ہندتو اور تعلیمی نظریات و نظام تعلیم

ہندتو کی تحریک میں تعلیم اور نظام تعلیم کی ابتدا ہی سے بڑی اہمیت رہی ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تعلیم اور ذہن سازی اس تحریک کا اول روز سے اصل ہدف رہا ہے۔ ہندتو کی تعلیمی تحریک میں سب سے پہلا نام بی ایس مونجے (بالاکرشنا مونجے1872-1948 ) کا آتا ہے۔ مونجے نے 1931 میں اٹلی کا دورہ کیا اور فاشسٹ وزیر اعظم مسولینی سے ملاقات کی۔ اٹلی کے اس دورے میں فوجی تربیت کے فسطائی مراکز مثلاً Accademia fascista della Farnesina كا تفصیل سے جائزہ لیا۔ یہ مراکز اٹلی کی فسطائی جماعت کے اہم مراکز تھے اور ان میں نوجوانوں کو نیم فوجی تربیت بھی دی جاتی تھی اور مخصوص فسطائی نظریاتی و سیاسی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ او این بی (Opera Nazionale Balilla) جو فسطائی پارٹی کی یوتھ موومنٹ تھی، اس کا بھی انھوں نے قریب سے مشاہدہ کیا [1]اور واپس آنے کے بعد 1937میں ‘ہندو ملٹری ایجوکیشن سوسائٹی’ کی بنیاد ڈالی جس کے تحت ناسک میں بھوسلا ملٹری اسکول قائم کیا گیا تاکہ ‘‘ملک کی فوج کا ‘بھارتی کرن’ (indianisation) کیا جاسکے۔’’[2] بعد میں اس سوسائٹی کے تحت اسی طرح کا ایک اسکول ناگپور میں بھی قائم کیا گیا۔ مونجے کے ایک عزیز و لائق شاگرد ڈاکٹر ہیڈگیوار تھے جنھوں نے آر ایس ایس قائم کی۔[3]

error: