کثیر تہذیبی ملک کے تقاضے

اس سلسلہ مضامین میں ابھی تک ہندتو کی فکری اساسیات کو واضح کیا گیا، سیکولر سیاست کی اُن کم زوریوں کا جائزہ لیا گیاجس سے ہندتو کے فروغ میں مدد ملی، مسلم سیاست کی اب تک کی تاریخ پر تنقیدی نگاہ ڈالی گئی اور پچھلے شمارے میں مسلم امت کی حیثیت اور پوزیشن پرکچھ معروضات پیش کی گئیں۔ اب چند قسطوں میں اُن مختلف موضوعات پر بات کی جائے گی جنھیں ہمارے خیال میں، اِس وقت ملک کی سیاست میں زیر بحث لائے جانے کی ضرورت ہے اور جن کے حوالے سے ہندتو کے علم برداروں سے بھی اور سیکولر اہل فکر کے ساتھ بھی گہرے مذاکرات کی اور ان حوالوں سے ملک کی رائے عامہ کی تیاری کی ضرورت ہے۔

ملک کے موجودہ تشویش ناک احوال میں، اس خیر کا بھی امکان موجود ہے کہ اہل ملک دیر سویر، اس ملک کی زمینی حقیقتوں کو سامنے رکھ کر، شہریوں کے درمیان مساوات اور اُن کے حقوق کی حفاظت کے لیے بہتر پالیسیوں کی طرف متوجہ ہوجائیں۔ ماضی میں دنیا کے کئی ملکوں میں انتہاپسندانہ تحریکوں کے عروج اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خون خرابے نے نظاموں میں ٹھوس اصلاحات کی راہیں ہم وار کی ہیں۔ اٹلی اور جرمنی میں فسطائیت کی تباہ کاریاں بہت سے عالمی معاہدوں کے لیے محرک بنیں، ان کے نتیجے میں خود ان ملکوں میں جمہوری اصلاحات کو فروغ حاصل ہوااور اقوام متحدہ اور اس کے متعدد ذیلی ادارے قائم ہوئے۔ بلقان اور مشرقی و وسطی یورپ کے علاقوں میں کمیونسٹ استبداد اور نسل پرست تحریکوں کے مظالم کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں مختلف تہذیبی اکائیوں کے حقوق سے متعلق بہت سی انقلابی اور انوکھی و اختراعی تجاویز روبہ عمل لائی گئیں۔اس لیے ہمارا اندازہ ہے کہ فرقہ پرست طاقتوں کی پیدا کردہ خرابیاں اور شر انگیزیاں مستقبل قریب میں، ملک میں دیرپا اصلاحات کا ذریعہ بنیں گی۔اہل اسلام کو بھی اس میں اہم رول ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہیے۔ آج کے حالات پر لاحاصل نوحہ و ماتم میں اپنی ساری توانائی ضائع کرنے کے بجائےہم آنے والے کل کا اندازہ کریں اوراِن بحثوں کو اٹھانے کی کوشش کریں کہ ملک کے تمام لوگوں کو عدل وانصاف اور مساوی حقوق کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے اور فرقہ پرستوں کی شر انگیزیوں سے ملک کو محفوظ رکھنے کے لیے ہمارے ملک میں مزید کیا اصلاحات درکار ہیں؟

عدل و مساوات

عدل، اسلامی شریعت کا عنوان اور اس کی نہایت اہم خصوصیت ہے۔علامہ ابن قیمؒ نے شریعت اسلامی کا مقصد ہی عدل قرار دیا ہے۔(مقصودہ اقامة العدل بین عبادہ وقیام الناس بالقسط[1])۔ بلكہ خود اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی جگہ عدل و قسط کو مسلمان کے مشن کے طور پر بیان کیا ہے۔ یا أَیهَا الَّذِینَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِینَ بِالْقِسْطِ (اے لوگو، جو ایمان لائے ہو، عدل و قسط کے لیے اٹھ کھڑے ہونے والے بنو۔ النساء 135قُلْ أَمَرَ رَبِّی بِالْقِسْطِ (کہہ دو کہ میرے رب نے مجھے عدل و قسط کا حکم دیا ہے۔ اعراف 29)۔ لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَینَاتِ وَأَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَالْمِیزَانَ لِیقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ (بیشک ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل کے ساتھ بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی، تاکہ لوگ عدل پر قائم ہوں۔ الحدید: ۲۵)اس طرح کی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سیاست میں اسلام کا نہایت اہم ہدف عدل ہے۔

ہمارے ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بھی عدل و مساوات ہی ہے۔ یہاں عدل و مساوات کا یہ مسئلہ دنیا کے بعض اور حصوں کی طرح محض معاشی معاملات تک محدود نہیں ہے بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں نابرابری، ظلم، استحصال اور تذلیل، صدیوں سے یہاں کے سماجی، سیاسی، اقتصادی اور تہذیبی نظام کا جز ہے۔

عدل و برابری اس ملک میں ہمارے ڈسکورس کا ایک نہایت اہم عنوان ہونا چاہیے بلکہ مسلم امت کو قرآن کے حکم کے مطابق عدل و قسط کا اس طرح علم بردار بن جانا چاہیے کہ وہ اُس کے اجتماعی وجود کا اہم ترین حوالہ، اُس کی سیاست کا اصل عنوان، اور اُس کی شناخت کا نمایاں ترین جز بن جائے۔ہمارے ملک میں عدل سے متعلق درج ذیل موضوعات خاص طور پر توجہ طلب ہیں۔

1. معاشی عدل: یعنی سماج کے تمام طبقات کو بنیادی ضروریات زندگی کا حق، ملک کی دولت کی منصفانہ تقسیم کے لیے بہتر پالیسیاں اور دولت کے بہاؤ کو امیروں سے غریبوں کی طرف کرنے کی خاطر نیز استحصال اور لوٹ کھسوٹ کی موثر روک تھام کے لیےپالیسی اقدامات(policy measures)۔

2. انصاف رسانی کا نظام: یعنی عدالتوں کا اور تفتیش و استغاثے کا نظام بہتر، سریع، اور زیادہ سے زیادہ منصفانہ بنانا۔ عام آدمی کو مفت اور تیز رفتار انصاف کی رسائی، ظالموں کو جلد سے جلد کیفر کردار تک پہنچانے اور بے قصوروں کی ہراسانی اور نظام انصاف کےاستحصال کی روک تھام کی خاطر عدالت و پولیس کے نظام میں موثر اصلاحات۔

3. ذات پات، صنف اور طبقات کی بنیاد پر مظالم کی روک تھام: خصوصاً پس ماندہ کہلانے والے گروہوں کو عزت و تکریم کی زندگی فراہم کرنا، ذات پات کا مکمل خاتمہ، پس ماندہ ذاتوں کو بااختیار بنانے اور سماجی لحاظ سے اونچا اٹھانے کی خاطرزیادہ موثر پالیسی اقدامات (policy measures)

4. تہذیبی، نظریاتی اور نسلی گروہوں کے وجود کو تسلیم کرنا اور ان کو اجتماعی حقوق فراہم کرنا تاکہ انھیں اپنے معاملات میں زیادہ سے زیادہ اختیارات حاصل ہوں اور ملک کے مجموعی نظام میں متناسب طاقت ملے۔

5. استحصال سے پاک سیاست: ہمارے ملک میں ناانصافیوں کا سب سے بڑا سرچشمہ ملک کی سیاست ہے۔ عوام میں تقسیم پیدا کرنا، انھیں لڑانا، فسادات کرانا، کچھ طبقات کا استحصال کرنا، یہ سب انتخابات جیتنے کے شارٹ کٹ بن چکے ہیں۔ نظام سیاست کی از سر نو ڈیزائننگ جس کے نتیجے میں یہ سلسلہ رکے، عدل کی لازمی ضرورت ہے۔

اس وقت ہمارے پیش نظر چوتھے نکتے پر گفتگو ہے۔ اس سے آخری یعنی پانچویں مقصد کے حل میں بھی کچھ مدد ملے گی۔ہمارے ملک میں، عدل و انصاف سے متعلق مختلف پہلوؤں پر بحث ہوتی رہی ہے لیکن نئے عالمی تناظر میں، تہذیبی اکائیوں کے حقوق اور ان کے ساتھ عدل کے تقاضے کم ہی زیر بحث آسکے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ مسئلہ ملک کے مخصوص حالات میں نہایت نازک مسئلہ بن گیا ہے۔ شناخت کی سیاست اور فرقہ وارانہ کشمکش کے حساس موضوعات کے ساتھ اکثر یہ مسئلہ گڈ مڈ ہوجاتا ہے۔جس کی وجہ سے اس پر توجہ نہیں ہوپاتی۔ہم چاہتے ہیں کہ انصاف کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں اورپورے ملک کے مفاد کے حوالے سے، اس اہم مسئلے پر سنجیدہ گفتگو ہو اور دنیا کے مختلف کثیر تہذیبی ممالک جو جمہوری تجربات کررہے ہیں، ان سے استفادہ کرتے ہوئے، اہل دانش اس میں حصہ لیں۔ ان معروضات کا مقصد کوئی حتمی حل پیش کرنا نہیں ہے بلکہ اہل دانش کو سنجیدہ غور و فکر، نئے حل اور بہتر ماڈلوں کی تلاش کی دعوت دینا ہے۔

تکثیری سماج اور نوآبادیاتی اپروچ

آزادی سے پہلے یورپ کے حکم رانوں و دانش وروں کو ہندوستان جیسے تکثیری یا کثیر تہذیبی ملک کا سامنا ہوا تو یہ صورت حال ان کے لیے ایک بالکل نئی صورت حال تھی۔ جدیدیت کے قوم پرستانہ تصورات کےسائے میں پروان چڑھنے والے، ان سیاست دانوں یا نظریہ سازوں کے سامنے ایک کثیر تہذیبی ملک کا کوئی ٹھوس وژن نہیں تھا، بلکہ ان دانش وروں کے نزدیک ان تکثیری سماجوں میں مختلف مذہبی، تہذیبی اور لسانی گروہوں کو جوڑنے والی کو ئی اندرونی قدر موجود ہی نہیں تھی اور صرف بیرونی حکومت کے جبر کی وجہ سے وہ ایک اکائی بنے ہوئے تھے۔مثلاً برطانوی دور کے مشہور مصنف جان فرنی وال [John S. Furnivall (1878-1960)، اسے برطانوی دور میں کثیر تہذیبی معاشروں کا اہم ترین ماہر مانا جاتا تھا] نے اپنی تحریروں میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ ہندوستان جیسے کثیر تہذیبی سماجوں میں ہر فرقےکی قدریں دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ ان فرقوں کے درمیان اتفاق رائے کی کوئی بنیاد موجود نہیں ہے۔ بلکہ کوئی “مشترک سماجی طلب”(common social demand)بھی موجود نہیں ہے۔اور اس وجہ سے ان سماجوں میں ہمیشہ پر تشدد ٹکراؤ کے خطرات لاحق رہتے ہیں اور یہاں امن و امان کے لیے کسی بیرونی طاقت (یعنی نوآبادیاتی استعمار)کی موجودگی ضروری ہے۔ [2]

اس دور کے متعدد مغربی مصنفین کے افکار کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے پاس بھی اس طرح کے سماجوں کے لیے پر امن بقائے باہمی کا کوئی وژن نہیں تھا۔ ایم جی اسمتھ نے اس طرح کے سماجوں میں کسی ایک تہذیبی گروہ کے تسلط (monopoly) کو ضروری قرار دیا ہے۔[3]

ان خیالات کا اثر ہمارے ملک کے جدید تعلیم یافتہ دانش وروں اور سیاست دانوں پر بھی پڑا۔ انھوں نے بھی ایک ملک کے لیے ایک تہذیب کے وجود کو ضروری سمجھنا شروع کیا۔یہ لوگ دوگروہوں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو مختلف مذہبی فرقوں کے ایک ملک میں ساتھ رہنے ہی کو ناممکن سمجھتے تھے اور دوسری طرف وہ لوگ تھے جو ایک متحد ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے تہذیبوں کے ایک دوسرے میں انضمام اور ایک واحد تہذیبی متحد و متجانس قوم (unicultural homogeneous nation) کی طرف پیش قدمی کو ضروری سمجھتے تھے۔

جدید عمرانیات (sociology) میں، تکثیری سماجوں کے تعلق سے دو طرح کے نظریے پائے جاتے ہیں۔ ایک خیال وہ ہے جسے گدازدان کا نظریہ (Melting Pot Theory) کہا جاتا ہے۔ اس میں دھاتوں کو پگھلانے والے برتن یاشربت کے ایک جار سماج کو سے تشبیہ دی جاتی ہے۔ شربت کے جار میں مختلف اشیا پگھل کر ایک بن جاتی ہیں۔ ان میں سے ہر شے کا جداگانہ رنگ و مزہ ختم ہوجاتا ہے اور ان سب کے امتزاج سے ایک نیا رنگ اور نیا مزہ پیدا ہوتا ہے۔ جس چیز کی مقدار زیادہ ہو اس کا مزہ اور رنگ غالب ہوتا ہے۔ کم مقدار کی اشیا بھی شربت کے رنگ اور مزہ پر اثر انداز ہوتی ہیں لیکن ان کی علیحدہ شناخت اور تشخص باقی نہیں رہتا۔ ان سب کے رنگ و بو کے امتزاج سے ایک نئے رنگ اور نئی بو کی بالکل نئی چیز تیار ہوجاتی ہے۔دوسرا نظریہ وہ ہے جسے سلاد بول (Salad Bowl) نظریہ کہا جاتا ہے، اس میں سماج کو سلاد کی ایسی پلیٹ سے تشبیہ دی جاتی ہے جس میں مختلف اشیا مل کر سلاد تشکیل دیتی ہیں لیکن ہرشے، اپنے جداگانہ رنگ و مزے کے ساتھ برقرار بھی رہتی ہےاور سلاد کا حصہ بننے کے نتیجہ میں کسی کی بھی شناخت ختم نہیں ہوتی اورآپ صاف پہچان لیتے ہیں کہ یہ گاجر ہے، یہ ککڑی ہے اور یہ زیتون ہے۔یعنی ہر اکائی اپنے تشخص کے ساتھ ایک وسیع تر اجتماعیت کا حصہ بنتی ہے۔[4]

نو آبادیاتی دور کے قوم پرستانہ تصورات نے گداز دان کے نظریے کو فروغ دیا تھا لیکن جیسا کہ ہم واضح کریں گے، اب بدلتی دنیا کی حقیقتوں نے ساری دنیا کو سلاد بول اپروچ کی طرف متوجہ کیا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک کے لیے یہی اپروچ معقول ہے، اسے عام طور پر تسلیم بھی کیا گیا ہے۔ لیکن اس اپروچ کے عملی تقاضے کیا ہیں؟ اس پر سنجیدہ بحث کی ضرورت ہے۔

کثیر تہذیبیت (multiculturalism) کے بہتر ماڈل کی ضرورت

گذشتہ شمارے میں ہم نے شناختوں کی سیاست پر تبصرہ کرتے ہوئے یہ بات لکھی تھی کہ اسلام کے ماننے والوں کو محض شناخت کی سیاست نہیں کرنی چاہیے لیکن شناختوں سے متعلق مسائل کا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں حل ضرور پیش کرنا چاہیے۔ یہ مسئلہ صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں ہے، اس ملک کے سیکڑوں سماجی و تہذیبی گروہوں کا مسئلہ ہے۔ تمام مذہبی اقلیتوں کا مسئلہ ہے۔ بہت سی اُن لسانی اقلیتوں کا بھی مسئلہ ہے جو کسی ریاست میں مرکوز نہیں ہیں یا اپنی ریاست سے باہر دوسری ریاستوں میں آباد ہیں۔ ان کے علاوہ درج فہرست ذاتیں، دلت، او بی سی، قبائلی اور آدیباسی، اور خود ہندوؤں کے بہت سے طبقات (مثلاً مہاراشٹر کے مراٹھے، کرناٹک کے لنگایت وغیرہ) جو اپنی علیحدہ مذہبی اور تہذیبی شناختوں کے حوالے سے حسّاس ہیں، یہ ان سب کا مسئلہ ہے۔

ہمارے ملک میں افراد کے حقوق کو تو بھرپور طور پر تسلیم کیا گیا ہے لیکن تہذیبی و مذہبی اکائیوں کے اجتماعی حقوق کو بہت کم اہمیت دی گئی ہے۔یہ اُس محولہ بالا عالمی سوچ کا اثر تھا جو دستور سازی کے وقت پائی جاتی تھی اور خصوصاًجمہوری قومی ریاست کے اینگلو سیکسن ماڈل پر حد سے زیادہ انحصار کا اثر تھا۔ ہم نے اس سے قبل (اگست ۲۰۲۱) یہ بات لکھی تھی کہ گاندھی اور امبیڈکر جیسے قائدین ہندوستان کی زمینی حقیقتوں کو سمجھتے تھے اور وہ تہذیبی گروہوں کی اجتماعی حیثیت کو تسلیم کرکےاُن کو ضروری حقوق دینا چاہتے تھے۔ لیکن پٹیل اور نہرو جیسے قائدین اسے مناسب نہیں سمجھتے تھے۔ نہرو پر اینگلو سیکسن ماڈل کے ساتھ اسٹالن کا بھی بڑا اثر تھا جو روس میں تہذیبی اکائیوں کو ضم کرکے سب کو’ایک قوم’ بنانے کی کوششوں میں مصروف تھا۔ چناں چہ امبیڈکر کی بعض بڑی اہم اور بنیادی تجاویز نامنظور ہوگئیں۔حتی کہ وہ باتیں جو ڈرافٹ کمیٹی سے منظور ہوکر ڈرافٹ دستور میں شامل ہوگئی تھیں وہ بھی دستور ساز اسمبلی میں نامنظور ہوگئیں۔ ان حضرات نے ہندوستان کو یورپی اقوام کی طرح ایک متحد اور متجانس قوم (homogeneous nation) سمجھ کر یہاں کےسیاسی و سماجی نظام کی صورت گری کی۔ یہ غیر فطری کوشش اور اپروچ، اس ملک کے بہت سے مسائل کے لیے ذمے دار ہے۔ موجودہ فرقہ وارانہ سیاست کی جڑ بھی اسی غلطی میں ہے۔ اس وقت ایک بڑی ضرورت یہ ہے کہ اہل ملک کو یہ بات سمجھ میں آئے کہ ہمارا ملک متعدد تہذیبوں کا گہوارہ ہے۔ اسے ایک تہذیبی اکائی مان کر معاملہ کرنے سے تنازعات اور مشکلات جنم لیتی ہیں۔

مذہبی اقلیتوں کے لیے، اس وقت ملک کے دستور میں دفعات 26(مذہبی گروہوں کو مذہبی و خیراتی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق) 29(1)]تہذیبی و لسانی گروہوں کو اپنی تہذیب اور زبان کی حفاظت کا حق] اور دفعہ30 (اقلیتوں کو تعلیمی ادارے قائم کرنے اور چلانے کا حق)یہ تین دفعات ہیں، جو اُن کو اجتماعی طور پر بعض محدود حقوق دیتی ہیں۔ ان کے علاوہ مسلم پرسنل لا ایکٹ1937پرسنل لا کا حق دیتا ہے۔ باقی جو بھی حقوق ہیں وہ افراد کو حاصل ہیں، تہذیبی، مذہبی یا نسلی گروہوں کو نہیں۔

لسانی گروہ چوں کہ مخصوص جغرافیائی خطوں میں محدود تھے اس لیے ان کا مسئلہ آسانی سے لسانی ریاستیں بناکر حل کرلیا گیا اور انھیں ایک طرح سے جغرافیائی بنیادوں پر خود اختیاری (territorial autonomy) دے دی گئی۔ درج فہرست ذاتوں اور قبائل کو ریزرویشن دے دیا گیا۔یہ مسئلے کا بہت محدود حل تھا۔

یہ بات اب تسلیم شدہ ہے کہ تہذیبی اکائیوں کی بے چینی و بے اطمینانی پورے ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اگر ملک کا نظام ایسا ہو جس کے نتیجے میں ملک کے معاملات پر عملاً اکثریتی گروہ کا کنٹرول ہو تو دیگر تہذیبی اکائیوں میں ملک سے اپنائیت کا احساس پیدا نہیں ہوتا۔ہر تہذیبی اکائی کو اپنے معاملات پر مکمل اختیار حاصل ہو اور ملک کے اجتماعی معاملات میں انھیں ضروری رسوخ حاصل ہو تو اسی سے ملک کے تمام عوام میں حقیقی اتحاد کی راہ ہم وار ہوسکتی ہے۔ اسی سے علیحدگی پسندی، ٹکراؤ، اور مفادات کی کشمکش کو روکنے میں مدد ملتی ہے۔ تہذیبی اکائیوں کے اجتماعی وجود کو تسلیم کرنے سے ملک، منقسم نہیں ہوتا بلکہ مضبوط ہوتا ہے۔[5]

انفرادی حقوق یا اجتماعی حقوق؟

اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے یورپی سیاسی مفکرین کے درمیان یہ بات سنجیدہ بحث کا موضوع رہی ہے کہ جدید ریاست میں حقوق اصلاً افراد کو ملنے چاہیئں یا سماجی گروہوں کو؟ روایتی قبائلی معاشروں میں قبیلے کو ایک اکائی کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور بہت سے حقو ق قبیلوں کو دیے جاتے تھے لیکن لبرل یورپی فلسفیوں کا زور افراد کے حقوق پر تھا بلکہ انفراد پسندی (individualism) کو جدید لبرل فکر کی ایک اہم خصوصیت سمجھا جاتا ہے۔ ان مفکرین کے نزدیک انسانوں کے اجتماع کی واحد بنیاد قوم تھی جو ایک قومی ریاست کے ذریعے منظم ہوتی تھی۔ ان قوموں یا قومی ریاستوں کو عالمی برادری میں بعض حقوق حاصل تھے جن میں سب سے اہم حق خود مختاری کا حق (sovereignty) تھا۔ یہ کہا گیا کہ قومی ریاست کے اندر، کسی گروہ کو کوئی اجتماعی حق دینا ضروری نہیں ہے۔ افراد کو زیادہ سے زیادہ آزادیاں اور حقوق دے دیےجائیں تو یہ کافی ہے، اس سے خود بخود مذہبی، لسانی اور تہذیبی حقوق بھی حاصل ہوجائیں گے۔[6]

متعدد سیاسی مفکرین نے اجتماعی حقوق کو انفرادی حقوق کی ضد کے طور پر بھی دیکھاہے۔ ان کے خیال میں اگر گروہوں کے حقوق تسلیم کیے جائیں تو اس سے فرد کی آزادی اور اس کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ تہذیبی و مذہبی گروہ، اپنی روایات کا بالجبر نفاذ چاہنے لگتے ہیں جس سے فرد کی آزادی متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے حقوق اصلاً شہریوں کو انفرادی طور پر ہی ملنے چاہیئں اور انھیں اپنی پسند کا مذہب، تہذیب، زبان اور شناخت اختیار کرنے کی آزادی ملنی چاہیے۔ [7]

لیکن یہ تصور ایک واحد تہذیبی معاشرے کو سامنے رکھ کر قائم کیا گیا تھا جو اس وقت اکثر یورپی ملکوں میں پایا جاتا تھا۔ ایک کثیر تہذیبی معاشرے میں افراد کو دیےجانے والے حقوق کافی نہیں ہوتے۔ فرد کے لیے اپنی تہذیبی قدروں کو مکمل طور پر آزادانہ برتنا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب اس کے لیے اجتماعی سپورٹ بھی حاصل ہو۔مثلاً لسانی اقلیتوں کو اپنی زبان کی حفاظت کا انفرادی حق حاصل بھی رہے جب تک اس زبان کی تعلیم کا اور اجتماعی زندگی میں اس کے استعمال کا مناسب بندوبست نہ ہو، یہ حق بے معنی ہوجاتا ہے۔ تعلیم کا عمل صرف خانگی اداروں کے ذریعے مکمل نہیں ہوسکتا، اس لیےتہذیبی گروہوں کو، اپنی پسند کی تعلیم کا حق دینے کے باوجود، سرکاری سرپرستی سے محرومی کی وجہ سے وہ اِس حق کو بہت محدود پیمانے ہی پر استعمال کرپاتےہیں۔ خاندانی زندگی سے متعلق تہذیبی و مذہبی قدریں اپنے نفاذ کے لیے قوت نافذہ چاہتی ہیں۔ اس لیے پرسنل لا کے نفاذ کے سرکاری انتظام کے بغیر ان قدروں کی حفاظت ممکن نہیں ہے۔حکومتیں، اکثریت کے ووٹ سے منتخب ہوتی ہیں اس لیے وہ ایسے اقدامات کرسکتی ہیں جن سے تہذیبی اکائیوں کے بنیادی تہذیبی حقوق متاثر ہوں۔ افراد کو دیےگئے حقوق سے ان اقدامات کا سدّ باب نہیں ہوسکتا۔اس لیے یہ خیال غلط ہے کہ انفرادی حقوق سے تہذیبی گروہوں کے تمام مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

ہمارے خیال میں، یہ خیال خلط مبحث ہے کہ اجتماعی گروہوں کو حقوق دینے سے افراد کے حقوق متاثر ہوتے ہیں۔ ہر اجتماعیت لازماً افراد کے حقوق کو محدود کرتی ہے۔ ریاست بھی اصلاً انفرادی حقوق پر تحدیدات ہی کا نام ہے۔ ان تحدیدات کا مقصد افراد ہی کی بہتری ہوتا ہے۔ اجتماعی گروہوں یا تہذیبی اکائیوں کو حقوق دینے کا مطلب افراد کے حقوق میں کمی نہیں ہے بلکہ ریاست کے اختیارات میں کمی ہے۔ افراد کے مسلمہ حقوق کو علی حالہ باقی رہنا چاہیے البتہ ریاست اپنے بعض کام اور بعض اختیارات، تہذیبی اکائیوں کے اجتماعی نظم کو منتقل کرسکتی ہے، جیسا کہ آگے زیر بحث بعض ملکوں میں کیا گیا ہے۔

مشہور سیاسی فلسفی وِل کِملیکا (Will Kymlicka) نے اس فرق کو بہت اچھی طرح، اندرونی تحدیدات (internal restrictions) بمقابلہ بیرونی حفاظت(external protection)، کی اصطلاحات استعمال کرکے واضح کیا ہے۔[8] یعنی تہذیبی گروہوں کو حقوق ملنے چاہئیں لیکن ان حقوق کا رخ ایسا ہونا چاہیے کہ انھیں اندرونی طور پر اپنے افراد کی آزادیوں پر قدغن لگانے کا موقع نہ ملے بلکہ ریاست اور باقی سماج کی طرف سے اُن کی تہذیبی قدروں کو لاحق خطرات سے حفاظت کا موقع ملے۔

حالیہ تاریخ اور عالمی سوچ میں تبدیلی

بیسویں صدی کے آخری حصے میں دنیا میں ایسی تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں جنھوں نے جدیدیت کے بہت سے مفروضوں پر کاری ضرب لگائی۔ مشرقی یورپ کی اکثر کمیونسٹ ریاستوں میں کثیر تہذیبی معاشرے تھے۔ کمیونسٹ حکومتوں نے جدیدیت کے قوم پرست تصورات سے متاثر ہوکر ان ریاستوں میں سخت گیر تہذیبی استبداد قائم کیا اور تمام تہذیبی اکائیوں کو واحد قومی معاشرے میں ضم کرنے کے لیے ظالمانہ طریقے اختیار کیے۔ کمیونزم کے خاتمے کے بعد یہاں تہذیبی اکائیوں کے درمیان شدید تصادم شروع ہوگیا۔ اس نے دنیا پر واضح کیا کہ انفرادی حقوق اور اکثریتی حکومت کا لبرل جمہوری ماڈل ناکام ہوچکا ہے اور کم ازکم اب نئی دنیا کی ضرورتیں پوری نہیں کرسکتا۔[9] اقوام متحدہ نے 1976میں وہ عالمی معاہدہ منظور کردیا تھا جسے ’عالمی معاہدہ برائے شہری و سیاسی حقوق‘ (International Covenant on Civil and Political Rights)کہا جاتا ہے۔ اس کی دفعہ 27میں یہ بات بھی کہی گئی تھی کہ

“اُن ملکوں میں جہاں نسلی، مذہبی یا لسانی اقلیتیں موجود ہیں، ان کے افراد کو اپنے گروہ کے دیگر افراد کے ساتھ مل کر، اپنی تہذیب کو اختیار کرنے، اپنے مذہب کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے یا اپنی زبان کو استعمال کرنے کے حق سے محروم نہیں کیا جائے گا۔”[10]

اس میں اقلیتوں کے اجتماعی حقوق کی طرف واضح اشارہ موجود تھا لیکن 1992میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے وہ اہم اعلامیہ اتفاق رائے سے منظور کیا جسے اقوام متحدہ اعلامیہ برائے اقلیات (Declaration on the Rights of Persons Belonging to National or Ethnic, Religious and Linguistic Minorities1992) کہا جاتا ہے۔اس اعلامیے کی درج ذیل باتیں، اس وقت ہماری بحث کے لیے خصوصیت سے قابل توجہ ہیں۔

1. اسے حکومت کی ذمے داری قرار دیا گیا کہ وہ اقلیتوں کے قومی، تہذیبی، نسلی، مذہبی اور لسانی تشخص و شناخت کی حفاظت کرے اور اُن کی شناختوں کو فروغ دینے کے لیے ضروری قانون سازی و دیگر اقدامات کرے ( دفعہ 1)

2. |اسے اقلیتی گروہوں کا حق تسلیم کیا گیا کہ حکومت کے جو فیصلے ان پر اثر انداز ہوسکتے ہوں، اُن کے تعلق سے فیصلہ سازی کے عمل میں ان کی موثر طور پر شرکت ہو۔ (دفعہ 2[3])

3. اسے بھی ان کا حق تسلیم کیا گیا کہ وہ اپنے گروپ کے دیگر ممبروں سے پر امن ربط و تعلق رکھیں بلکہ وضاحت سے یہ حق بھی تسلیم کیا گیا کہ مذہب، زبان، یا تہذیبی اشتراک رکھنے والے ملک کے باہر کے لوگوں اور گروہوں سے بھی وہ تعلقات رکھ سکیں۔ (دفعہ 2[5])

4. اپنے تہذیبی حقوق سے انفرادی طور پر فائدہ اٹھانے کے حق کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور پر فائدہ اٹھانے کے حق کو بھی وضاحت کے ساتھ تسلیم کیا گیا (دفعہ[1] 3)

5. ریاست کی یہ ذمے داری قرار دی گئی کہ وہ اقلیتوں کو سازگار ماحول فراہم کرے تاکہ وہ اپنی تہذیبی قدروں پر بھرپور طریقے سے عمل کرسکیں۔( دفعہ4[2] )۔ اپنی زبان سیکھ سکیں اور اپنی زبان میں بچوں کو تعلیم دے سکیں۔( دفعہ4[3] )۔

6. یہ بھی حکومت کے لیے ضروری قرا ر دیا گیا کہ قومی پالیسیوں کی تشکیل و تنفیذ میں نیز بین الاقوامی معاملات میں اقلیتوں کے جائز مفادات کا لحاظ رکھے۔ (دفعہ 5)[11]

اتفاق رائے سے منظور ہونے والے اس اعلامیے نے یہ ثابت کردیا کہ اب عالمی سوچ میں واضح تبدیلی آگئی ہے اورافراد کے ساتھ ساتھ گروہوں کے حقوق کو اہمیت دینا بھی ضروری محسوس کیا جانے لگا ہے۔

اسلام کا موقف

اسلام نے جہاں افراد کے حقوق کو تسلیم کیا ہے وہیں اقلیتو ں اور تہذیبی گروہوں کے حقوق بھی تسلیم کیے ہیں۔ اس تصور کا عملی نمونہ خود اللہ کے رسول ﷺ نے پیش کیا۔

آپ ﷺ ہجرت کرکے جب مدینہ تشریف لائے تو اس وقت مدینہ کی آبادی تقریباً بارہ ہزار تھی۔ ان میں آدھی آبادی یہودیوں کی تھی جو دس قبائل میں بٹے ہوئے تھے اور آدھی عربوں کی جو اوس و خزرج کے مختلف قبیلوں میں منقسم تھے۔ جو قبائلی نظام رائج تھا اس میں یہ تمام قبیلے آزاد تھے۔ ہر قبیلے کے پاس ایک بڑا سائبان ہوتا تھا جو سقیفہ کہلاتا تھا اور یہاں وہ بیٹھ کر اپنے معاملات طے کرلیا کرتے تھے۔

اپنی تشریف آوری کے بعد، بعض آرا کے مطابق پہلے ہی سال اور بعض دیگر آرا کے مطابق دو سال بعد یعنی غزوہ بدر کے فوری بعد آپ ﷺ نے تمام قبیلوں سے گفت وشنید و مشاورت کے بعد، ایک تحریری معاہدے کو قطعیت دی جسے میثاق مدینہ کہا جاتا ہے۔ اس میثاق کے نتیجے میں مدینے کے تمام باشندے ایک سیاسی وحدت اور ایک مشترک نظام ِدفاع کا حصہ بنے جس کی قیادت رسول اللہ ﷺ کے ہاتھوں میں تھی۔ اس معاہدے نے تمام حربی، انتظامی و عدالتی امور میں آپ کی اتھاریٹی کو آخری اتھاریٹی کے طور پر تسلیم کیا تھا۔اس معاہدے کا مکمل متن متعدد اسلامی مراجع میں موجود ہے[12] اور جدید مغربی محققین نے بھی اس پر کافی کام کیا ہے۔[13]اس کی 47دفعات میں سے پہلی 23دفعات کا تعلق مسلمانوں سے اور باقی 24 کا تعلق یہودیوں سے ہے۔ اس میں یہودیوں کے دس قبائل کا نام بنام ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ انھیں مکمل مذہبی آزادی ہوگی۔ ) للیهود دینهم وللمسلمین دینهم موالیهم وأنفسهم (مذہبی آزادی کا مطلب صرف انفرادی مذہبی اعمال تک محدود نہیں تھا بلکہ ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم ؒ کے الفاظ میں “دینی، عدالتی اور قانونی آزادی کی ضمانت” دی گئی تھی اور غیر مسلم باشندوں کو ‘نہ صرف ذاتی معاملات میں آزادی حاصل تھی بلکہ انصاف و قانون اور قانون سازی کے معاملات میں بھی وہ آزاد تھے’۔[14] یہودیوں کے تنازعات، ان کے ‘ثقیفوں’ میں یہودی ہلاخی عدالتوں (Jewish Halakhic Courts) کے ذریعے فیصل ہوتے تھے۔ [15] ان فیصلوں کے خلاف آپ ﷺ کی عدالت میں اپیل کی جاسکتی تھی لیکن آپ ﷺ بھی اُن کے معاملات کا فیصلہ اُن کے قانون کے مطابق کرتے تھے۔قبیلے کی فلاح و بہبود کے لیے اپنا بیت المال بنانے اور اپنے معاملات پر خرچ کرنے کا حق انھیں حاصل تھا(وأن على الیهود نفقتهم وعلى المسلمین نفقتهم) گویا قانون و عدالت، پرسنل لا و کریمنل لا، ویلفیر و فینانس، ان سب معاملات میں یہودیوں کو خود مختاری حاصل تھی۔ دفاع، امور خارجہ اور بعض اہم امور مرکزی تھے۔ اس طرح یہ ایک ایسا نظام تھا جس کی حیثیت مختلف بااختیارمذہبی ملتوں کے وفاق (Federation of Empowered Religious Communities) کی تھی۔

اسی طرح کے حقوق بعد میں نجران کے عیسائیوں اور دیگر غیر مسلموں کو بھی دیے گئے۔ علامہ شبلی نعمانیؒ نے حضرت عمر ؓ کے بعض ان معاہدات کی عبارتیں نقل کی ہیں جو انھوں نے غیر مسلم رعایا کے ساتھ کیے تھے۔ مثلاًحذیفہ بن یمانؓ نے ماہ دینار والوں کو جو تحریری ضمانت دی تھی اس کے الفاظ یہ ہیں۔لا یغیّرون عن ملة ولا یحال بینھم وبین شرائعھم (ان کا مذہب بدلا نہیں جائے گا اور ان کے ان امور میں جن کا تعلق ان کی شریعتوں سے ہے، کوئی دخل اندازی نہیں کی جائے گی)جرجان کی فتح کے وقت جو معاہدہ کیا گیا تھا اس میں یہ الفاظ بھی تھے۔ لھم الامان علی أنفسھم وأموالھم وشرائعھم لا یغیّر بشیء من ذلك (ان کے لیے امان ہے، ان کی جانوں کے لیے، ان کے اموال کے لیے اور ان کی شریعتوں کے لیے اور اس میں سے کسی شے میں کوئی تغیر نہیں کیا جائے گا)[16]

عہد وسطی میں یہی نظام بڑے پیمانے پر عثمانی ترکوں نے اپنی وسیع و عریض مملکت میں قائم کیا۔ انھوں نے تین آزاد ملّتوں کو تسلیم کیا۔ رومن آرتھوڈکس عیسائی (ملت رومی)، آرمینین عیسائی (ملت آرمینیان) اور یہودی (ملت یہودی)، مسلمانوں کے علاوہ تین علیحدہ ملتیں تھیں۔ ان میں سے ہر ملت کا اپنا آزاد تعلیمی، مذہبی اور عدالتی نظام تھا۔ہر ملت کا ایک سربراہ ہوتا تھا جسے ملت باسی (Milletbasi)، (یعنی [خلیفہ کا] نائب برائے ملت) کہا جاتا تھا۔ اس کی نگرانی میں ان کے مذہبی قوانین اور تہذیبی قدروں کے مطابق، ان کے سارے معاملات چلانے کا آزادانہ نظام موجود تھا۔ملت کے سربراہ کو متعلق ملت کے افراد کی رائے سے منتخب کیا جاتا تھا۔اسے خلیفہ کی جانب سے اپنی ملت کے سلسلے میں خصوصی انتظامی، مالیاتی، عدالتی و مذہبی اختیارات حاصل ہوتے تھے۔ ان میں سے بعض ملّتوں میں متعدد ذیلی گروپ (مثلاً رومی ملت میں یونانی، البانی، عرب، بلغاریائی، جارجیائی اور سرب نسلی گروہ موجود تھے) تھے۔ ان گروپوں کو بھی متعدد دائروں میں خود مختاری حاصل تھی۔ ہر ملت کی اپنی عدالتیں، اپنا نظام تعلیم، مذہبی و تہذیبی امور کے انتظام کے ادارے، حتی کہ سزاؤں کا نظام بھی موجود تھا۔[17]

اس طرح، اس نظام میں، مختلف تہذیبی و مذہبی گروہوں کے حقوق کو تسلیم کرتے ہوئے انھیں اپنے اجتماعی معاملات کو اپنی تہذیب کے مطابق چلانے کا حق اور اس کا اجتماعی نظام فراہم کیا گیا تھا۔ آج سیاسیات کے سنجیدہ علمی مباحث میں، کثیر تہذیبی معاشروں کی ضرورتوں کے سلسلے میں یہ نظام کثرت سے زیر بحث آرہاہے۔ کیملیکا نے اسے ‘مذہبی روداری کا سب سے بہتر اور فطری نظام’ قرار دیا ہے۔[18] اس وقت دنیا میں اقلیتوں کے اجتماعی حقوق کی جو بحثیں ہورہی ہیں، اس میں اس نظام کو ایک آئیڈیل نظام کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ لیکن بہت کم جمہوری ممالک، اُس وسیع النظری کا مظاہرہ کرپارہے ہیں جو عہد وسطی کی ان حکومتوں نے کیا تھا۔

کچھ معاصر تجربات

اب متعدد کثیر تہذیبی معاشروں میں اس طرح کے تجربات کیے جارہے ہیں۔ ہنگری جیسے بعض ملکوں میں تہذیبی اکائیوں کو ان کے تہذیبی امور چلانے کے لیے محدود پیمانے پر اختیارات دیے گئے ہیں۔ ملک کے دستور میں یہ گنجائش فراہم کی گئی ہے کہ تہذیبی اکائیاں اپنی تعلیم، مذہبی امور، اور بعض تہذیبی امور خود اپنے طور پر چلاسکیں۔ اس کے لیے ان کی بااختیار مجالس منتخب ہوتی ہیں اور حکومتیں انھیں گرانٹس فراہم کرتی ہیں۔[19]

آدیباسیوں کا مسئلہ آج بھی ہمارے ملک میں ایک سنگین مسئلہ ہے۔سویڈن، ناروے اور فن لینڈ جیسے ملکوں نے اپنے ملکوں کے قدیم باشندوں اور قبائلی لوگوں کے حقوق کی خاطر جو انتظامات کیے ہیں ان سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے سامی (Sami) شمالی یورپ (Scandinavia)میں پائے جانے والے قدیم قبائلی لوگ ہیں جن کی زبان، تہذیب اور رہن سہن عام یورپیوں سے بالکل مختلف ہے۔ شمالی یورپ کے مذکورہ تین ملکوں میں ان کی باقاعدہ منتخب پارلیمنٹ ہیں جنھیں ان ممالک کے دساتیر، سامی لوگوں کی تعلیم و تہذیب سے متعلق بہت سے اختیارات دیتے ہیں۔[20]

مذہبی و تہذیبی اقلیتوں کا ایک اہم مسئلہ پرسنل لا کا مسئلہ ہے۔ ہمارے ملک میں مسلم پرسنل لا ایکٹ 1937کے تحت مسلمانوں کو پرسنل لا کا حق دیا گیا ہے لیکن ایک طرف حکومتیں اور عدالتیں اس میں برابر مداخلت کرتی رہتی ہیں اور دوسری طرف چوں کہ اس کی تنفیذ مسلمانوں کے ہاتھوں میں نہیں ہے اس لیے پرسنل لا کی تدوین، اس کے مطابق فیصلہ سازی وغیرہ میں متعدد رکاوٹیں حائل ہیں۔ حالاں کہ اس حوالے سے بھی نہایت اہم اور بڑی قابل عمل نظیریں دنیا کے کئی ملکوں میں پائی جاتی ہیں۔ سنگاپور، اسرائیل اور سری لنکا جیسے ملکوں میں شرعی عدالتوں کا نظام باقاعدہ حکومت کی سرپرستی میں قائم ہے اور ملک کا نظام عدالت ان کو تسلیم کرتا ہے۔ ان عدالتوں میں مسلمان علما بطور قاضی مقرر ہوتے ہیں۔ مسلم پرسنل لا سے متعلق معاملات انھی عدالتوں میں جاتے ہیں اور وہیں فیصل ہوتے ہیں۔ یہ نظام مسلمان علما ہی کے کنٹرول میں ہے۔ اس لیے یہ ممکن ہوگیا ہے کہ بعض اختیارات اور ضروری احتیاطی تدابیر، عدالت کے اختیار میں دی جائیں۔مخصوص شرعی عدالتوں میں مسلمان جج اسلامی شریعت کی روح کو ملحوظ رکھتے ہوئے اپنےاختیارات کا استعمال کرتے ہیں۔

ایک بڑا اہم مسئلہ سماجی، معاشی یا تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ گروہوں کی ترقی کا مسئلہ ہے۔ اس کے حل کے لیے ہمارے ملک میں ریزرویشن کا طریقہ اختیار کیا گیا۔ لیکن اب یہ بحثیں کثرت سے ہونے لگی ہیں کہ پس ماندہ طبقات کی ترقی کے لیے ریزرویشن کی پالیسی کافی نہیں ہے۔ انتخابات میں، محفوظ نشستوں میں رائے دہندوں کی اکثریت، اکثریتی طبقے سے متعلق ہی ہوتی ہے۔ ان نشستوں سے، اکثر بڑی سیاسی جماعتوں کے نامزد نمائندے ہی منتخب ہوپاتے ہیں جو اپنی پس ماندہ کمیونٹی کے نہ حقیقی نمائندے ہوتے ہیں اور نہ ان کے کاز کے لیے مخلص ہوتے ہیں۔ ریزرویشن کے نئے مطالبات سماج میں تفریق پیدا کرتے ہیں کیوں کہ اکثریتی طبقے کو محسوس ہوتا ہے کہ اُن کی نشستیں اور اُن کی نوکریاں یا تعلیمی اداروں کی نشستیں، غیر منصفانہ طور پر ان سے چھینی جارہی ہیں۔ پھر ریزرویشن کا دائرہ صرف چند سیاسی عہدوں اور سرکاری نوکریوں تک محدود ہوتا ہے۔ نئے معاشی ڈھانچے میں سرکاری نوکریوں کی تعداد بھی اور اہمیت بھی کم سے کم ہوتی جارہی ہے۔اس لیے یہ ضروری ہوگیا ہے کہ متبادل طریقے سوچے جائیں تاکہ ان گروہوں کی ترقی میں مدد ہوسکے۔ سچر کمیٹی نے ایک بڑی انقلابی تجویز اشاریہ تنوع (diversity index) کی صورت میں پیش کی تھی۔ یعنی ہر سرکاری و غیر سرکاری ادارے کے ملازمین اور اس کے استفادہ کنندگان میں مختلف سماجی گروہوں کا تناسب دیکھا جائے۔ یہ تناسب آبادی میں ان گروہوں کے حقیقی تناسب سے جتنا قریب ہوگا اُن کا اشاریہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔ اگر کسی آبادی میں دلت، تیس فیصد،آدیباسی بیس فیصد، اقلیتیں دس فیصد ہوں اور وہاں موجود کسی تعلیمی ادارے کے اساتذہ اور طلبا میں گروہوں کا تناسب بھی یہی ہو تو اشاریہ تنوع زیادہ سے زیادہ یعنی سو100ہوگا۔اگر کسی گروہ کا تناسب کم ہو تو اشاریہ کم ہوجائے گا۔ سچر کمیٹی کی سفارش تھی کہ ہر سرکاری و پرائیوٹ ادارے کا آڈٹ کرکے اس کا اشاریہ تنوع متعین کیا جائے اور سرکاری مراعات کو اس اشاریہ کے ساتھ مربوط کیا جائے۔ یعنی مثلاً یہ طے ہو کہ یونیورسٹی کو گرانٹ ملنے کے لیے اشاریہ کم سے کم اتنا ہونا چاہیے یا اشاریہ اتنا ہوگا تو پرائیوٹ ادارے کو ٹیکس میں سہولت ملے گی وغیرہ۔ اس تجویز میں کسی خاص گروہ کو کوئی مراعات نہیں دی جارہی ہے بلکہ تمام گروہوں کے افراد کو متناسب طریقے سے فائدہ پہنچانے کی تدبیر اختیار کی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی ہی تدابیر کی ضرورت ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک کی صورت حال نہایت پیچیدہ ہے۔مذکورہ نمونوں کی ہو بہو نقل شاید یہاں ممکن نہ ہو۔اس میں متعدد عملی مسائل بھی درپیش ہوسکتے ہیں۔ ان نمونوں کے تذکرے کا مقصد بھی، ان کی نقالی کی تجویز پیش کرنا نہیں ہے۔ بلکہ مقصد یہ ہے کہ انھیں سامنے رکھ کر ایسے نئے طریقے سوچے جائیں جن سے ہمارے کثیر تہذیبی ملک میں تمام گروہوں کو، ممکنہ حد تک اپنی تہذیب سے متعلق معاملات کو خود چلانے کا موقع ملے، تمام تہذیبوں کو پھلنے پھولنے کے مواقع حاصل رہیں اور ملک کے مجموعی انتظام میں تمام گروہوں کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہو۔ اس سے اُس تناؤ اور کشمکش کو کم کرنے میں مدد ملے گی جو اس وقت پائی جاتی ہے اور ملک کی تعمیر وترقی میں سب کی بھرپور شراکت ہوسکے گی۔ اور اس سے اُس تفرقہ پرداز سیاست پر بھی روک لگے گی جو اس تناؤ کے استحصال کے ذریعے فروغ پاتی ہے اور نفرت و علیحدگی، فتنہ و فساد اور ظلم و استحصال کا محرک بنتی ہے۔

انتخابی نظام

تہذیبی ونظریاتی گروہوں کو تسلیم کرنے کا ایک اہم تقاضا یہ ہے کہ ان کے مخصوص تہذیبی معاملات کا انتظام ان کے سواد اعظم کے رجحان کے علی الرغم نہ ہواور ملک کے مجموعی معاملات کو چلانے اور حکومت کے امور میں بھی ان کی حصے داری ان کے تناسب کے مطابق ہو تاکہ آزاد جمہوری ملک میں کسی تہذیبی گروہ کو دوسرے گروہ پر بالادستی قائم کرنے کا موقع نہ ملے۔مناسب تدبیریں اختیار نہ کی جائیں تو جمہوریت، اکثریت کے استبداد میں بدل سکتی ہے۔ہمارے ملک میں جو نظام قائم ہے(FPTP: First Past the Post) اس میں چوں کہ ہر نشست میں اکثریتی ووٹوں سے جیتنے والا منتخب ہوجاتا ہے، اس لیے مختلف گروہوں کو اپنی نمائندگی کا بہت کم موقع ملتا ہے۔اس سیاسی نظام میں عام طور پر انھی طبقوں کی نمائندگی ہوپاتی ہے جو متعدد حلقہ ہائے انتخاب میں خاص عددی قوت کے حامل ہوں۔ جن پارٹیوں کے ووٹرز مختلف حلقہ ہائے انتخاب میں بکھرے ہوئے ہوں ان کی آواز سیاسی ایوانوں میں پہنچ ہی نہیں پاتی۔ اسی طرح وہ تہذیبی گروہ جو پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہوں اور کسی خاص جغرافیائی خطے میں مرکوز نہ ہوں، اُن کی نمائندگی ہمیشہ اُن کی آبادی کے تناسب سے بہت کم رہ جاتی ہے۔ اس نظام میں اصلاً علاقائی نمائندگی ہوتی ہے اس لیے یہ نظام اُن ممالک کے لیے تو مفید ہے جہاں کی آبادی متجانس ہے اور وہاں آبادی میں اور اس کے مسائل میں تنوع اگر کچھ پایا جاتا ہے تووہ صرف جغرافیائی بنیادوں پر پایا جاتا ہے۔ ہندوستان جیسے ملک میں صرف جغرافیائی نمائندگی کافی نہیں ہے بلکہ مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں، مختلف سیاسی نظریات اور تہذیبی اکائیوں کی مناسب نمائندگی بھی ضروری ہے۔

ایک اور متبادل طریقہ متناسب نمائندگی (proportionate representation or PR) کا طریقہ ہے۔ اس میں علیحدہ حلقہ ہائے انتخاب (constitunecies) نہیں ہوتے بلکہ سیاسی پارٹیاں ترجیحی آرڈر میں اپنے امیدواروں کی فہرست جاری کرتی ہیں۔ پورے ملک کے لوگ پارٹیوں کو ووٹ دیتے ہیں اور جس پارٹی کو جتنے فیصد ووٹ ملتے ہیں، اُسے اتنے فیصد نشستیں مل جاتی ہیں۔یہ طریقہ گویا جغرافیائی خطوں کے بجائے، نظریات، مفادات اور تہذیبی اکائیوں کو نمائندگی دیتا ہے۔ اس طریقے میں ملک میں بکھرے ہوئے مختلف نظریاتی گروہوں اور تہذیبی اکائیوں کو یہ موقع حاصل رہتا ہے کہ وہ اپنی پارٹیاں بنائیں اور ملک بھر میں اپنے ووٹوں کے تناسب میں نشستیں حاصل کریں۔بعض ملکوں میں ریاست وار متناسب طریقے سے امیدوار منتخب کیے جاتے ہیں یعنی بجائے پورے ملک کے، ہر ریاست میں سیاسی جماعتیں اس ریاست کے کوٹے کے بقدر نشستوں کے لیے اپنی لسٹ جاری کرتی ہیں۔ بعض ملکوں نے ملا جلا نظام (Mixed Member Proportional Representation or MMP) قائم کیا ہے یعنی پارلیمنٹ کی نشستوں کی کچھ تعداد متناسب طریقے سے منتخب ہوتی ہے اور کچھ تعداد حلقہ ہائے انتخاب سے۔

ہنگری نے اس معاملے میں بھی مختلف گروہوں کو بھرپور نمائندگی دینے کے لیے ایک خصوصی نظام تشکیل دیا ہے۔ 199ارکان کی پارلیمان کے 106ممبران حلقہ ہائے انتخاب سے یعنی ہمارے ملک کے طریقے کے مطابق منتخب ہوتے ہیں اور 93ممبران متناسب نمائندگی کے مذکورہ بالا طریقے سے۔اس صورت میں متناسب نمائندگی سے آنے والے 93امیدواروں میں تو مختلف تہذیبی گروہوں کی متناسب نمائندگی ہوجاتی ہے لیکن باقی 106 ممبران جو نشستوں سے منتخب ہوکر آتے ہیں، ان میں کم زور گروہوں کی نمائندگی بہت کم ہوسکتی ہے جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ میں مجموعی طور پر نمائندگی کم ہوجاتی ہے۔ اس کا حل وہاں ایک اور دل چسپ طریقہ اختیار کرکے نکالا گیا ہے جسے عِوضی تعین (compensatory allocation) کہتے ہیں۔اس میں ہر حلقہ انتخاب میں جو امیدوار ہار جاتے ہیں اُن کے ووٹ ضائع نہیں ہوتے بلکہ وہ متناسب نمائندگی کی لسٹ میں اُس امیدوار کی پارٹی کو منتقل ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں متناسب کوٹے میں اس گروہ یاپارٹی کے جیتنے والے امیدوار، آبادی میں ان کے تناسب سے زیادہ ہوجاتے ہیں۔ اس طرح گویا نشستوں میں جیت نہ پانے کا معاوضہ، وہاں مل جاتا ہے۔ اس طرح پارلیمنٹ زیادہ سے زیادہ متناسب ہوتی ہے اور اس میں مختلف تہذیبی گروہوں کی تقریباً ان کی آبادی کے تناسب کے برابر نمائندگی ہوجاتی ہے۔

ان مثالوں کی روشنی میں ایسے طریقوں پر غور کرنا ضروری ہوگیا ہے جن سے ملک کے مختلف تہذیبی گروہ، اپنے معاملات، خود چلاسکیں۔ ہندوستان جیسے کثیر تہذیبی معاشرے میں اسی سے کشمکش و تناؤ کے بہت سے اسباب کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔کشمکش و تناؤ کم ہوگا تو، تفریق کی سیاست بھی کم زور ہوگی جو ہمارے ملک میں فتنہ و فساد کا سب سے بڑا سرچشمہ ہے۔اس لیے ایسی نئی تدابیر اور ایسے انوکھے اختراعی حل اختیار کرنے کی ضرورت ہے جن سے اس تناؤ کے امکانات کم سے کم ہوں اورتما م گروہوں کے اندر اختیار و آزادی کے احساس کی افزائش ہوسکے۔ اس کے لیے پہلی ضرورت یہی ہے کہ تہذیبی گروہوں کے وجود کو فراخ دلی سے تسلیم کیا جائے اور یہ بات بھی تسلیم کی جائے کہ فرد کے حقوق اور ملک کے اجتماعی وجود کے ساتھ، ان دونوں سطحوں کے درمیان تہذیبی گروہوں کا وجود بھی اس ملک کی ایک اہم حقیقت ہے جسے نظر انداز کرنا درست نہیں ہے۔

حواشی و حوالہ جات

[1] الطرق الحكمیة فی السیاسة الشرعیة أو الفراسة المرضیة فی أحكام السیاسة الشرعیة‎.)2011(دار الكتب العلمیة‏, بیروت.

[2]J.S. Furnivall, Colonial Policy and Practice (Cambridge: Cambridge University Press, 1948)

[3]M.G. Smith, “Institutional and Political Conditions of Pluralism,” in Pluralism in Africa, ed. By L. Kuper and M.G. Smith (Berkeley: University of California Press, 1965), pp. 32-33

[4] ہماری کتاب بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر میں اس موضوع پر تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ دیکھیں:

سید سعادت اللہ حسینی (2018) بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر؛ ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی

[5]Clive Baldwin et. al. (2007) Minority Rights, The Key to Conflict Prevention; Minority Rights Group International at https: //minorityrights.org/wp-content/uploads/old-site-downloads/download-174-Minority-Rights-The-Key-to-Conflict-Prevention.pdf, retrieved on 1-11-2021

[6] اس بحث کے لیے دیکھیں:

Judith Baker (ed) (1994) Group Rights; University of Toronto Press; Toronto;

Will Kymlicka(1995) Multicultural Citizenship: A Liberal Theory of Minority Rights, Oxford: Clarendon Press

[7] ایضاً

[8] کناڈا کے ماہر سیاسیات ول کیملیکا، ان سیاسی فلسفیوں میں ممتاز ترین نام ہے جو تہذیبی گروہوں کے اجتماعی حقوق کی وکالت کرتے ہیں۔ اس موضوع پر ان کی متعدد کتابیں ہیں۔ خاص طور پر درج ذیل کتاب بڑی اہم ہے

Will Kymlicka (1995) Multicultural Citizenship: A Liberal Theory of Minority Rights; Clarendon Press; Oxford; page 35-44

[9] حالیہ دنوں میں متعدد بااثر دانش وروں نے یہ بحث اٹھائی ہے۔ مثلاً برطانوی ماہر سیاسیات ڈیوڈ ہیلڈ مسلسل یہ لکھتے رہے ہیں کہ اب اکثریتی ووٹوں سے منتخب ہونے والی حکومت کا لبرل جمہوری ماڈل ناکام ہوچکا ہے۔ اور معاصر دنیا کی حقیقتیں “کاسمو پولیٹین ڈیموکریسی کا تقاضا کررہی ہیں۔ جس میں مختلف گروہوں کو اختیارات دینا ضروری ہے۔ اس کے بغیر آج کی دنیا میں کوئی ریاست کام یابی سے چل نہیں سکتی۔ یہ بحث انھوں نے اپنی متعدد کتابوں اور مضامین میں کی ہے۔ مثلاً دیکھیں:

David Held (1995). Democracy and the global order : from the modern state to cosmopolitan governance. United Kingdom: Stanford University Press.

[10] اس عالمی معاہدے کا متن اقوام متحدہ کی سائٹ پر دستیاب ہے

https: //www.ohchr.org/en/professionalinterest/pages/ccpr.aspx

[11] تفصیل کے لیے اقوام متحدہ کی سائٹ پر اعلامیے کا متن

Declaration on the Rights of Persons Belonging to National or Ethnic, Religious and Linguistic Minorities https: //www.ohchr.org/EN/ProfessionalInterest/Pages/Minorities.aspx retrieved on 30-10-2021.

[12] اس معاہدے کے کچھ اہم مصادر:

سیر أعلام النبلاء، للذهبی، تحقیق مجموعة من العلماء بإشراف الشیخ شعیب الأرنؤوط، مؤسسة الرسالة، بیروت، 1981م.

السیرة النبویة، لابن هشام، تحقیق مصطفى السقا، وإبراهیم الأبیاری، وعبد الحفیظ شلبی، دار احیا التراث العربی، بیروت، لبنان.

مجموعة الوثائق السیاسیة للعهد النبوی والخلافة الراشدة، تألیف الدكتور محمد حمید الله، دار النفائس، بیروت، الطبعة الخامسة، 1405هـ/ 1985م.

[13] مثلاً دیکھیں:

Peters, F. E. (1994). Muhammad and the Origins of Islam. State University of New York Press.

[14] ڈاکٹر محمد حمید اللہ؛ مترجم محمد خالد پرویز (2006) رسول اللہ کی حکم رانی و جانشینی؛ بیکن بکس لاہور۔ ص 16

[15]Mark Cohen (1995) Under Crescent and Cross: The Jews in the Middle Ages Princeton University Press. 1995. Page 74

[16] شبلی نعمانی؛ الفاروق؛ دارالاشاعت مصطفائی، دہلی، ص 267 بحوالہ طبری ص 2623

[17] اس نظام کی تفصیل کے لیے دیکھیں:

Benjamin Braude and Bernard Lewis (ed.), Christians and Jews in the Ottoman Empire. The Functioning of a Plural Society, 2 vol., New York and London 1982.

Fatih Ozturk; The Ottoman Millet System at https: //dergipark.org.tr/en/download/article-file/12937 retrieved on 31-10-2021

[18]Will Kymlicka, “Two Models of Pluralism and Tolerance,” in Toleration: An Elusive Virtue , ed. David Heyd (Princeton: Princeton University Press, 1996),page 82

[19] ہنگری کے ماڈل کے لیے دیکھیے:

Niamh Walsh (2018) Minority Self Government in Hungary: Legislation and Practice in Journal on Ethnopolitics and Minority Issues in Europe (JEMIE), Flensberg Germany; Summer 2000.

https: //www.legislationline.org/download/id/6547/file/Hungary_act_rights_of_nationalities_2011_en.pdf, retrieved on 31-10-2021

[20] دیکھیے:

The Saami of Scandivania in the Cultural Survival Quarterly.
https: //www.culturalsurvival.org/publications/cultural-survival-quarterly/saami-scandinavia-and-russia-great-strides-towards-self.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: