مابعد کووڈ منظر نامہ اور انسانی نظریات

مابعد کووڈ منظر نامہ اور انسانی نظریات
(ڈاکٹر منصف مرزوقی کے اٹھائے ہوئے مباحث کے تناظر میں)

اگست ۲۰۲۰ کے اشارت میں ہم نے اُن باتوں کی طرف اشارہ کیا تھا جنھیں کووڈ ۱۹ کے بعد کی صورت حال میں اسلام کے علم برداروں کو موضوع بحث بنانے کی ضرورت ہے۔ یہ بات کہی گئی تھی کہ سابق عالمی وباؤں کی طرح، اس عالمی وبا کے نتیجہ میں بھی عالمی منظر نامہ میں بنیادی تبدیلیاں واقع ہوں گی اور ایک نئی دنیا وجود میں آئے گی۔ اس نئی دنیا کو وجود میں لانے اور دنیا کی نظریاتی اور فکری سمت پر اثرانداز ہونے کی کوشش ہونی چاہیے۔

اِس شمارہ میں اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے، زندگی نو کے ادارہ نے ڈاکٹر منصف مرزوقی کے سلسلہ مضامین سے، کچھ منتخب مضامین کے تراجم کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ڈاکٹر منصف مرزوقی نئے منظر نامے میں پیدا ہونے والی نظریاتی الجھنوں پر مسلسل لکھ رہے ہیں۔ اُن کے اِن مضامین کی اہمیت یہ ہے کہ ان سے دور جدید کے تعلیم یافتہ ذہن کو اور اس کی الجھنوں اور سوالات کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ڈاکٹر منصف مرزوقی، تیونس کے ایک ممتاز مفکر، دانشور اور سیاست دان ہیں۔ وہ ۲۰۱۱؁ سے ؁۲۰۱۴ تک، تین سال تیونس کے صدر رہ چکے ہیں۔ حقوق انسانی، جمہوریت، آزادی، قوم پرستی وغیرہ جیسی جدید مغربی قدروں کے چمپئین رہ چکے ہیں۔ نظریاتی اعتبار سے وہ درمیانی بائیں بازو centre-left کی نمائندگی کرتے ہیں اور تیونس کی ایک اہم سیکولر جماعت المؤتمر من أجل الجمهورية کے بانی اور صدر رہ چکے ہیں۔ اگر چہ اُن کی تیونس کی اسلام پسند نھضہ پارٹی کے ساتھ مفاہمت بھی رہی ہے اور نہضہ کی مدد ہی سے وہ صدر کے عہدے پر بھی فائز ہوئے لیکن فکری اعتبار سے، وہ اسلامی تحریکات کے بھی سخت ناقد رہے ہیں۔ جن خیالات کا انھوں نے ان مضامین میں اظہار کیا ہے، ان سے ملتی جلتی باتیں اب ساری دنیا میں کہی جارہی ہیں۔ ان مضامین کے ذریعہ ایک طرح سے فاضل مصنف نے آج کے حالات میں پڑھے لکھے سیکولر طبقات کی سوچ اور اُن کی تشویش کی نمائندگی کی ہے۔ یہ وہ طبقات ہیں جن کا جدید مغربی تصورات پر گہرا یقین تھا اور وہ ان تصورات کو ساری انسانیت کے لیے راہ نجات سمجھتے تھے۔ لیکن طویل تجربات نے ان کے اس یقین کو متزلزل کیا تھا۔ کووڈ۱۹ کی عالمی وبا سے پیدا صورت حال نے اس تشکیک میں اور اضافہ کیا اور کئی سوالات پیدا کیے۔

ڈاکٹر مرزوقی نے ان مضامین میں، جمہوریت، قوم پرستی، لبرلزم، ہیومنزم، حقوق انسانی اور ترقی پسندی جیسے تصورات پر انتہائی بنیادی سوالات کھڑے کیے ہیں۔ یہ وہ نظریات ہیں جن سے جدید دنیا کا سیاسی ونظریاتی بیانیہ تشکیل پاتا ہے۔ حالات نے ان تصورات کے اندرونی نقائص کو واشگاف کردیا ہے اورجدید انسان کو شدید اضطراب سے دوچار کردیا ہے۔ وہ نئے افکار کی تلاش میں سرگرداں ہے اور سنجیدگی سے ان مسائل کا حل چاہتا ہے۔ ڈاکٹر مرزوقی کے مضامین سے اُس بے یقینی اور بے چینی کا اندازہ ہوتا ہے۔ اتفاق سے اگست ۲۰۲۰ کے اشارات میں ہم نے جن باتوں کی طرف متوجہ کیا تھا، تقریباً وہی یا اس سے ملتے جلتے سوالات ڈاکٹر مرزوقی کے مضامین میں بھی کھڑے کیے گئے ہیں۔

ڈاکٹر مرزوقی نے اپنے مضامین میں جگہ جگہ، اسلامی تحریکات اور ان کے فکر پر بھی تنقیدیں کی ہیں۔ ان میں سے بعض تنقیدیں، اسلامی فکر کو صحیح طور پر نہ سمجھ پانے کا نتیجہ ہیں، بعض اسلام پسندوں کی عملی غلطیوں کا نتیجہ ہیں اور بعض باتیں یقینا لائق توجہ اور قابل غور ہیں۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ اسلام کے ماننے والے، اس بحث میں سرگرمی سے حصہ لیں۔ اسلام کے ابدی عقائد، قدروں اور تعلیمات کی روشنی میں، ان سوالات پر آزادانہ غور ہو تو یقیناً اُن نئی الجھنوں کا حل تلاش کرنے میں ہم دنیا کی مدد کرسکتے ہیں۔

ذیل کی سطروں میں ڈاکٹر مرزوقی کے اٹھائے ہوئے کچھ سوالات کو ایڈریس کرتے ہوئے ہم کچھ اشارات کریں گے اور اہل علم وفکر کو دعوت دیں گے کہ وہ اس بحث کو آگے بڑھائیں۔ اس وقت اس بات کی ضرورت ہے کہ اہل اسلام عصر حاضر کی ان الجھنوں کا اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں حل تلاش کریں اور اسے اعتماد کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کریں۔

بنیادی سوال: کیا عالم انسانیت سے مایوس ہوجانے کا وقت آگیا ہے؟

اس بحث کا آغاز، انسان اور اس کی اصل پوزیشن کے سوال سے ہوتا ہے۔ ہیومنزم کے جدید نظریات نے انسان کو ایک ایسی آئیڈیل مخلوق کے طور پر پیش کیا تھا جس میں اصلاً سراسر خیر ہی خیر ہے، جس کی عقل کائنات کی ہر گتھی کو سلجھانے کی اور ہر سچائی کو دریافت کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو کائنات کا مرکز ہے اور جسے آزادی اور موقع دیا جائے تو وہ دنیا کو مثالی دنیا بنانے کی قدرت رکھتی ہے۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ نظریہ درست نہیں تھا، جس کے متعدد شواہد ڈاکٹر مرزوقی نے پیش کیے ہیں۔ اس تکلیف دہ انکشاف نے بنی نوع انسان کے تعلق سے جو شدید مایوسی پیدا کی ہے اُس کا بھرپور اظہار ان مضامین سے ہوتا ہے۔ اس مایوسی کووہ خود ‘انسانوفوبیا’ کہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انسان بھی وائرس کی طرح، ایک تباہ کن مخلوق ہے جس نے اللہ کی اس خوب صورت کائنات میں طرح طرح کا بگاڑ پیدا کیا ہے۔ انھیں یہ اندیشہ بھی ہے کہ اس کی وجہ سے کہیں فطرت، بنی نوعِ انسان کے مکمل خاتمے کے درپے نہ ہوجائے اور دنیا انسانوں سے پوری طرح خالی نہ کردی جائے اور یہ اندیشہ بھی ہے کہ انسانوں کے سارے اختیارات چھن کر کسی اور مخلوق مثلاً انسانوں ہی کی بنائی ہوئی مشینوں کو منتقل ہوجائیں اور یوں گویا انسان خلافت ارضی سے معزول کردیا جائے۔ اس شدید مایوسی کی وجہ وہ مسلسل ناکامیاں ہیں جن سے نوع انسانی دوچار ہوئی ہے اور جو دراصل اس کی اپنی شر انگیزیوں کا نتیجہ ہیں۔ جدید انسان نے اپنی صنعتی سرگرمیوں سے پوری دنیا کو زہر آلود کردیا۔ اپنے لیے اور دیگر مخلوقات کے لیے زندگی اجیرن کرلی۔ شدید معاشی نابرابری، کرپشن، پاپولزم وغیرہ جیسی بھیانک برائیوں کو فروغ دیا۔ کیا یہ انسان اس لائق ہے کہ آئندہ اس بگاڑ کی اصلاح کے سلسلےمیں اُس پر اعتماد کیا جاسکے؟

اس حوالے سے وہ ایک بڑا اہم سوال اٹھاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ نظریہ کا اچھا ہونا کافی نہیں ہے۔ اچھے سے اچھےنظریے کو بھی انسانوں ہی کے ذریعہ نافذ ہونا ہے۔ نافذ کرنے والے انسانوں کی خرابی کا کیا حل ہے؟ وہ اسلامی فکر پر بھی تنقید کرتے ہیں کہ فلاں فلاں ملک میں اسلام کے دعوے اور اعلان کے باوجود فلاں فلاں ناانصافیاں اورفتنہ پردازیاں جاری رہیں۔ اس کا کیا حل ہے؟

پوری نوع انسانی کے تعلق سے یہ شدید مایوسی ہمارے قارئین کو شاید عجیب لگے۔ لیکن یہ اندیشے اور انتہا پسندانہ خیالات، دراصل انسان کے بارے میں اُن مثالیت پسند رومانی تصورات کا رد عمل ہیں جو جدیدیت Modernism نے پیش کیے تھے۔ جس میں انسان کو عقل ودانش اور خیر وبھلائی کا مجسم سمجھا گیا تھا اور تسخیر کائنات، ترقی اور خیر وبھلائی کی بہت اونچی توقعات اس سے یعنی اپنے آپ سے وابستہ کرلی گئی تھیں۔ ان تصورات کا تفصیلی جائزہ اس وقت ممکن نہیں ہے۔ اپنے ایک کتابچے میں ہم نے اس کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ [1] جدیدیت کے ان رومانی اور غیر حقیقی تصورات کے مقابلے میں اسلام کا تصور بہت سادہ اور حقیقت پسند ہے۔ اس کا خلاصہ درج ذیل نکات کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے۔

۱۔ انسان کے اندر بیک وقت خیر وشر کی قوتیں موجود ہیں۔ وہ جب عقل سے کام لیتا ہے، خدا سے ڈرتے ہوئے زندگی گزارتا ہے اور ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرتا ہے تو سب سے بہتر مخلوق یعنی احسنِ تقویم بن جاتا ہے اور جب گمراہی وضلالت کا راستہ اختیار کرتا ہے تو اسفلِ سافلین کے پست مقام کو پہنچ جاتا ہے۔ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ فِیْ أَحْسَنِ تَقْوِیْمٍ، ثُمَّ رَدَدْنَاہُ أَسْفَلَ سَافِلِیْن (ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا ہے پھر اسے الٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کردیا۔ التین:۴۔ ۵) قرآن یہ بھی کہتا ہے کہ اس پستی کا بنیادی سبب عقل وشعور سے کام نہ لینا ہے۔ انَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللّہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لاَ یَعْقِلُونَ(یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے۔ الانفال:۲۲) خیر وشر کی ان قوتوں کے درمیان مستقل کشمکش بپا ہے۔ یہ کشمکش ہر انسان کے اندرون میں بھی جاری ہے اورپورے سماج میں بھی۔ خیر کی قوتوں کو غالب رکھنے کے لیے مسلسل تزکیہ وتربیت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ خدا کا خوف، آخرت میں جوابدہی کا احساس اور روحانی بلندی وپاکیزگی کے بغیر انسان جانور بنا رہتا ہے۔

خیر کا یہی امکان، انسان کی افضلیت اور اس کی خلافت کا سبب ہے۔ مرزوقی صاحب نے یہ بات بھی کہی ہے کہ انسان کو افضل کیوں مانا جائے؟ انسان سمیت، سارے حیوانات کو مساوی تسلیم کرنے سے ماحولیاتی تحفظ کا ہدف زیادہ بہتر طور پر حاصل ہوسکتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اسلام انسان کی خلافت کا جو تصور دیتا ہے اس میں صرف افضلیت کا پہلو نہیں ہے بلکہ ذمہ داری کا پہلو زیادہ نمایاں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں انسان کو خلیفہ اور یہاں کے وسائل کا امین بنایا ہے۔ وسائل دنیا اور دنیا کی تمام مخلوقات کے لیے وہ ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔ عقل وشعور کا حامل ہونے کی وجہ سے اس ذمہ داری کو انسان ہی نبھا سکتا ہے۔ شرط صرف یہ ہے کہ اس کے اندر موجود خیر کی قوت کو ابھارا جائے۔

۲۔ انسانی عقل غیر معمولی صلاحیتوں کی مالک ہے اور یہی انسان کی فضلیت کا سبب ہے۔ لیکن وہ لامحدود نہیں ہے۔ کائنات کی لامحدود وسعتیں اور اس کے ابعاد، انسانی عقل کی رسائی سے پرے ہیں۔ طبعی دنیا کے علاوہ ایک بہت بڑی مابعد الطبعی دنیا بھی ہے جس کے احوال آج بھی اُس پر اثر انداز ہو رہے ہیں اور مرنے کے بعد بھی ہوں گے۔ ان احوال کی حقیقت تک عقل کے ذریعہ پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اس لیے انسان الہی رہ نمائی کا محتاج ہے۔ نجات وکامیابی کے ابدی اصولوں تک وحی کے ذریعہ ہی رسائی ہوتی ہے۔

۳۔ خیر وشر کی اس کشمکش کی وجہ سے اس دنیا کو آئیڈیل دنیا نہیں بنایا جاسکتا۔ آئیڈیل دنیا تو آخرت میں جنت کی صورت میں ملے گی۔ لیکن شر کی قوتوں کو قابو میں رکھ کر آئیڈیل سے زیادہ سے زیادہ قریب ہوا جاسکتا ہے۔ انسان کے اندرموجود شر کی قوت کو قابو میں رکھنے اور خیر کی قوت کو غالب رکھنے کے لیے کتاب وحکمت کی تعلیم، اور اس کے نفس کے تزکیے کی ضرورت ہے۔ خدا کا خوف، آخرت میں جواب دہی کا احساس، عقیدہ کی قوت اور کچھ ابدی قدریں اور اصول انسان کو ذمہ دارانہ رویے پر قائم رکھنے کے لیے ضروری ہیں۔ اسلام کے ماننے والے بھی غلطی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ لیکن مضبوط عقیدے، پائیدار قدروں اور تزکیہ وتربیت کے نظام کی وجہ سے ان کی غلطیوں کی اصلاح ہوسکتی ہے اور انھیں اسلام کے اصل مطلوب کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے۔ یہ امکان کسی انسان ساز نظریے کے ماننے والوں کے سلسلے میں نہیں ہے اس لیے کہ وہاں کوئی قدر پائیدار نہیں ہے۔

۴۔ اسلامی فکر میں بیک وقت پائیدار (stable) اور متغیر (dynamic) دونوں طرح کے عناصر پائے جاتے ہیں۔ فکر اسلامی کی یہ خصوصیت عین انسانی فطرت کے مطابق ہے۔ انسانی فطرت بھی پائیدار اورمتغیر دونوں طرح کے عناصر کے امتزاج سے عبارت ہے۔ انسانی فطرت کے بہت سے اجزا ایسے ہیں جو یونیورسل ہیں۔ آج سے ہزار برس پہلے کا انسان بھی بھوک، پیاس اور جنسی جذبات رکھتا تھا۔ زر، زن، زمین کی محبت میں گرفتار تھا۔ اچھائی اور برائی کی کشمکش سے گزرتا تھا۔ یہی کچھ آج بھی ہے اور ایک ہزار سال بعد بھی رہےگا۔ فطرت کے یہ وہ معاملات ہیں جن میں امریکہ اور افریقہ کے انسانوں میں کوئی فرق نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، انسانی فطرت میں ایسے امور بھی شامل ہیں جو مستقل بدلتے رہتے ہیں۔ وقت اور زمانہ کے ساتھ بھی بدلتے ہیں اور علاقہ ومقام کے ساتھ بھی۔ ایک امریکی کے مسائل حیات میں اور افریقہ کے ایک دیہاتی انسان کے مسائل میں بہت فرق ہے۔

روایت پرستی نے انسانی زندگی کے تغیر پذیر حصے کو نظر انداز کردیا تھا اور کبھی نہ بدلنے والی روایتوں کے ذریعہ حیات انسانی کو منضبط کرنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجہ میں زندگی جامد ہوگئی تھی۔ اس کے مقابلہ میں جدیدیت نے انسانی زندگی کے مستقل اور پائیدار اجزا کو نطر انداز کردیا۔ جس کے نتیجہ میں انسانی زندگی ثبات (stability) سے محروم ہوگئی.۔ ہم اگلی سطروں میں واضح کریں گے کہ بہت سے مسائل کی جڑ، اس ثبات سے محرومی اور کچھ ابدی ودائمی اصولوں کا فقدان ہے۔

اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے انسانی زندگی کے ان دونوں اجزا کا نہایت توازن اور خوب صورتی سے لحاظ رکھا ہے۔ بنیادی باتیں جو قرآن وسنت میں مذکور ہیں، آفاقی اور دائمی اصولوں کی حیثیت رکھتی ہیں۔ ان اصولوں کے دائرے کے باہر، زندگی کے بہت سے معاملات کو اسلام نے اجتہاد کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہ گویا تغیر پذیر حصہ ہے۔

اسلام کی ان چار خصوصیات کو ملحوظ رکھا جائے تو ان میں مرزوقی کے اٹھائے ہوئے اکثر سوالوں کا جواب موجود ہے۔ انھی اصولوں کو بنیاد بناکر ہم یہاں مرزوقی صاحب کے بعض ذیلی موضوعات سے تعرض کریں گے:

جمہوریت

لبرل جمہوریت کے اصول بھی انسان اور انسان کے اندر موجود خیر پر غیر متوازن اعتماد کا نتیجہ ہیں۔ یہ تسلیم کرلیا گیا تھا کہ انسانوں کی اکثریت کسی معاشرے میں جو فیصلہ بھی کرے گی وہ خیر ہی ہوگا۔ ایک فرد کا استبداد، سماج کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے کیوں کہ وہ اپنے ذاتی مفادکی خاطر لوگوں کے ساتھ غلط سلوک کرسکتا ہے اور ان کے حقوق پر ڈاکہ ڈال سکتا ہے لیکن جب حکومت اور فیصلہ سازی، عوام کے ہاتھوں میں ہو اور وہ اپنے منتخب نمائندوں کے ذریعہ اکثریتی رائے کی بنیاد پر فیصلے کریں تو ان سے خیر ہی برآمد ہوگا۔

منصف مرزوقی نے جمہوریت کی ناکامیوں پر بڑی خوب صورتی سے روشنی ڈالی ہے۔ انھوں نے فرانسیسی مصنف پیئر روسنوان کے حوالے سے بہت صحیح کہا ہے کہ اس وقت جمہوریت کو خطرہ ڈکٹیٹرشپ سے کہیں زیادہ پاپولزم سے ہے۔ گذشتہ دہوں میں عالمی سیاست نے اس طرح کروٹ لی ہے کہ متعدد ملکوں میں ایسے چرب زبان مکار سیاست دانوں کو غلبہ حاصل ہو گیا جو پرفریب لفاظی (rhetorics) کے ذریعہ تیز رفتار عوامی مقبولیت حاصل کرتے ہیں، عوامیت پسند (populist) نعروں اور اقدامات کی افیم عوام کو پلاتے ہیں، اپنے سحر کے ذریعہ ان کے شعور کو مفلوج کردیتے ہیں اور پھر ان کے مالک بن کر اُن کے سارے بنیادی حقوق کے درپے ہوجاتے ہیں اور ظلم واستحصال کا بازار گرم کرتے ہیں۔ کووڈ ۱۹ کے خراب اثرات سے سب سے زیادہ وہی ممالک متاثر ہیں جو پاپولسٹ حکمرانوں کے زیر تسلط ہیں۔ ان ظالم حکمرانوں نے اس بھیانک وبا کے دوران بھی پاپولزم کا ناپاک کھیل جاری رکھا۔

پاپولزم کا یہ مرض جمہوریت ہی کے بطن سے پیدا ہوتا ہے اور جمہوریت اور جمہوری قدروں کا سب سے بڑا دشمن ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں وقتی استبداد ہی کو فروغ نہیں ملتا بلکہ فسطائیت، نسل پرستی، فرقہ پرستی، اکثریت پرستی جیسی مہلک آدم خور بیماریاں جنم لیتی ہیں۔ اس کا مشاہدہ اس وقت دنیا کے متعدد ملکوں میں کیا جاسکتا ہے۔ پاپولزم نے ہنگری، پولینڈ، وینزویلا، برازیل جیسے ممالک میں جمہوریت کو تباہ کردیا اور امریکہ، اٹلی، ہالینڈ، فرانس نیز ہمارے ملک میں جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ بن کر ابھررہا ہے۔ لیکن لبرل جمہوریت کے پاس، پاپولزم کے اس عفریت سے دنیا کو بچانے کا کیا راستہ ہے؟ اس کا کوئی جواب نہ مرزوقی سجھا پاتے ہیں اور نہ ہی روسنوان۔

اسی طرح مرزوقی بجا طور پر کہتے ہیں کہ جمہوریت عملاً کرپٹ سیاسی جماعتوں کا کھیل بن چکا ہے۔ یہ کرپٹ سیاسی جماعتیں انتخابات کا کھیل تو کھیلتی ہیں لیکن پائیدار سماجی جمہوریت کے فروغ کی راہ میں مزاحم ہوتی ہیں۔ ان کی سرپرستی میں ایسا میڈیا پروان چڑھتا ہے جو آزادی رائے کے جمہوری حق کا استعمال کرکے جمہوریت ہی کی قدروں اور عوام کے سماجی شعور کو تباہ کرنے کا کام کرتا ہے۔ عوام کو گمراہ کرکے انھیں خود اپنے مفادات کے خلاف موقف اختیار کرنے پر مجبور کرتا ہے۔

اس بات کو مرزوقی نے زیر بحث نہیں لایا ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں جمہوریت اب عملاً سرمایہ داروں کے ہاتھ کا کھلونا بن چکی ہے۔ سرمایہ داروں، میڈیا، سیاست دانوں اور مجرموں کا گٹھ جوڑ، جمہوری نظام میں عوامی مفادات کے حقیقی نمائندوں کے لیے کوئی جگہ پیدا ہونے ہی نہیں دیتا۔ اس میں صرف سرمایہ داروں کے وفادار خادم ہی ترقی کرپاتے ہیں اور عوامی مفاد کا گلا گھونٹ کر سرمایہ داروں کے مفادات کی حفاظت کرتے ہوئے ہی باقی رہ پاتے ہیں۔ اس ماحول میں جمہوری نظام سے کسی اچھی قیادت کے ابھرنے کا تصور ہی خام خیالی بنتا جارہا ہے۔

یہ مسئلہ گذشتہ چند دہائیوں سے جمہوریت کے علم برداروں کے درمیان شدید تشویش اور اضطراب کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اور لبرل جمہوریت کے مروجہ اصولوں کے دائرے میں اس مسئلہ کا کوئی حل نہ نظر آتا ہے اور نہ ہی ممکن ہے۔ یہاں بھی مذہب ہی انسان کے اس پیچیدہ مسئلہ کو حل کرسکتا ہے۔ اسلام نے عوام کی یعنی اکثریت کی رائے کو اہمیت دی ہے اور اس اصول کو تسلیم کیا ہے کہ ایک فرد کی رائے کے مقابلہ میں اکثریت کی اجتماعی رائے میں خیر کا زیادہ امکان ہے۔ یہ اصول ہی اسلامی شورائیت کی بنیاد ہے۔ لیکن اگر اجتماعی رائے کو بھی بے لگام آزادی دے دی جائے تو اس سے شر کا برآمد ہونا بھی ویسے ہی ممکن ہے جیسے انفرادی رائے سے۔ افراد کی طرح گروہ بھی نفس پرستی کے شکار ہوسکتے ہیں، ان کی اجتماعی رائے بھی عدل کے تقاضوں کے مقابلہ میں اپنی گروہی اغراض کو ترجیح دے سکتی ہے۔ اس لیے، جیسا کہ اوپر، اسلام کے چار اصولوں کے حوالہ سے واضح کیا گیا، اسلام نے اجتماعی رائے کو بھی کچھ ابدی اصولوں اورقدروں کا پابند بنایا ہے۔ اسلام کے حاکمیت الہ اور خلافت جمہور کے اصول دوگانہ اس مسئلہ کو بہت خوب صورتی سے اور نہایت متوازن طریقے سے حل کرتے ہیں۔ انسانوں کے بنیادی حقوق، فرائض، رشتے اور رول، اخلاقیات سے متعلق اساسی اصول، تقسیم دولت کے ڈائنامکس، فطرت اور فطری وسائل سے تعلق وغیرہ پر مشتمل کچھ باتوں کو اسلام یونیورسل احکام قرار دیتا ہے جو حاکم حقیقی یعنی خدا کے احکام ہیں۔ یہ احکام قرآن وسنت میں وضاحت کے ساتھ مذکور ہیں۔ ان احکام میں تبدیلی کا اختیار جمہور کو بھی حاصل نہیں ہے۔ یہ ابدی قدریں، مضبوط عقیدے کے ساتھ وابستہ ہیں۔ یعنی اسلام کو ماننے والے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ خدا کے احکام ہیں جن میں کسی قسم کا تغیر ممکن نہیں ہے۔ اس طرح کچھ بنیادی اصولوں کو اس کے نتیجہ میں ثبات حاصل ہوجاتا ہے۔ یہ دائمی اصول، اکثریتی فیصلوں کو عدل وانصاف کی ایک حد سے آگے جانے نہیں دیتے۔ پاپولر کرشماتی قائدین اور ان کے پاپولسٹ اقدامات بھی اس حد پر آکر رک جانے کے لیے مجبور ہوتے ہیں۔ البتہ ان اصولوں کے دائرے کے اندر فیصلہ سازی جمہور کا حق ہے۔ اس حق کے بہتر استعمال کے لیے بھی عوام کی دینی، اخلاقی وروحانی تربیت وتزکیہ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اسلام کی اس اسکیم میں جمہوریت کے زیادہ تر فائدے جمع ہیں اور ان نقصانات کا ازالہ ہے جنھوں نے جدید جمہوریت کے ساتھ پیچیدہ انسانی مسائل وابستہ کردیے ہیں۔

جدید جمہوریت کے دو بڑے مسائل ہیں۔ ایک، دائمی اصولوں کا فقدان، جو جمہوری فیصلوں کے لیے مستقل کسوٹی بھی بہم پہنچاسکیں اور ان کو ایک حد سے آگے نہ بڑھنے دیں۔ یہاں عوام کو قانون سازی کا لامحدود اختیار حاصل ہے اور قانون سازی سماجی کنٹرول کا واحد ذریعہ ہے۔ ایسے میں اگر عوام کو گمراہ کرنے میں اور ان پر کسی بھی طرح کا سحرطاری کرکے، ان کو غلط سوچ پر آمادہ کرنے میں کامیابی حاصل کرلی جائے تو ان سے ہر طرح کے قوانین منظور کرائے جاسکتے ہیں۔ اب یہ بات وہمی نہیں رہی بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں عملاً یہ صورت حال پیدا ہوچکی ہے۔ اور انتخابات کے ذریعہ باقاعدہ منتخب ہونے والے حکمران ایسے اقدامات کررہے ہیں جو بنیادی جمہوری قدروں کا گلا گھونٹنے والے بلکہ بنیادی انسانی حقوق کے تصور سے متصادم ہیں۔

جدید جمہوریت کا دوسرا بڑامسئلہ اُس پائیدار عقیدے اور روحانی قدروں کا فقدان ہے جو معاشرے کے ضمیر کی تربیت کے لیے ضروری ہیں۔ تربیت یافتہ اجتماعی ضمیر ہی اپنے جمہوری حق کا عادلانہ استعال کرسکتا ہے اور ان پاپولسٹ سیاست دانوں کے مکر وفریب سے بچ سکتا ہے جو عوام کی انسانی کمزوریوں مثلاً لالچ، گروہی مفاد، حسد، غرور وغیرہ کا استحصال کرکے اقتدار حاصل کرتے ہیں اور اپنے سماج کو جہنم زار بنادیتے ہیں۔

حقوق انسانی

مرزوقی نے معروف اسرائیلی مصنف، یوال ہراری (Yuval Noah Harari) کے حوالے سے بہت اہم بات کہی ہے کہ حقوق انسانی کا جو تصور اس وقت رائج ہے، اس کی نظریاتی بنیاد دراصل وہ نیا مذہب ہے جو جدید یورپ میں ایجاد ہوا اور جس کا نام انفرادیت پرستی (individualism) ہے۔ حد سے زیادہ انفرادیت پسندی نے فرد کے بعض مخصوص حقوق کو اس شد ومد اور مبالغہ کے ساتھ نمایاں کیا کہ اجتماعی ذمہ داریوں اور تعلقات کا وہ پورا نظام درہم برہم ہوگیا جو کسی معاشرے کی صحت کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ کووڈ ۱۹ کی نفسانفسی نے اس مسئلہ کی طرف بھی ہم کو پوری قوت سے متوجہ کیا ہے۔ غالباً یہ صورت حال انسانی تاریخ میں پہلی بار پیدا ہوئی کہ بیٹوں اور بیٹیوں نے اپنی ماؤں اور باپوں کی لاشوں سے نظریں چرالیں، کروڑوں انسانوں کو بھوکوں مرنے کے لیے چھوڑدیا گیا اور اطبا اسپتالوں کو ویران کرکے گھروں میں بیٹھ گئے۔ اگر اس مسئلے کو ایڈریس نہیں کیا گیا تو انسانی سماج اور انسان کا اجتماعی وجود خطرے میں پڑسکتا ہے۔ اس کو ایڈریس کرنے کے لیے سب سے پہلی ضرورت یہ ہے کہ ‘مذہب انفرادیت پرستی’ کا پوری شدت کے ساتھ ابطال کیا جائے اور اُس نفسیات کو بدلا جائے جو اس مذہب نے پیدا کی ہے۔

مرزوقی نے حقوق انسانی کے عالمی اعلامیے کو اس ‘مذہب’ کی ایک نمائندہ دستاویز کے طور پر پیش کیا ہے۔ انھوں نے اس اعلامیے میں ایک اساسی تبدیلی یہ تجویز کی ہے کہ اس میں حقوق وفرائض کو باہم مربوط کرکے بیان کیا جائے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ایک بہت اہم بات ہے۔ انفرادیت پرستی کی نفسیات صرف حقوق پر اپنی توجہات کو مرکوز رکھتی ہے۔ قرآن مجید نے حقوق، فرائض، رشتے اور رول (ملیشیائی مفکر چندرمظفر نے انھیں چار Rقراردیا ہے، یعنی rights, responsibilities, relations and roles کو ایک ساتھ جوڑ کر بیان کیا ہے۔ دنیا میں انسان کے، دیگر انسانوں کے ساتھ بھی، خدا کے ساتھ بھی اور دیگر مخلوقات کے ساتھ بھی مختلف رشتے ہیں۔ یہ رشتے الگ الگ رول متعین کرتے ہیں۔ ہر رول کے ساتھ ذمہ داریاں بھی وابستہ ہیں اور حقوق بھی۔ ان سب کے صحیح شعور کے نتیجے ہی میں انسانی زندگی عدل اور سکون سے ہم کنار ہوسکتی ہے۔ چندر مظفر کہتے ہیں کہ جدید سماجوں میں ایک آر R یعنی حقوق کا تصور بہت نمایاں ہوگیا اور بقیہ R یعنی فرائض، رشتے اور رول دب گئے۔ اس لیے وہ حقوق انسانی کے بجائے تکریم انسانی (human dignity) کا نظریہ پیش کرتے ہیں جس میں حقوق، فرائض، رشتے اور رول مناسب توازن کے ساتھ کارفرما ہوسکیں۔ [2]

اسی طرح حقوق انسانی کے جدید تصور نے چند حقوق کو تو بہت اہمیت دی ہے۔ لیکن دوسرے بہت سے حقوق، جنھیں جدید اصطلاح میں دوسری نسل کے اور تیسری نسل کے حقوق (second generation and third generation rights) کہا جاتا ہے، انھیں بری طرح نظر انداز کردیا ہے۔ مثلاً بنیادی ضرورتوں )کھانا، لباس، مکان، بنیادی تعلیم وغیرہ) کی تکمیل کو اسلام ہر فرد کا حق تسلیم کرتا ہے۔ ایک بھوکے آدمی کی پہلی ضرورت پیٹ بھر کھانا ہے۔ یہ حق اس کے لیے ووٹ دینے کے حق سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ لیکن اسے دوسری نسل کے حقوق کہہ کر فراموش کردیا جاتا ہے۔ اچھےماحول میں سانس لینے کا حق، مرنے کے بعد احترام کے ساتھ آخری سفر پر روانہ ہونے کا حق، جائز طریقے سے جنسی ضرورت کی تکمیل کا حق، عزت نفس کا حق اور اس طرح کے متعدد حقوق جن کو اسلام بڑی اہمیت دیتا ہے، وہ جدید اسکیم میں اہمیت نہیں حاصل کرسکے۔ موجودہ بحرانوں نے ان حقوق کی اہمیت کا احساس پیدا کیا ہے۔ ان حقوق کے بغیر انسانی زندگی مطلوب سکون وطمانیت سے محروم رہے گی۔

قومیت

قوم پرستی کی آہنی دیواریں جو جدیدیت کے فلسفوں نے پیدا کی تھیں، ان کو دور حاضر کے معاشی تقاضوں نے کمزور کردیا تھا۔ لیکن ادھر چند برسوں سے دنیا کے کئی ملکوں میں جارح قوم پرستی کے رجحانات پھر پلٹ آئے ہیں۔ کووڈ ۱۹ نے اس بات کو اور شدت سے واضح کیا ہے کہ انسانی نسل کا مفاد مشترک ہے اور اس کے مسائل بھی مشترک ہیں۔ ان مسائل کو ایک دوسرے کے تعاون اور انسانی اخوت کے جذبے ہی سے حل کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ بلاشبہ یہ بھی حقیقت ہے کہ انسانوں کی تنظیم اور ان کے درمیان مسابقت بھی آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے لیے محرک فراہم کرتی ہے۔ قوم پرستی نے ابتدا میں انسانوں کے اسی فطری جذبے اور محرک کو دلیل بنایا تھا لیکن بعد میں انسانوں کے درمیان بدترین تقسیم اور منافرت کا ذریعہ بن گئی۔

يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ۚ إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللَّـهِ أَتْقَاكُمْ (لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو درحقیقت اللہ کے نزدیک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تمہارے اندر سب سے زیادہ پرہیز گار ہے۔ الحجرات ۱۳) قرآن کریم نے اس آیت میں قومیت کی پوری بحث کا خلاصہ بیان کردیا ہے۔ اس میں ایک طرف انسانی مساوات کا اعلان ہے۔ تمام انسانوں کے درمیان برادارنہ رشتے اور ان کے ایک نسل ہونے کی حقیقت کا اظہار ہے جو ان کے درمیان عالمی سطح پر تعاون باہمی کے جذبے کو پروان چڑھاتی ہے۔ دوسری طرف، قبائل اور شعوب کے وجود اور ان کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے قبائلی عصبیتوں کا خاتمہ فرمایا لیکن قبائل کے وجود کو ختم نہیں کیا۔ اسلام آنے کے بعد بھی قبیلے باقی رہے اور قبیلوں کے حوالے سے لوگ پہچانے جاتے رہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی بنیاد پر انسانوں کی تقسیم اسلام کو منظور نہیں ہے لیکن زمانہ کے حالات کے لحاظ سے، انسانوں کی اجتماعی ضرورتوں کی تکمیل کے لیے انسانوں کا جمع ہونا، کسی اجتماعی شکل کو اختیار کرنا اور اس سے اپنی شناختوں کو وابستہ کرنا اسلام کے نزدیک ناپسندیدہ نہیں ہے۔ اسلام نے وطن سے محبت کے فطری جذبہ کو قدر کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ قرآن مجید نے اسے ظلم کی بدترین شکل قرار دیا ہے کہ لوگوں کو ان کے وطن سے بے دخل کیا جائے۔ الَّذِينَ أُخْرِجُوا مِن دِيَارِهِم بِغَيْرِ حَقٍّ (یہ لوگ اپنے گھروں سے ناحق نکالے گئے۔ الحج ۴۰)

انسان اپنی بہت سی ضرورتوں کے لیے طرح طرح کی اجتماعی شکلیں اختیار کرنے پر مجبور ہے۔ ہر اجتماعی ہیئت وفاداری چاہتی ہے۔ اور آدمی جب اس سے وابستہ ہوتا ہے تو معاہدہ کی شرائط کے مطابق اس سے وابستگی اور وفاداری کا حق بھی ادا کرتا ہے اور اس کے تئیں محبت بھی اس کے دل میں فطری طور پر پیدا ہوجاتی ہے۔ آدمی جب شہر میں گھومتا ہے تو اپنے محلہ اور کالونی کی نسبت سے پہچانا جاتا ہے اور اس نسبت سے دھیرے دھیرے محبت بھی اس کے اندر پیدا ہوجاتی ہے۔ کالونی کے مشترک مسائل پر کالونی کے لوگ مل کر جدوجہد کرتے ہیں۔ اسی طرح ضلع، علاقہ، ریاست ان سب سے فرد کی وابستگیاں ہوتی ہیں۔ کسی کمپنی میں کام کرتا ہے تو اس کمپنی کا وفادار ہوتا ہے۔ کرکٹ یا فٹ بال کی جس ٹیم میں کھیلتا ہے، اس کا وفادار ہوتا ہے اور اس کو جتانے کی جان توڑ کوشش کرتا ہے۔ سیاسی، سماجی ومذہبی جماعتیں، انجمنیں اور تنظیمیں اپنے کارکنوں سے وفاداری کا تقاضا کرتی ہیں۔ اسی طرح کسی علاقہ میں رہنے والے لوگ ایک مشترک سیاسی نظام تشکیل دیں اور ایک دستور پر متفق ہوجائیں تو اس کی بنیاد پر ایک قوم کا بن جانا اور جائز امور میں اس قوم کی حمایت اور اس سے وفاداری، اسلام کے اصولوں کے مطابق ہی ہوگی۔

یہ وفاداری، وابستگی یا محبت دو صورتوں میں جرم بنے گی۔ اس کی وضاحت بھی ہم کو دینی نصوص میں ملتی ہے۔ ایک تو اس وقت جب یہ فطری محبت یا وابستگی احساس برتری کا ذریعہ بنے اور آدمی دوسری قوموں کو حقیر سمجھنے لگے۔ اور دوسرے اُس وقت جب نا انصافی اور ظلم میں قوم کا ساتھ دیا جائے۔ حدیث میں ہے کہ صحابی نے پوچھا “یا رسول اللہ کیا اپنے قوم کے آدمی سے محبت کرنا عصبیت ہے۔ آپ نے فرمایا نہین، البتہ یہ عصبیت ہے کہ تم اپنی قوم کے آدمی کی ظلم کے لیے مدد کرو۔ [3]

بدقسمتی سے قوم پرستی کے شدت پسند تصورات کی پھر ایک بار واپسی ہورہی ہے دوسری طرف کووڈ ۱۹ کےحالات نے ان تصورات کی ہلاکت خیزی کو واضح کیا ہے اور انسانی وحدت اور اخوت کی اہمیت اجاگر کی ہے۔ ضرورت ہے کہ اسلام کا معتدل موقف ان حالات میں دنیا کے سامنے لایا جائے۔

ترقی پسندی

جدیدیت یا ماڈرنیٹی کا ایک محبوب پروجیکٹ ترقی پسندی کا پروجیکٹ تھا۔ یعنی انسان ‘مذہبی خرافات کی ظلمتوں’ سے نجات پائے۔ سائنس اور سائنسی علوم کی صداقت پر ایمان کامل لائے بلکہ مرزوقی کے الفاظ میں سائنس کی پرستش کرے۔ بجلی کے قمقموں سے بستیاں جگمگا اٹھیں۔ کارخانے اور فیکٹریاں بنیں۔ خوب صورت سڑکیں اور فلائی اوور تعمیر ہوں۔ لباس ماڈرن ہو، یعنی حجاب سے چھٹکارا ہو اور حسن کے جلوے عام ہوں۔ معاشرت مغرب زدہ ہو۔ اس طرح تمدن بھی ‘ماڈرن’ ہواور تہذیب بھی ماڈرن ازم زدہ ہو۔ یہ سمجھا گیا کہ اس طرح ترقی ہوگی تو بنی نوع انسان کے بہت سے پیچیدہ مسائل حل ہوجائیں گے۔ یعنی اخلاقی ومعاشرتی بندشوں سے مکمل آزادی اور مادی وسائل اور چکا چوند کو مکمل طور پر اختیار کرنے کو انسانی ترقی کی ضرورت اور پیمانہ تسلیم کرلیا گیا۔ چناں چہ اس ترقی کو یقینی بنانے کے لیے کئی جگہ سخت گیر استبدادی طریقوں کو بھی اختیار کیا گیا۔ لوگوں پر زبردستی خود ساختہ ‘ترقی یافتہ’ ملبوسات اور غذائی عادتیں تک مسلط کرنے کی کوشش کی گئی۔ مذہب کے خلاف سخت گیر رویہ اختیار کیا گیا۔ اسٹالن اور پول پاٹ جیسے ڈکٹیٹروں کی مثال فاضل مضمون نگار نے دی جنھوں نے لاکھوں انسانوں کا اس نام نہاد ترقی کے حصول کے لیے خون بہایا۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کے قیام کے لیے غریبوں کی بستیوں کو اجاڑنے کا سلسلہ تو آج بھی جاری ہے۔

مضمون نگار کی ایک دل چسپ بحث وہ ہے جس میں وہ ترقی (تقدم) اور ارتقا (تطور) کے درمیان فرق کرتے ہیں۔ ترقی ان کے نزدیک مادی ترقی کا نام ہے جب کہ ارتقا اخلاقی اور روحانی ارتقا کا۔ وہ کہتے ہیں کہ ترقی ارتقا کے ساتھ بھی ہوسکتی ہے اور اس کے بغیر بھی۔ البتہ وہی ترقی انسانیت کے لیے مفید ہے جو ارتقا کے ساتھ ہو۔

یہ عین اسلامی فکر ہے۔ قرآن مجید نے مختلف قوموں کی سرگزشتوں کے ذریعہ یہی کلیہ واضح کیا ہے کہ قوموں کی سربلندی اور کامیابی کا راز اخلاقی پاکیزگی اور روحانی بلندی میں مضمر ہے ورنہ عاد وثمود جیسی اپنے دور کی انتہائی باصلاحیت اور ‘ترقی یافتہ’ قوموں کو اپنے تمام تر تمدنی کرشموں کے ساتھ راکھ کا ڈھیر بنتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ مادی وسائل کی فراہمی اور علوم وفنون کی ترقی ضروری اور مطلوب ہے لیکن اس سے پہلے اخلاقی پاکیزگی اور روحانی بلندی درکار ہے۔ مادی ترقی جب اخلاقی بلندی کے ساتھ وابستہ ہوتی ہے تو وہ ایک سرجن کا نشتر بن جاتی ہے اورانسانیت کے لیے خیر کا باعث ہوتی ہے اور جب اخلاقی پستی کے جلو میں آتی ہے تو ایک خونخوار ڈاکو کا خنجر بن جاتی ہے اور شر وفساد کی شدت کو بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرتی۔

جب ترقی کا اعلی اخلاق اور روحانی پاکیزگی کے ساتھ رشتہ قائم ہوتا ہے تو اُن مسائل کے لیے کوئی جگہ باقی نہیں رہتی جن کا مرزوقی نے تفصیل سے تذکرہ کیا ہے اور اسے ترقی پسندی کی ناکامی کے طور پر پیش کیا ہے۔ تصورِ خلافت اور تصور امانت کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اسلامی اخلاق، فطرت سے ہم آہنگی اور وسائل قدرت کے ذمہ دارانہ اور غیر مسرفانہ استعمال کا مزاج پیدا کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اُس ماحولیاتی بحران کا مسئلہ پیدا ہی نہیں ہوتا جو ساری دنیا کو اس وقت پریشان کیے ہوئے ہے۔ اسلامی قدریں غریب پروری اور انسان دوستی کا مزاج بناتی ہیں۔ اللہ کی دی ہوئی صلاحیتوں اور علوم وفنون نیز وسائل کو اس کی امانت سمجھنے کا مزاج پیدا کرتی ہیں۔ اور وَابْتَغِ فِــيْمَآ اٰتٰىكَ اللہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَـمَآ اَحْسَنَ اللہُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ (جو مال اللہ نے تجھے دیا ہے اس سے آخرت کا گھر بنانے کی فکر کر اور دنیا میں سے بھی اپنا حصہ فراموش نہ کر، احسان کر جس طرح اللہ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے، اور زمین میں فساد برپا کرنے کی کوشش نہ کر، اللہ مفسدوں کو پسند نہیں کرتا۔ القصص۷۷) یعنی اس امانت کو اللہ کے بندوں کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کرنے کا داعیہ ابھارتی ہیں۔ اس کے ساتھ اسلامی عقیدہ یہ ڈر بھی پیدا کرتا ہے کہ ثُمَّ لَتُسْـَٔــلُنَّ يَوْمَىِٕذٍ عَنِ النَّعِيْمِ (پھر ضرور اُس روز تم سے اِن نعمتوں کے بارے میں جواب طلبی کی جائے گی۔ التکاثر۸)

اس کے نتیجہ میں جو سائنس، ٹکنالوجی، اور ترقیاتی پالیسیاں وجود میں آتی ہیں ان کا رخ وہ نہیں ہوتا جو اس وقت ہے۔ مال کی بے پناہ حرص اور لوٹ مار اور جنگ وجدال کے بجائے انسانی مسائل کا حل اصل ترجیح بن جاتا ہے۔ سماج کے ذہین ترین سائنسداں دفاعی ٹکنالوجی کا نہیں بلکہ رفاہی ٹکنالوجی کا رخ کرتے ہیں۔ غریبوں کی بیماریاں بھی میڈیکل ریسرچ کا موضوع بنتی ہیں۔ کوکا کولا اور پیپسی سے زیادہ عام انسانوں کے لیے پینے کا صاف پانی تجارتی کمپنیوں کا ہدف بنتا ہے۔ ہمہ رویہ شاہراوں سے پہلے بے گھروں کے لیے سائبان ڈیولپمنٹ کا ہدف بنتے ہیں اورفراہمی روزگار، تعلیم، صحت وغیرہ جیسے مسائل قومی بجٹ کے منصوبہ سازوں کی توجہات کا اصل مرکز بنتے ہیں۔

اس سے قبل اپنے ایک مضمون میں [4] ہم نے مقاصد شریعت کے حوالہ سے اسلام کی ترقیاتی پالیسیوں کے تعلق سے لکھا تھا کہ فقہائے اسلام نے مصالح کے درمیان ترجیح وترتیب کا جو مہتمم بالشان نظام بنایا ہے اس کی مدد سے اسلام کی ترقیاتی ترجیحات کی بآسانی تعیین ہوسکتی ہے۔ مصالح کو تین خانوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ ضروریات، حاجیات اور تحسینیات۔ ضروریات وہ مصالح ہیں جن پر لوگوں کے دین، جان، مال، عقل اور نسل (اور بعض کے نزدیک عزت و آبرو) کی بقا کا انحصار ہے۔ یہ سب سے مقدم مصالح ہیں۔ اس کے بعد حاجیات کا نمبر آتا ہے۔ یعنی وہ مصالح ہیں جن سے زندگی آسان ہوتی ہے اور مشقت اور مشکل دور ہوتی ہے۔ اس کے بعد تحسینیات کا نمبر آتا ہے۔ تحسینیات ذوقِ لطیف اور طبع نفیس کا تقاضا ہوتی ہیں اور ان سے زندگی میں حسن وسلیقہ پیدا ہوتا ہے۔ اگر حاجیاتی اور تحسینی مصالح میں ٹکراؤ ہو تو ترتیب کی بنیاد پر حاجیاتی مصالح کو ترجیح دی جائے گی۔ جیسے طہارت وپاکیزگی تحسینی مصلحت ہے۔ لیکن اگر غسل سے جان کو خطرہ ہو (ضروری مصلحت) یا شدید تکلیف کا اندیشہ ہو (حاجیاتی مصلحت) تو غسل نہ کرنے کا حکم ہے۔

اس اصول کی بنیاد پر ترقیاتی پالیسی میں، شہروں کی خوب صورتی، تفریح گاہوں کا قیام وغیرہ تحسینی مصلحت قرار پائے گا۔ سڑکوں کی تعمیر وغیرہ حاجیاتی۔ جب کہ بھوکی آبادی کا پیٹ بھرنا، مرتے ہوئے بچوں اور انیمیا کی شکار عورتوں کے تغذیہ ومعالجہ کی مناسب سہولتیں فراہم کرنا وغیرہ ضروری مصالح ہوں گے، جنھیں باقی مصالح پر فوقیت ہوگی۔ اسلامی ترقیاتی پالیسی مصالح کی اسی ترتیب کی روشنی میں تشکیل پائے گی۔ آج کووڈ کے تجربہ کے بعد کی دنیا، اس اسلامی فکر کو سمجھنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ اب یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی ہے کہ اس بحران کا اصل سبب ترقیاتی ترجیحات کے نظام کا بگاڑ ہے۔ ایسے میں ترقیاتی پالیسی کے اسلامی اصولوں کو بڑے پیمانے پر زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔

لبرلزم یا کیپٹلزم

لبرلزم کے عنوان سے فاضل تجزیہ نگار، ڈاکٹر منصف مرزوقی نے بنیادی طور پر جدید سرمایہ دارانہ نظام کے تعلق سے چند بنیادی سوالات اٹھائے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ساری دنیا میں جاری بحرانوں کے درمیان یہ نظام اپنی پیداوار کیسے جاری رکھ سکے گا؟ کینسر اور امراض قلب جسی پیچیدہ بیماریاں جو سرمایہ دارانہ نظام کا تحفہ ہیں، کیسے اس نظام کے تسلسل کی اجازت دیں گی؟ یا وہ زبردست ماحولیاتی بحران جس نے ساری دنیا کو زہر آلود کردیا ہے، کیا اس نظام کی ناکامی ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہے؟ یا کیا یہ کافی نہیں ہے کہ اس نے عالمی دولت کا عظیم حصہ، فریبی سٹے بازوں کے فائدے کے لیے مصنوعی مالیاتی بازاروں میں مشغول کردیا ہے اور صنعت وتجارت کی حقیقی معاشی سرگرمیوں کو اس سرمائے کے فیض سے محروم کردیا ہے۔ ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اس نظریہ کی ناکامی کے لیے اس سے بڑھ کر شہادت کیا ہوسکتی ہے کہ اس نے دنیا میں بے نظیر معاشی نابرابری پیدا کردی ہے اور صرف ایک فیصد آبادی کو عالمی وسائل کے عظیم حصے پر قابض کرادیا ہے اور بقیہ انسانیت کو بھک مری اور افلاس کا شکار کردیا ہے؟

لیکن سرمایہ داروں کے درمیان کثرت سے دہرائے جانے والےایک قول کو انھوں نے نقل کیا ہے کہ کیسے سرمایہ داری کے اصولوں کو ذرا مختلف طریقے سے استعمال میں لائیں؟ How to do capitalism differently? یعنی جب بھی سرمایہ داریت پر خطرات کے بادل منڈلاتے ہیں ان کے سوچنے کا انداز بس یہ ہوتا ہے کہ سرمایہ داری کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے کیا جزوی تبدیلیاں لائی جائیں؟ مرزوقی کے مضمون کا بقیہ حصہ بھی اسی سوچ کا ترجمان لگتا ہے۔ وہ کوئی بنیادی اصلاح کی بات نہیں کرتے بلکہ چند عالمی معاہدات اور کچھ اصولوں اور قوانین کے ذریعہ اس پیچیدہ مسئلہ کو حل کرنا چاہتے ہیں۔

ہمارے خیال میں مسئلہ بہت بنیادی اور اساسی ہے۔ دنیا میں معاشی عدل کے لیے بہت سی دور رس تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے بھی اخلاق، مضبوط عقیدے اور روحانی قدروں کی ضرورت ہے۔

جن ابدی اصولوں کا اسلام نے پابند کیا ہے وہ دولت کی پیداوار کے لیے بھی راہیں ہموار کرتے ہیں اور اس کی منصفانہ تقسیم کو بھی یقینی بناتے ہیں۔ معاشی محاذ پر اسلام کا اصل ہدف عدل وقسط ہے۔ عدل میں آزادی، مساوات اور نمو بھی شامل ہیں۔ لیکن یہ قدریں غیر مشروط نہیں ہیں بلکہ عدل کے تقاضوں کے ماتحت ہیں۔ ترقی اور نمو پر انسانیت اور اس کے تقاضے مقدم ہیں۔

باری تعالی کا ارشاد ہے۔ ما أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرَىٰ فَلِلَّـهِ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ كَيْ لَا يَكُونَ دُولَةً بَيْنَ الْأَغْنِيَاءِ مِنكُمْ ( ان آبادیوں کے جن اموال کو اللہ نے اپنے رسول کو عطا کیا ہے وہ اللہ، اس کے رسول اور رسول کے قرابت داروں، نیز یتامیٰ، مساکین اور مسافروں کے لیے مخصوص ہیں تاکہ ایسا نہ ہو کہ مال تمہارے صاحب ثروت لوگوں ہی کے درمیان چکر کھاتا رہ جائے۔ ” الحشر: 7) گویا معاشی پالیسی کا ایک اہم مقصد یہ بھی ہونا چاہیے کہ مال دولت مندوں کے درمیان گردش نہ کرے بلکہ دولت مندوں سے غریبوں کی طرف جائے۔ اسلامی شریعت نے اس کے لیے سود کی حرمت، زکوۃ کی فرضیت اور وراثت کے احکام جیسے طریقے اختیار کیے ہیں۔ نیز حکومت کی یہ ذمہ داری بھی قرار دی ہے کہ وہ اپنی مالیاتی پالیسیوں کے ذریعہ اس بات کو یقینی بنائے کہ مال امیروں سے غریبوں کی طرف جائے اور ممکنہ حد تک وسائل اور دولت کی منصفانہ تقسیم ہو۔

قمار کی ممانعت کا اسلامی اصول، سٹے بازی پر بلکہ قیاسی مالیات (speculative finance) کی اُن تمام شکلوں پر روک لگاتا ہے جوسرمایہ کو غیر پیداواری سرگرمیوں میں مصروف کرکے دنیا میں بے روزگاری اور غربت پید کرنے اور دولت کو چند ہاتھوں میں مرکوز کرنے کا سبب بنتی ہیں۔ اسی وجہ سے انھیں وارن بفٹ نے بجا طور پر ‘عوامی تباہی کےمالیاتی ہتھیار (financial weapons of mass destruction) قرار دیا تھا۔ [5]

اسی طرح سود کی حرمت کا اسلامی اصول پیسہ کے ارتکاز وگردش کے تمام ڈائنامکس کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔ نفع ونقصان میں شرکت کی بنیاد پر سرمایہ دار اور تاجر کے درمیان قائم ہونے والا رشتہ دولت کو اربوں بچت کاروں سے چند تاجروں کی طرف، مسلسل منتقل ہونے نہیں دیتا اور اس کے نتیجے میں ویسی عدم مساوات پیدا انھیں ہوتی جیسی نظام سرمایہ داری میں نظر آتی ہے۔ اس موضوع پر تفصیل سے ہم اشارات کے صفحات میں گفتگو کرچکے ہیں۔ [6]

اسلام کا زور سادگی اور فطرت سے ہم آہنگی پر ہے۔ پیغمبر اسلامﷺ کا حکم ہے کہ دریا کے کنارے بیٹھ کر بھی فضول پانی بہانا اسراف ہے۔ [7] اس طرز زندگی سے صارفیت اور ماحولیاتی بحران کے مسائل پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ انفاق کا جو شوق مذہبی تعلیمات پیدا کرتی ہیں اُن سے غریبوں کی دست گیری کے لیے وافر سرمایہ ہمیشہ دستیاب رہتا ہے۔ اس طرح اسلام کے اصول، حق ملکیت، نفع کے محرک اور آزاد تجارت کے ان فائدوں سے بھی سماج کو مستفیض کرتے ہیں اور دولت کی نمو کا ذریعہ بنتے ہیں، جن پر سرمایہ داری کو فخر ہے اور اُن خرابیوں کا علاج کرتے ہیں جن کی وجہ سے جدید نظام سرمایہ داری دنیا کے لیے لعنت بن چکا ہے۔

خلاصہ بحث

اس بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذہب، پائیدار عقیدے اور اس پر مبنی پائیدار قدروں کے بغیر دنیا کے پیچیدہ مسائل کا حل نہیں نکل سکتا۔ اس حقیقت کو حالیہ بحرانوں نے اور شدت سے واشگاف کیا ہے۔ ان بحرانوں کی تلخیوں سے نکلنے والا آج کا انسان، اس حقیقت کو سمجھنے کی زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس بحث کو آگے بڑھایا جائے۔ اس وقت اسلام کے ماننے والوں کی ذمہ داریاں بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں۔ اپنے سابقہ تجربات کے سلسلے میں احساس ناکامی واضطراب اور مستقبل کے حوالے سے تشویش اور مایوسی کی جس کیفیت سے آج نوع انسانی گزر رہی ہے، اہل اسلام کی ذمہ داری ہے کہ وہ سولوشن بن کر ابھریں۔ مرزوقی صاحب کے اٹھائے ہوئے سوالات کا ہم نے بطور نمونہ ذکر کیا ہے۔ ایسے سوالات اب ساری دنیا میں زیر بحث ہیں۔ ان سوالات کے حوالے سے حیاتِ انسانی کے اب تک کے سفر کے بے لاگ تجزیے میں بھی ہم مدد کریں اور مستقبل کی راہوں کو روشن کرنے میں بھی سرگرم کردار ادا کریں۔ اس بحث کومزید تخلیقی خیالات اور آئیڈیاز سے مالا مال کریں۔ ہر سطح پر زور وشور اور اعتماد کے ساتھ ان بحثوں کو اٹھائیں اور ایک بہتر دنیا کی تعمیر میں اپنا تاریخی کردار ادا کریں۔ ھذا و باللہ التوفیق

حواشی و حوالے:

1- دیکھیے سید سعادت اللہ حسینی؛ مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی

2- تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں

Chandra Muzaffar (2013); Rights; Religion and Reform; Routledge; London; pg 39-50

3- سنن ابن ماجہ؛ کتاب الفتن؛ باب العصبیۃ

4- سید سعادت اللہ حسینی(۲۰۰۹)؛ ترقی کا استعماری ما ڈل؛ شعبہ تنظیم جماعت اسلامی ہند

5- وارن بفیٹ امریکہ کے معروف سرمایہ کار، متعدد فلاحی اداروں کے سربراہ اور دنیا کے دولت مند ترین افراد میں سے ایک ہیں۔ مذکورہ مقولے کے حوالے کے لیے دیکھیں:

BBC News English; 4 March 2003; available at http://news.bbc.co.uk/2/hi/2817995.stm; retrieved on Sept 17, 2020

6- سید سعادت اللہ حسینی؛ زندگی نو (نومبر ۲۰۱۹)، نئی دہلی؛ اشارات؛ ص ۷ تا ۲۰

7- سنن ابن ماجہ؛ کتاب الطہارۃ و سننھا؛ بَابُ : مَا جَاءَ فِي الْقَصْدِ فِي الْوَضُوءِ وَكَرَاهِيَةِ التَّعَدِّي فِيهِ؛ روایت عبد اللہ بن عمروؓ

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: