خود اعتمادی اور یقین: حالات کی اہم ضرورت
اس وقت ہندوستانی مسلمان جس صورت حال سے دوچار ہیں، اس میں اُن کو سب سے زیادہ اگر کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ بس یہ ہے کہ ان کے اندر ایمان کی قوت پروان چڑھے اور اس کے ذریعہ اُمید، خود اعتمادی، جہد و عمل اور اپنے زور بازو پر بھروسہ اور حالات کو بدلنے کا عزم پیدا ہو۔ لیکن اس وقت ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصحابِ علم اور اصحابِ قلم کے ایک طبقے نے ڈر، خوف، خود ملامتی اور مایوسی و ناامیدی کی اشاعت کو اپنا مشن بنالیا ہے۔ حادثات و واقعات کی مبالغہ آمیز اور کبھی غلط و بے بنیادترجمانی، مستقبل کے تعلق سے انتہائی شدید قسم کے خوف اور اندیشوں کی ترویج، ہر معاملے میں اُمت پر لعنت و ملامت اور ساری دنیا کو اپنا دشمن باور کرانے کی کوشش اِس مکتبِ دانش وری کی چندنمایاں خصوصیات ہیں۔ سوشل میڈیا جیسے تیز رفتار اور غیر منضبط میڈیم نے ان خیالات اور ان کے اثرات کو آناً فاناً پھیلادینا نہایت آسان بنا دیا ہے۔ چند دنوں پہلے اچانک خبر اُڑی کہ حکومت نے پورے ملک میں این آر سی لانے کا اعلان کردیا ہے اور اسی فرد کی شہریت قبول کی جائے گی جو دستاویزات کے ذریعہ اپنے یا اپنے اجداد کے۱۹۵۱ میں ہندوستانی شہری ہونے کا ثبوت پیش کرے۔ اس خبر نے خوف کی ایک سرد لہر ملک بھر میں دوڑادی۔ نیم دانش وروں کی ایک پوری فوج میدان میں اتر آئی۔ کسی کو پاپولیشن رجسٹر کا گزٹ نوٹفکیشن ملا تو گویا اس دعوے کا دستاویزی ثبوت مل گیا۔ این آر سی آسام کے مطلوبہ دستاویزات کی فہرست کسی کے ہاتھ لگی تو کاپی پیسٹ کرکے اسے ملک بھر کے این آر سی کی مطلوبہ دستاویزات قراردے دیا گیا۔ چند گھنٹوں میں یہ سب ادھوری، ناقص اور مسخ شدہ معلومات پورے ملک میں عام ہوگئیں۔ لنچنگ کے واقعات کی رپورٹنگ اس طرح کی جانے لگی گویا اب ملک میں مسلمان کہیں محفوظ ہی نہیں ہیں۔ ایک صاحب نے لکھا کہ انہیں دلّی کی سڑک پر کار چلاتے ہوئے لنچنگ کا خوف ہوتا ہے۔ کسی نے ٹرین میں کوئی طعنہ دیا تو دوسرے دن سوشل میڈیا پر لکھ دیا گیا کہ میری لنچنگ کی کوشش ہوئی، بال بال بچ کر آیا ہوں۔ یہ بات کثرت سے کہی جانے لگی کہ اب ملک کی اکثریت مکمل طور پر فرقہ پرست اور اسلام دشمن بن چکی ہے۔ جو لوگ خود کو سیکولر باور کراتے ہیں وہ بھی اندر سے فرقہ پرست ہی ہیں۔ اب ملک میں مسلمانوں کا کوئی ہم درد نہیں بچا ہے۔ ان کے قائدین اور جماعتیں بھی ان کی ہم درد نہیں ہیں بلکہ وہ خود بھی اپنے ہم درد نہیں ہیں۔ ملک کے حالات پر احتجاج اور غم و غصہ کے اظہار کی یہ ایک شکل ہوسکتی ہے لیکن ان کی اشاعت چونکہ اردو اخباروں میں یامسلمانوں کے سوشل میڈیا نیٹ ورکس میں ہی ہوتی ہے اس لیے ان کا نتیجہ سوائے خوف اور مایوسی کے فروغ کے، اور کچھ نہیں نکلتا۔
سوال یہ ہے کہ اس طرح کا خوف اور مایوسی پھیلاکر ہم کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں؟ اور یہ کس مسئلے کا حل ہے؟ جو طاقتیں اسلام اور مسلمانوں کی دشمن ہیں، اُن کا اصل ہدف یہی ہے کہ مسلمان مایوس اور ناامید ہوجائیں۔ کسی قوم کے لیے سب سے بڑی تباہی مایوسی و ناامیدی ہے۔ سخت حالات کی عمر مختصر ہوتی ہے لیکن اگر پست ہمتی اور خوف کی نفسیات عام ہوجائے تو اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ یہ نفسیات زندگی کی امنگ چھین لیتی ہے۔ خود اعتمادی کو مجروح کرتی ہے۔ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے حوصلوں کو ختم کرتی ہے۔ خوف اور ناامیدی عام ہوجائے تو سیاسی و سماجی جد و جہد تو دور کی بات ہے، معاشی و تعلیمی ترقی کے محرکات بھی کم زور ہوجاتے ہیں۔ افراد کی طرح اجتماعی گروہوں کے لیے بھی امید اور اعتما د ایک بڑی اہم طاقت اور قوت محرکہ ہوتی ہے۔ اگر امید کی لو روشن رہے تو بڑی سے بڑی ناکامی اور بھیانک سے بھیانک سانحہ بھی قوموں کی کمر نہیں توڑسکتا۔ وہ اپنی خاکستر میں بھی امید کی چنگاریوں کو بچائے رکھتے ہیں اور مناسب وقت پر مثبت تبدیلی کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی ان چنگاریوں کو بھڑکاکر شعلہ بنادیتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر امید و یقین کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو سائے اور واہمے بھی دہشت طاری کرنے لگتے ہیں۔ ہوا کے جھونکے سے بھی تباہ کن آندھی کا احساس ہونے لگتا ہے۔ ایسی قوموں کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اندیشوں اور واہموں کی شکار ہوکر وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔
اسلامی عقائد اور سخت حالات
اسلام اور اسلامی عقیدہ، مایوسی اور خوف کی نفسیات کا سخت دشمن ہے۔ اللہ پر ایمان اور اس کی صفات کا استحضار، اہل ایمان کو ہرگز مایوس اورناامید ہونے نہیں دیتا۔ وَلَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ ط اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ (اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو اس کی رحمت سے تو بس کافر ہی مایوس ہوا کرتے ہیں‘‘ (سورہ یوسف:87)۔ مایوسی اور نامیدی اللہ تعالیٰ کو کس قدر ناپسند ہے، اس کا اندازہ قرآن مجید کی اس آیت سے ہوتا ہے۔ مَنْ کَانَ یَظُنُّ اَنْ لَّنْ یَّنْصُرَہُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ ثُمَّ لْیَقْطَعْ فَلْیَنْظُرْ ھَلْ یُذْھِبَنَّ کَیْدُہٗ مَا یَغِیْظ (جو شخص یہ خیال کرتا ہے کہ خدا دنیا اور آخرت میں اس کی مدد نہیں کرے گا تو اسے چاہیے کہ ایک رسی کے ذریعہ آسمان تک پہنچ کر شگاف لگائے۔ پھر دیکھے کہ آیا اس کی یہ تدبیر اس چیز کو دور کر سکتی ہے جو اسے غصہ میں لا رہی تھی۔ سورہ حج، آیت ۱۵)
اس آیت کی تشریح میں مولانا ابوالکلام آزادؒ لکھتے ہیں (اگر چہ فَلْیَمْدُدْ بِسَبَبٍ اِلَی السَّمَآئِ ثُمَّ لْیَقْطَع کا جو مطلب مولانا آزادؒ نے لیا ہے وہ ہمارے منتخب کردہ ترجمے سے مختلف ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی یہ تشریح قابل توجہ ہے):
’’جس انسان نے امید و یقین کی جگہ شک و مایوسی کی راہ اختیار کی، خواہ دنیا کی زندگی کے لیے ہو خواہ آخرت کے لیے، اسے سمجھ لینا چاہیے کہ اب اسے زندہ رہنے کا کوئی حق نہیں۔ ایسے آدمی کے لیے صرف یہی چارہ رہ جاتا ہے کہ گلے میں پھندا ڈالے اور زندگی ختم کرڈالے!سبحان اللہ، انسانی زندگی کے تمام مسائل اس ایک آیت نے حل کردیے۔ زندگی امید اور سعی ہے۔ موت مایوسی اور ترک سعی ہے۔ پس اگر ایک بد بخت نے فیصلہ کرلیا کہ خدا کے پاس اس کے لیے کچھ نہیں۔ دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی، تو پھر اس کے لیے باقی کیا رہا؟کیا ہے جس کے سہارے وہ زندہ رہ سکتا ہے؟ اور وہ زندہ رہے تو کیوں رہے؟
لیکن نہیں، ایمان نام ہی امید کا ہے۔ اور مومن وہ ہے جو مایوسی سے کبھی آشنا نہیں ہوسکتا۔ اس کا ذہنی مزاج کسی سے بھی اتنا بیگانہ نہیں جس قدر مایوسی سے۔ زندگی کی مشکلیں اسے کتنا ہی ناکام کریں لیکن وہ پھر سعی کرے گا۔ لغزشوں اور گناہوں کا ہجوم اسے کتنا ہی گھیرلے لیکن وہ پھر توبہ کرے گا۔ نہ تو دنیا کی کامیابی سے وہ مایوس ہوسکتا ہے نہ آخرت کی نجات سے۔ وہ جانتا ہے کہ دنیا کی مایوسی موت ہے اور آخرت کی مایوسی شقاوت۔ وہ دونوں جگہ رحمت الہٰی کو دیکھتا اور اس کی بخششوں پر یقین رکھتا ہے۔ ‘‘(ترجمان القرآن، ابوالکلام احمد؛ اسلامی اکیڈمی ؛ لاہور، ص۷۸۵)
قرآن مجید نے متعدد مقامات پر یہ وضاحت کی ہے کہ اہل ایمان پر آنے والی آزمائشیں بھی بے مقصد نہیں ہوتیں۔ ان کے اپنے مقاصد ہوتے ہیں۔ اہل ایمان کو پیش آنے والی مشکلات و مصائب بھی ربِّ کائنات کی مشیت کاحصہ ہیں۔ اللہ کی مرضی اور اس کی مشیت کے بغیر دنیا کی کوئی طاقت ہمارا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی۔ وَاِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلاَ کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ھُوَصلے وَاِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلاَ رَآدَّ لِفَضْلِہٖ
( اگر اللہ تجھے کسی مصیبت میں ڈالے تو خود اس کے سوا کوئی نہیں جو اس مصیبت کو ٹال دے، اور اگر وہ تیرے حق میں کسی بھلائی کا ارادہ کرے تو اس کے فضل کو پھیرنے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ یونس آیت ۱۰۷)
قرآن کے مطابق مشکلات و مصائب کے چار ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں:
۱۔ مشکلات و مصائب ہمارے گناہو ں کا خمیازہ ہوسکتے ہیں۔ وَمَآ اَصَابَکُمْ مِّنْ مُّصِیْبَۃٍ فَبِمَا کَسَبَتْ اَیْدِیْکُمْ وَیَعْفُوْ عَنْ کَثِیْر تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے۔ سورہ شوریٰ ؛ آیت ۳۰)
۲۔ وہ اللہ تعالی کی جانب سے تنبیہ اور وارننگ ہوسکتے ہیں۔ اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّہُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَّرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ ثُمَّ لَا یَتُوْبُوْنَ وَلَا ھُمْ یَذَّکَّرُوْن۔ ’’کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں کہ ہر سال ایک دو مرتبہ یہ آزمائش میں ڈالے جاتے ہیں ؟ مگر اِس پر بھی نہ توبہ کرتے ہیں نہ کوئی سبق لیتے ہیں‘‘ (توبہ۔ ۱۲۵) وَبَلَوْنٰھُمْ بِالْحَسَنٰتِ وَالسَّیِّاٰتِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْن ’’ اور ہم ان کو اچھے اور بُرے حالات سے آزمائش میں مبتلا کرتے رہے کہ شاید یہ پلٹ آئیں۔‘‘ (اعراف۔ ۱۶۸)
۳۔ مشکلات و مصائب کا ایک اہم سبب اہل اسلام کی آزمائش اور ان کا امتحان ہوتا ہے۔ وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَا وِلُھَا بَیْنَ النَّاسِ ج وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُھَدَآئَ ’’یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنھیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ تم پر یہ وقت اس لیے لایا گیا کہ اللہ دیکھنا چاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کو ن ہیں، اور ان لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی راستی کے گواہ ہوں۔‘‘ (آل عمران۔ ۱۴۰ )
۴۔ چوتھا سبب یہ کہ مشکلات اور مصائب اللہ کی کسی بڑی اسکیم اور کسی بڑے خیر کا ذریعہ بھی ہوسکتے ہیں۔ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْر لَّکُمْج وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرّ لَّکُمْ ط وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ ’’ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں ناگوار ہو اور وہی تمہارے لیے بہتر ہو۔ اور ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند ہو اور وہی تمہارے لیے بری ہو۔ اللہ جانتا ہے، تم نہیں جانتے۔‘‘ (البقرہ۔ ۲۱۶)
اِنَّ رَبِّیْ لَطِیْف لِّمَا یَشَآئُ ط اِنَّہٗ ھُوَ الْعَلِیْمُ الْحَکِیْم’’ واقعہ یہ ہے کہ میرا ربّ غیر محسوس تدبیروں سے اپنی مشیّت پوری کرتا ہے، بے شک وہ علیم اور حکیم ہے۔‘‘ (یوسف۔ ۱۰۰)۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے لیے ایک اندھے کنویں کی وحشت ناک تنہائی کو مصر کے تاج و تخت کا پہلا زینہ اور زندانِ مصر کی طویل قید کو دوسرا زینہ بنادیا۔ اسی طرح خدائے علیم و حکیم نے تاریخ میں متعدد مرتبہ سخت آزمائشوں کو قوموں کے لیے کسی بڑی کامیابی کا ذریعہ بنایا ہے۔ اللہ کے نبیﷺ نے فرمایا کہ سب سے زیادہ سخت اور مشکل حالات سے تو اللہ کے برگزیدہ ترین بندوں یعنی انبیاء علیہم السلام کو گزرنا پڑا۔ عَنْ سَعْد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ قَالَ: قُلْتُ: یَا رَسُولَ اللَّہِ, أَیُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاءً؟ قَالَ: الأَنْبِیَاءُ, ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ, فَیُبْتَلَی الرَّجُلُ عَلَی حَسَبِ دِینِہِ, فَإِنْ کَانَ دِینُہُ صُلْبًا اشْتَدَّ بَلاؤُہُ, وَإِنْ کَانَ فِی دِینِہِ رِقَّۃٌ ابْتُلِیَ عَلَی حَسَبِ دِینِہِ, فَمَا یَبْرَحُ الْبَلاءُ بِالْعَبْدِ حَتَّی یَتْرُکَہُ یَمْشِی عَلَی الأَرْضِ مَا عَلَیْہِ خَطِیئَۃٌ. سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! سب سے زیادہ مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپ نے فرمایا: ’’انبیا و رسل پر، پھر جو اُن کے بعد مرتبہ میں ہیں، پھر جو اُن کے بعد ہیں، بندے کی آزمائش اس کے دین کے مطابق ہوتی ہے، اگر بندہ اپنے دین میں سخت ہے تو اس کی مصیبت بھی سخت ہوتی ہے اور اگر وہ اپنے دین میں نرم ہوتا ہے تو اس کے دین کے مطابق مصیبت بھی ہوتی ہے، پھر مصیبت بندے کے ساتھ ہمیشہ رہتی ہے، یہاں تک کہ بندہ روے زمین پر اس حال میں چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا‘‘۔ (رواہ الترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الصبر علی البلاء؛ صححہ الألبانی فی السلسلۃ الصحیحۃ)
چنانچہ سخت حالات سے اہل ایمان نہ گھبراتے ہیں او ر نہ مایوسی و پست ہمتی کا شکار ہوتے ہیں بلکہ مذکورہ چاروں مقاصد کو سامنے رکھ کر وہ اپنے رد عمل کا تعین کرتے ہیں۔ اپنی غلطیوں اور کم زوریوں کا بے لاگ جائزہ لیتے ہیں اور خدا کے حضور توبہ و استغفار کرتے ہیں۔ اللہ کی وارننگ کو محسوس کرتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ استقامت کے ساتھ اپنے اصولوں پر جمے رہتے ہیں اور اس امتحان میں کامیاب ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالات کو بہتر بنانے کی ممکنہ تدابیر اختیار کرتے ہیں۔ اللہ سے مدد طلب کرتے ہیں۔ اس دوران جو مشکلات درپیش ہوں ان کا پامردی اور خوشدلی کے ساتھ سامنا کرتے ہیں اور اپنا فوکس اپنے اصل مقصد و نصب العین پر بنائے رکھتے ہیں۔
موجودہ حالات اور ان کا تناظر
ہمارے ملک کے موجودہ حالات یقینا بعض پہلوؤں سے تشویش ناک ہیں۔ لیکن ان حالات کو اُن کے صحیح تناظرمیں دیکھنا ضروری ہے اور یہ بھی ضروری ہے کہ اِن حالات کے حقیقی اسباب و محرکات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اُن سے نبرد آزما ہونے کی مناسب حکمت عملی اختیار کی جائے۔ حالات و واقعات کی انتہا پسندانہ اور غیر حقیقی تعبیرات اور اُن کو بنیاد بناکر خود کو مستقل موہوم اندیشوں میں گرفتار کرلینا اور پوری امت میں خوف و ہراس اور ناامیدی کا ماحول پیدا کرنے کا سبب بنناکسی صورت جائز نہیں ہوسکتا۔
حالات کا سب سے تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ملک میں اسلام اور مسلمانوں کے تئیں منفی جذبات تیزی سے فروغ پارہے ہیں۔ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ملک کے تمام عوام فرقہ پرست ہوچکے ہیں۔ یہ بات نہ صرف غیر حقیقی ہے بلکہ اُن کروڑوں انصاف پسند لوگوں کی سخت توہین ہے جو فرقہ پرست قوتوں کے خلاف مسلمانوں سے کہیں زیادہ جرأ ت و حوصلہ کے ساتھ برسر ِپیکارہیں۔ آج بھی ملک کے ہر حصے میں مسلمان غیر مسلموں کے درمیان رہ رہے ہیں۔ اُن کے ساتھ ملازمتیں کررہے ہیں، کاروبار کررہے ہیں، ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہیں، سفر میں، دفتروں میں، محلوں اور آبادیوں میں، ہر جگہ، ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی اور دوستی و انسان نوازی کے دل نواز مناظر کم نہیں ہوئے ہیں۔ اس معاملہ میں ملک کی مختلف ریاستوں کی صورت حال مختلف ہے لیکن ہمارا مشاہدہ یہی ہے کہ ملک میں کہیں بھی ایسی صورت حال نہیں ہے کہ یہ کہا جائے کہ پورا سماج زینوفوبک (xenophobic) یا فرقہ پرست ہوچکا ہے۔
لیکن یہ بات صحیح ہے کہ فرقہ پرستی کی فضا دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ فرقوں کے درمیان کبھی کبھار شکایتوں کا پیدا ہوجانا یا جھڑپوں کا ہونا، ہمارے ملک میں نئی بات نہیں ہے لیکن مستقل نفرت و عناد کی فضا یقیناً ملک کے اکثر حصوں کے لیے ایک نامانوس صورت حال ہے۔ اور واقعہ یہ ہے کہ یہ صورت حال بڑھ رہی ہے۔ خصوصاً نئی نسل میں اور نوجوانوں میں، حالات و واقعات کو خالص فرقہ پرست زاویے سے دیکھنے کا رجحان تیزی سے عام ہورہا ہے۔ ہمارے ملک میں اس سے پہلے کبھی حلال غذا پراعتراض نہیں ہوتا تھا، لیکن اب ہونے لگاہے۔ حجاب کی ملک کے تمام ہی عوام عام طور پر عزت کرتے تھے لیکن اب اس پر پابندی کے مطالبات اٹھنا شروع ہوئے ہیں۔ تشدد کے واقعات جو صرف فرقہ وارانہ تناؤ کے حالات میں پیش آتے تھے، اب عام حالات میں بھی پیش آنے لگے ہیں۔ حالات کی یہ تبدیلی فوری توجہ اوراصلاحِ حال کی تیز رفتار کوششوں کا ضرور تقاضا کرتی ہے لیکن ان حالات سے ناامید ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ یہ حالات بدلے جاسکتے ہیں بشرطے کہ صحیح سمت میں کوشش کے لیے ہم تیار ہوں۔
حالات کا دوسرا تشویش ناک پہلو ملک کے نظام حکم رانیپر استبدادی اورفسطائی رجحانات کا غلبہ ہے۔ جمہوری اداروں اور روایات کی بری طرح پامالی، عوام کے انسانی حقوق سے بے پروائی، قوانین کا استحصال اور ہر مخالف آواز کو دھن، دھونس اور دھاندلی کے ذریعہ دبانے کی کوشش، ان رجحانات کی وہ نمایاں خصوصیات ہیں جو گذشتہ چند ماہ کے متعدد واقعات سے بہت واضح ہوکر سامنے آئی ہیں۔ ملت اسلامیہ اور ان کے شعائر کے سلسلہ میں مستقل توہین و بے اعتنائی کے جس رویے کا مظاہرہ کیا جارہا ہے، اُس کا مقصد یہی ہے کہ مسلمان احساس کمتری، خوف، اور اشتعال اور بوکھلاہٹ کی نفسیات کے شکارہوجائیں۔ اندیشہ یہ ہے کہ ایسے اقدامات کی شدت آئندہ اور زیادہ بڑھے گی۔ لیکن نظام حکم رانی کے بگاڑ کا یہ مسئلہ اصلا ً پہلے مسئلے ہی کا، یعنی سماجی سطح پر فرقہ پرستی کے فروغ ہی کانتیجہ ہے۔ فرقہ پرست طاقتوں کے سیاسی غلبےکا ایک اہم سبب در اصل سماج میں فرقہ پرستی میں اضافہ ہے۔
اس صورت حال کے متعدد اسباب ہیں۔ نسل پرستی کا فروغ اس وقت ایک عالمی مسئلہ ہے۔ مختلف وجوہ سے ساری دنیا میں نسل پرست اور فرقہ پرست طاقتوں کو تیزی سے فروغ حاصل ہورہا ہے۔ خاص طور پر اسلام کے تئیں خوف (اسلاموفوبیا) پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔ اس کی ایک اہم وجہ خود اسلام کا ایک نظریاتی طاقت کے طور پر ابھرنا ہے۔ ہمارے ملک میں کانگریس اور سوشلسٹ سیاسی قوتوں کا زوال بھی اس کا ایک اہم سبب ہے۔ ان سیاسی تحریکوں کی نظریاتی اساس وقت کے ساتھ کم زور ہوتی چلی گئی۔ کرپشن اور خاندانی و مفاد پرستانہ سیاست کے مکمل غلبہ کی وجہ سے وہ سماجی سطح پر ایک مؤثر نظریاتی قوت کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہیں۔ بڑے سرمایہ داروں نے بھی ان سیکولر قوتوں کو ایک بوجھ سمجھنا شروع کیا اور اپنا وزن دھیرے دھیرے مکمل طور پر دائیں بازو کی قوتوں کے پلڑے میں ڈال دیا۔ سرمایہ داری کے عالمی غلبے کے اس زمانے میں، یہ بھی ایک بہت بڑا ڈیولپمنٹ تھا۔ ان حالات میں یہاں برسوں سے نہایت منظم طریقے سے کام کرنے والی فرقہ پرست سیاسی و سماجی تحریکوںکو سنہری موقع حاصل ہوگیا اور انھوں نے بہت چابک دستی اور مہارت کے ساتھ اسے استعمال کیا۔
لیکن ان سب کے باوجود، واقعہ یہ ہے کہ آج بھی اس ملک میں فسطائی اور فرقہ پرست رجحانات کی سماجی بنیادیں مضبوط اور مستحکم نہیں ہیں۔ حالات کی تبدیلی اور متبادل نظریاتی و سماجی رجحانات کا ظہور انہیں تیزی سے کم زور کرسکتا ہے۔ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ سخت گیر راے عامہ اور ظلم و ستم کی عمر ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ ہمارے ملک کے مخصوص حالات میں تو اس کا امکان اور زیادہ بڑھ جاتا ہے کہ ایسے رجحانات زیادہ دیرپا نہ رہیں۔ دیرسویر، ان کے نقصانات نمایاں ہوں گے اور ملک کی راے عامہ ان کے خلاف بے دار ہوگی۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔ لیکن ظاہر ہے کہ یہ تبدیلی محض ہاتھ پر ہاتھ دھرے انتظار کرنے سے نہیں آئے گی۔ اس کے لیے تدبیر اور کوشش کرنی ہوگی۔ گذشتہ شمارےمیں ان مطلوبہ کوششوں کے ایک اہم پہلو یعنی راے عامہ کی ہم واری کے تعلق سے کچھ باتیں ہم نے تحریر کی تھیں۔ دعوت ِدین کے امکانات اور اس کی ضرورت پر بھی آئندہ ہم لکھیں گے، اور حکمتِ عملی کے دیگر ضروری اجزاکو بھی زیر بحث لائیں گے، لیکن ان سب تدابیر کو اختیار کرنے اور درست سمت میں جدوجہد کرتے رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہماری اجتماعی نفسیاتی صحت درست رہے۔ اور ہمارا رویہ وہی ہو جو اسلامی عقائد اور قرآن کی تعلیمات پیدا کرناچاہتی ہیں۔
اجتماعی نفسیاتی صحت
قرآن مجید نے اہل اسلام کی کامیابی کے لیے جن صفات کو ضروری قراردیا ہے، اُن میں ایمان اور عمل صالح کے علاوہ صبر، توکل اور توبہ کی صفات نمایاں ہیں۔ صبر، توکل اور توبہ اس طرح اہلِ ایمان کی نفسیاتی صحت کے تین اہم عنوانات ہیں۔ موجودہ حالات میں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم حالات سے مایوس ہوئے بغیر اپنے اصولوں پر استقامت کے ساتھ جمے رہیں۔ اپنا اصل کام، یعنی دعوت دین کاکام کرتے رہیں اور اسی پر اپنی توجہات کو مرکوز رکھیں اور ہمارا اجتماعی مزاج صبر، توکل اور توبہ کی صفات سے عبارت ہو۔
صبر: صبر کو قرآن مجید نے کامیابی و سربلندی کی ایک اہم شرط قرار دیا ہے۔ : وَاَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِیْنَ کَانُوْایُسْتَضْعَفُوْنَ مَشَارِقَ الْاَرْضِ وَمَغَارِبَھَاالَّتِیْ بٰرَکْنَا فِیْھَا ط وَتَمَّتْ کَلِمَتُ رَبِّکَ الْحُسْنٰی عَلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ ۵لا بِمَا صَبَرُوْا ط وَدَمَّرْنَا مَاکَانَ یَصْنَعُ فِرْعَوْنُ وَقَوْمُہٗ وَمَاکَانُوْایَعْرِشُوْن ( اور ان کی جگہ ہم نے ان لوگوں کو جو کم زور بنا کر رکھے گئے تھے، اس سرزمین کے مشرق و مغرب کا وارث بنا دیا جسے ہم نے برکتوں سے مالا مال کیا تھا اس طرح بنی اسرائیل کے حق میں تیرے رب کا وعدہ خیر پورا ہوا کیوں کہ انھوں نے صبر سے کام لیا تھا اور فرعون اور اس کی قوم کا وہ سب کچھ برباد کر دیا گیا جو وہ بناتے اور چڑھاتے تھے۔ اعراف ۱۳۷) صبرکیا ہے؟ صبر بزدلی کا نام نہیں ہے اور نہ یک طرفہ طور پرکشمکش و مقابلہ سے دست برداری صبر ہے۔ خوف، ناامیدی، مایوسی، اشتعال، غصہ و غضب، شہوت، عیش و عشرت و جاہ طلبی وغیرہ جیسے منفی جذبات کے مقابلے میں اپنی قدروں، اصولوں اور اپنے اصل مقصد پر استقامت کے ساتھ ڈٹے رہنے کا نام صبر ہے۔ صبر اپنے آپ پر مکمل کنٹرول کا نام ہے اور اس بات کا نام ہے کہ کوئی قدم بھی، شعوری فیصلے کے بغیر نہ اٹھے۔ اگر کسی گروہ کو آسانی سے مشتعل کیا جاسکے اور وہ اشتعال میں آکر بغیر سوچے سمجھے کوئی قدم اٹھا بیٹھے تو یہ اجتماعی بے صبری ہے۔ اسی طرح کوئی قوم آسانی سے ڈر او ر خوف کے جذبات کی شکار ہوجائے اور جن اقدامات کو وہ شعوری طور پر مناسب اور ضروری سمجھتی ہے انہیں ڈر کی وجہ سے نہ کرسکے تو یہ بھی بے صبری ہے۔ بے صبری شعور پر منفی جذبات کے غلبے کا نام ہے۔ اشتعال بھی ایک منفی جذبہ ہے۔ جذباتیت بھی ایک منفی جذبہ ہے۔ ڈر اور مداہنت بھی ایک منفی جذبہ ہے۔ ان جذبات کوشعور کے ذریعہ قابو میں رکھنے کانام ہی صبر ہے۔ یہ صفت اگر اجتماعی طور پر پوری قوم میں پیدا ہوجائے تو اک بڑی طاقت بن جاتی ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم کو مشتعل (provoke) کرنے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، ان کوششوں کو بھی صبر و استقامت کے ساتھ ناکام بنادینے کی صلاحیت ہمارے اندر پیدا ہو اور ہمیں مایوس، پست ہمت اور خوف و ہراس کا شکار بنادینے کی جو تدبیریں اختیار کی جارہی ہیں ان کا مقابلہ کرنے کی بھی ہمارے اندر صلاحیت پیدا ہو۔
توکل: اسی طرح، قرآن مجید نے اللہ کی مدد و نصرت کو جن باتوں کے ساتھ مشروط رکھا ہے ان میں ایک اہم توکل کی صفت ہے۔ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا وَّیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُط وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ ط اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ (جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گا اللہ اْس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کر دے گا اور اسے ایسے راستے سے رزق دے گا جدھر اْس کا گمان بھی نہ جاتا ہو جو اللہ پر بھروسا کرے اس کے لیے وہ کافی ہے اللہ اپنا کام پورا کر کے رہتا ہے۔ سورہ طلاق۔ ۲، ۳) توکل کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنے مقصد کے لیے ساری ممکنہ تدبیریں اختیار کرے اور اس کے بعد اللہ پر بھروسہ کرے۔ تدبیر سے گریز توکل نہیں ہے جیسا کہ مشہور حدیث میں ہم کو وضاحت ملتی ہے۔ سمعت انس بن مالک یقول : قال رجل: یا رسول اللہ اعقلھا واتوکل او اطلقھا و اتوکل؟ قال اعقلھا و توکل (یعنی ایک شخص نبی کریم ﷺ کے پاس آیا اور اونٹ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا کہ اے اللہ کے رسول! کیا میں اسے باندھ کر توکل کروں یا اسے چھوڑ دوں اور توکل کروں۔ آپ نے فرمایا، باندھو اور توکل کرو۔ سنن الترمذی؛ کتاب صفۃ القیامۃوالرقائق والورع؛ رواہ انس بن مالکؓ، حسنہ الالبانی وغیرہ)یعنی تدبیر کا حق ادا کرو اور پھر توکل کرو۔ اسی طرح ممکنہ تدابیر اختیار کرنے کے باوجود خوف اور اندیشوں کی نفسیات کا شکار ہوجانا، یہ بھی توکّل کے خلاف ہے۔ توکل یہ ہے کہ جو کچھ ممکن ہے اسے گزرنےکی ہر ممکن کوشش کی جائے اور جو بات ہمارے دائرہ اختیار سے پرے ہے، اسے اللہ پر چھوڑدیا جائے اور اُس سے اچھی امید رکھی جائے۔ توکل افراد اور قوموں کو ممکنات پر ارتکاز (focus on possibilities) عطا کرتا ہے۔ جو باتیں ہمارے دائرۂ امکان سے پرے ہیں، ان کے سلسلے میں خوف اور اندیشے کا شکار ہوجانا، اس کا رونا رونے میں وقت ضائع کرنا اور اپنے قویٰ کو موہوم اندیشوں کا شکار ہوکر ناکارہ کردینا، یہ کم زور اور ناکام افراد اور قوموں کی صفت ہوتی ہے۔ جبکہ کامیاب افراد کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی نظر اپنے مقصود پر ٹکی ہوتی ہے۔ جو کچھ ان کے بس میں ہے اور ممکن ہے، اسے کر گزرنے پر ان کی زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ جو امور ان کے دائرۂ امکان سے پرے ہیں، اس پر وہ زیادہ دھیان نہیں دیتے۔ توکل یہی اسپرٹ پیدا کرتا ہے۔ یہ سوچ کا ایک بالکل مختلف پیراڈائم ہے۔ یہ پیراڈائم افراد اور گروہوں کو عملیت پسند اور رجائیت پسند بناتا ہے۔ آج اسی عملیت پسندی کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے ذہنی اور عملی قویٰ، ان کاموں پر مرکوز ہوجائیں جو ممکن ہیں اور جن سے مثبت تبدیلی کا امکان ہے تو آج بھی بڑی تبدیلی لائی جاسکتی ہے۔
توبہ: قرآن مجید نے توبہ کو بھی کامیابی کی لازمی شرط قراردیا ہے۔ وَ ٰیقَوْمِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُرْسِلِ السَّمَآئَ عَلَیْکُمْ مِّدْرَارًا وَّیَزِدْکُمْ قُوَّۃً اِلٰی قُوَّتِکُمْ (اور اے میری قوم کے لوگو، اپنے رب سے معافی چاہو، پھر اس کی طرف پلٹو، وہ تم پر آسمان کے دہانے کھول دے گا اور تمہاری موجودہ قوت پر مزید قوت کا اضافہ کرے گا۔ سورہ ہود ۵۲) اجتماعی زندگی میں توبہ دراصل خود کو بدلنے کی صلاحیت (changeability) کا نام ہے۔ کامیابی کے لیے جن اجتماعی اوصاف کی ضرورت ہے، ان میں ایک اہم صفت یہ ہے کہ ہم مستقل احتساب کی طرف مائل ہوں۔ اور جوں ہی اپنی کسی کم زوری کا احساس ہو، خود کو بدلنا ہمارے لیے دشوار نہ ہو۔ زوال اور کم زوری قوموں کو جمود کا شکار بنادیتی ہے۔ ان کے اندر تبدیلی کی شدید مزاحمت (change resistance) پیدا ہوجاتی ہے۔ کم زوریوں کا احساس بھی ہو اور مطلوب تبدیلی کا شعور بھی ہوتب بھی پوری قوم کا عملاً بدلنا ممکن نہیں ہوتا۔ اسٹیٹس کو (status quo) کا یہ مزاج بہت بڑی کم زوری ہوتا ہے۔ اس سے کوئی بھی قوم زمانے کے تقاضوں کو نبھانے کی صلاحیت سے محروم ہوجاتی ہے۔ قرآن مجید میں اہل ایمان کی صفت یہ بتائی گئی ہے کہ وہ اللہ کی طرف رجوع کرنے والے اور توبہ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اور توبہ نہ کرنے والوں کو ظالم قراردیا گیا ہے۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (جو لوگ توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں۔ سورہ حجرات آیت ۱۱) توبہ کے لفظی معنی ہی پلٹنے اور رجوع کرنے کے ہیں۔ فرد اور قوموں کو اگر اس بات پر قدرت حاصل ہو کہ وہ تیزی سے خود کو بدل سکیں، اسٹیٹس کو توڑ سکیں، جن تبدیلیوں کو شعوری طور پر وہ درست اور مطلوب سمجھتے ہیں، انہیں تیزی سے اختیار کرسکیں، تو یہ ان کے لیے بہت بڑی قوت ہوتی ہے۔
اس وقت شدید ضرورت ہے کہ اپنے اندر جن تبدیلیوں کو ہم ضروری سمجھتے ہیں، اور جن کی طرف اس سلسلہ مضامین میں اشارات کیے جاتے رہیں گے، ان کو عملاً لانے کے لیے ہمارا سماج، ہمارے ادارے، ہماری قیادتیں، ہماری جماعتیں اور تنظیمیں اور افراد سب تیار ہوں۔ تبدیلی کا یہ عمل تیز رفتار ہو تاکہ ہم جلد سے جلد حالات کو بہتر بنانے کی صلاحیت سے آراستہ ہوسکیں ؎
جو یقیں کی راہ پہ چل پڑے، انھیں منزلوں نے پناہ دی
جنھیں وسوسوں نے ڈرادیا، وہ قدم قدم پہ بہک گئے