاہر اور صبر کا مطلوب رویہ

ذیل میں بعض ان رویوں کی نشان دہی کی جارہی ہے جو ہمارے خیال میں صبر کی اسپرٹ کے خلاف ہیں اور جو ہماری کم زوری اور پستی کے اسباب میں بھی شامل ہیں۔

۱۔ اپنے مقام اور حیثیت کو فراموش کردینا: یہ بات اہل اسلام کے عقیدہ اور ان کے فلسفہ دین کا حصہ ہے کہ اس ملک میں مسلمان یہاں کے مختلف باہم متحارب نسلی گروہوں (یا ذاتوں) میں سے ایک گروہ نہیں ہیں۔ عام غیر مسلم ہمیں یہی سمجھتے ہیں اور ہمارے رویّوں سے بھی اسی کا اظہار ہوتا ہے، لیکن قرآن وسنت اس معاملے میں بہت واضح ہیں کہ مسلمان اصلاً ایک ایسا گروہ ہیں جس کا امتیاز نسل، ذات یا قوم نہیں بلکہ اس کا عقیدہ، نظریہ زندگی اور اس کی قدریں ہیں۔ وہ ایک مشن اور مقصد رکھنے والی امت ہیں یعنی ایک ایسا گروہ جس کی رکنیت رضاکارانہ ہے اور اس مشن سے اتفاق اور وابستگی پر مبنی ہے۔ جب ہم مسلمانوں کو غیر شعوری طور پر ایک نسلی گروہ یا یہاں کے مختلف باہم متحارب طبقات میں سے ایک طبقہ سمجھنے لگتے ہیں تو ساتھ رہنے والے دیگر افراد ان کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ غیریت کا یا کشمکش کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنا الگ گھیٹو بنا لیتے ہیں ۔ اس کے نتیجہ میں ان کے اندر “یا قومی” کا پیغمبرانہ اور داعیانہ سوز نہیں پیدا ہوپاتا۔

اس امت کا اصل مفاد اس کے عقیدے، اس کی اقدار اور اس کے مشن کا مفاد ہی ہے۔ بے صبری یا جذباتیت ہم کو اس مشن پر قائم رہنے نہیں دیتی۔ ہم فرقوں میں ایک فرقہ، قوموں میں ایک قوم، ذاتوں میں ایک ذات بن جاتے ہیں۔ قومی عصبیت اور انا مقدم ہوجاتی ہے اور مشن اور مقصد کے تقاضے پیچھے ہوجاتے ہیں۔ صبر یہ ہے کہ ہم پوری استقامت کے ساتھ خیر امت کے اپنے مقام پر ڈٹے رہیں۔ اس ملک میں اللہ کے دین کی دعوت کا مشن ہمیں سب باتوں سے زیادہ عزیز ہو اور اس کا مفاد سب سے مقدم ہو۔

۲۔ واقعات و احوال کو دیکھنے میں شدت پسندی: بے صبری یا جذباتیت کا ایک نتیجہ یہ بھی ہوتا ہے کہ حالات و واقعات اور مسائل کو دیکھنے کا ہمارا زاویہ نظر حقیقت پسندانہ نہیں رہتا۔ حالات، واقعات، شخصیات، وغیرہ کے سلسلہ میں رائے قائم کرنے کا معقول اور علمی طریقہ یہ ہے کہ ہم پہلے صحیح معلومات اصل سورس سے حاصل کرنے کی کوشش کریں۔۔ مسئلہ کے تمام فریقوں کا موقف اور ان کے دلائل کو جانیں۔ اس کے بعد ٹھنڈے دماغ سے ہر طرح کی عصبیت کی عینک اتار کر معاملہ کو دیکھیں اور کوئی رائے قائم کریں۔ اس وقت دنیا میں جس طرح کی کشمکش جاری ہے اس میں ایک دوسرے کے حریف ایک دوسرے کے بارے میں طرح طرح کی غلط باتیں پھیلاتے رہتے ہیں۔ انٹرنیٹ، وہاٹس اپ اور سوشل میڈیا ان بے بنیاد باتوں کی ترویج واشاعت کا آسان ذریعہ ہیں۔ ان باتوں پر بغیر تحقیق کے یقین کرلینا اور ان کو پھیلانے میں شامل ہونا نہایت غیر ذمہ دار اورغیر اسلامی رویہ ہے۔ سنجیدہ اور گہرے معاملات میں صرف اخباری اطلاعات یا وہاٹس اپ کے بے اصل پیغامات پر انحصار کرنا، مجہول ویب سائٹس میں شامل نامعلوم لوگوں کے مضامین کو اپنی رائے کی بنیاد بنانا، اپنے طے شدہ خیالات اور عصبیتوں کی بنیاد پر موقف کی عمارت کھڑی کرنا، تمام فریقوں کی بات سنے بغیر رائے قائم کرنا وغیرہ غیر عادلانہ رویے ہیں اور ان سے انتہا پسندانہ آرا ہی جنم لیتی ہیں۔

اس دنیا میں اکثر امور و معاملات میں اچھے اور برے عناصر کی آمیزش ہوتی ہے۔ یعنی ہر چیز سیاہ یا سفید نہیں ہوتی بلکہ اکثر معاملات گرے (grey) کے مختلف شیڈ ہوتے ہیں اگر ہم خیر و شر کے عناصر کو صحیح تناسب میں نہیں دیکھیں گے تو دھوکہ کھاجائیں گے اور ایسے دھوکے ہم کثرت سے کھاتے ہیں۔ ہلکے سے مخالفانہ بیان پر ہم سرعت سے کارآمد دوست کو دشمن کے خیمے میں پہنچا دیتے ہیں۔ گرے کا ہلکا شیڈ بھی ہم کو سیاہ ہی نظر آتا ہے۔ شدید سے شدید واقعہ اور تباہ کن سے تباہ کن حادثہ بھی خیر اور مصلحت کے پہلو اپنے اندر رکھتا ہے۔ اسی طرح ہمارے پسندیدہ امور اور واقعات میں بھی شر اور فساد کے پہلو پوشیدہ ہوتے ہیں۔ ہماری محبوب شخصیتوں میں بھی انسانی کم زوریاں پائی جاتی ہیں۔ ناپسندیدہ امور، اشیا اور شخصیتوں کے اچھے پہلوؤں اور پسندیدہ امور کے خراب پہلوؤں کو دیکھنے کی صلاحیت اعتدال پسند مزاج کی اہم خصوصیت ہوتی ہے۔ پسند و ناپسند اورمحبت و نفرت میں شدت (strong likes and dislikes) آدمی کو اندھا بنا دیتی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ہمارے تجزیے غلط ہوجاتے ہیں اور تباہ کن فیصلوں اور اقدامات کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ اس وقت خاص طور پر یہ صورت حال درپیش ہے کہ حکومت میں موجود عناصر کی ذہنیت اور ان کے غلط رویّوں کی وجہ سے ان کی جانب سے آنے والی کسی بھی بات کو منصفانہ اور معروضی طریقے سے دیکھنے کے ہم روادار نہیں ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ روّیہ کسی اور کے لیے نہیں خود ہمارے لیے نقصان دہ ہے۔ سوچ کا یہ ضرر رساں زاویہ مزاج کی بے صبری ہی کا نتیجہ ہوتا ہے، یعنی جذبات کے غلبے اور عقل و شعور کی زیر دستی ہماری آنکھوں پر عینکیں چڑھادیتی ہے اور حقیقی منظر دھندلاجاتا ہے۔

عمل کی زمین پر کوئی بھی تبدیلی تدریج کے ساتھ ہی ہوسکتی ہے۔ آج جو مسائل ہم کو درپیش ہیں وہ برسہا برس کے حالات کا نتیجہ ہیں۔ ہماری برسوں کی غفلتیں، کوتاہیاں اور غلطیاں بھی اس کے لیے ذمہ دار ہیں۔ حریف قوتوں کی طویل اور صبر آزما جدوجہد کا بھی ان حالات کو پیدا کرنے میں اہم رول ہے۔ اب ہم کمپیوٹر کا بٹن دباکر اچانک حالات کا رخ نہیں بدل سکتے۔ طویل اور صبرآزما جدوجہد کے لیے ہمیں خود کو تیار کرنا ہوگا۔ اس دوران پیش آنے والی مشکلات کو برداشت کرنا ہوگا۔ اس کے لیے بھی صبر درکار ہے۔

۳۔احساس مظلومیت (sense of victimhood) کی شدت: عقل و شعور اور تجزیہ و تحلیل پر جذبات کے غلبے کے نتیجے میں ایک اور صورت حال پیدا ہوئی ہے جسے ہم احساس مظلومیت کی شدت کہہ سکتے ہیں۔ اس ملک میں اہل اسلام کے ساتھ مظالم ہوتے رہے ہیں، تعصب ہوتا رہا ہے اور ان کے لیے حالات پریشان کن رہے ہیں، یہ بے شک ناقابلِ تردید حقیقت ہے۔ لیکن ان باتوں کو اتنا ہی دیکھنا اور دکھانا چاہیے جتنی وہ واقعی ہیں۔ مظالم و ناانصافیوں کا بہ تکرار تذکرہ، سازشوں کا مبالغہ آمیز بیان اور مضحکہ خیز حد تک مشکوک سازشی نظریات کی تکرار، باطل کی طاقت کو بہت زیادہ سمجھنا اور خود کو حد سے زیادہ کم زور اور بے بس باور کرانا، بے بسی و لاچاری کا پیہم ماتم، ان سب باتوں سے ایک عام نوجوان کے اندر غیر حقیقت پسند احساس مظلومیت پروان چڑھتا ہے۔ اسے سارے راستے بند نظر آنے لگتے ہیں، اور امید کی کوئی کرن دکھائی نہیں دیتی۔ یہ احساسِ عدم تحفظ بہت ہی خطرناک چیز ہے۔ اگر اسے روک نہ لگے تو یہ ہماری ترقی، ہمارے حوصلے اور عزائم اور مقابلہ کرنے کی امنگ اور آگے بڑھنے کے ولولے پر روک لگا سکتا ہے۔

آپ آزادی کے بعد سے مختلف ادوار کی مسلم صحافت اور قائدین کے بیانات کا جائزہ لے لیجیے۔ ہر زمانے میں یہی کہا گیا کہ حالات اتنے خراب کبھی نہیں تھے۔ ظلم کے پہاڑ ٹوٹ رہے ہیں، ملت کا وجود خطرے میں ہے، کشتی منجدھار میں ہے۔ مسلسل اس زبان کا استعمال کیا اس امت کو زیب دیتا ہے جو مزمل و مدثر اور والضحی اور الم نشرح جیسی سورتیں پڑھتی ہے اور صبر کے فلسفے میں یقین رکھتی ہے؟ بے صبری حالات کی خرابی کو ہماری نگاہوں کا مرکز بنادیتی ہے، جب کہ صبر بہتر حالات کے خواب اور ان کو پیدا کرنے کے عملی لائحہ عمل پر توجہات کو مرکوز کرتا ہے۔

بے شک ملک میں چیلنج درپیش ہیں۔ لیکن چیلنج تو ہر جگہ ہیں، نوعیتیں مختلف ہوسکتی ہیں۔ ٹھیک ہے کہ اس وقت حالات کا رخ، اہل اسلا م کے خلاف بہت شدت اختیار کرچکا ہے لیکن ایسے سخت حالات کی لہریں دوسرے طبقات کے خلاف بھی تاریخ میں آچکی ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ دنیا ایسی ہی ہے۔ سب کو انصاف کہیں بھی نہیں ملتا۔ ہر جگہ ناانصافیاں ہیں، استحصال ہے، ظلم ہے۔ اور اسی کے درمیان اس کا مقابلہ کرتے ہوئے ہی زندگی گزارنی ہے۔ یہ رب العالمین کی مشیت کا حصہ اور اس ناقص دنیا (کامل تو جنت ہے) کا مستقل وطیرہ ہے۔ ہمیں اسے بدلنے اور ظلم کا مقابلہ کرنے کی کوشش ضرور کرنی ہے۔ لیکن اس صورتِ حال سے گھبرانے اور پریشان ہونے کی کوئی وجہ نہیں۔ ہر چیلنج کے ساتھ مواقع وابستہ ہوتے ہیں۔ راستے پر چلنے والے ہر شخص کو حادثات کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ دور دراز منزلوں اور پر خطر راہوں کے مسافروں کے لیے یہ خطرہ عام مسافروں سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔ مسلمان ایسے ہی مسافر ہیں۔ ان کے بلند نظریات اور اونچا مشن ان کو زیادہ خطرات سے دوچار کرتا ہے۔

۴۔ترجیحات کے شعور سے محرومی اور نان ایشوز میں الجھ کر رہ جانا: بے صبری ہم کو ترجیحات کے شعور سے محروم کردیتی ہے۔ مولانا سلیمان ندویؒ کا ایک اقتباس ان دنوں کافی گردش کرتا رہا جو ہماری حالیہ تاریخ کی نہایت حقیقت پسندانہ ترجمانی ہے۔

’’مسلمانوں کی ترقی اور تنزلی، دونوں کا ایک ہی سبب ہے اور وہ ہے ان کا فوری اور وقتی جوش۔ وہ سیلاب کے مانند پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہلا سکتے ہیں، لیکن کوہ کن کی طرح ایک ایک پتھر کو جدا کرکے راستہ صاف نہیں کرسکتے۔ وہ بجلی کے مثل ایک آن میں خرمن کو جلا سکتے ہیں، لیکن چیونٹی کی طرح ایک ایک دانہ نہیں ڈھو سکتے۔ وہ ایک مسجد کی مدافعت میں اپنا خون پانی کی طرح بہاسکتے ہیں، لیکن کسی منہدم مسجد کو دوبارہ بنانے کے لیے مستقل کوشش جاری نہیں رکھ سکتے… ہندستان کی سیاسی بساط پر اس وقت جو بازی کھیلی جارہی ہے، ہم کو یقین نہیں کہ مسلمان اس کے اچھے شاطر ثابت ہوسکیں کیوں کہ یہ وہ میدان ہے جو ایک ایک قدم گن کر آگے بڑھانے سے جیتا جاسکتا ہے اور ایک دوڑ میں آگے بڑھ جانے کی کوشش میں مات سامنے رکھی ہے… ہماری ناکامی کا اصل سبب یہ ہے کہ ہم آندھی کی طرح آتے ہیں، اور بجلی کی طرح گزرجاتے ہیں۔ ہم کو دریا کے اس پانی کے مانند ہونا چاہیے جو آہستہ آہستہ بڑھتا ہے اور سالہا سال میں کناروں کو کاٹ کر اپنا دہانہ وسیع کرتا جاتا ہے۔ کامیابی صرف مسلسل اور پائیدار کوشش میں ہے۔ ہمالیہ کی برفانی چوٹیاں آہستہ آہستہ پگھلتی ہیں، لیکن کبھی جمنا اورگنگا کو خشک ہونے نہیں دیتیں۔ آسمان کا پانی ایک دو گھنٹے میں دشت و جبل کو جل تھل بنا دیتا ہے لیکن چند ہی روزمیں ہرطرف خاک اڑنے لگتی ہے۔‘‘ [معارف جلد ۲ نمبر ۴ص ۱،۲ اور ۳]

اس ملک میں اسلام کے تعلق سے رائے عامہ کو مثبت طور پر متاثر کرنے کی کوشش ہمارے مشن اور مقصد کا بھی تقاضا ہے اور اس ملک میں بقا و ترقی کے لیے بھی ضروری ہے۔ ملک کی عظیم اکثریت اگر آپ کو انتہا پسند یا دہشت گرد سمجھے، آپ کے دین، آپ کے پیغمبر اور آپ کی کتاب کے تعلق سے طرح طرح کی غلط فہمیوں کی شکار رہے، آپ کی حکم رانی کی تاریخ کو اپنے تمام مسائل کی جڑ سمجھے اور آپ کے وجود کو ملک کے لیے بوجھ سمجھے تو ایسے حالات میں آپ کیسے خوش رہ سکتے ہیں؟ ان غلط فہمیوں کو دور کرنا اور اسلام کے تعلق سےمثبت رائے بنانا آپ کی سب سے اہم ضرورت بن جاتی ہے۔

مسلمانوں کی اہم ترین ضرورت یہ بھی ہے کہ وہ اسلام کا نمونہ بنیں اور ان کا معاشرہ اسلام کی عملی شہادت دینے والا بنے۔ مسجد کی حفاظت یقیناً اہم ہے لیکن یہ بھی بہت اہم ہے کہ خود مسلمان مسجد کا حق ادا کریں۔ شریعت کے تحفظ کے مسئلے پر جتنا ہم حساس ہوجاتے ہیں، اتنے حساس خود اپنی زندگیوں میں شریعت کی مسلسل پامالی پر نہیں ہوتے۔ رسول اللہ ﷺ کا احترام غیر مسلموں سے کہیں زیادہ خود مسلمانوں پر واجب ہے اور اس احترام کا سب سے بڑا تقاضا آپ کی اطاعت اور آپ کے مشن کی نصرت ہے۔ کسی مسلمان لڑکی کا غیر مسلم کے ساتھ چلے جانا یقیناً افسوس ناک ہے لیکن یہ بھی نہایت افسوس ناک ہے کہ مسلم معاشرہ عورتوں کے جائز حقوق سے لاپروا رہے اور خود اپنی بیٹیوں کو اپنے معاشرے سے متنفر کردے۔

اسی طرح اس ملک میں مسلمانوں کے مسائل کا ایک بڑا سبب ان کا ضعف اور ان کی کم زوری ہے۔ سماجی کم زوری قوت مدافعت کو کم کردیتی ہے۔ اس کم زوری کو دورکرنے کے لیے تعلیم، معیشت، وغیرہ میں منصوبہ بند ترقی ہماری اہم ضرورت ہے۔ جب تک ہم ان محاذوں پر سنجیدہ کام کرکے سماجی قوت پیدا نہیں کریں گے ہمارا ضعف اور ستم پذیری (vulnerability) دور نہیں ہوگی۔ ضعف اور ستم پذیری عروج و ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ؏ ہے جرمِ ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات

۵۔عدل اور عادلانہ روّیوں سے دوری: اسلام کی سب سے اہم قدر عدل ہے۔ اہل ایمان کو ہر حالت میں عدل کرنے اور عدل و قسط کے لیے اٹھ کھڑے ہونے کا حکم دیا گیا ہے۔ قرآن نے نہایت صاف لفظوں میں تاکید کی ہے کہ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ لِلَّـهِ شُهَدَاءَ بِالْقِسْطِ ۖ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلَىٰ أَلَّا تَعْدِلُوا ۚ اعْدِلُوا هُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّـهَ ۚ إِنَّ اللَّـهَ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ (اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اللہ کی خاطر راستی پر قائم رہنے والے اور انصاف کی گواہی دینے والے بنو کسی گروہ کی دشمنی تم کو اتنا مشتعل نہ کر دے کہ انصاف سے پھر جاؤ عدل کرو، یہ خدا ترسی سے زیادہ مناسبت رکھتا ہے اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو، جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس سے پوری طرح باخبر ہے۔ المائدہ ۸) اس آیت کی موجودگی میں ہمارے لیے یہ بالکل ممکن نہیں ہے کہ کسی بھی قسم کے تعصب میں ہم کسی کے خلاف غیر عادلانہ رویہ اختیار کریں۔ صبر کا رویہ یہ ہے کہ ہم عدل پر پوری استقامت کے ساتھ جم جائیں۔ دوسرے ہمارے ساتھ نا انصافی کریں تو ہم ضرور انصاف کے حصول کی کوشش کریں لیکن جوابی نا انصافی ہرگز نہ کریں۔ بے گناہ کے خون پر ہمارا دل دکھے، چاہے اس کا تعلق کسی بھی فرقہ سے ہو۔ کسی کے جرم کی سزا مناسب عدالتی عمل کے بغیر نہ دی جائے، چاہے وہ جرم اسلام کی توہین جیسا جرم ہی کیوں نہ ہو۔ قانون کو ہرگز ہاتھ میں نہ لیا جائے۔ یہ سب عدل کے تقاضے ہیں۔ اور اسلام کی اہم قدریں ہیں۔ ان قدروں پر استقامت کے ساتھ جمنا اور ان کی راہ میں حائل جذبات پر قابو رکھنا یہی صبر ہے۔ اس کے بغیر اسلام کی انسانیت دوست اور عدل پسند تعلیمات کی ہم نہ نمائندگی کرسکتے ہیں اور نہ شہادت دے سکتے ہیں۔

۶۔اپنے عمل اور اقدامات کے حاصل یا انجام (outcome) سے لاپروائی: صبر کا رویہ یہ ہے کہ اگر سخت حالات درپیش ہوں تو ہم جذبات سے بے قابو ہوئے بغیر یہ سوچیں کہ ہمارے کس قدم کا حاصل کیا ہوسکتا ہے؟ کس تقریر کا نتیجہ کیا ہوسکتا ہے؟ فیس بک کی کس پوسٹ کا انجام کیا ہوسکتا ہے؟ کس بیان کا اثر کیا ہوسکتا ہے؟ بے شک ہمارے بعض جذباتی رویوں سے، تقریروں سے، نعروں سے اور اقدامات سے ہمارے جذبات کی تسکین ہوسکتی ہے۔ امت کے جذباتیت پسند عناصر سے تعریف و تحسین بھی مل سکتی ہے۔ لیکن کیا اس سے ہمارے مقصد اور مشن کو کوئی فائدہ ہوسکتا ہے؟ کیا زیرِ نظر مسئلے کو حل کرنے میں اس سے مدد مل سکتی ہے؟ ناعاقبت اندیش بیانوں، اشتعال انگیز تقریروں، لاحاصل احتجاجی مہموں اور نمائشی مزاحمتوں کے ذریعہ ہماری ملت میں معمولی صلاحیت کے لوگ بھی آسانی سے ہیرو بن جاتے ہیں۔ ہیرو اور قائد بن جانے کے اس شارٹ کٹ کی امت کی جانب سے بھی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے اور قیادت کی جانب سے بھی۔ اس طرح کے رجحانات ہمارے اکثر ملی سانحوں کی ذمہ دار ہیں۔ بے شک احتجاج اور مزاحمت کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اس وقت کے حالات میں یہ ضرورت بڑھ گئی ہے۔ لیکن ہم جو بھی کریں وہ حاصل یا انجام کوسامنے رکھ کر سوچے سمجھے شعوری فیصلے کا نتیجہ ہو نہ کہ وقتی جذباتی ابال اور اشتعال انگیز خطابت کا۔ ■

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: