ہندتوا اور سیکولر مفکرین

گذشتہ شمارے میں ہم نے ہندتوا کی نظریاتی بنیادوں کو واضح کرنے کی کوشش کی تھی۔ اس دفعہ ہم یہ دیکھنے کی کوشش کریں گے کہ اس نظامِ فکر کا مختلف سیکولر مکاتب فکر سے کیا تعلق ہے؟ جو لوگ خود کو سیکولر کہتے ہیں، نظریاتی سطح پر ہندتوا سےاُن کے اختلاف میں کتنی سنجیدگی ہے اور ہندتوا کے ارتقا میں سیکولر مکاتب فکرکے نظریاتی ابہام، الجھاؤیا مداہنت کا کتنا دخل ہے؟ نیز یہ کہ مختلف سیکولر افکار کے مقابلے میں حالیہ دنوں میں ہندتوا کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اس کےنظریاتی اسباب کیا ہیں؟

صرف سیاسی رد عمل، سماجی و نظریاتی مقابلے کا فقدان

جن قدروں کو آزادی کی جنگ کی رہ نما قدریں قرار دیا جاتا ہے، یعنی حقیقی جمہوریت، تمام شہریوں اور شہریوں کے تمام طبقات کے ساتھ مساوی سلوک اور انھیں عدل کی فراہمی، نفرت و تفریق کا خاتمہ اور پر امن بقائے باہم، ان قدروں کا آزادی کے بعد تیزرفتار زوال شروع ہوگیا۔ اس زوال کو صرف ہندتوا کی حالیہ سیاسی کام یابیوں تک محدود کرکے دیکھنا، بھارت کی تاریخ اور موجودہ صورت حال کا نہایت ناقص تجزیہ ہوگا اور اس ناقص تجزیے سے نہ مسئلے کی جڑ تک پہنچا جاسکتا ہے اور نہ اس کا حل تلاش کیا جاسکتا ہے۔

اس زوال کا سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ ان قدروں کی بنیاد پرہمہ گیر سماجی و نظریاتی تحریکیں، آزادی کے بعد تیزی سے غائب ہوگئیں۔ بے شک بائیں بازو کی تحریکیں، لوہیا کی سماج واد کی تحریک، امبیڈ کر اور پھر کانشی رام کی دلت تحریک اور جنوب میں دراوڑ تحریک، بنیادی طور پر نظریاتی وسماجی تحریکیں ہی تھیں، لیکن اول تو زیادہ تر یہ تحریکیں تاریخ کے ایک مختصر حصےمیں اور مخصوص جغرافیائی خطوں تک محدود رہیں اور دوم یہ کہ ان تحریکوں کا اصل مطمح نظر مذکورہ اصول نہیں رہے ۔ مذکورہ اصولوں کو انھوں نے ایڈریس کیا بھی تو جزوی اور ثانوی حیثیت میں ایڈریس کیا اور ان اصولوں کی بنیاد پر معاشرے کی تعمیر اور سماجی تبدیلی کے صبر آزما کام کے بجائے اپنی ساری توانائیاں حصول اقتدار کی کوششوں میں لگادیں۔ ان تحریکوں کا تفصیلی جائزہ بھی ہم آئندہ لیں گے۔ ان شاء اللہ۔

ان سے ہٹ کر، کانگریس اور اس کے بطن سے نکلنے والی مختلف جماعتیں سماجی سطح کی جدوجہد اور معاشرے کی ذہن سازی اور رائے سازی کے مستقل عمل سے دست بردار ہوگئیں اور انتخابی سیاست تک خود کو محدود کرلیا ۔ اس سے بڑھ کر ایسا بھی کثرت سے ہوتا رہا کہ انتخابی سیاست کے تقاضوں نے انھیں اپنے معلنہ اصولوں اور قدروں کو نظر انداز کرنے بلکہ ان کے خلاف پالیسیاں اختیار کرنے پر بھی مجبور کیا۔ یہ عمل آزادی کے بعد ہی سے شروع ہوا۔ ایک طرف ہندتوا کی نظریاتی تحریک تھی جو زندگی کے ہر شعبہ میں سرگرم ہوکر ملک کی رائے عامہ کو ایک خاص سمت میں ہم وار کررہی تھی اور دوسری طرف وہ سب نظریاتی تحریکیں جو اس کا توڑ ہوسکتی تھیں، وہ فکری و نظریاتی کشمکش سے تیزی سے دست بردار ہورہی تھیں۔ہندتوا کا نظریاتی عروج اس صورت حال کا فطری نتیجہ تھا۔ ذیل کے مباحث سے ہمارا یہ دعویٰ مزید واضح ہوگا۔

وجود کی وحدت اور سچائی کی اضافت کے نظریات

ہم یہ واضح کرچکے ہیں کہ ہندتوا مفکرین کے درمیان ایک مشترک اساسی نظریہ’وجود کی وحدت‘ کا نظریہ ہے۔ یہ نظریہ ویدانت کے فلسفے ’ادویتا‘ (अद्वैत वेदान्त)سے ماخوذ ہے اور اسی سے جوڑ کر یہ مفکرین بھارتی قوم کو ایک قابل پرستش زندہ وجود کے طور پر دیکھتے ہیں اور اسی سے ‘سامی مذاہب’کو غیر اور ہندوستانی تہذیب کے لیے اجنبی ہی نہیں بلکہ دنیا میں پائی جانے والی عدم رواداری کے لیے بھی ذمے دار سمجھتے ہیں۔

یہ بات صحیح ہے کہ ’سامی مذاہب‘ کے سلسلے میں یہ طرز فکر، سنگھ کے مفکرین کی ایجاد نہیں ہے۔’ابراہیمی مذاہب‘ (عیسائیت، اسلام اور یہودیت) اور ’دھارمک مذاہب‘(بدھ ازم، جین ازم، ہندوازم، سکھ مت وغیرہ) میں فرق کے تصورات انیسویں صدی اور بیسویں صدی کے متعدد ہندو مفکرین کے یہاں ملتے ہیں۔ لیکن بعد میں سنگھ نے ان تصورات کا بری طرح استحصال کرکے انھیں نفرت و تفریق کے ایجنڈے کی بنیاد بنادیا۔

ان تصورات کی افزائش،نوآبادیاتی دور کے ہندوستان میں متعدد محرکات کی وجہ سے ہوئی۔ ایک تو وہ تہذیبی ومذہبی کشمکش تھی جو انگریزی راج میں یہاں پیدا ہوئی۔ دوسری طرف انگریزوں ہی کی پالیسی کے نتیجے میں ہندو مسلم کشمکش کا آغاز ہوا۔تیسری طرف جدید تعلیم کے فروغ کے نتیجے میں مقامی مذاہب اور اُن کے بعض تصورات، مثلاً بت پرستی، ذات پات وغیرہ سے شدید بے زارگی عام ہوگئی اور ہندو مذہب کو شدید خطرات لاحق ہوگئے۔اس پس منظر میں بعض ہندو مفکرین و مصلحین نے ہندو سماج کے بعض فرسودہ تصورات اور رسوم کی اصلاح کا بیڑا اٹھایا اور ہندومت کی فلسفیانہ و نظریاتی برتری کو ثابت کرنے کی کوششوں کا آغاز کیا۔

اس مہم میں جو لوگ پیش پیش تھے، ان میں سب سے زیادہ عالمی شہرت و پذیرائی، بنگال کے ایک نوجوان راہب،نریندر ناتھ دتا کو حاصل ہوئی جو بعد میں سوامی ویویکانند (1863-1902) کہلائے۔ ویویکانند نے ہندو تصورات کو مغربی دنیا میں متعارف کرانے کا بیڑا اٹھایا اور اپنی غیر معمولی ذہانت، ابلاغی صلاحیت اور متحرک و کرشماتی شخصیت کا، اس مشن کی خاطر موثر استعمال کیا اور مختصر عمر کے باوجود، اس مشن میں کافی کام یاب رہے(محض ۳۹ سال کی عمر میں وہ انتقال کرگئے)۔

سوامی ویویکانند نے بہت واضح طور پر ادویتا کو تمام ہندوستانی فلسفوں و مذاہب کی حتمی کسوٹی قرار دیا۔ ان سے پہلے ’عقیدہ ثنویت‘ (द्वैत वेदान्त یعنی یہ عقیدہ کہ خدا اور مخلوق دو الگ الگ وجود ہیں)اور’ عقیدہ مشروط عدم ثنویت‘ (विशिद्वैत یعنی یہ عقیدہ کہ خدا اور مخلوق گرچہ الگ الگ ہیں لیکن ساری مخلوق خدا کے وجود ہی سے نکلی ہے اور خدا اور مخلوق میں وہی تعلق ہے جو سورج اور اس کی کرنوں میں ہوتا ہے)کو فلسفہ ویدانت کے تین مختلف مکاتب مانا جاتا تھا۔اس کے نتیجے میں مختلف الہیاتی فلسفوں کی گنجائش ہندوستانی مذاہب میں موجود تھی۔ لیکن ویویکانند نے انھیں تین مختلف مکاتب تسلیم کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر زور دیا کہ یہ اصلاً’روحانی ترقی’کے تین مدارج ہیں اور حتمی درجہ ادویتا ہی ہے۔[1] وویکانند نے ادویتا کی تشریح اس طرح کی کہ سچائی کی اضافت کےنظریے اور تمام باہم متضاد عقیدوں کے بیک وقت درست ہونے کے نظریے ’سرودھرم سمبھاو‘ (सर्वधर्म समभाव)کو ادویتا کا لازمی نتیجہ سمجھا جانے لگا۔ لکھتے ہیں:

“دنیا کے تمام ملکوں میں صرف ہندوستان ہی رواداری اور روحانیت کی زمین بن سکتا ہے…قدیم زمانے میں سنت اٹھے اور اعلان کیا (’एकं सद्विप्रा बहुधा वदन्ति‘ یعنی جو موجود ہے، وہ صرف ایک ہے۔ مذہبی رہ نما اسے مختلف ناموں سے پکارتے ہیں)یہ اب تک انسان کی زبان سے نکلنے والا سب سے یادگار جملہ تھا، اب تک تلاش کی گئی سب سے عظیم حقیقت تھی۔یہ حقیقت ہمارے قومی وجود کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔اسی کے نتیجے میں یہ زمین رواداری کی زمین بن گئی۔‘‘[2]

وویوکانند کے ان تصورات نے دور جدید کے متعدد ہندو مفکرین کو متاثر کیا۔ پنڈت نہرو ایک روشن خیال، مغربی طرز زندگی کے حامل، روادار اور سیکولر قائد و دانش ور تھےلیکن انھوں نے بھی لکھا ہے کہ وہ بھی ادویتا کے فلسفے سے متاثر تھے۔

میں کسی درجے میں وجود کی وحدت کے نظریے سے وابستہ ہوں اور ادویتا کے فلسفے میں مجھے کشش محسوس ہوتی ہے۔ فطرت کا تنوع اور مکمل ہونا، مجھ میں ہلچل پیدا کرتا ہے اور روح کی ہم آہنگی پیدا کرتا ہے۔ قدیم ہندوستانی اور یونانی مشرکانہ اور صنم پرستانہ ماحول میں مجھے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے سوائے خدا کے ان تصورات کے، جو ان سے وابستہ ہیں۔[3]

گاندھی جی، ویویکانند، نہرو وغیرہ کی سوچ، ادویتا کے فلسفے سے متاثر ہونے کے باوجود، اسلام کے سلسلے میں قدرے روادار تھی۔ویویکانند اور گاندھی کا سچائی کی اضافت(یعنی تمام مذاہب کے سچ ہونے) کے نظریے پر بھی پختہ ایمان تھا لیکن سامی مذاہب اور ہندوستانی مذاہب کی تفریق اور ہندوستانی قومیت کو یہاں کے اِن مخصوص فلسفوں کے ساتھ وابستہ کرنے کی روش کووہ صحیح نہیں سمجھتے تھے اور اسلام و عیسائیت کو اس کے تمام عقیدوں کے ساتھ یہاں اس کا جائز مقام دینا چاہتے تھے۔

گاندھی جی نے ایک طرف ہندو مذہب کی مذکورہ خصوصیات کا فخر کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ تمام مذاہب کی سچائی پر اپنے ایمان کو بھی جگہ جگہ واضح کیا ہے (بلکہ خود کو سناتنی ہندو کے ساتھ مسلمان اور عیسائی بھی قرار دیا ہے[4])لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا ہے کہ یہ ان کے ذاتی عقائد ہیں۔ اگر کسی مسلمان یا عیسائی کا عقیدہ یہ ہو کہ صرف اس کا عقیدہ ہی صحیح ہے (اور دوسرے عقیدے غلط ہیں)تو اس عقیدے کو رکھنے کا حق بھی اُسے حاصل ہے۔بلکہ ’’اس کا ضمیر اُسے اپنے مذہب کی سچائی کی تبلیغ کے لیے آمادہ کرتا ہے‘‘ تو اس تبلیغ میں بھی کوئی اعتراض کی بات نہیں ہے۔شرط صرف یہ ہے کہ کسی پر مذہب (یا اس کی تبدیلی ) کے سلسلے میں زور زبردستی، تشدد یا لچ کا استعمال نہ ہو۔ [5]یہ معقول بات تھی۔

سوامی وویکانند، ادویتا کی پرزور تبلیغ کے باوجود اسلام کے بڑے مداح تھے۔ وہ یہ تسلیم کرتے تھے کہ اسلام کی اصل کشش اس کے سادہ، فطری عقائد اور اصولوں میں ہے۔ ایک جگہ انھوں نے یہ بھی لکھا کہ مساواتِ انسانی کا جو آئیڈیل ادویتا کے فلسفے میں ملتا ہے وہ ہندو سوسائٹی میں کبھی حقیقت کا روپ اختیار نہیں کرسکا اور اس حقیقت کے قریب عملاً کوئی آسکا تو وہ اسلام ہے۔ ان کے نزدیک بھارت کا تابناک مستقبل’ویدانت کےدماغ‘ اور ’اسلام کے جسم‘ کے امتزاج میں پوشیدہ تھا۔ [6] ان کی ان باتوں سے اور متعدد دوسرے خطبات سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ وہ اسلام کو بھارت کی قومیت سے جدا نہیں کرتے تھے بلکہ اس کا لاینفک جز مانتے تھے۔ مذہب کو ملکی اور بیرونی یا دھارمک و ابراہیمی کے خانوں میں بانٹ کر وہ اسلام سے مکمل علیحدگی کے قائل نہیں تھے بلکہ خالص عقلی طریقوں سے سچائی کی تلاش کے داعی تھے۔ [7]

ان مفکرین کے خیالات کی یہ شفافیت جاری رہتی تو کوئی مسئلہ نہیں تھا ۔لیکن سیکولر خیمے میں،دانش وروں کی ایک اور جماعت بھی تھی جو بدقسمتی سے یہ باریک فرق ملحوظ نہیں رکھ سکی اور سرو دھرم سمبھاو اور عقیدوں کے تعدد کے فلسفے اس طرح ہندوستانی تہذیب کی سب سے بڑی علامت کے طور پر پیش کیے گئے کہ عام ہندوؤں کو اسلام کے عقیدے میں اجنبیت کا احساس اور اپنے مذاہب کی توہین و ہتک کی بو محسوس ہونے لگی اور اس کا استحصال کرتے ہوئے، ہندتوا کے مفکرین نے اسلام بے زاری کی فضا کو عام کرنے کی کوششیں شروع کیں۔ملک کے دوسرے صدر جمہوریہ ڈاکٹرسرو پلّی رادھا کرشنن، دور جدید میں ہندو مذہب کے معتبر ترجمان سمجھے جاتے ہیں ۔ انھوں نے بڑے فخر سے ہندو مذہب کی خصوصیات پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھاہے کہ ہندو مذہب میں کوئی ’بے لچک عقیدہ‘نہیں ہے۔ اس نے بہت سے خداؤں کو اور پرستش کے مختلف طریقوں کو قبول کیا اور اسے بخوشی اپنالیا ہے۔ ہند و مذہب، ’’سامی مذاہب کے اس عجیب و غریب جنون‘‘ سے پاک ہے کہ ایک مخصوص مذہبی مابعد الطبیعات کو تسلیم کیے بغیر نجات ممکن نہیں ہے اوراسے تسلیم نہ کرنا اتنا بڑا گناہ ہے کہ اس کی پاداش میں دائمی طور پر جہنم کے ٹارچر کا شکار رہنا ہوگا۔[8] اس کے بعد لکھتے ہیں:

’’تنگ نظر وحدانیت کی عدم رواداری، ساری انسانی تاریخ میں خون کے حروف سے لکھی ہوئی ہے، اس وقت سے جب اسرائیلی قبائل کنعان میں آوارد ہوئے۔ ایک حاسد خدا (jealous God)کے پرستاروں نے اجنبی مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف خوں ریز جنگیں چھیڑ دیں۔مفتوحین کے خلاف مظالم کے لیے انھوں نے الہامی احکام کا سہارا لیا۔ بنی اسرائیل کا یہی جذبہ عیسائیت اور اسلام میں منتقل ہوا۔ مغربی تمدن کی بنیاد اگر فلسطین (یعنی عیسائیت) کے بجائے یونانی تہذیب بنتی تو یہ اس کے حق میں زیادہ بہتر ہوتا۔‘‘ [9]

واحد عقیدے کو صحیح سمجھنے والے مذاہب(جن کا یہ لوگ سامی مذاہب [semitic religions]ابراہیمی مذاہب [Abrahamic religions]اور منظم مذاہب [Organised religions]وغیرہ ناموں سے ذکر کرتے ہیں) کے سلسلے میں بے زاری و کراہیت کی یہ روش ہر دور میں سیکولر دانش وروں کے یہاں بھی رہی ہے اورموجودہ دور کے روشن خیال سیکولر دانش وروں میں بھی پائی جاتی ہے۔اس وقت شاید کانگریس کے فکر کی دانش ورانہ ترجمانی میں سب سے نمایاں نام، تریوندرم کے رکن پارلیمان،ششی تھرور کا ہے ۔وہ لکھتے ہیں:

’’ہندو کی حیثیت میں، میرا تعلق دنیا کے اُس واحد بڑے مذہب سے ہے جو اکیلا سچ ہونے کا دعوی نہیں کرتا۔ میں دوسرے انسانوں کا سامنا نہایت دوستانہ طریقے سے اس عقیدے کے بوجھ کے بغیر کرسکتا ہوں کہ میں ایسے صراط مستقیم پر گام زن ہوں جس سے وہ محروم ہیں۔ یہ عقیدہ تمام سامی مذاہب، عیسائیت، اسلام اور یہودیت میں مرکزی اہمیت کا حامل ہے۔ بائبل میں مسیح کہتے ہیں ’’میں ہی واحد راہ حق، سچائی اور زندگی ہوں۔کوئی باپ (خدا) تک نہیں پہنچ سکتا سوائے میرے واسطے کے‘‘ قرآن کہتا ہے’’ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ محمد اللہ کے رسول ہیں‘‘ گویا غیر مومنوں کے لیے نجات اور جنت تو دور کی بات ہے بچاؤ کا بھی کوئی راستہ نہیں ہے۔ہندوازم کہتا ہے کہ تمام عقیدے اور راستے درست ہیں۔۔۔مجھے فخر ہے کہ میں اپنے مذہب کے اصولوں میں کسی مداہنت کے بغیر دوسرے مذاہب کے تقدس کا احترام کرسکتا ہوں۔‘‘[10]

ششی تھرور نے ہندتوا پر تنقید کرتے ہوئے ہندتوا کے لیے ’ابراہیمی ہندو‘ (Abarahamic Hinduism) کا لفظ استعمال کیا ہے[11] اور ان کے بیانیے کو ہندو مذہب کا ’سامی کرن‘ (Semitizing Hinduism) [12] قرار دیا ہے اور ایک جگہ ارون شوری کے حوالے سے ’اسلام زدہ ہندوازم‘ (Islamicized Hinduism)کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں۔ [13]ابراہیمی طرز کے مذاہب کو برائیوں کی جڑ تو کئی جگہ قرار دیا ہے۔ [14]

اس طرح کے دعوے کرتے ہوئے یہ دانش ور ایک گہرے اندرونی تضاد کو محسوس نہیں کرتے۔ وہ یہ کہ اسلام اور عیسائیت کو ماننے والے اس ملک میں کروڑوں کی تعداد میں موجود ہیں، ان کے طرز فکر کو مسترد کرکے اور انھیں نہ صرف غلط بلکہ تمام برائیوں کی جڑ قرار دے کر، وہ کروڑوں لوگوں کو اور ان کے عقیدے کو الگ تھلگ (exclude)کررہے ہیں۔ اس طرح ہر عقیدے کو درست سمجھنے کے اپنے فکر سے خود ہی انحراف کررہے ہیں۔ ادویتا،سرو دھرم سمبھاو، و غیرہ بھی بہر حال مذہبی نظریات ہی ہیں۔ انھیں واحد سچائی کے طور پر پیش کرنے سے سب سے پہلے خود سچائی کی اضافت کے نظریے ہی پر ضرب پڑتی ہے۔

تمام مذہبی دعووں کو بیک وقت درست سمجھنے کے اصول کو ایک آفاقی اصول بنانے کی کوشش ہمارے خیال میں نظریاتی تضاد و سقم کی حامل ہی نہیں بلکہ غیر فطری بھی ہے۔ ایک دوسرے سے متصادم عقائد کے حامل مذاہب و نظریات، صحت مند بحث و مذاکرات اور سچائی کی تلاش کی مسلسل کوشش کے ساتھ اور رواداری کے جذبے ہی سے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ رواداری سے آگے بڑھ کر سب کو سچ ماننا، یہ خود بھی ایک عقیدہ ہوسکتا ہے لیکن اس عقیدے پر اصرار اور زبردستی سے، دوسرے عقائد کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔

ان افکار کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمام مذاہب کے احترام کے دعووں کے ساتھ اوران کے قدم بہ قدم اسلام کے سلسلے میں شدید نفرت کے جذبات بھی اس ملک میں فروغ پائے۔سبھی مذاہب کو درست سمجھنے کے نظریے کو ’بھارت کا ڈی این اے‘سمجھا گیا اور چوں کہ اسلام اور عیسائیت تمام مذاہب کوصحیح نہیں سمجھ سکتے، اس لیے یہ سمجھا گیا کہ یہ یوروپی مذاہب ہیں جن کا ہندوستانی تہذیب اور یہاں کے ’ڈی این اے ‘سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے نتیجے میں ہندتوا کو یہ موقع ملا کہ وہ’سامی مذاہب کو، وِلین (villain) بناکر ان سے نفرت کو اپنی سیاست کی بنیاد بنائیں۔تاریخی اسباب کے ساتھ، اس نظریاتی یا فلسفیانہ رجحان نے ہندتوا کا کام نہایت آسان کردیا۔

ہر ایک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مذہب و عقیدے کی برتری ثابت کرے۔ اسلام یا عیسائیت پر سنجیدہ علمی تنقید میں بھی کوئی مضائقہ نہیں ہے (ویسے ہی جیسے ہندو افکار و نظریات پر تنقید میں کوئی حرج نہیں ہے)۔ لیکن مسئلہ اس وقت پیدا ہوجاتا ہے جب یہ حضرات اپنے ان خالص مذہبی تصورات و معتقدات کو ہندوستانی قومیت سے جوڑدیتے ہیں اور انھیں ہندوستانی قومیت کا نشانِ امتیاز بنانے کی کوشش کرنے لگتے ہیں۔ اوپر کے اقتباسات سے واضح ہے کہ متعدد مفکرین نے ہر زمانے میں اس کی کوشش کی۔ اس سے اسلام اور عیسائیت ہندوستانیت کے دائرے سے باہر ہوجاتے ہیں۔ شاید اسی تناظر میں مولانا ابوالکلام آزاد ؒکو کانگریس کے خطبہ صدارت میں وہ مشہور بات کہنی پڑی تھی جو اس طرح کے مباحث میں اکثر نقل کی جاتی ہے:

’’میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں۔ اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں۔ میں تیار نہیں کہ اس کا کوئی چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں۔ بحیثیت مسلمان ہونے کے میں مذہبی اور کلچرل دائرے میں اپنی ایک خاص ہستی رکھتا ہوں اور میں برداشت نہیں کر سکتا کہ اس میں کوئی مداخلت کرے لیکن ان تمام احساسات کے ساتھ میں ایک اور احساس بھی رکھتا ہوں … میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں۔ میں ہندوستان کی ناقابلِ تقسیم متحدہ قومیت کا ایک عنصر ہوں۔ میں اس متحدہ قومیت کا ایک ایسا عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورارہ جاتا ہے۔ میں اس کی تکوین (بناوٹ) کا ایک ناگزیر عامل (factor) ہوں میں اپنے اس دعویٰ سے کبھی دست بردار نہیں ہو سکتا۔‘‘ [15]

متحدہ قومیت کی بحث اورمولانا مرحومؒ کے بعض اور خیالات سے قطع نظر، اس عبارت کے الفاظ خصوصیت سے لائق توجہ ہیں۔اس کے بین السطور میں اُن افکار کا تاثر دیکھا جاسکتا ہے جو مسلمانوں کو اس ملک کی تہذیب سے جدا کرنا چاہتے تھے اور اُس وقت ملک میں بڑے زور و شور سے ان کی پیش کش ہورہی تھی۔

اس اقتباس میں مولانا ابوالکلام آزادنے اپنا پورا زور کلام صرف کرکے، جس بات کی طرف اشارہ کیا ہے، واقعہ یہ ہے کہ آزاد ہندوستان میں اسےصدق دل کے ساتھ بہت کم قبول کیا گیا۔ شہری کی حیثیت سے مسلمانوں کو حقوق ضرور دیے گئے لیکن ان کے مذہبی وجود اور ان کی تہذیب کو ہندوستان کا لازمی جز سمجھنے میں ابہام کے رویے کو ترجیح دی گئی، بلکہ تکثیریت کے ایسے فلسفوں سے ہندوستانیت کو جوڑا گیا جن میں اسلام اور عیسائیت جیسے مذاہب کے لیے کوئی گنجائش نہیں نکلتی تھی۔سیکولر مفکرین کو چاہیے تھا کہ وہ اگر ادویتا یا سرو دھرم سمبھاو وغیرہ میں یقین رکھتے ہیں تو بے شک اسےپیش کریں لیکن وضاحت کے ساتھ اسلام اور عیسائیت کا یہ حق بھی تسلیم کرتے کہ وہ اپنےعقائد کو واضح سچائی کے طور پر پیش کرسکیں۔ اوپر ویویکا نند، گاندھی اور نہرو کے حوالوں سے جس محتاط زبان اور واضح لب و لہجے کا ذکر آیا ہے، ضرورت تھی کہ بعد میں بھی اس کا خیال رکھا جاتا ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سیکولر مفکرین کی ان نادانستہ فکری الجھنوں سے ہندتوا کے درخت کو پھلنے پھولنے میں بڑی مدد ملی ہے۔آئندہ جب مطلوب ڈسکورس پر بات ہوگی تو ہم ان امور پر اپنا نقطہ نظر تفصیل سے واضح کریں گے۔ ان شاء اللہ۔

بھارت ماتا کی سیاست

ادویتا ویدانتا کے سیاسی کرن کی سب سے نمایاں مثال ‘بھارت ماتا’ کی سیاست ہے۔یعنی بھارت کو ایک واحد زندہ وجود کے روپ میں دیکھنا، اسے ایک دیوی کے روپ میں دیکھنا اور اس کی پوجا کرنا، یہ سب باتیں آج سنگھ کے نظام فکر سے وابستہ سمجھی جاتی ہیں۔ آزادی سے قبل پہلابھارت ماتا مندر وارانسی میں قائم کیا گیا تھا اور گاندھی جی نے اس کا افتتاح کیا تھا۔ہندتوا کے مفکرین بھارت ماتا کی سیاست کے لیے اسے دلیل بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔ لیکن یہ بات واضح رہے کہ اس وقت ‘بھارت ماتا’ کا مخصوص فلسفہ اور اس کی بنیاد پر تفرقہ پرداز سیاست کا آغاز نہیں ہوا تھا۔وارانسی کے اس مندر میں کوئی مورتی نہیں تھی بلکہ صرف بھارت کا نقشہ رکھا گیا تھا۔[16] اس طرح اُسے قومی جذبات کے ایک علامتی اظہار کے طور پر اختیار کیا گیا تھا۔

بعد میں گولوالکر وغیرہ نے کس طرح بھارت ماتا کو مخصوص فلسفیانہ اور مذہبی رنگ دیا، اس کی وضاحت ہم پچھلے مہینے کرچکے ہیں۔ ۱۹۸۳ میں جب وشو ہندو پریشد نے بھارت ماتا مندر کی تعمیر کا بیڑا اٹھایا تو اس کی پشت پر یہی فلسفے تھے۔ لیکن اس کے باوجود ۱۵ مئی ۱۹۸۳ کو اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے اس کا افتتاح کیا۔[17] اقتدار کی خواہش میں، ہندتوا کے فلسفوں کے آگے سیکولر گروہوں کی نظریاتی پسپائی کی یہ ایک بڑی اہم مثال ہے۔ اس مندر کی جو تفصیلات اس کی سائٹ پر دست یاب ہیں، اُن سے اس کے علامتی پیغام کو سمجھا جاسکتا ہے۔ آٹھ منزلوں والی عمارت میں پہلی منزل بھارت ماتا کی مورتی کے لیے وقف ہے۔ دوسری منزل (شور مندر) آزادی کی جدوجہد میں حصہ لینے والے رہ نماوں کے لیے وقف ہے۔ تیسری منزل (ماترو مندر) بھارت کی تاریخ کی عظیم خواتین کے لیے ہے۔ چوتھی منزل سنت مندر ہے جس میں جین مت، سکھ مت اور بد ھ مت (دھارمک مذاہب)کے مذہبی رہ نماؤں کی مورتیاں رکھی گئی ہیں۔پانچویں منزل پر ملک کے مختلف علاقوں کی تہذیبی خصوصیات واضح کرنے والی تصاویر ہیں۔چھٹی منزل پر شکتی، درگا، پاروتی، ستی، رادھا، سرسوتی اور کالی دیویوں کی مورتیاں ہیں۔ ساتویں منزل، وشنو کے لیے وقف ہے جب کہ آٹھویں منزل کی بلندی پر شیو مندر کے ساتھ کوہ ہمالیہ کے نظارے کا انتظام ہے۔[18] اب گذشتہ چند برسوں میں ایسے مندر ملک کے مختلف شہروں میں بننے لگے ہیں۔

قوم پرستی اور’ہندوستانی مذاہب‘ کے عقیدوں اور رسوم میں گڈ مڈ کا یہ علامتی اظہار،اُسی مخصوص فلسفہ ہندوستانیت کی نمائندگی کرتا ہے جس کی ہم اوپر تشریح کرچکے ہیں۔ اس میں مختلف ‘ہندوستانی مذاہب’، ان کے شعائر اور ان کے معتقدات ایک مشترک ورثے کے طور پر ظاہر ہوتے ہیں اور اس مشترک ورثے کا ہندوستانی قوم سے خاص تعلق قائم ہوتا نظر آتا ہے۔ جب کہ نام نہاد’ سامی مذاہب‘اور ان کے مذہبی تصورات و احساسات کے لیے اس اسکیم میں کوئی جگہ باقی نہیں رہتی۔ وہ اس ماحول (ecosystem)سے غیر متعلق اور اس کے لیے اجنبی نظر آنے لگتے ہیں۔

فرد، قوم اور مذہبی یا تہذیبی طبقات

ہمارا ملک مختلف ذاتوں، لسانی گروہوں، مذہبی فرقوں اور مختلف تہذیبوں کا مجموعہ ہے۔ یہ ایک ٹھوس اور زندہ حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو نظر انداز کرکے اس ملک کے لیے کوئی راستہ ڈھونڈا نہیں جاسکتا۔ ہمارا خیال یہ ہے اکثریت پرستی (majoritarianism)کی موجودہ لہر کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ، سیکولر حضرات کی جانب سے،اس ملک کی اس انتہائی اہم حقیقت کو بری طرح نظر انداز کیا جاتا رہا۔

ہم نے یہ بات واضح کی ہے کہ ہندتوا کے مفکرین کا سارا زور بھارتی قوم پر ہے۔ وہ قوم کو ایک زندہ ہستی کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ اس کی پوجا و عبادت کے بھی داعی ہیں۔ افراد کے انفرادی حقوق کو اس پر قربان کرنا چاہتے ہیں۔ ادویتا کے قدیم فلسفے کی وہ جدید سیاسی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ ملک کے شہریوں اور افراد کی ہستیاں، ان کے حقوق اور ان کے مفادات، قوم کے مشترکہ وجود میں گم ہوجاتے ہیں۔

اس کے مقابلے میں دوسری طرف سیکولر مفکرین نے جدید ہندوستان کا جو خواب دیکھا اُس میں ایک طرف مشترکہ ہندوستانی قوم ہے تو دوسری طرف ایک شہری یا ایک فرد ہے۔ انھوں نے اپنی توجہ، شہریوں اور افراد کے حقوق پر مرکوز کی اور شہریوں کے اجتماعی گروہ خاص طور پر مذہبی گروہوں کو اور ان کے مفادات کو خاطر میں نہیں لایا۔

دستور ساز اسمبلی میں جب نئے ہندوستان کا انتظامی ڈھانچہ زیر بحث آیا تو ایک طرف وہ لوگ تھےجو ملک کو طاقت ور اور بااختیار ریاستوں کے وفاق کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے۔ یہی ہندوستان جیسے ملک کے لیے زیادہ فطری شکل تھی۔ لیکن قوم پرست قائدین، ایک ایسا متحد ملک دیکھنا چاہتے تھے جس میں مرکز بہت طاقتور ہو اور پورے ملک کو ایک واحد اکائی سمجھ کر انتظامی ڈھانچہ تشکیل دیا جائے۔[19] آخر میں جو شکل طے پائی وہ مجموعی طور پر ایک متحدہ ملک ہی کی تھی اگرچہ وفاق کے حامیوں کی رعایت سے وفاقی ڈھانچے کے بعض پہلو بھی شامل کرلیے گئے ۔ (اب ان پہلوؤں کو بھی ختم کرنے یا کم زور کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں)

لیکن زیادہ بڑا مسئلہ مذہبی اکائیوں کے سلسلے میں پیش آیا۔ دستور ساز اسمبلی میں اقلیتوں کے لیے جو سب کمیٹی بنی تھی، اس میں بحث کا آغاز اقلیتوں کے لیے جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب سے ہوا۔ (یعنی اقلیتوں کے الگ حلقہ ہائے انتخاب ہوں اور وہ اپنی آبادی کے تناسب سے اپنے نمائندے منتخب کریں)۔اسے ملک کے اتحاد کے لیے نقصان دہ سمجھا گیا اور اکثریتی رائے سے یہ تجویز نامنظور ہوگئی،لیکن اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کی یہ شکل نکالی گئی کہ اُن کے لیے (مسلمانوں، درج فہرست ذاتوں اور عیسائیوں کے لیے) نشستیں محفوظ کی گئیں۔ ڈاکٹر امبیڈکر کی تجویز تو یہ تھی کہ اکثریتی طبقات کے امیدواروں کے لیے بھی منتخب ہونے کے لیے یہ ضروری قرار دیا جائے کہ وہ اقلیتوں کے ووٹوں کا ایک خاص تناسب لازما ً حاصل کریں[20] تاکہ منتخب امیدوار، اقلیتوں کے مسائل کو کبھی نظر انداز نہ کرسکیں۔امبیڈکر کی یہ تجویز تو قبول نہیں ہوئی لیکن اقلیتوں کو ریزرویشن دینے والی تجویز قبول ہوگئی۔ اسی طرح مرکزی کابینہ، ریاستی کابینہ اور سول سروس میں بھی اقلیتوں کے لیے نشستوں کو محفوظ کیا گیا۔[21] کمیٹی کی اس سفارش کو، دستور ہند کو ڈرافٹ کرنے والی کمیٹی نے بھی قبول کرلیا جس کے سربراہ ڈاکٹر امبیڈکر تھے۔ اور ۲۶فروری ۱۹۴۸ کو دستور ہند کا جو ڈرافٹ گزٹ آف انڈیا میں شائع ہوا اس میں ریزرویشن کی یہ دفعات موجود تھیں۔ دفعہ ۲۹۲ میں لوک سبھا میں اقلیتوں کو ریزرویشن دیا گیا تھا اوردفعہ ۲۹۴ میں ریاستی اسمبلیوں میں بھی اسی طرح کے ریزرویشن فراہم کیے گئے۔[22]

لیکن جب یہ ڈرافٹ دستور ساز اسمبلی میں پیش ہوا تو درج فہرست ذاتوں کے لیے تو ریزرویشن قبول کرلیا گیا لیکن اقلیتوں کے لیے ریزرویشن کو نا منظور کردیا گیا۔ دستور ساز اسمبلی کے مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر ممبران بھی اسے ملک کے اتحاد کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔ ان کا تصور بھی یہی تھا کہ مذہبی گروہ کی کوئی حیثیت تسلیم نہ کی جائے اورافراد کو مساوی حقو ق دینے پر اکتفا کیا جائے۔[23]دستور ساز اسمبلی میں پنڈت گووند ولبھ پنت کی تقریر [24]اور دستور ساز اسمبلی کے صدر کے نام اگست ۱۹۴۷ میں لکھا گیا سردار پٹیل کا خط اس موقف کی وضاحت کرتا ہے۔ ششی تھرور نے اس پوری بحث کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

“دستور ساز اسمبلی میں اصل بحث دو فریقوں کے درمیان تھی۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو انفرادی شہریت کے ایسے تصور پر مصر تھے جو ذات مذہب جیسی ناقابل تغیر شناختوں سے ماورا ہودوسری طرف وہ لوگ تھے جن کا اصرار تھا کہ بھارت کی قومیت کو ان ناگزیر شناختوں کے وفاق کے طور پر دیکھا جائے۔ بہت سے قومی قائدین جنھوں نے اسمبلی کے باہر متحدہ ہندوستان کے لیے پر جوش بحثیں کیں(ان میں کئی لوگوں کا خیال ہے کہ گاندھی جی اور مولانا آزاد بھی شامل تھے)وہ سمجھتے تھے کہ بھارت اصلاً مختلف فرقوں کا مجموعہ ہی ہے اور ان کے درمیان پرسکون بقائے باہم ہی میں بھارت کی ترقی پوشیدہ ہے۔ لیکن دستور ساز اسمبلی دوسری سمت میں گئی اور شعوری طور پر انفرادی شہریت کو بھارتی قومیت کی بنیاد بنایا۔‘‘[25]

اگرچہ دستور ہند میں اقلیتوں کو بحیثیت ایک گروہ کے بھی بعض حقوق دیے گئے ہیں۔مذہبی معاملات کے انتظام کا حق (دستور ہند کی دفعہ ۲۶) تعلیمی اداروں کے قیام کا حق (دفعہ ۳۰) اور پرسنل لا (مسلم پرسنل لا اپلی کیشن ایکٹ ۱۹۳۷ جس کی اجازت اور گنجائش دستور میں بھی باقی رکھی گئی)کو ان حقوق کی مثالوں کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان چند مثالوں کے استثنا کے ساتھ مجموعی طور پر دستور کا رخ یہی ہے کہ وہ فرد کے حقوق تو تسلیم کرتا ہے لیکن گروہوں کے، بالخصوص مذہبی گروہوں کے حقوق کو اہمیت نہیں دیتا اور مذہبی گروہوں کے سیاسی، سماجی، تہذیبی حقوق کی حفاظت کو فرد کے حقوق ہی کے زاویے سے دیکھتا اور اسی حد تک انھیں محدود کرتا ہے۔ خاص طور پر سیاسی اختیارات کے سلسلے میں دستور کا رخ یہی ہے کہ وہ شہریوں کو تو سیاسی طاقت دیتا ہے لیکن گروہوں کو کسی سیاسی طاقت کا مستحق نہیں سمجھتا۔ یہ رخ امبیڈکر کے وژن کے بالکل خلاف تھا چناں چہ اس پر انھوں نے بعد میں کھل کر اپنی مایوسی کا اظہار کیا:

’’بدقسمتی سے ہندوستانی قوم پرستی نے یہ عقیدہ اختیار کرلیا ہے کہ اکثریت کو اپنی مرضی کے مطابق اقلیتوں پر حکومت کا الہامی حق حاصل ہے۔ اقلیت اگر اقتدار میں شرکت کا دعوی کرے تو اسے فرقہ پرستی سمجھا جاتا ہے اور اکثریت سارے اقتدار پر اجارہ داری حاصل کرنا چاہے تو اسے قوم پرستی کہا جاتا ہے۔اس سیاسی فلسفے سے رہ نمائی حاصل کرتے ہوئے اکثریتی طبقات کسی درجے میں بھی، سیاسی طاقت میں اقلیتوں کی ساجھے داری کے لیے تیار ہیں نہ اس سلسلے میں کسی قانونی و دستوری انتظام کے لیے آمادہ ہیں ‘‘[26]

مذہبی گروہوں کو ایک اکائی کے طور پر دیکھ پانے میں ناکامی ہمارے خیال میں سیکولر مفکرین کی ایک بڑی غلطی تھی۔اس کی پشت پر دو طرح کے محرکات کارفرما تھے۔بہت سے قائدین، اُن نظریات اور مذہبی فلسفوں سے متاثر تھے جن کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے۔ دوسری طرف نہرو جیسے مفکرین تھے جوبرطانوی ماڈل سے متاثر تھے اور ہندوستان کو اسی ماڈل پر ایک متحدہ اور متجانس (homogeneous)قوم کے روپ میں دیکھتے تھے۔ آزادی کے بعد بھی زیادہ تر یہی طرز فکر غالب رہا۔

ایک ایسے ملک میں، جہاں چھوٹے سے چھوٹا دیہات بھی ذاتوں، فرقوں اور طبقات کی بنیاد پر جداگانہ بستیوں میں بٹا ہوا ہو، جہاں ستر سال بعد آج بھی مندر، مسجد کے مسئلے سب سے اہم مسئلے مانے جاتے ہوں اور اپنی تمام ترقیاتی ضرورتوں کو نظر انداز کرکے لوگ ذات اور فرقے کی بنیاد پر ووٹ دیتے ہوں، یہ ایک غیر فطری مثالیت پسندی تھی کہ بھارت میں فرقوں اور تہذیبوں کے وجود کو نظر انداز کردیا جائے۔ بعض قائدین نے خلوص نیت سے یہ چاہا کہ ملک کو ایک متحد اکائی بنادیا جائے۔لیکن اس کوشش میں وہ اس ملک کی سب سے بڑی حقیقت کو نظر انداز کر بیٹھے اور اس کے نتیجے میں بجائے اتحاد کو مستحکم کرنے کے انتشار کو نشوونما ملی۔

ہمارے ملک میں برطانیہ کے انتخابی نظام کی نقل کی گئی ہے جس میں اکثریت کے استبداد اور پاپولزم کے سد باب کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ یہ نظام برطانیہ جیسے ملک کے لیے تو مفید ہوسکتا تھا جو اُس وقت صرف ایک نسلی گروہ یعنی انگریزوں کا ملک تھالیکن ہندوستان جیسے ہمہ تہذیبی ملک میں مختلف تہذیبی گروہوں کے مفادات کا تحفظ اس سے ممکن نہیں تھا۔آج بھی یہ انتخابی نظام( جو پلورلیٹی ووٹنگ [plurality voting]کہلاتا ہے) انھی ملکوں میں رائج ہے جو سابق میں برطانیہ یا امریکہ کی نو آبادیات رہ چکے ہیں۔ہندوستان جیسے ملک کے لیے بیلجیم،اسپین،نیدرلینڈجیسے یورپی ملکوں کا تجربہ زیادہ سود مند تھا (یہاں کے انتخابی نظام کو متناسب نمائندگی کا نظام[proportionate representation] کہا جاتا ہے)جہاں افراد کے ساتھ ساتھ مختلف نسلی، لسانی، تہذیبی یا نظریاتی گروہوں کے وجود کو بھی تسلیم کیا گیا ہے اور ان کے سیاسی مفادات کا لحاظ رکھتے ہوئے سیاسی نظام کی تشکیل کی گئی ہے۔ حالیہ دنوں میں، جب تکثیریت کی صورت حال بہت سے ملکوں میں پیدا ہوئی تو متعدد ممالک پلورلیٹی نظام سے متناسب نمائندگی کی مختلف شکلوں کی طرف یا اس سے ملتے جلتے ماڈلوں کی طرف منتقل ہوئے ہیں۔ قبرص، ہانگ کانگ، لبنان، نیپال، نیوزی لینڈ، فلپائن،جنوبی افریقہ جیے متعدد ممالک نے اس فرسودہ نظام کو ترک کرکے متناسب نمائندگی کی مختلف شکلوں کو اختیار کیا ہے۔[27] اکثر یوروپی ملکوں میں یہ صورتیں پہلے سے رائج ہیں۔کہا جاتا ہے کہ جمہوری ملکوں کی عظیم اکثریت یعنی 195جمہوری ملکوں میں سے 123ممالک میں متناسب نمائندگی کی مختلف شکلیں رائج ہیں۔[28]اب خود برطانیہ میں اصلاحات کی تحریکیں چل رہی ہیں۔[29]لیکن یہ نہایت حیرت کی بات ہے کہ جس ملک میں سب سے زیادہ اس کی ضرورت تھی، یعنی دنیا کا سب سے بڑا جمہوری ملک جہاں سب سے زیادہ نسلی، تہذیبی، اور مذہبی تنوع پایا جاتا ہے، وہاں نہ پہلے اسے خاطر میں لایا گیا اور نہ آج اس پر کوئی سنجیدہ بحث پائی جاتی ہے۔

اسرائیل ( غاصب مذہبی ریاست) نے بھی مختلف جغرافیائی و تہذیبی پس منظر رکھنے والے یہودی گروہوں کے حقوق کے لیے متناسب نمائندگی کی ایک انتہائی شکل اختیار کی ہے ۔اس کی وجہ سے یہاں چھوٹے سے چھوٹا نسلی و تہذیبی گروہ بھی بہت سے اختیارات کا حامل ہوجاتا ہے اور اپنے مفاد کے خلاف اقدامات کو آسانی سے روک سکتا ہے۔اس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام ضرور پیدا ہوتا ہے لیکن شہریوں کے ہر گروہ کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں۔ اسرائیل کی سابق وزیر اعظم نے ایک دفعہ اس نظام کے سلسلے میں کہا تھاکہ اسرائیل میں چھ ملین وزرائے اعظم ہیں۔[30]

یوگیندر یادو کی حالیہ کتاب [31]Making Sense of Indian Democracyاس موضوع کے بہت سے پہلوؤں کی خوب صورتی سے وضاحت کرتی ہے۔نیشن اسٹیٹ اور اسٹیٹ نیشن میں فرق کی جو لطیف بحث انھوں نے چھیڑی ہے وہ بڑی فکر انگیز ہے۔ نیشن اسٹیٹ وہ ہے جہاں پر ایک ہی تہذیبی یا تمدنی روایت کو غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ ریاست بھی اسی ایک تہذیبی شناخت سے خود کو وابستہ کرتی ہے۔اور اسٹیٹ نیشن وہ ہوتا ہے جہاں ریاست ’تہذیبوں کے وفاق‘ کے طور پر کام کرتی ہے اور متعدد تہذیبی شناختوں اور تہذیبی قومیتوں کو گنجائش فراہم کرتی ہے ۔ انھوں نے صحیح کہا ہے کہ بھارت اصلاً اسٹیٹ نیشن ہے۔[32]اس انتہائی معقول بحث کے بعد وہ حیرت انگیز طور پر بھارت کے موجودہ ڈھانچے کی پرزور وکالت کرتے ہیں۔ لسانی ریاستوں کے ماڈل کو اسٹیٹ نیشن کے نمونے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بے شک لسانی گروہوں کے مفادات کے تحفظ میں ہمارا سیاسی نظام نہایت کام یاب ہے لیکن مذہبی گروہوں کی بااختیاری کو نظر انداز کرکے ہم کیسے ایک کام یاب اسٹیٹ نیشن بن سکتے ہیں؟

آخر میں جن تجاویز کو یوگیندر یادو سیاسی اصلاحات کے انقلابی ایجنڈا A Radical Agenda for Political Reformsکے عنوان سے پیش کرتے ہیں ان میں بھی اس مخصوص مسئلے پر کوئی اہم تجویز سامنے نہیں لاتے۔ مسلمانوں کی غیر متناسب نمائندگی کے حل کی ’انقلابی تجویز‘ ان کے نزدیک بس یہ ہے کہ نشستوں کی ڈی لمیٹیشن (delimitation)کو بہتر کیا جائے۔[33]

اقلیتوں کی’ منہ بھرائی‘

ہندتوا کی علم بردار طاقتیں یہ الزام لگاتی رہی ہیں کہ اس ملک میں اقلیتوں کی ’منہ بھرائی‘ (appeasement)ہوتی ہے۔اکثریت کے حقوق اور مفادات کی قیمت پر ان کی طرف داری کی جاتی ہے۔ انھیں’ووٹ بنک‘ بنادیا گیا ہے۔ ان باتوں کا کئی دہوں سے مسلسل پرچار ہورہا ہے جس کے نتیجے میں ملک کی آبادی کا ایک حصہ اسے ایک درست بات سمجھنے لگا ہے۔

یہ بات یقیناً بالکل خلاف واقعہ ہے۔ اقلیتوں کی طرف داری ہوتی تو وہ ہر محاذ پر اس قدر پسماندہ نہیں ہوتیں۔ لیکن اس کے باوجود ہمارے خیال میں اس الزام کو تقویت اس بات سے ملتی رہی ہے کہ سیکولر طاقتوں نے اس ملک میں اقلیتوں کے حقیقی مسائل پر توجہ دینے اور انھیں ان کے جائز حقوق فراہم کرنے کے بجائے ایسے نمائشی کاموں پر زیادہ توجہ دی جن سے ہمدردی اور طرف داری کے تاثر کو عام کیا جاسکے اور اس کے سیاسی فائدے حاصل کیے جاسکیں۔

اقلیتوں کو مساوی مواقع فراہم کرنے اور انھیں انصاف دلانے کا اولین تقاضا یہ تھا کہ ان کے تہذیبی و مذہبی تشخص کو تسلیم کیا جاتا۔ فرد کے حقوق کے ساتھ ساتھ ملت کے حقوق بھی تسلیم کیے جاتے۔ جس اسپرٹ کے ساتھ دستور ہند میں اقلیت کے تعلیمی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے اور پرسنل لا کی اجازت دی گئی ہے، اس اسپرٹ کا لحاظ، سیاست، سول سروس، بزنس و مالیات، سیکوریٹی وغیرہ امور میں بھی رکھا جاتا۔

اگر تہذیبی ومذہبی تشخص کو تسلیم کرکے اس کی حفاظت کا دستوری و قانونی نظام بنایا جاتا تو کسی کشمکش کے بغیر سب کے جائز حقوق کی حفاظت ہوتی۔ملک میں لسانی گروہوں کا مسئلہ اسی اسپرٹ سے، لسانی ریاستیں قائم کرکے حل کرلیا گیا۔ لیکن مذہبی گروہوں کے معاملے میں؛ جیسا کہ ہم اوپر واضح کرچکے ہیں، یہ اپروچ اختیار نہیں کیا جاسکا۔

بعد میں اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سیاسی جماعتوں نے خاص طور پر سیکولر جماعتوں نے مختلف سماجی گروہوں کی سماجی شناختوں (identities) کو اپنے سیاسی کھیل کا آلہ بنایا اور ان کے درمیان شناختوں سے وابستہ حساس اور تفرقہ پرداز مسائل کو ابھارنے اور ان کے ذریعے ووٹروں کے مختلف طبقات کا سپورٹ حاصل کرنے کی کشمکش شروع ہوئی۔

چناں چہ یہ ہوا کہ اقلیتوں کے حقیقی مسائل کو نظر انداز کرکے، ٹوپی، نماز میں شرکت، حج کی سبسڈی، شادی خانوں کی تعمیر، افطار پارٹیاں وغیرہ جیسی اُن پالیسیوں کو اہمیت دی گئی جن کے لیے ان دنوں انگریزی میں آپٹکس (optics) کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے۔ شعلہ بیان فرقہ پرست مقررین اور ان کی تقریروں کی ہمت افزائی اور انھیں اقلیتوں کا نمائندہ ظاہر کرکے، اقلیتوں کے درمیان اپنے نمائندوں کی افزائش، اس طرح کی پالیسیاں مسلسل اختیار کی جاتی رہیں اور ان کی سیاسی مقاصد کے لیے اس طرح تشہیر کی جاتی رہی گویا ملک کی سیاسی جماعتیں اقلیتوں پر بڑے احسانات کررہی ہیں۔ ملک میں فسادات کے پیہم سلسلے چلے، ان کی روک تھام اور اقلیتوں کی جان و مال کی حفاظت کی خاطر متعدد عدالتی کمیشنوں نے بڑی اہم سفارشات پیش کیں۔ ان سفارشات کو کبھی لائق اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات نے سیکڑوں مسلم نوجوانوں کی زندگیاں برباد کردیں اور پوری کمیونٹی میں عدم تحفظ کے احساس کو فروغ دیا۔ اس مسئلے کے حل کی کو ئی سنجیدہ کوشش کبھی نہیں ہوئی۔ نیشنل پولیس کمیشن کی متعدد سفارشات کئی دہوں سے دھول کھارہی ہیں۔ کوئی سیکولر جماعت ان کے سلسلے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ اوقاف کی قیمتی جائیدادوں کے تحفظ، قبضہ جات (encroachments) کی واپسی، اور ان کے مناسب استعمال کے انتظام کا مسئلہ ہمیشہ نظر انداز کیا گیا۔سچر کمیٹی ضرور بنائی گئی لیکن اس کی اصل اور گیم چینجر سفارشات یعنی اشاریہ تنوع (diversity index) کی سفارش یا مساوی مواقع کمیشن (Equal Opportunities Commission) کا پورا تصور وغیرہ ٹھنڈے بستے کی نذر کردیا گیا۔ دوسری طرف، نمائشی قائدین کو ابھارنے، ان کو ذاتی فائدے پہنچانے اور ان کو پہنچائے گئے فائدوں کو اقلیتوں پر احسانات باور کرانے کی نہایت منصوبہ بند کوششیں ہر زمانے میں ہوتی رہیں۔ اس کے نتیجے میں اقلیتوں کو انصاف تو نہیں ملا البتہ اکثریت میں حسد، غصہ و نفرت اور فرقہ پرستی کے جذبات کو فروغ دینے میں ان پالیسیوں نے اہم رول ادا کیا۔

بزرگ صحافی پریم شنکر جھا کے اس تجزیے کو ہم قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ سیکولر سیاست کا اصل مسئلہ یہ رہا کہ اس نے اپنی سیاست کو ٹھوس نظریے کی بنیاد پر استوار نہیں کیا بلکہ وہ سیاسی مفادات کے تحت سافٹ سیکولرزم (یعنی اقلیتوں کی نمائشی ہمدردی) اور سافٹ ہندتوا کے درمیان پینڈولم کی طرح گردش کرتی رہی۔ اس صورت حال نے ہندتوا کے فروغ کے لیے نہایت سازگار ماحول فراہم کیا۔ [34]

سیکولر کنفیوژن: کچھ حالیہ مباحث

ہندتوا کے نظریاتی عروج کے اسباب پر جو مباحث ‘سیکولر’ دانش وروں کے درمیان، اس وقت جاری ہیں ان پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ستر سالہ تاریخ میں جس کنفیوژن نے ہندتوا کو عروج بخشا وہ کنفیوژن آج بھی موجود ہے۔

ایک طرف وہ مفکرین ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ ہندتوا کے عروج کا اصل سبب یہ ہے کہ سیکولر جماعتوں نے ہندوازم پر سنجیدگی سے توجہ نہیں دی۔حال ہی میں سی ایس ڈی ایس کے دانش ور ابھے کمار دوبے کی ہندی کتاب بہت مشہور ہوئی جس کا عنوان ہے’ہندو ایکتا بنام گیان کی راج نیتی‘ (हिंदू-एकता बनाम ज्ञान की राजनीति)۔ [35] اس میں دوبے کی اصل شکایت یہ ہے کہ سیکولر مفکرین کا غرور اور ان کی حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی انھیں لے ڈوبی۔ وہ یہ سمجھتے رہے کہ ذات پات اور فرقوں میں بٹی ہوئی ہندو قوم کو مذہبی بنیادوں پرمتحد کرنا ممکن نہیں ہے اور یہ کہ جمہوری سیاست، دستور میں درج حقوق اور مشترکہ تہذیب، ہمارے ملک کو اکثریت پرستی (majoritarianism)کے غلبے سے محفوظ رکھنے کے لیے کافی ہے۔

اس بحث میں نہایت قابل قدر اضافہ، سماجی مورخ پروفیسر بدری نارائن نے کیا ہے جن کی کتاب ریپبلک آف ہندتوا، بڑی دل چسپ اور چشم کشا کتاب ہے۔ ان کے مطابق آزاد ہندوستان میں، ملک کے عوام کو مخاطب کرنے والا ایک مکمل اور واضح اجتماعی بیانیہ تشکیل دینے میں کام یاب ہونے والی واحد تحریک آر ایس ایس ہے۔ سیکولرزم کی اصل ناکامی، ایسے بیانیے کی تشکیل میں اور ملک کے عوام کو متوجہ کرنے والی زبان کی تخلیق میں ناکامی ہے۔ آر ایس ایس کا مقابلہ، سیکولر جماعتیں ایک بالکل غیر متعلق بیانیے سے کرتی رہیں۔ گویا وہ سائے سے لڑتی رہیں۔[36]

بدری نارائن کے بعض مشاہدات سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی مذکورہ بالا بات بڑی اہم ہے۔ ہم اس میں یہ اضافہ کریں گے کہ سیکولر جماعتوں نے جو زبان اور لب و لہجہ اختیار کیا وہ محض غیر متعلق نہیں تھا بلکہ بعض اوقات نادانستہ ہی سہی، اس نے آرایس ایس کی مدد بھی کی۔ یہ خودکشی کی زبان (suicidal language)تھی جس نے اُن قدروں کو کم زور کردیا جن کی علم برداری کی یہ سیکولر تحریکیں دعوے دار تھیں۔

ایک اہم مباحثہ وہ ہے جو یوگیندر یادو اور پرتاپ بھانو مہتا کے درمیان ہوا۔ یوگیندر یادو کہتے ہیں کہ :

’’سیکولرزم اس لیے شکست سے دوچار ہوا کیوں کہ اس نے ہماری زبانوں کو مسترد کیا، وہ یہاں کی روایات کی زبان سے جُڑ نہیں سکا، اس نے یہاں کے مذاہب کی زبان بولنے سے انکار کیا۔خصوصاً سیکولرزم اس لیے ناکام ہوا کہ اس نے ہندوازم کی ملک کے بدلے ہوئے حالات سے مطابقت رکھنے والی نئی تعبیر کرنے کے بجائے اس کا مذاق اڑایا۔ ‘‘[37]

ششی تھرور بھی اسی طرح کی بات کہتے ہیں:

ہندو بنیاد پرستی کے عروج کا اصل سبب ملک کی جدید زندگی کا بڑھتا ہوا سیکولرائزیشن ہے کیوں کہ مذہب کو حاشیہ پر چڑھادینے سے ہی مذہب کے غلط استعمال کی راہیں ہم وار ہوتی ہیں۔کسی روایتی سماج میں کوئی بنیاد پرست یا احیا پرست نہیں ہوتا۔سیکولرزم نے ہندوستانیوں کو ان کی اخلاقی بنیادوں سے محروم کردیا۔۔اس کا واحد حل یہی ہے کہ ہندو اپنے اصل روادار، مکمل، انصا ف پسند، تکثیری مزاج کے حامل اس دھرم کی طرف لوٹیں جس کی بہت موثرترجمانی سوامی وویکانند نے کی ہے۔ [38]

ششی تھرور نے غالبا ً اسی جذبے سے ہندومت کی تشریح و تعبیر کا بیڑا اٹھایا ہے اور دو بڑی مشہور کتابیں لکھیں[39] جس میں پرکشش زبان و اسلوب میں ہندوازم سے متعلق اپنے تصورات کو وضاحت سے پیش کیا ہے۔

پرتاب بھانو مہتا، ان خیالات پر شدید تنقید کرتے ہیں۔پرتاپ بھانو مہتا کی بات ان کے ایک سابقہ مضمون سے اور واضح ہوتی ہے جو بہت مشہور بھی ہوا اور جس پر کافی بحثیں بھی ہوئیں اس میں وہ برابری اور رواداری کے دو تصورات کو زیر بحث لائے جنھیں انھوں نے مختلف فرقوں کا وفاق (Federation of Communities–FOC) اور انفرادی آزادی کا زون (Zone of Individual Freedom–ZIF) نام دیا۔ ان کا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں زیادہ تر’ فرقوں کے وفاق ‘ کے تصور پر عمل کیا جاتا ہے اور مذہبی فرقوں کے حق کو افراد کے انفرادی حقوق پر ترجیح دی جاتی ہے۔بطور مثال انھوں نے وہی پرسنل لاکی مثال دی ہے ۔ ان کے خیال میں اس سے انفرادی آزادی اور افراد کی برابری کا تصور مجروح ہوتا ہے۔ شناخت کو آزادی پر ترجیح حاصل ہوجاتی ہے۔ [40]

ان مباحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیکولر مفکرین اپنی اس غلطی کو تسلیم کرنے لگے ہیں کہ انھوں نے آر ایس ایس کے مذہبی بیانیے کو نظر انداز کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ ہندوستان جیسے مذہبی ملک میں صرف مغربی اصطلاحات اور مغرب زدہ اجنبی سیکولر بیانیے کے سہارے یہاں کے عوام کے ذہنوں کو جیتنا ممکن نہیں ہے۔ یہ خوش اعتقادی بھی غلط تھی کہ اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے، انفرادی طور پر شہریوں کو دیے گئےدستوری و قانونی حقوق کافی ہیں۔خود احتسابی کا یہ رجحان خوش آئند ہے لیکن تشویش کی بات یہ ہے کہ ہندو مذہب و تصورات کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے اور اکثریت پرستی کے رجحانات کا کیسے مقابلہ کیا جائے؟ اس سلسلے میں ابھی بھی ابہام، کنفیوژن، تذبذب اور جرأت کی کمی کا مسئلہ باقی ہے۔ ہم نے اوپر اپنا نقطہ نظر لکھ دیا ہے کہ اصل مسئلے دو ہیں۔ ایک ہندوستانی فلسفوں اور تصورات کو ہندوستانی قومیت کا مکمل اظہار سمجھنے کی غلطی جس کے نتیجہ میں ابراہیمی مذاہب سے اجنبیت و بے زارگی کے رجحانات کو تقویت ملتی ہے اور دوسرے مذہبی اقلیتوں کے گروہی تشخص کو نظر انداز کرکے اور ان کے گروہی حقوق و مفادات سے لاتعلق ہوکر صرف شہریوں کے انفرادی حقوق کو کافی سمجھ لینا۔جب تک ان دو باتوں پر ذہن صاف نہیں ہوں گے، ہمارا ملک اکثریت پرستی کے مرض سے نجات نہیں پاسکتا۔

اس مضمون میں اصلاً ہم نے اُن افکار کا جائزہ لیا ہے جس کی نمائندگی کانگریس اور اس کے بطن سے نکلی ہوئی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ اکثر علاقائی جماعتیں بھی اسی رجحان کی حامل ہیں۔ سیکولر افکار کی کچھ اور دھارائیں ہیں ۔ ایک کمیونسٹ طرز فکر، دوسرے رام منوہر لوہیا جیسے مفکرین کا سوشلسٹ طرز فکر اور تیسرے دلت اور بہوجن واد کا طرز فکر۔ ان پر ہم اگلے شمارے میں تبصرہ کرنے کی کوشش کریں گے۔ان شاء اللہ العزیز۔■

حواشی و حوالہ جات:

1. Swami Vivekananda(1961)Complete Works of Swami Vivekananda, Vol 5, Sri Ramakrishna Math, page 98

2. ibid, Vol 3, Sri Ramakrishna Math, page 160

3. Jawahar Lal Nehru (1985) The Discovery of India, Oxford University Press, Delhi. Page 28.

4. M.K. Gandhi(1949) Communal Unity, Navjeevan Publishing House, Ahmedabad, page 588

5. Ibid, pages 56 and page 112

6. Swami Vivekananda (1961) Complete Works of Swami Vivekananda, Vol 6, Sri Ramakrishna Math, page 462-463 (CXLII)

7. Ibid Volume 2, Part III (“Practical Vedanta”)

8. Sarvapalli Radhakrishnan(1954)The Hindu View of Life, George Allen&Unwin Ltd. London, page 37

9. Ibid page 55

10. Shashi Tharoor (2018) Why I am a Hindu, Aleph Book Company, New Delhi, page 9

11. Shashi Tharoor (2018) Hinduism a Liberal Faith in ‘India Today’ (Cover Story) issue date: Januray 29, 2018.

12. Shashi Tharoor (2019) The Hindu Way, Aleph Book Company, New Delhi

13. Shashi Tharoor (2018) Why I am a Hindu, Aleph Book Company, New Delhi, page 195

14. Ibid pages 9,47,61,118,291,294

15. مولانا ابوالکلام آزاد(۱۹۹۹)؛ خطبات آزاد؛ ص ۲۸۰

16. Sadan Jha (2014) The Life and Times of Bharat Mata in Manushi February 2014 (issue 1420, New Delhi, pages 34-38

17. https://www.culturalindia.net/indian-temples/bharat-mata-haridwar.htmlretreived on 11-07-2021

18. تفصیل ملاحظہ کیجیے:

https://myoksha.com/bharat-mata-mandir-haridwar/#What_is_the_significance_of_Bharat_Mata_Mandir_Haridwar retrieved on 10-07-2021

19. Official Report (2014, Sixth reprint), Constituent Assembly Debates, Volume 5, 20 August 1947, Lok Sabha Secretariat, New Delhi,

20. B. Shiva Rao et. Al (1968) The Framing of India’s Constitution: Select Documents, Indian Institute of Public Admin. New Delhi. Page 755 and also 760-761

21. ibid 757-758

22. فروری ۱۹۴۸ میں ڈرافٹ کمیٹی کی جانب سے دستور کا جو ڈرافٹ پیش کیا گیا تھا وہ یہاں دیکھا جاسکتاہے
Vasant Moon Ed. (2014) Dr. Babasaheb Ambedkar Writings and Speeches, Volume 13, Dr.Ambedkar Foundation New Delhi. Pages 105-313
زیر بحث دفعات ص 243پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔

23. دستور ساز اسمبلی میں اس موضوع پر جو مباحث ہوئے، انھیں دیکھ لینا اس بحث کو سمجھنے میں نہایت مفید ہوگا۔

Official Report (2014, Sixth reprint), Constituent Assembly Debates, Volume 9, Lok Sabha Secretariat, New Delhi, pages 597 to 670.

24. Official Report (2014, Sixth reprint), Constituent Assembly Debates, Volume 2, Lok Sabha Secretariat, New Delhi, pages 332

25. Shashi Tharoor (2020) The Battle of Belonging, Aleph Book Company, New Delhi, page 137

26. Dr. B.R.Ambedkar (1947) State and Minorities, available on internet at: https://drambedkar.co.in/wp-content/uploads/books/category2/11states-and-minorities.pdf, retrieved on 10-07-2021

27. انتخابی نظاموں کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں:

Michael Gallghar and Paul Mitchell (2015) The Politics of Electoral Systems, Oxford University Press, new York

28. مختلف ملکوں میں رائج انتخابی نظاموں کی تفصیل یہاں ملاحظہ کی جاسکتی ہے:

https://www.fairvote.org/research_electoralsystems_world retrieved on 11-07-2021

29. مثلاً دیکھیں:

Home

30. As quoted in “The Evolution of Israeli Politics”, in The Economist, 27-03-2021

31. Yogendra Yadav(2020) Making Sense of Indian Democracy, Permanent Black, Ranikhet.

32. ibid pages 109-137

33. ibid page 338.

34. Prem Shankar Jha (2019) Neither Soft Hindutva Nor Soft Secularism Will Help the Congress Revive Itself

at https://thewire.in/politics/confronting-hindutva-the-battle-that-lies-ahead retrieved on 10-07-2021

35. Abhi Kumar Dubey (2019) Hindu-Ekta-Banam-Jnan-Kee-Rajneeti (हिंदू-एकता बनाम ज्ञान की राजनीति), Vani Prakashan, New Delhi.

36. Badri Narayana(2021) Republic of Hindutva, Penguin Random House India, Gurgaon.

37. دیکھیے یوگیندر یادو کا مضمون

Yogendra Yadav, Secularism Gave Up the Language of Religion…in https://theprint.in/opinion/secularism-language-religion-ayodhya-bhoomi-pujan-ram-mandir-kashmir/475307/

Retrieved on 11-07-2021

38. Shashi Tharoor(2019) The Hindu Way (ebook), Aleph Book Company, New Delhi Loc. 2402.

39. Ibid, and Shashi Tharoor (2018) Why I am a Hindu, Aleph Book Company, New Delhi

40. Pratap Bhanu Mehta (2014) The Real Contest for India, in Indian Express, May 22, 2014.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: