تاریخ ہند اور تاریخ نگاری

ہندتو کے نظامِ فکر میں تاریخ کو بہت اساسی حیثیت حاصل ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کو دیکھنےکے ایک مخصوص زاویہ نظر ہی پر اس نظامِ فکر کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندتو کے یہاں، اساس گزار مفکرین ہی کے زمانے سے ہر زمانے میں تاریخ اور تاریخی مباحث کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔انگریزوں کے دور میں ہندو بے داری کی جو جدید تحریکیں شروع ہوئیں ان میں ملک کی تاریخ کو ایک خاص رخ سے بیان کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔’لڑاؤ اور حکومت کرو’ کی پالیسی کے تحت انگریزوں نے بھی اس مخصوص رخ کی ہمت افزائی کی۔ ونایک دامودر ساورکر(1883-1966) نے اپنی متعدد کتابوں اور ناولوں کے ذریعے اس رخ کو اور زیادہ جارح و انتہا پسند بنایا۔ ان کی کتاب Six Glorious Epochs of Indian History کا موضوع عہد وسطی کا مسلم دور حکومت ہے [1]۔ اس میں انھوں نے ‘مسلم حملہ آوروں’ کے خلاف ‘مقامی ہندو باشندوں’ کی مزاحمت کی داستانیں بیان کی ہیں۔’مسلم حملہ آوروں’ کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے تفصیل سے لیکن مناسب دلائل کے بغیر یہ دعوے کیے گئے کہ ان ‘حملہ آوروں ‘نے مسلم آبادی بڑھانے کے لیے کثرت سے ہندو عورتوں کا اغوا کیا اور ان کا ریپ کیا [2]اور یہ کہ اب اس خوف کا پیدا کیا جانا ضروری ہے کہ ہندو فتوحات کی صورت میں مسلمان عورتوں سے اُن کا انتقام لیا جائے گا۔[3] ہندتو کے دوسرے اہم ترین نظریہ ساز ایم ایس گولوالکر (1906-1973) نے آریاؤں کو ہندوستان کا اصل باشندہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ان کے بقول آریا قطب شمالی کے باشندے تھے اور اس وقت قطب شمالی بہار اور اڑیسہ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ بعد میں ارضیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ موجودہ جگہ جاپہنچا۔ [4]اسی کتاب میں انھوں نے متبادل تاریخ نگاری کی ضرورت پر زور دیا۔ لکھتے ہیں:

“اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا خود مطالعہ کریں، سمجھیں اور لکھیں اور منصوبہ بند اور غیر منصوبہ بند تحریفات سے پیچھا چھڑائیں۔”[5]

error: