گذشتہ ماہ ہم نے ہندتو کے حوالے سے مسلم سیاست کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات وضاحت سے لکھی تھی کہ مسلم سیاسی ڈسکورس کی سب سے بڑی ناکامی واضح ایجابی و اقدامی ایجنڈے کا فقدان ہے اور اس کی ایک اہم وجہ مسلم امت کی حیثیت کے بارے میں پیدا کردہ کنفیوژن ہے۔اسی بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے،اب ہم یہ واضح کریں گے کہ مسلم امت کی اصل حیثیت کیا ہے؟ اور یہ حیثیت اُس سے کس قسم کے سیاسی بیانیے یا سیاسی مقاصد کا تقاضا کرتی ہے؟ اس تجزیے میں ہم قرآن وسنت کی اُن نصوص سے بھی مد د لیں گے جن سے امت کی حیثیت کا تعین ہوتا ہے اور جدید علم سیاسیات کی مبادیات کی روشنی میں بھی اس موضوع کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔واضح رہے کہ اس بحث کا پس منظر ہندوستان جیسا ہمہ تہذیبی ملک ہے جہاں مسلمان ایک بڑی اقلیت ہیں۔ اس بحث کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔
قومیت اور جدید قومی ریاست
یورپ کی نشاۃ ثانیہ نے جن جدید نظریات کو جنم دیا (جنھیں مجموعی طور پر جدیدیت [modernity] کہا جاتا ہے) اُن میں عقلیت پرستی [rationalism]، تجربیت [empiricism] وغیرہ کے ساتھ سیاسی محاذ پر ایک اہم نظریہ وہ تھا جسے قومیت [nationalism] کہا جاتا ہے۔ جدیدیت کی یہ پوری تحریک عیسائی مذہب اور چرچ کے شدید رد عمل میں برپا ہوئی تھی۔یورپ میں مذہب یا عیسائیت کا زور کافی کم ہوگیا تھا اور وہ لوگوں کو جوڑنے والی قوت کی حیثیت سے باقی نہیں رہی تھی۔صنعتی ترقی اور شہری آبادیوں نے روایتی قبائلی وابستگیوں کو بھی ختم کردیا تھا۔ ان حالات میں سماج میں انسانوں کو جوڑنے کے لیے کسی ‘جدید بنیاد’ کی تلاش تھی۔ اسی تلاش نے قومیت کو جنم دیا۔ اقتدار اعلیٰ (sovereignty)، جمہوریت [democracy]، سیکولرزم [secularism] وغیرہ تصورات کے ساتھ مل کر قومیت نے جدید سیاسی نظریے کی تشکیل کی۔
اس نظریے کا خلاصہ یہ تھا کہ افراد کے اجتماع یعنی ان کے مل کر اجتماعی وجود بنانے کے لیے فطری بنیاد ان کی قومیت ہے۔ قوم سے مرادوہ لوگ ہیں جو ایک نسل سے تعلق کی وجہ سے،کسی خاص جغرافیائی خطے میں طویل بود وباش کی وجہ سے، مشترک تاریخ یا تہذیبی ورثے کی وجہ سے یامشترک زبان اور رہن سہن کے مشترک طور طریقوں کی وجہ سے، ایک ہی اجتماعی مفاد رکھتے ہیں۔ایسی ہر قوم ایک آزاد سیاسی وجود رکھتی ہے۔ اس کو خود مختاری اور اپنے اجتماعی معاملات اپنی مرضی کے مطابق چلانے کا حق حاصل ہے۔ کسی اور کو اس کے معاملات میں مداخلت کا حق حاصل نہیں ہے۔نیز یہ کہ ہر قوم اپنے معاملات کے نظم و انصرام کے لیے آزاد ریاست [State] وجود میں لائے گی (جو قومی ریاست یا نیشن اسٹیٹ کہلاتی ہے) جو قوم کے عوام کے ذریعے اور ان کی رائے سے،یعنی جمہوریت کی بنیاد پر چلے گی اور معاشی طور پر خود کفیل بننے کی کوشش کرے گی تاکہ اس کی آزادی و خود مختاری پر کسی بیرونی قوت کا کوئی اثر نہ ہوسکے۔
اس نظریے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ انسانی وجود کی صرف دو سطحیں ہیں۔ ایک فرد، جسے مکمل انفرادی حقوق حاصل رہنے چاہئیں اور اجتماعی سطح پر صرف قوم، جس کا ہر مفاد لازماً مشترک ہے۔قوم اور فرد کے درمیان کسی ایسےدرمیانی اجتماع کا کوئی محل نہیں ہے جس کی اساس تہذیب یا اجتماعی مفاد ہو۔ اجتماعی مفاد بس ایک ہی ہے اور وہ قوم کا مفاد ہے۔افراد اسی قومی مفاد کی خاطر جدوجہد کریں گے اور ریاست کا مقصد بھی اسی مفا د کا تحفظ ہوگا۔ اس پوری قوم کو کیسے ترقی دی جائے؟ کیسے دوسری قوموں کے مقابلے میں اس کو مضبوط و ترقی یافتہ بنایا جائے؟ دشمن قوموں کے مقابلے میں اس کا دفاع کیسے کیا جائے؟ اور قوم کے وسائل کیسے تقسیم ہوں؟، یہ قومی سیاست کے اصل موضوعات ہوں گے۔ انھی سوالات کی بنیاد پر سیاسی جماعتیں بن سکیں گی۔ [1]
چناں چہ گذشتہ صدی میں یورپ کے ممالک میں اسی ماڈل پر سیاست ہوتی رہی۔ عام طور پر دو بڑی سیاسی جماعتیں ہوتی ہیں۔ ایک کا جھکاو ‘دائیں باز و’ کی طرف ہوتا ہے اور وہ صنعتی ترقی، دولت کی تیز رفتار پیداوار، اور آزاد مارکیٹ کے حق میں ہوتی ہے اور دوسری بائیں طرف جھکاؤ والی جو دولت کی مساویانہ تقسیم اور مزدوروں، کسانوں کو آگے بڑھانے والی پالیسیوں کی طرف داری کرتی ہے۔[2]
ہمارے ملک میں اس یورپی قوم پرست نظریے کا کوئی محل نہیں تھا اس لیے کہ یورپ کی ریاستوں کے برخلاف یہاں نہ نسل کا اشتراک تھا، نہ زبان کا، نہ تہذیبی و تاریخی ورثے کا۔ ملک کے بعض قائدین و دانش وروں (مثلاً گاندھی جی، رابندر ناتھ ٹیگور، ڈاکٹر امبیڈکر [3]) کو اس کا احساس بھی تھا اور متحدہ ہندوستان کے لیے متبادل تصورات اور آئیڈیاز وہ پیش بھی کرتے رہے لیکن مختلف وجوہ سے یہ متبادل نظریات، ان کی مکمل اسپرٹ میں، یہاں پنپ نہیں سکے۔ (قوم پرستی کے ہندتو تصور پر ہم آئندہ تفصیل سے نقد کریں گے اور اس موقعے پر یہ نظریات بھی زیر بحث آئیں گے۔ ان شاء اللہ) اور عملاً یورپی قوم پرستی ہی کو بعض تبدیلیوں کے ساتھ یہاں اختیار کیا گیا۔
بیسویں صدی کے ختم ہوتے ہوتے دنیا کا منظرنامہ تیزی سے بدل گیا۔ ٹکنالوجی نے بے نظیر طریقے سے دنیا کے مختلف لوگوں کو ایک دوسرے کے نہایت قریب کردیا۔ گلوبلائزیشن نے قومی ریاست کی آہنی دیواروں کو کم زور کردیا۔ ترقی یافتہ ملکوں کی صنعتی ضرورتوں نے مہاجرت کی طاقتور لہر پیدا کی اوراُن ملکوں میں، ایشیائی و افریقی ملکوں کی بڑی تعدا د آباد ہوگئی۔ اس صورت حال نے ہر دولت مند ملک اور ہر ترقی یافتہ شہر میں ہمہ تہذیبی معاشرے پیدا کردیے۔ ہر ملک کا دوسرے ملکوں پر انحصار بڑھتا گیا۔ ملکوں کے اندر نہ نسلی وحدت باقی رہی نہ لسانی و تہذیبی۔ ہندوستان اور امریکہ جیسے ملکوں میں تو یہ صورت حال، پہلے سے تھی، اب اکثر یورپی ملکوں میں بھی یہی کیفیت پیدا ہوگئی۔
شناخت کی سیاست[identity politics]
اس صورت حال نے اُس سیاست کو جنم دیا جو علمی حلقوں میں شناخت کی سیاست کہلاتی ہے۔یہ سیاست جدیدیت ہی کے بطن سے پیدا ہوئی بلکہ واقعہ یہ ہے کہ جدیدیت نے جو ذہن پیدا کیا یہ اس کا لازمی و منطقی نتیجہ ہے۔ دنیا میں بسنے والے سارے انسان ایک ہی خدا کی مخلوق اوراُس کے بندے ہیں اور ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہیں۔ جدیدیت نے انسانوں کو’قوموں’ کے درمیان تقسیم کرکے دیکھنے کا مزاج پیدا کیا۔ ایک بار جب انسانوں کی تقسیم شروع ہوجاتی ہے تو پھر یہ رکتی نہیں ہے۔قوم کے بعد ذات اور نسل، جنس اور علاقہ، یہ سب شناختیں سر ابھارنے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے انسانوں کو تقسیم کرنے اور گروہوں کو ایک دوسرے پر غیر منصفانہ ترجیح دینے کے عمل ہی کو ایک ظالمانہ و سرکش عمل قرار دیا ہے۔ إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِیعًا (واقعہ یہ ہے کہ فرعون نے زمین میں سرکشی کی اور اس کے باشندوں کو گروہوں میں تقسیم کر دیا۔القصص ۴)۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شناخت کی سیاست اور سیاست کی تمام تفرقہ پرداز قسموں کی جڑ جدیدیت کے مادہ پرست افکار ہیں۔
اس نظریاتی سبب کے علاوہ، جدید جمہوری معاشروں کا اندازِ کار بھی اس طرح کی سیاست کو فروغ دینے کا ذریعہ بنا۔ فرد [individual] اور قوم [nation]کے دو سِروں کے درمیان، انسانی اجتماع کی اور بھی بہت سی شکلیں فطری طور پر موجود تھیں۔ ان اجتماعیتوں اور ان کے مفادات کے تحفظ کا کوئی وژن اکثر جدید جمہوری ریاستوں میں نہیں تھا اورجدید لبرل جمہوری معاشروں میں تمام دعووں کے باوجود سماج کے تمام گروہوں کے ساتھ مساوی سلوک نہیں کیا جاسکا۔ افراد کے درمیان مساوی سلوک کے لیے تو بعض طریقے اختیار کیے گئے لیکن گروہوں کو خوش دلی سے تسلیم کرکے ان کو مساوی حقوق فراہم کرنے کا مناسب میکانزم کم ہی اختیار کیا جاسکا۔ چناں چہ نتیجہ یہ ہوا کہ مختلف گروہی مفادات نے سر ابھارنا شروع کیا۔نسلی گروہ، مذہبی اکائیاں، لسانی شناختیں اور جنسی شناختیں، ان سب نے اپنی اپنی شناختوں کی بنیاد پر اپنے مفادات تشکیل دینے شروع کیے۔ ملک کے اندر طاقتور گروہوں نے کم زور گروہوں کا استحصال شروع کیا۔ مثلاً امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کا بری طرح استحصال ہوا۔انجامِ کار کم زور گروہوں نے اس میں اپنی ہتک اورتذلیل محسوس کی اور اپنے حقوق اور عزت نفس کے لیے جدوجہد شروع کی۔ [4]
شناخت کی سیاست، اجتماعی نفسیات کی اُس خصوصیت کی دین ہے جسے مشہور امریکی مفکر، فرانسس فوکویاما نے ‘تکریم طلبی ‘ [isothymia] کہا ہے، یعنی گروہی عزت نفس کی آرزو۔[5] افراد کے ساتھ سماجی گروہوں میں بھی عزت نفس ہوتی ہے جس کا گہرا تعلق ان کی شناخت سے ہوتا ہے۔کسی کو یہ احساس ہو کہ اُس کی کسی گروہی شناخت کی وجہ سے اسے کم تر سمجھا جارہا ہے تو اس کی عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔ برابری اور عزت نفس کا حصول اس کی سب سے بڑی ترجیح بن جاتا ہے اور دوسرے مسائل کو نظر انداز کرکے صرف اسی ایک مسئلے کو وہ اپنی سیاست اور اجتماعی جدوجہد کی بنیاد بنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔
چناں چہ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں نے اپنے استحصال کے خلاف جدوجہد شروع کی۔ ہندوستان میں دلت پالیٹکس کا آغاز ہوا۔نسائی تحریکوں نے سر ابھارا۔ یہ سب شناخت کی سیاست کے مختلف مظاہر ہیں۔ یہ وہ سیاست ہے جس میں کوئی گروہ سیاسی جدوجہد کو اپنی شناخت کے اظہار و اصرار [identity expression and identity assertion] اور شناخت سے متعلق گروہی مفادات پر مرتکز کردیتا ہے۔(واضح رہے کہ یہاں ہماری مراد وہ تحریکیں نہیں ہیں جو سیاہ فام لوگوں کو برابری کے حقوق دلانے کے لیے یا عورتوں کے استحصال کو ختم کرنے کے لیے، عدل ومساوات کے ہمہ گیر وژن کے ساتھ ابھری تھیں۔ ہماری مراد وہ تحریکیں ہیں جو، پسماندہ یا کم زور طبقات کو انصاف دلانے کے لیے سماج کو تقسیم کرکے دیکھتی رہیں اور جنھوں نے اپنی سیاست کی بنیاد محض کچھ طبقات کے مفادات اور کچھ اور طبقات کے خلاف انتقام اور بغض و نفرت کو بنایا تھا۔ )
جیسا کہ ہم نے عرض کیا، بیسویں صدی کی سیاست زیادہ تر نظریاتی اور معاشی مسائل پر مرکوز تھی۔ بائیں بازو کا زور دولت کی مساویانہ تقسیم اور مزدوروں، کسانوں اور غریبوں کی بہبود پر تھا جب کہ دائیں بازو کا زور دولت کی پیداوار، قومی ترقی اور آزاد معیشت پر تھا۔ لیکن شناخت کی سیاست کے پوسٹ ماڈرن سیاسی منظرنامے میں، اب بائیں بازو کا مطلب وہ سیاسی رجحان ہوگیا جو اقلیتوں، مہاجروں، کم زور اور پسماندہ طبقات کے حقوق کی نمائندگی کرتا ہے جب کہ دائیں بازو کا مطلب اکثریت کی (نام نہاد) قومی شناخت اور اس کی امنگوں کی نمائندگی ہوگیا۔ معاشی مفادات سے زیادہ شناخت سے وابستہ تکریم [dignity] کے مسائل اہمیت اختیار کر گئے۔آج یعنی اکیسویں صدی کے ربع اول کے ختم ہوتے ہوتے صورت حال یہ ہے کہ دنیا بھر میں شناخت کی سیاست، ایک غالب رجحان اور اکثر ملکوں میں سیاست کی اہم ڈرائیونگ فورس بن چکی ہے۔امریکہ و یورپ، لاطینی امریکہ اور بہت سے ایشیائی ملکوں میں اسی کا زور ہے۔ [6] ہمارے ملک میں تو اس کی روایت اب بہت پرانی ہوچکی ہے۔
شناخت کی سیاست ظلم و ناانصافی کے خلاف ایک فطری رد عمل ہے۔ کسی گروہ کی عزت نفس مجروح کی جائے، اسے قدم قدم پر ذلیل کیا جائے، یا اس سے جینے کا حق سلب کرلیا جائے تو ملک کی ترقی و خوشحالی وغیرہ ساری چیزیں ثانوی ہوجاتی ہیں۔ اس طرزِ سیاست نے بعض ملکوں میں سماج کے کم زور طبقات کو اونچا اٹھانے میں بھی اہم رول ادا کیا ہے۔خود ہمارے ملک میں تمل ناڈو کے دراوڑین، مہاراشٹر کے مراٹھا، شمالی ہند کے یادو وغیرہ پسماندہ طبقات(OBCs) اسی طرز سیاست کے نتیجے میں اقتدار کی منزلوں تک پہنچے۔ لیکن ہماری اصل بحث یعنی امت مسلمہ کی حیثیت کے تعین کے لیے، اس طرز سیاست کے نقصانات کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔
پہلا بڑا نقصان تو یہی ہے کہ اس طرز سیاست میں سماجی تبدیلی کا آفاقی تصور باقی نہیں رہتا یا بہت کم زور ہوجاتا ہے۔سیاسی مقاصد، تمام عوام کا احاطہ نہیں کرتے بلکہ اپنے اپنے گروہ کےمفادات تک محدود ہوجاتے ہیں۔ اسی لیے اسے نو قبائلیت [neo-tribalism] بھی کہا جاتا ہے۔[7] پورےسماج کو کیسے ترقی دی جائے؟ کیسے سب کے ساتھ عدل ہو؟ تمام انسانوں کے لیے بہتر سیاسی نظریہ اور راستہ کیا ہوسکتا ہے؟ یہ ساری بحثیں بہت کم زور ہوجاتی ہیں۔ مختلف شناختوں اور گروہوں کے مفادات اور ان مفادات کا ٹکراؤ سیاسی مباحث ومہمات کے اصل موضوعات بن جاتے ہیں۔ کم زور گروہ یا اقلیت جب صرف اپنے گروہی مفاد کو اپنی سیاست کی بنیاد بناتی ہے تو وہ باقی گروہوں سے کٹ جاتی ہے۔اس کی قیادتیں، اپنے گروہوں تک محدود ہوجاتی ہیں۔ اس کی باتوں میں باقی گروہوں کے لیےکوئی دل چسپی باقی نہیں رہتی۔پورے ملک کے لیے اس کا کوئی وژن نمایاں نہیں ہوپاتا اور وہ اصولوں، نظریات اور ملک اور انسانوں کے عمومی مفاد کے بجائے صرف اپنے گروہی مفاد کے نمائندے اور ایک تخریجی [exclusivist] گروہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔
دوسرا بڑا نقصان یہ ہے کہ شناختوں کی کوئی حد نہیں ہوتی۔موجودہ معاشروں میں ہر فرد کی متعدد شناختیں ہوتی ہیں۔ جب شناخت کی سیاست آگے بڑھتی ہے تو چھوٹی چھوٹی ذیلی شناختیں بھی نمایاں ہونے لگتی ہیں اور اپنی سیاست شروع کردیتی ہیں۔ دلت مفاد کی بنیاد پر سیاست ہوتی ہے تو دلتوں کی ذیلی ذاتیں بھی خود کو جداگانہ گروہوں کی صورت میں دیکھنے لگتی ہیں اور اپنے اپنے مطالبات لے کر آگے بڑھتی ہیں۔ اتر پردیش میں دلت سیاست اب جاٹو، پاسی، والمیکی وغیرہ ذاتوں میں منقسم ہے۔ ان میں سے ہر ذات کی متعدد ذیلی ذاتیں ہیں۔یہی معاملہ تلنگانہ اور آندھرا میں مالا، مادیگا اور مہار ذاتوں کا ہے۔ خود مسلمانوں کی سیاست میں، کم ازکم یوپی اور بہار میں، اب مسلم ذاتوں کا رول بہت نمایاں ہونے لگا ہے۔ امریکہ میں سیاہ فام لوگوں کی تحریک شروع ہوئی تو اس کے پہلو بہ پہلو نسائی تحریک [feminist] نے باقاعدہ سیاسی تحریک کا روپ اختیار کیا۔ اب ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر بھی اپنی ‘جنسی شناخت’ کو اپنی سیاست کی بنیاد بنانے لگے ہیں اور بحث کو اس حد تک آگے بڑھاچکے ہیں کہ he اور she جیسے الفاظ جو مرد و عورت کی دو جنسوں کو ظاہر کرتے ہیں، وہ انھیں اپنی شناخت کےلیے خطرہ اور اپنی توہین محسوس ہونے لگے ہیں۔[8]اس طرح سماج تقسیم در تقسیم ہوتا جاتا ہے اور سب کی ترقی یا سب کو انصاف کے بجائے چھوٹے چھوٹے گروہوں کے چھوٹے چھوٹے مفادات ہی پر پوری سیاسی توانائی صرف ہوجاتی ہے۔
تیسرا اور سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ شناخت کی سیاست ہمیشہ جدلیت [dialectic] اور ثنویت [binary] کے ساتھ چلتی ہے۔اس کی بنیاد پاپولزم ہوتا ہے اور طریقہ کار میں احتجاج اورغصے و غیض وغضب کا اور انتقامی و معاندانہ جذبات کا بھرپور اظہار، اس سیاست کا اکثر لازمی عنصر سمجھا جاتا ہے۔نتیجے میں عمل و رد عمل کے زنجیری تفاعل [chain reaction] کا آغاز ہوجاتا ہے۔جب ایک گروہ سیاست کو اپنی شناخت سے متعلق مسائل تک محدود کرلیتا ہے تو مقابل گروہ بھی دیر سویر یہی کرنے لگتا ہے۔امریکہ میں سفید فام مڈل کلاس نے کساد بازاری کے زمانے میں محسوس کرنا شروع کیا کہ روزگار کے مواقع مہاجرین چھین رہے ہیں اور ریاست کا تعاون سیاہ فام پسماندہ گروہوں کو حاصل ہے۔ نتیجتاًسفید فام لوگوں کا معاشی زوال ہورہا ہے اور ان کا اسٹیٹس اور سماجی مرتبہ خطرے میں ہے۔یہ احساس درست تھا یا نہیں، اس سے قطع نظر، اس نے ایسی صورت حال پیدا کردی کہ جلد ہی سفید فام نسل پرستی نے شناخت کی سیاست کی شکل اختیار کرلی اور امریکہ میں وہ واقعہ پیش آگیا جس کا تصور بھی گذشتہ صدی میں ممکن نہ تھا یعنی ڈونالڈ ٹرمپ جیسا شخص کرسی صدارت تک پہنچ گیا۔ ہمارے ملک میں بھی بی جے پی، ان مفروضوں کو عوام میں بڑے پیمانے پر عام کرکے ہی آگے بڑھی ہے کہ اقلیتوں کی منہ بھرائی کی جارہی ہے اور ہندو خطرے میں ہیں۔
اس لیے بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ بھی ہے کہ شناخت کی سیاست بالآخر اقلیتوں اور کم زور طبقات کو ہی نقصان پہنچاتی ہے اور اس سے حتمی فائدہ سماج کے طاقتور، بااثر اور اکثریتی طبقےہی کو ہوتا ہے۔ کم زور طبقات کا اصل مفاد یہ ہوتا ہے کہ سماج میں تفریق ختم ہو، تعصبات نہ رہیں،سب کے ساتھ عدل ہو، کسی بھی گروہ کو الگ تھلگ اور ترقی کی عام دوڑ سے جدا کرنے کے رجحان پر روک لگے۔ ان تجزیہ نگاروں کا کہنا یہ ہے کہ یہ مقصد شناخت کی سیاست سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ یہ طرزِ سیاست کم زور طبقات کو اور الگ تھلگ کردیتا ہے۔[9] شناخت کی سیاست تجانس [homogeneity] کی بنیاد پر سماج کو تقسیم کرتی ہے۔ چوں کہ سب سے بڑا متجانس [homogeneous] گروپ اکثریت کا گروپ ہوتا ہے، اس لیے بالآخر اسے استحکام حاصل ہوتا ہے۔ طاقت اور وسائل اکثریت کے پاس ہوتے ہیں۔ اکثریتی گروہ، جب خود کے مفاد پر مرکوز ہوجاتا ہے تو اقلیتی طبقات کی محرومی اور بڑھتی ہے۔ ٹرمپ کے دور میں یہی صورت حال امریکہ میں پیدا ہوگئی تھی اور ہمارے ملک میں بھی یہی کیفیت خراب سے خراب تر ہوتی جارہی ہے۔
ہم اس نقطہ نظر سے پوری طرح اتفاق نہیں کرتے۔ شناخت کی سیاست کے کئی روپ اور کئی طریقے ہیں۔ سیاسی و سماجی صورت حال کے اعتبار سے اِس سیاست کا ایسا طرز، ڈیزائن کرنا ممکن ہے جس سے زیادہ سے زیادہ فائدے حاصل کیے جاسکیں اور نقصان کو کم سے کم کیا جاسکے۔[10] لیکن فی الحال ہم یہاں اس بحث کو چھیڑنا نہیں چاہتے۔ ہمارا اصل مقصود مسلمانوں کی حیثیت کا تعین اور اس حوالے سے مناسب طرز سیاست کی جستجو ہے۔ اصل سوال یہ ہے کہ مسلمانوں کی حیثیت کیا ہے؟ اور اس حیثیت کے ساتھ قومیت کا یا شناخت کی سیاست کا کیا جوڑ ہے؟
مسلم امت اور قرآن مجید
قرآن مجید میں انسانوں کے اجتماعی وجود کے لیے مختلف الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان الفاظ پر اور ان کے محل ِاستعمال پر ایک نظر، امت مسلمہ کی حیثیت کو سمجھنے میں مدگار ہوگی۔
نسلی گروہ: عربی زبان میں نسلی گروہوں کے لیے متعدد الفاظ ہیں۔ ماہرین لغت نے ان کے متعدد طبقات ( طبقات النسب)متعین کیے ہیں۔[11] ان میں سب سے پہلا طبقہ الشعب کا ہے۔(وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا۔ الحجرات: ۱۳)جس کے معنی تقریباً وہی ہیں جو نسل Raceکے ہوتے ہیں۔ یعنی ایک فرد کی نسل سے نکلنے والی ایک بڑی آبادی۔ اس کی مثال بنو عدنان کی دی جاتی ہے۔ یعنی جزیرہ نمائے عرب میں پھیلے ہوئے عرب لوگ جو عدنان کی اولاد ہیں۔ اس کے بعد دوسرا طبقہ القبیلہ ہے، جو شعب ہی کا سب سیٹ subsetہوتا ہے یعنی کئی قبیلے مل کر ایک شعب بنتا ہے۔ جیسے قبیلہ قریش۔ اس سے نیچے العشیرۃ جو قریبی رشتے داروں پر یا ایک دادا یا پر دادا کی اولاد پر مشتمل ہوتا ہے جیسے بنو ہاشم۔( وَأَنذِرْ عَشِیرَتَكَ الْأَقْرَبِینَ۔ الشعراء 214) اور اس سے نیچے الأسرة جو ماں باپ اور بچوں پر مشتمل ہوتا ہے۔اس کے لیے قرآن میں اهل کا لفظ استعمال ہوا ہے۔( طبقات النسب کے محققین نے ان کے درمیان اور بھی سطحوں کا ذکر کیا ہے)۔ سورۃ الحجرات کی مذکورہ آیت میں ان نسلی شناختوں کو تسلیم کیا گیا ہے۔ کہا گیا کہ ان کا مقصد تعارف ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ بھی واضح کردیا گیا کہ یہ شناختیں اونچ نیچ کی بنیاد نہیں بن سکتیں۔
قوم: قوم كا لفظ قرآن مجید میں تقریباً دو سو مقامات پر آیا ہے۔ ان کی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن نے عام طور پر کسی علاقے میں رہنے والے یا کسی مشترک نسل کے ایسے لوگوں کے لیے قوم کا لفظ استعمال کیا ہے جو ایک ساتھ رہتے ہیں۔ قرآن نے انبیا ء کی قوموں کو ان کے ناموں کے ساتھ منسوب کیا ہے۔ قوم ہود، قوم شعیب وغیرہ۔ انبیا نے اپنی برادری کے ان لوگوں کو بھی جو خدا کے نافرمان تھے اور ان پر ایمان نہیں لائے تھے، یا قومی (میری قوم) کہہ کر مخاطب کیا ہے۔
ملّة: ’قرآن مجید میں لفظ ملت کا استعمال دین اور طریقہ زندگی کے لیے کیا گیا ہے لیکن ملت کے معنوں میں ایسا اجتماعی گروہ بھی مراد ہوتا ہے جس کی بنیاد مذہب اور روایاتِ مذہب پر ہو۔ عربی کی مشہور لغت معجم المعانی الجامع میں دین و شریعت کے ساتھ ملت کا یہ مطلب بھی بیان کیا گیا ہے۔ طائفة دینیّة، مجموعة متَّحدة بعقیدة مشترکة۔ حدیث شریف میں بھی ان معنوں میں ملت کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تَفتَرِقُ اْمَّتِی عَلی ثَلَاثٍ وَسَبعِینَ مِلَّة کُلُّھم فِی النَّارِ اِلَّا مِلَّة وَاحِدَة۔[12] (میری امت تہتر ملتوں میں تقسیم ہوجائے گی، وہ سب جہنم میں جائیں گی سوائے ایک ملت کے)قرآن مجید کی جن آیتوں میں ملت کا لفظ استعمال ہوا ہے ان پر غور کرنے سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اکثر جگہوں پر دین اور طریقہ بھی مراد لیا جاسکتا ہے اور دین و مذہب کی بنیاد پر وجود میں آنے والا انسانی گروہ بھی۔
اُمَّة: امت کی اصطلاح قرآن میں ایسے اجتماعی گروہوں کے لیے استعمال ہوئی ہے جن میں کوئی بھی قدر مشترک ہو۔ مثلاً ایک زمانہ، ایک علاقہ، ایک پیشوا وغیرہ۔ بلکہ چرند،پرند اور حیوانوں کی جنس کے لیے بھی اس لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ (الانعام: 38) لیکن زیادہ تر یہ لفظ ایسے افراد کے مجموعے کے لیے استعمال ہوا ہے جن کے عقائد یا اعمال ایک جیسے ہوں۔( وَلَهُمْ أهْدَافٌ مُشْتَرَكَةٌ فِی العَقِیدَةِ أَوِ السِّیاسَةِ أَوِ الاقْتِصَادِ) یعنی ان لوگوں کا مجموعہ جن کے، عقیدے، سیاست یا اقتصاد کے حوالے سے مشترک مقاصد ہوں۔ [13]
حزب: قرآن مجید میں دو جگہوں پر مسلمانوں کے لیے حزب یعنی پارٹی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لفظ کے مطلب کے بارے میں کہا گیا ہے کہ الحزب القوم یجتمعون لأمر حزبهم[14].حزب وہ گروہ ہے جو حزب کے کسی امر کی خاطر جمع ہوتا ہے۔ یا یہ کہ جماعة من الناس على مذهب سیاسی عقائدی واحد[15] (انسانوں کا ایسا گروہ جو کسی ایک اعتقادی سیاسی مسلک پر مجتمع ہوا ہو)
یہ تفصیل ہم نے یہ واضح کرنے کے لیے بیان کی ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے کہیں بھی وہ الفاظ استعمال نہیں کیے ہیں جو صرف نسلی گروہوں یا جغرافیائی و قومی وحدتوں کے لیے استعمال ہوسکتے ہیں۔نہ شعب کا لفظ استعمال کیا ہے نہ قبیلة کا اور نہ قوم کا۔ بلکہ تین موخر الذکر الفاظ (ملة، امة اور حزب(استعمال کیے ہیں۔ قوم کا لفظ قرآن مجید نے عام لغوی معنوں میں استعمال کیا ہے یعنی ان لوگوں کا مجموعہ جن کے درمیان نسل، زبان یا وطن کا اشتراک ہو۔ انبیا ء علیہم السلام نے خدا پر ایمان نہ رکھنے والے اپنے مخاطبین کو بھی یا قومی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ قَالَ الْمَلَأُ الَّذِینَ اسْتَكْبَرُوا مِن قَوْمِهِ لَنُخْرِجَنَّكَ یا شُعَیبُ وَالَّذِینَ آمَنُوا مَعَكَ مِن قَرْیتِنَا أَوْ لَتَعُودُنَّ فِی مِلَّتِنَا قَالَ أَوَلَوْ كُنَّا كَارِهِینَ. قَدِ افْتَرَینَا عَلَى اللَّهِ كَذِبًا إِنْ عُدْنَا فِی مِلَّتِكُم بَعْدَ إِذْ نَجَّانَا اللَّهُ مِنْهَا قومِ شعیب کے متکبر سرداروں نے کہا: شعیب! ہم تجھے اور ان لوگوں کو جو تیرے ساتھ ایمان لائے ہیں، اپنی بستی سے نکال دیں گے یا پھر تمھیں ہماری ‘ملت’ میں واپس آنا ہوگا۔ شعیب نے کہا: ”خواہ ہم اسے ناپسند کرتے ہوں تو بھی؟ اگر ہم تمھاری ‘ملت’ میں دوبارہ چلے جائیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھا تھا جب کہ اللہ ہمیں اس سے نجات دے چکا ہے۔(الأعراف: 88و89)اس آیت میں بیک وقت قوم اور ملت کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ شعیب علیہ السلام اور ان کے مخاطبین دونوں ایک قوم کے فرد تھے البتہ ان کی ملتیں الگ الگ تھیں۔
ملت یا امت کی حیثیت کیا ہے؟ اور اس حیثیت کے تقاضے کیا ہیں؟ قرآن مجید میں اس کی وضاحت بھی ملتی ہے۔ وَجَاهِدُوا فِی اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیكُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِیكُمْ إِبْرَاهِیمَ هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِینَ مِن قَبْلُ وَفِی هَٰذَا لِیكُونَ الرَّسُولُ شَهِیدًا عَلَیكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ۔ اللہ کی راہ میں جدوجہد کرو جیسا کہ جدوجہد کرنے کا حق ہے۔ اس نے تمھیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے اور دین تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی۔ قائم ہوجاؤ اپنے باپ ابراہیم کی ملت پر۔اللہ نے پہلے بھی تمھارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی تمھارا یہی نام ہے۔ تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ بنو( الحج: 78)
اس سے قوم اور ملت کا فرق اور واضح ہوجاتا ہے۔ قوم ایک نسلی گروہ یا کسی جغرافیائی علاقے میں رہنے والے لوگوں کا نام ہے۔ (یا موجودہ دنیا میں کسی ریاست کے باشندوں کا مجموعہ ہے) اپنی قوم کا اکثر انتخاب نہیں کیا جاتا، وہ فطری اور پیدائشی طور پر متعین ہوجاتی ہے۔لیکن اس کے بالمقابل جب ہم حزب یا پارٹی بولتے ہیں تو اس سے ایک گروہ مراد ہوتا ہے جو کسی خاص مشن کی خاطر تشکیل دیا گیا ہے۔ جس کی رکنیت رضاکارانہ ہے اور اس مشن سے اتفاق اور وابستگی پر مبنی ہے۔ پارٹی کا اپنا اجتماعی وجود ہوتا ہے۔ حزب یا پارٹی ہی کی طرح ملت بھی ایک نظریاتی گروہ کا نام ہے۔وہ ان افراد کے مجموعے کا نام ہے جو کچھ عقائد اور اصولوں کا اشتراک رکھتے ہیں اور اس کی وجہ سے ایک مشن اور نصب العین کے علم بردار بن جاتے ہیں۔ اس آیت میں شہادت علی الناس کو مسلم ملت کا مشن قرار دیا گیا ہے۔
ملت اسلامیہ کے لیے قرآن نے جو دیگر اصطلاحات استعمال کی ہیں، وہ بھی انھی معنوں میں ہیں۔امت کا لفظ قرآن کی معروف آیات میں مسلمانوں کے نصب العین کی وضاحت کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
مثلاً امت کے ساتھ شہادت علی الناس اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے کام کی نسبت رکھی گئی ہے۔ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ وَیكُونَ الرَّسُولُ عَلَیكُمْ شَهِیدًا اور اس طرح ہم نے تمھیں ایک امت وسط بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اوررسول تم پر گواہ ہو۔( البقرة: 143) كُنتُمْ خَیرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ اب دنیا میں بہترین امت تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے نکالا گیا ہے۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔( آل عمران: 110) سورہ مجادلہ کی آخری آیت میں حزب اللہ(یعنی اللہ کی پارٹی) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے اور اللہ کی اس پارٹی کی رکنیت کو ایمان اور کچھ اوصاف کے ساتھ وابستہ کیا گیا ہے جو دراصل مومنانہ اوصاف ہیں اور اسی وابستگی کو ان کی حمیت اور اجتماعی زندگی کی اہم ترین بنیاد قرارد یا ہے۔ لَا تَجِدُ قَوْمًا یؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْیوْمِ الْآخِرِ یوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَوْ كَانُوا آبَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَانَهُمْ أَوْ عَشِیرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِی قُلُوبِهِمُ الْإِیمَانَ وَأَیدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَیدْخِلُهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِی مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِینَ فِیهَا رَضِی اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُون۔ تم کبھی یہ نہ پاؤ گے کہ جو لوگ اللہ اور آخرت پر ایمان رکھنے والے ہیں وہ اُن لوگوں سے محبت کرتے ہوں جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے، خواہ وہ اُن کے باپ ہوں، یا اُن کے بیٹے، یا اُن کے بھائی یا اُن کے اہل خاندان یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان ثبت کر دیا ہے اور اپنی طرف سے ایک روح عطا کر کے ان کو قوت بخشی ہے وہ ان کو ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے وہ اللہ کی پارٹی کے لوگ ہیں خبردار رہو، اللہ کی پارٹی والے ہی فلاح پانے والے ہیں۔(المجادلہ: 22)
ان تعبیرات کو سامنے رکھ کر ‘قومیت ‘ اور ‘شناخت کی سیاست ‘ کے جدید و مابعد جدیدتصورات کے سلسلے میں ہم مسلمانوں کی پوزیشن کا تعین کرسکتے ہیں۔ آزادی سے قبل یہ سوال مسلمانوں میں بڑی شدت کے ساتھ زیر بحث آیا تھا کہ مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں یا ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں۔ بعض لوگوں نے دو قومی نظریہ پیش کیا اور مسلمانوں کو ایک الگ اور جداگانہ قوم قرار دیا۔جب کہ بعض لوگوں نے متحدہ قومیت (composite nationalism)کا تصور پیش کیا کہ اس ملک کے رہنے والے سب لوگ ایک مشترکہ تہذیبی ورثے کے حامل ہیں اس لیے ایک قوم ہیں۔ یہ سوال یورپی قوم پرستانہ تصورات اور جدیدیت کے سیاسی نظریات ہی کے تناظر میں پیدا ہوا تھا۔جیسا کہ واضح کیا گیا، قوم پرستی کا جدید تصور، انسانوں کی اجتماعیت کے لیے قوم ہی کو اہم ترین بلکہ واحد بنیاد قرار دیتا تھا۔ اس طرح عام لغوی معنوں سے ہٹ کر اور قرآن میں مذکور معنوں سے جدا، قوم کے الگ اصطلاحی معنی وجود میں آئے تھے۔جدید فلسفوں میں ہی نہیں بلکہ سیاست، قانون وغیرہ میں بھی قوم کا لفظ انھی جدید معنوں میں رواج پاچکا تھا۔ ان معنوں میں مسلمانوں کو ایک قوم قرار دیا جاتا تو اس کا تقاضا یہ قرار پاتا کہ مسلمانوں کا تہذیبی و مذہبی تشخص ختم ہوجائے اور سارے ہندوستانی ایک مشترک تہذیب اور ایک مشترک قومی ورثے کو اختیار کرلیں۔ہندتو کی تحریکوں کا مطمح نظر یہی ہے۔ چناں چہ علامہ اقبال اور مولانا مودودی ؒ جیسے اسلامی مفکرین نے اس کو تنقید کا نشانہ بنایا۔[16]ہندستان جیسے ملک میں، اسلامی بنیادوں پر قومیت کا تصور کیا ہوسکتا ہے؟ اس پر ہم نے اپنی کتاب ‘بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر’ میں تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ [17]
دوسری طرف مسلمان ایک گروہ بن کر اپنی شناخت کو اپنی سیاست کی بنیاد بنائیں تو یہ بھی ان کی مذکورہ بالا پوزیشن سے متصادم بات ہوگی۔مسلمان کسی نسل کا نام نہیں ہے۔یہ کسی لسانی گروہ کا نام نہیں ہے۔ کوئی جنس بھی نہیں ہے۔ کسی خاص رنگ، شکل و شباہت یا ذات کا نام بھی نہیں ہے۔ مسلمان کوئی طبقہ یا کلاس بھی نہیں ہیں۔ ان کی دل چسپی کبھی اپنی شناخت اور اس سے متعلق مسائل تک محدود نہیں ہوسکتی۔ وہ عقیدہ، اصول اور نظریات کی بنیاد پر بننے والا گروہ ہیں۔ اس گروہ سے وابستگی عقائد و نظریات کی بنیاد پر ہے اور ہر رنگ، نسل، ذات، قوم، طبقہ، جنس، اور لسانی گروہ کے لیے عام ہے۔ وہ خیرأمة ہیں، یعنی ان کی ذمے داری خود تک محدود نہیں ہوسکتی۔ وہ أخرجت للناس ہیں، سارے انسانوں کے لیے ذمے دار ہیں۔ شهداء على الناس ہیں۔ ان سب انسانوں پر انھیں حق کی گواہی دینی ہے۔ وہ أمة وسط ہیں، لوگوں کو ہر طرح کی بے اعتدالی سے بچانے کا کام ان کے سپرد ہے۔ ان كی بنائے اجتماع ملة أبیكم إبراهیم ہے اور سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی طرح ایک آفاقی اور ہمہ گیر توحیدی وژن کے حامل ہیں۔ وہ قوامین بالقسط ہیں اور اللہ کے ہر بندے کو عدل و انصاف فراہم کرنا ا ن کا مشن ہے۔
شناخت کی سیاست میں کسی ایسے ہمہ گیر وژن یا آفاقی پروگرام کی گنجائش نہیں ہوتی جس کا تعلق ملک کے تمام انسانوں سے ہو۔ شناخت کی سیاست تو اپنی شناخت اور شناخت سے جڑے مفادات کو سیاست کی اصل بنیاد بنانے کا نام ہے۔مظلوم قوموں اور نسلی، لسانی، تہذیبی گروہوں کے لیے، جن کے سامنے اپنی شناخت کی حفاظت ہی اصل اور واحد بڑا چیلنج ہے، یہ طرز سیاست مفید ہے یا نہیں ہے، یہ بات بحث طلب ہے اور اس پر الگ الگ رایوں کی گنجائش ہے لیکن جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے اُن کے لیے تو کسی صورت یہ مفید نہیں ہوسکتی۔ یہ ان کے نظریاتی وجود کےلیے موت کا پیغام ہے۔ مسلمانوں کی سیاست ان کی اصولی دعوت کے تابع ہوکر ہی ا ن کے لیے مفید ہوسکتی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں مسلمان مظلوم ہیں بلکہ بعض علاقوں میں مظلوم ترین گروہ بنتے جارہے ہیں۔ اس میں بھی شک نہیں کہ اُن کے ساتھ ناانصافی و ظلم، ان کی مذہبی و دینی شناخت کو بنیاد بناکر ہی کیا جاتا ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ ملک کی عام آبادی اُن کو ایک ایسے نسلی گروہ کے طور پر ہی دیکھتی ہے جو واضح جداگانہ شناخت کا حامل ہے۔ ان سب کی وجہ سے انھیں اپنے اوپر ہورہے ظلم کے خلاف لڑنا بھی پڑتا ہے اور اپنی شناخت پر اصرار بھی کرنا پڑتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود حقیقت یہی ہے کہ ان کی اصل حیثیت اور ان کا امتیاز ان کا نسلی و تہذیبی پس منظر نہیں بلکہ ان کا دین، عقیدہ اور نظریہ ہے۔ اُن کا تہذیبی امتیاز بھی اسی عقیدے و نظریے کے تابع ہے۔ نسلی گروہوں کی طرح صرف اپنے مفادات تک وہ خود کو کبھی محدود نہیں کرسکتے۔ ظلم کے خلاف جدوجہد، شناخت پر اصرار، حقو ق کا حصول، یہ سب کوششیں وہ کر سکتے ہیں لیکن یہ کوششیں اُن کی سیاست اور دعوت کا اصل عنوان اور اُس کا اصل حوالہ نہیں بن سکتیں۔ یہ مقام تو دین اسلام کے دیے ہوئے مقاصد اور نظریے ہی کو حاصل ہونا چاہیے۔
مکے میں رسول اللہ ﷺ نے مظلوم مسلمانوں کی دادرسی کی بھی کوشش کی۔اسلام قبول کرنے والے غلاموں کو آزاد بھی کرایا۔ نظام اخوت کے ذریعے غریب و پریشان حال مسلمانوں کی مدد بھی کی۔ ہجرت حبشہ کا انتظام بھی کیا۔ مدینہ منورہ میں بھی دھوکے باز یہودی قبائل کی چیرہ دستیوں سے ان کو محفوظ رکھنے کے انتظامات کیے۔ لیکن آپ کی جدوجہد میں یہ عنصر ایک ذیلی و ثانوی عنصر کے طور پر یا اصل مقصد کی طرف پیش قدمی کی ایک ضرورت کے طور پر شامل تھا۔ اصل مقصد یا آپ کی جدوجہد کا اصل عنوان تو لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد ( اللہ کے بندوں کو دوسرے انسانوں کی غلامی سے نجات دلانا اور ان کے رب کی غلامی میں لے آنا) تھا۔ آپ کا ہدف تو یہ صورت حال پیدا کرنا تھا کہ صنعاء سے حضر موت تک اکیلی سفر کرنے والی عورت کو کسی کا خوف نہ ہو۔ آزادی، امن و امان اور عدل و انصاف کی یہ صورت حال کسی مخصوص نسلی گروہ یا کسی شناخت کے لیے مطلوب نہیں تھی سارے انسانوں کے لیے مطلو ب تھی۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان ایک مشن اور نصب العین رکھنے والا گروہ ہیں۔ جب مسلمان خود کو ایک نسلی گروہ یا ذات سمجھنے لگتے ہیں یا اپنی شناخت سے متعلق مادی مسائل ہی کو اپنا اول و آخر سمجھنے لگتے ہیں تو ساتھ رہنے والے دیگر افراد ان کے لیے اجنبی بن جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ غیریت کا تعلق قائم ہوجاتا ہے۔ وہ اپنا الگ گھیٹو بنا لیتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں ان کے اندر یا قومی کا پیغمبرانہ و داعیانہ سوز نہیں پیدا ہو پاتا۔ واقعہ یہ ہے اس ملک میں مسلمانوں اور غیر مسلموں میں دوری کا ایک سبب، خود کو ایک الگ قوم سمجھنے کا نفسیاتی اثر بھی ہے۔
سیاست کی بنیادیں
اوپر جو حیثیت بتائی گئی ہے، اس حیثیت کے تقاضے کیا ہیں اور وہ کس طرح کی سیاست کا مطالبہ کرتے ہیں؟ یہ موضوع اس مضمون کے قارئین کے لیے کوئی نیا موضوع نہیں ہے۔ متعدد اسلامی مفکرین نے خصوصاً مولانا مودودیؒ نے اس موضوع پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور اسی کو اسلامی تحریکوں نے اپنا مقصد و نصب العین بنایا ہے۔
ہندوستان جیسے ہمہ تہذیبی معاشرے میں اس نصب العین کا حصول یہاں کی آبادی میں اسلام کے تعارف ودعوت پر منحصر ہے۔ لیکن موجودہ ہندوستان میں مسلم امت کا فوری مقصد کیا ہوسکتا ہے اوراُسے کن آئیڈیلز کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے، اس حوالے سے بھی اسلامی مراجع میں کافی رہ نمائی موجود ہے۔
علمائے اسلام نے اسلامی شریعت کے مقاصد بتائے ہیں۔ اسلام صرف اُن مقاصد کا نام نہیں ہے بلکہ مقاصد کے حصول کے لیے جو احکام اللہ نے بیان کیے ہیں وہ بھی لازم ہیں۔ لیکن سیاست میں اگر اُن تمام احکام کا فوری نفاذ ممکن نہ ہو تو اسلامی مقاصد کے لیے ایسی پالیسیاں اختیار کرنا ہی مطلوب ہوگا جن سے ان مقاصد کی طرف پیش رفت ممکن ہوسکے اور جن کا اختیار کرنا دائرہ امکان میں ہو۔ مثلاً اسلام کا مقصود یہ ہے کہ امن و امان قائم رہے، ہر ایک کے ساتھ عدل ہو، وسائل کی منصفانہ تقسیم ہو، عوام کی بہبود ہو اور ہر ایک کی بنیادی ضرورتوں کی تکمیل ہو۔ ان مقاصد سے قریب تر پہنچنے کے لیے جن پالیسیوں کا نفاذ بھی ممکن ہو اُن کو نافذ کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے دور میں کئی اسلامی مفکرین نے مقاصد شریعت کو بنیاد بناکر سیاسی عمل کی مختلف شکلیں تجویز کی ہیں۔اس سلسلے میں علامہ یوسف القرضاوی کی کتاب فقه الدولة[18]، احمدریسونی کی کتاب الفكر الإسلامی وقضایانا السیاسیة المعاصرة[19]، راشد الغنوشی کی متعدد کتابیں (الدیمقراطیة وحقوق الإنسان فی الإسلام[20]، الحریات العامة فی الدولة الإسلامیة،[21] من تجربة الحركة الإسلامیة فی تونس[22]) وغیرہ سے مدد مل سکتی ہے۔
یہ کوئی نیا طرز فکر نہیں ہے۔علامہ ابن قیم جوزیؒ نے ابن عقیلؒ کے حوالے سے شرعی سیاست کی تعریف اس طرح کی ہے:
السیاسة ما كان من الافعال بحیث یكون الناس معه اقرب الى الصلاح وأبعد عن الفساد وإن لم یشرعه الرسول ﷺ–ولا نزل به وحی[23] (سیاست وہ عمل ہے جس کے ہوتے عوام فلاح و خیر سے قریب تر اور شر و فساد سے بعید تر ہوجائیں اگرچہ اس عمل کی تعلیم رسول نے دی ہو نہ ہی اس کا ذکر قرآن میں آیا ہو۔)
اس حوالے سے لوگوں نے افراط وتفریط کا جو راستہ اختیار کیا اس پر تنقید کرنے کے بعد ابن قیم اس بحث کو ان جملوں پر مکمل کرتے ہیں:
مقصوده إقامة الحق والعدل وقیام الناس بالقسط فأی طریق استخرج بها الحق ومعرفة العدل وجب الحكم بموجبها ومقتضاها والطرق اسباب ووسائل لا تراد لذواتها وإنما المراد غایاتها التی هی المقاصد ولكن نبه بما شرعه من الطرق على أسبابها وامثالها ولن تجد طریقا من الطرق المثبتة للحق إلا وهی شرعة وسبیل للدلالة علیها وهل یظن بالشریعة الكاملة خلاف ذلك۔ ولا نقول إن السیاسة العادلة مخالفة للشریعة الكاملة بل هی جزء من اجزائها وباب من أبوابها وتسمیتها سیاسة امر اصطلاحی [24]
“اسلامی شریعت کا مقصود سچائی و عدل کی اقامت اور لوگوں کے درمیان عدل و قسط کا قیام ہے۔ ہر وہ طریقہ جس سے حق واضح ہوجائے اور انصاف کے تقاضے واضح ہوجائیں اُس کا اختیار کرنا واجب ہے۔وسائل اور طریقے مقصود بالذات نہیں ہوتے بلکہ مطلوب مقاصد کا حصول ہوتا ہے اس لیے حق و عدل کی خاطر کوئی طریقہ اختیار کیا جائے تو وہ شریعت کے خلاف کیسے ہوسکتا ہے؟ عدل و انصاف کے حصول کی خاطر کی جانے والی سیاست، شریعت کے خلاف نہیں ہے بلکہ شریعت کے اجزا میں سے ایک جزء اور اس کے ابواب میں سے ایک باب ہے۔ اسے آپ سیاست کہیں یا کچھ اور اس سے فرق نہیں پڑتا۔”
ان مباحث کی روشنی میں یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس ملک میں مسلمانوں کو ایسا سیاسی پروگرام اور ایسا نظریہ لے کر آگے آنا چاہیے جو ملک کے سارے شہریوں کے لیےہو۔ شریعت اسلامی کے مقاصد کو سامنے رکھ کر ملک کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا سامان اس میں موجود ہو۔ جس میں سب کے لیے عدل کی ضمانت ہو۔ ہر ایک کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو۔اور مسلمان اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سارے انسانوں کے مفادات کے علم بردار بن کر ابھریں۔
یہاں شناخت کی سیاست کو اسلامی تشخص کی حفاظت کی کوششوں سے کنفیوژ کرنا درست نہیں ہوگا۔ مسلمان جب سارے انسانوں کے ساتھ عدل کی بات کریں گے تو دیگر مظلوم انسانوں کے ساتھ مسلمانوں کو انصاف فراہم کرانے کی بھی کوشش کریں گے۔ اُن کے جان و مال اور عزت و آبرو کا دفاع بھی کریں گے۔ ایسے پروگرام بھی تجویز کریں گے اور انھیں اپنے ڈسکورس کی بنیاد بنائیں گے جن میں مسلمانوں سمیت تمام گروہوں کے بنیادی انسانی اور مذہبی و تہذیبی حقوق کے تحفظ کا بھرپور انتظام موجود ہو۔ شناخت کی سیاست کا مطلب پوری سیاست یا تمام مباحث کا صرف اپنے گروہ کے تنگ مفادات تک محدود ہوجا نا ہے، فرقہ وارانہ کشمکش کو سیاست کا غالب رجحان بنادینا ہے، کسی ایسے ہمہ گیر یا آفاقی نظریے کی عدم موجودگی ہے جو ملک کے تمام شہریوں کو ایڈریس کرتا ہو۔ ایسی سیاست کو ہم اسلامی مزاج و تعلیمات کے مغائر سمجھتے ہیں۔
اس بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ مسلمان نہ خود کو مین اسٹریم سیکولرسیاست تک محدود رکھ سکتے ہیں اور نہ شناخت کی سیاست تک۔ گذشتہ قسط میں ہم نے ان دونوں طرز ہائے سیاست کے نقصانات پر بحث کی تھی اور اس دفعہ یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ یہ دونو ں طرز مسلمانوں کی حیثیت و مقام سے مناسبت بھی نہیں رکھتے۔ اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں اس ملک کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا ایک منفرد پروگرام اور نظریہ ہی اہل اسلام کا امتیاز بننا چاہیے۔ اسی کو لے کر اعتماد و یقین کے ساتھ انھیں ہندتو سے ا ور ملک کی پوری آبادی سے انگیج ہوناچاہیے اور اسی نظریے کو اپنی جہد و کاوش کی بنیاد بنانا چاہیے۔
اگلی قسطوں میں اس مطلوب ڈسکورس کے کچھ اہم موضوعات کو ہم یکے بعد دیگرے زیر بحث لائیں گے۔ اس میں ہندتو کے طرز فکر پر تنقید اور ان کے اٹھائے ہوئے سوالات کے جوابات بھی ہوں گے اور ایجابی طور پر ملک کے اہم مسائل کے بہتر حل کی تجاویز بھی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
حواشی و حوالہ جات
1. جدیدیت کے سیاسی نظریات کو سمجھنے کے لیے دیکھیں:
Sutch, P., Roberts, P. (2012). An Introduction to Political Thought: A Conceptual Toolkit. United Kingdom: Edinburgh University Press.
جدیدیت کی مختصر تنقیح ہماری درج ذیل کتاب میں بھی کی گئی ہے:
سید سعادت اللہ حسینی (۲۰۰۸) مابعد جدیدیت کا چیلنج اور اسلام؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی۔
2. تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں:
Benoit, K., and Laver, M. 2006. Party policy in modern democracies. London: Routledge
3. قومیت کے بارے میں اہم ہندوستانی مفکرین و قائدین کے افکار کو سمجھنے کے لیے مضامین کا ایک جامع کتاب:
Irfan Habib [edited] (2017) Indian Nationalism: The Essential Writings; Aleph Book Company; New Delhi
4. شناخت کی سیاست، اس کی تاریخ اور پس منظر کے لیے ایک مفید کتاب:
Nicholson, L. (2008). Identity Before Identity Politics. (n.p.): Cambridge University Press.
5. اس موضوع پر فوکویاما کی تازہ کتاب سے کئی دل چسپ گوشوں کی وضاحت ہوتی ہے:
Fukuyama, F. (2018). Identity: The Demand for Dignity and the Politics of Resentment. United States: Farrar, Straus and Giroux.
اس کتاب میں زیر بحث موضوع کی تفصیل کے لیے دیکھیں:
Introduction (page xiii) and The Third Part of the Soul (Page 18)
6. امریکہ میں شناخت کی سیاست کے روپ کو سمجھنے کے لیے:
Francis Fukuyama; Against Identity Politics, The New Tribalism and Crisis of Democracy; in Foreign Affairs; New York; September, October 2018.
7. فرانسیسی ماہر سماجیات مائیکل موفیسولی نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ماڈرن ازم کی ناکامی نے دنیا میں تیزی سے قبائلیت کی طرف دوبارہ واپسی کا رجحان پیدا کیا ہے
Michael Maffesoli(1995) The Times of The Tribe; Sage Publications; London
8. اس دل چسپ بحث کے لیے دیکھیں:
Festante, R. (2005). An Introduction to the Theory of Gender-neutral Language. Germany: GRIN Verlag.
9. اس موضوع پر ایک اہم تحقیقی مقالہ ملاحظہ فرمائیں۔ امریکی سیاست کے اس تجزیے میں بہت سے نکات ہمارے ملک کی سیاست سے مشترک ہیں۔
Siltala Juha; “In Search of the Missing Links Between Economic Insecurity and Political Protest” Frontiers in Sociology (Journal); Vol. 5; April 2020; page 28
10. درج ذیل دو محولہ مقالوں میں شناخت کی سیاست کے مثبت استعمال کی بعض شکلیں واضح ہوتی ہیں۔ لیکن بہر حال یہ اصلاً نسلی گروہوں اور اس قبل کی دیگر شناختوں کے لیے کسی درجے میں مفید ہوسکتی ہے۔ امت مسلمہ جیسی نظریاتی جماعت کے لیے نہیں:
McGowan, T. (2020). Universality and Identity Politics. Germany: Columbia University Press.
Gutmann, Amy. Identity in Democracy. Core Textbook ed. Princeton University Press, 2009. Project MUSE
11. دار الجنان للنشر والتوزیع.(2020).بنو جماعة ( الجماعات ) نسب واعلام۔
12. صحیح الترمذی (2641)؛ رواه عبد الله بن عمرو؛، الصحیحة (1348)؛ ص141–كتاب صحیح وضعیف سنن الترمذی–المكتبة الشاملة الحدیثة
13. تعریف و معنى أمة فی معجم المعانی الجامع
14. الزمخشری؛ تفسیر الكشاف؛ الماَئدة،٥٦
15. معنى كلمة حزب فی معجم الرائد
16. مولانا مودودی کی تنقید ملاحظہ فرمائیں۔ قومیت سے متعلق اس کتاب میں چار نہایت اہم مضامین ہیں۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی (1963) تحریک آزادی ہند اور مسلمان(حصہ اول) اسلامک پبلیکیشنز؛ لاہور
— علامہ اقبال کے اس موضوع پر دو نہایت گراں قدر مقالات ہیں:
علامہ ڈاکٹر سر محمد اقبال (2011) مقالات اقبال (مرتبہ عبدالواحد معینی) جغرافیائی حدود اور مسلمان (ص 264)
ایضاً، ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر (ص152تا 183)
— مولانا حسین احمد مدنیؒ اور علامہ اقبال کے درمیان اس موضوع پر جو مباحثہ ہوا اس کو پڑھنے کے لیے دیکھیں:
حضرت مولانا حسین احمد مدنی؛ (1975)؛ متحدہ قومیت اور اسلام، مکتبہ محمودیہ لاہور
17. سید سعادت اللہ حسینی (2018) بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر؛ ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی ص 57 تا 71
18. الشیخ یوسف القرضاوی (1997) من فقه الدولة فی الاسلام؛ دارالشروق للنشر والتوزیع، قاہرہ۔
19. الاستاذ احمد الرِیسونی (2013) الفكر الاسلامی و قضایانا السیاسیة المعاصرة؛ دارالكلمة للنشر والتوزیع؛ القاهرة
20. الشیخ راشد الغنوشی (2012)الدیمقراطیة وحقوق الإنسان فی الإسلام; مركز الجزیرة للدراسات ;دوحة قطر
21. الشیخ راشد الغنوشی(1993) الحریات العامة فی الدولة الإسلامیة؛ مركز دراسات الوحدة العربیة – بیروت
22. الشیخ راشد الغنوشی(2011) من تجربة الحركة الإسلامیة فی تونس، دار المجتهد للنشر والتوزیع؛ بیروت لبنان.
23. ابن قیم الجوزیة؛ إعلام الموقعین–دار الجیل–المجلد 4–الصفحة 372–جامع الكتب الإسلامیة
24. ایضاً الصفحة 373