­ہندتو اور دراوڑین تحریک

جدید ہندوستان میں برہمنی بالادستی کے خلاف اور سماجی مساوات کے اصول کی بنیاد بناکر جو تحریکیں اٹھیں، ان میں سب سے زیادہ مشہور اور ملک گیر اثرات کے اعتبار سے اہم ترین تحریک مہاراشٹر کی تحریک تھی۔ جیوتی باپھلے(1827-1890) اور گوپال بابا ولنگکر (1840-1900) جیسے سماجی مصلحین کے بعد اس تحریک کو ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر (1891-1956)جیسے قد آور دانش ور و سیاسی رہ نما اور کولہا پور کے چھترپتی شاہو مہاراج (1874-1922) جیسے بااثر حکم راں میسر آئے۔ اس کی وجہ سے ملک گیر سیاست پر اور بعد میں ملک کی پالیسی پر اس تحریک نے گہرے اثرات مرتب کیے۔

لیکن سماجی سطح پر جس تحریک نے انتہائی گہرے اثرات مرتب کیے اور لمبے عرصے تک سماجی منظر نامے پر چھائی رہی، وہ ہمارے خیال میں جنوبی ہند کی دراوڑین تحریک ہے۔ ہندتو کے رسپانس کو سمجھنے کے لیے اس تحریک کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔ آج بھی ہندتو کے لیے سب سے سنگلاخ زمین جنوبی ہند اور اس میں بھی خاص طور پر تمل ناڈو اور آندھرا پردیش ہی ہیں۔ان ریاستوں میں نہ صرف بی جے پی کو سیاسی کام یابی نہیں مل پائی ہے بلکہ سنگھ اور اس کی ذیلی تنظیمیں بھی بہت کم رسوخ حاصل کرسکی ہیں۔ لیکن دوسری طرف حقیقت یہ بھی ہے کہ دراوڑین نعروں کا زور اب کم زور پڑ رہا ہے اور ہندتو کی شاطر قوتیں نہ صرف یہاں کے معاشرے میں نفوذ حاصل کرنے لگی ہیں بلکہ دراوڑین پارٹیوں پر بھی کنٹرول حاصل کرنے میں کام یاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔ ان دونوں پہلوؤں سے دراوڑین تحریک کا تجزیہ ہندتو کے درست رسپانس کی تعیین کے لیے ضروری ہے، یعنی اس پہلو سے بھی کہ وہ کیا سماجی عوامل ہیں جن کی وجہ سے ہندتو کی طاقت ور لہر، اتنے عرصے تک دراوڑین سرزمین کی سرحد پر آکر رک گئی تھی اور پھر وہ کیا تبدیلیاں ہیں جن کی وجہ سے اب اس لہر کے اندر داخلے کے امکانات نظر آنے لگے ہیں۔

تاریخی پس منظر
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ تمل ناڈو میں ذات پات کا باقاعدہ نظام اور ذات کی بنیاد پرتفریق کا آغاز تیسری اور چوتھی صدی عیسوی میں شروع ہوا جب شمالی ہند سے برہمنوں کی ایک کثیر تعداد نے وہاں نقل مکانی کی۔[1] پلّوا خاندان (Pallava Dynasty)کے حکم راں، جنھیں ٹونڈئی منڈلم بھی کہا جاتا ہے، (275-897 عیسوی)، ہندو مذہب کے پیرو تھے۔ ان کے دور میں مگدھ اور دوسرے شمالی ہند کے علاقوں سے برہمنوں کو کثیر تعداد میں تمل ناڈو میں آباد کرایا گیا۔ انھوں نے اپنے علاوہ سب کو شودر قرا ر دیا اور بعض حقیر سمجھے جانے والے کام کرنے والوں کو ‘اورنا’ (अवर्ण)قرار دے دیا۔[2] ایک پلّوا بادشاہ نے قانون سازی کے ذریعے بھی اس برہمنی نظام کو تحفظ بخش دیا۔[3] اس کے بعد صدیوں تک ملک کے دیگر علاقوں کی طرح یہاں بھی ذات پات کا ظالمانہ نظام حکومتوں کی سرپرستی میں چلتا رہا اور برہمنوں کی مختصر تعداد کو ہمہ گیر قوت و اثر و رسوخ حاصل ہو گیا۔

انیسویں اور بیسویں صدی میں، ذات پات کی تفریق کا مسئلہ تمل سماج میں باقی ملک سے کہیں زیادہ تھا۔ باقی ملک کے برخلاف یہاں شتری (क्षत्रिय) اور ویشیہ (वैश्य) ذاتیں نہیں تھیں (البتہ ان ذاتوں سے تعلق رکھنے والی ایک مختصر آبادی،کیرلہ، آندھرا اور دیگر علاقوں سے ہجرت کرکے یہاں آباد تھی)۔ برہمنوں کی تعداد اس وقت محض 3 فی صد تھی (اب یہ 2فی صد سے بھی کم ہے) اس کے باوجود تمام اہم عہدوں پر ان کا تسلط تھا۔ باقی ساری آبادی یا تو شودر سمجھی جاتی تھی یا پنچما (دلت)۔[4] انگریزی دور میں ملک کے دیگر طبقات کی طرح ریاست مدراس کے شودر طبقات میں بھی بیداری پیدا ہوئی اور اپنی پس ماندگی اور مظلومیت کا احساس عام ہوا۔اس زمانے میں ریاست مدراس میں موجودہ تمل ناڈو اور آندھرا پردیش کے ساتھ، شمالی و وسطی کیرلہ اور ساحلی کرناٹک کے علاقے بھی شامل تھے۔ مدراس کے ایک میڈیکل پریکٹیشنر، ڈاکٹر سی این مڈلیار (1875-1937)نے، جنھیں بابائے دراوڑین تحریک (Dravida Thanthai)کہا جاتا ہے، 1916 میں ساؤتھ انڈین لبریشن فیڈریشن کی بنا ڈالی، جو بعد میں پارٹی کے انگریزی مجلے ‘جسٹس’ کے نام پر ‘جسٹس پارٹی’ کہلائی جانے لگی۔ پارٹی کے قیام کے وقت ‘نان برہمن مینی فیسٹو’ منظور کیا گیا جس سے اس وقت کی صورت حال پر اور اس تحریک کے مقاصد پر وضاحت ملتی ہے۔ مینی فیسٹو میں تفصیلی اعداد و شمار کے ذریعے واضح کیا گیا ہے کہ سیاست، سول سروس، تعلیم، تجارت، میڈیا ہر محاذ پر ایک بہت ہی چھوٹی سی اقلیت ہی کو مواقع حاصل ہیں اور ریاست کی ستانوے فیصد آبادی کو کوئی نمائندگی حاصل نہیں ہے۔ اس میں برطانوی حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ ہندوستان میں ایسے دستور کے لیے راہ ہم وار کرے جس کے نتیجے میں ملک میں موجود تمام ذاتوں، طبقات اور مذہبی گروہوں کو آبادی کے تناسب سے بھرپور نمائندگی مل سکے اور کوئی بھی طبقہ محروم نہ رہے۔ اس حوالے سے خود ان محروم طبقات کو بھی ان کی ذمے داریاں یاد دلائی گئی ہیں۔[5]

اس زمانے میں مدراس کے علمی و سیاسی منظر نامے پر ایک اینگلو آئرش خاتون اینی بیسنٹ (Annie Besant 1847-1933 – اڈیار، مدراس میں مدفون) کا غلبہ تھا۔انھوں نے اپنے وطن آئر لینڈ کی ہوم رول تحریک کی طرز پر ہندوستان میں بھی خود اختیاری اور جمہوری حقوق کے مطالبے کو لے کر ہوم رول تحریک (Home Rule Movement) شروع کی تھی۔ بیسنٹ کا عالمی فری میسن تحریک سے تعلق تھا اور انھوں نے دنیا کے کئی علاقوں مین فری میسن لاج قائم کیے تھے۔[6] ہندوستان میں وہ ایک مخصوص پراسرار روحانی تحریک کی سربراہ تھیں جسے تھیوسوفیکل سوسائٹی (Theosophical Society)کہا جاتا ہے۔[7] اس روحانی تحریک کا قدیم ہندو، بدھ مذہبی تصورات سے بھی گہرا تعلق تھا۔ ہندوستان کی آزادی کے لیے اپنے جذبے اور ہندو فلسفیانہ تصورات سے دل چسپی کی وجہ سے وہ کانگریسی قائدین بال گنگا دھر تلک، لالہ لاجپت رائے، پنڈت دین دیا ل اپادھیائے وغیرہ سے کافی قریب ہوگئی تھیں اور بعد میں (1917)کانگریس کی صدر بھی منتخب ہوگئیں۔[8]

اینی بیسنٹ نے اپنے مضامین کے ذریعے ورن نظام کی پرزور تائید شروع کردی تھی۔ اور برہمنوں کی ذہانت، صلاحیت وغیرہ کی مبالغہ آمیز تعریف کرتے ہوئے گویا آزاد ہندوستان میں ان کی بالادستی کے لیے فکری بنیادیں فراہم کرنے کا کام شروع کردیا تھا۔ اس زمانے کی کانگریس (جس کے سرکردہ قائدین لالہ لاجپت رائے، بال گنگا دھر تلک، پنڈت مدن موہن مالویہ وغیرہ تھے) کے تعلق سے پس ماندہ طبقات پہلے ہی شکوک رکھتے تھے۔ اینی بسنٹ کی ان سرگرمیوں نے غیر برہمن طبقات میں شدید بے چینی پیدا کردی۔ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ بیسنٹ کی سرگرمیاں جسٹس پارٹی کے قیام کی فوری محرک بنیں۔[9] (جسٹس پارٹی کے قیام کے بعد بیسنٹ نے اپنے اخبار ‘نیو انڈیا’ کے ذریعے اس کی شدید مخالفت شروع کردی اور اس تحریک کو ملک دشمن باور کرانے میں پورا زور لگا دیا۔)

جسٹس پارٹی نے بہت تیزی سے مقبولیت حاصل کی اور انگریزی دور میں تقریباً پندرہ سال مدراس پر حکومت کی۔ پارٹی کی حکومت نے بہت سی اُن اصلاحات کا آغاز کیا جو بعد میں پورے ملک کے لیے نمونہ بنیں اور آزاد ہندوستان میں ان میں سے بعض کو ملگ گیر سطح پر اختیار بھی کیا گیا۔ اسی حکومت نے سب سے پہلے ریزرویشن کا نظام متعارف کرایا۔ دیوداسیو ں کے نظام پر سخت پابندی لگادی۔ عوامی مقامات پر چھوت چھات ختم کرادی۔ قانون ساز اسمبلیوں میں خواتین کے انتخاب پر پابندی کو ختم کردیا۔ غیر برہمن طبقات کی تعلیم کے وسیع انتظامات کیے اور مدراس بنیادی تعلیم قانون 1920کے ذریعے لڑکوں اور لڑکیوں کی بنیادی تعلیم کو قانوناً لازمی بنادیا (حق تعلیم کی شروعات)۔ اسکولوں میں تغذیہ بخش مفت کھانے کا انتظام کردیا (مڈ ڈے میل اسکیم کی پہلی شکل)۔ مدراس یونیورسٹی پر برہمنوں کے غلبے کو محسوس کرتے ہوئے آندھرا یونیورسٹی اور انا ملائی یونیورسٹی قائم کیں۔

سو سال پہلے یہ سب غیر معمولی طور پر انقلابی اقدامات تھے۔ان اقدامات نے صدیوں سے چل رہے استبدادی نظام کی جڑیں ہلادی تھیں۔ ان پالیسیوں نے عوام کی ترقی کی ایسی راہ ہم وار کی کہ اس زمانے میں ریاست مدراس ملک کی ایک پس ماندہ ریاست سمجھی جاتی تھی لیکن آج اُس ریاست کے سارے علاقے، تمل ناڈو، آندھرا پردیش، کیرلہ اور ساحلی کرناٹک، ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے اعتبار سے شمالی ہند کی ریاستوں سے کہیں آگے بڑھ چکے ہیں۔ چناں چہ ان اقدامات نے مدراس کے مراکز قوت میں بڑا ارتعاش پیدا کیا اور جسٹس پارٹی کے خلاف پروپیگنڈے اور سازشوں کا بازار گرم ہوگیا اور 1937کے انتخابات میں اسے ایسی شکست ہوئی کہ پارٹی کے احیا کے امکانات معدوم دکھائی دینے لگے۔

پیریار اور ان کی سماجی تحریک
اس کے بعد پارٹی کی سربراہی ایک انقلابی سماجی رہ نما، ایروڈ راما سوامی پیریار (1879-1973)کے ہاتھوں میں آئی۔وہ کئی برسوں سے ‘عزت نفس کی تحریک’ (Suya Mariyaadhai Iyakkam) کے نام سے ایک سماجی تحریک چلارہے تھے۔ انھوں نے محسوس کیا کہ بڑی سماجی تبدیلی کے بغیر، سیاسی قوت زیادہ معاون نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ انھوں نے ایک بڑا فیصلہ کیا اور سیاسی جماعت کا نام بدل کر اسے ایک غیر انتخابی سماجی تحریک ‘دراویڈر کزھگم’ (Dravidar Kazhagam DK)میں بدل دیا۔

پیریار کی ‘ڈی کے’ تحریک کو ماہرین سماجیات دنیا میں جدید تاریخ کی موثر ترین تحریکات میں سے ایک سمجھتے ہیں۔[10] اس تحریک نے تمل عوام کی سوچ اور وہاں کے سماجی ڈھانچے پر دور رس اثرات مرتب کیے۔ ذات پات کے نظام کا خاتمہ، غیر برہمن طبقات کے استحصال کا خاتمہ، ان کی عزت نفس کی بحالی، خواتین کے حقوق اور عقل پرستی، یہ ان کے کچھ اہم اصول تھے۔ وہ ٹھوس سماجی تبدیلی اور برہمنی بالادستی کے خاتمے کے بغیر ملک کی آزادی کو بھی بے فیض سمجھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ مخصوص برہمنی تصورات پر مبنی مذہبی عقائد نے غیر برہمن طبقات میں عزت نفس ختم کردی ہے۔ وہ خود کو کم تر سمجھنے لگے ہیں اس لیےسب سے پہلے اس احساس کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے انھوں نے مذہبی توہمات کے خلاف بلکہ خود مذہب کے خلاف تحریک چلائی۔ شدید باغیانہ اقدامات کے ذریعے لوگوں کے صدیوں سے مستحکم مذہبی تصورات کو شدید ضربیں لگائیں۔ انھوں نے عین نوجوانی میں کانگریس پارٹی سے اس لیے استعفا دے دیا کہ پارٹی کے زیر انتظام اسکول میں برہمن طلبہ کے کھانے کا انتظام جداگانہ تھا اور ان کے شدید احتجاج کے باوجود پارٹی اس نظام کی اصلاح کے لیے تیار نہیں تھی۔[11] اس سلسلے میں ان کی ‘ویکم ستیہ گرہ’ (Vaikom Satyagraha – 1924-25) کو سماجی مساوات کی تحریک کا ایک اہم سنگ میل مانا جاتا ہے۔ انھوں نے مندروں میں داخلے کے حقوق حاصل کیے۔ طاقت ور عوامی تحریک کے ذریعے، سڑکوں اور بازاروں میں برہمن اور غیر برہمن کی تفریقات ختم کیں۔ خواتین کو ملکیت کے حقوق دلائے۔ ان کی مرضی کے بغیر شادیوں کے خلاف شدید مزاحمت پیدا کی۔بیواؤں کی شادیوں کے سلسلے میں بیداری پیدا کی۔ مندروں میں تمام ذاتوں کے لوگوں کے پجاری بننے کے حق کے لیے طویل سیاسی و قانونی جدوجہد کی۔عزت نفس پر مبنی شادیوں (self-respect marriages)کا تصور دیا جن میں برہمن پنڈت کے بغیر اور مخصوص برہمنی رسوم کے بغیر بھی شادیاں ہوجاتی ہیں۔ شودر اور دلت طبقات میں تعلیم حاصل کرنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ پیدا کیا۔ [12] جن باتوں کو بھی وہ آریائی یا برہمن بالادستی کا ممکنہ ذریعہ محسوس کرتے تھے ان کی شدید مخالفت کرتے تھے۔ چناں چہ انھوں نے ہندی زبان کو سرکاری زبان بنانے کی شدید مخالفت کی۔ بلکہ ملک کی آزادی کی بھی مخالفت کی۔[13]

اس تحریک نے انگریزی، تمل، ملیالم، تیلگو اور کنڑا زبانوں میں اخبارات و رسائل جاری کیے۔ وسیع ادب اور لٹریچر تیار کیا۔ تمل شاعری، طنز و مزاح، فکشن، ان سب پر دراوڑین تحریک نے گہرے اثرات ڈالے۔[14] پھر اس تحریک نے تمل سنیما پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ آزادی کے بعد دراوڑین پارٹیوں پر جو لوگ چھائے رہے انھوں نے یا تو فلموں کی اسکرپٹ رائٹنگ میں طبع آزمائی کی یا اداکاری میں۔[15] اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عوام سے لے کر تعلیم یافتہ طبقات تک ہر طبقے کی ذہن سازی میں اس تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔

دراوڑین سیاسی جماعتیں
سی وی انّا دورائی (1909-1969) پیریار کے نہایت معتمد رفیق کار اور ایک ممتاز دانش ور و رہ نما تھے۔ ‘عزت نفس کی تحریک’ ہی کے زمانےسے پیریار کے ساتھ تھے اور بعد میں ‘ڈی کے’ موومنٹ کے اہم قائد اور اس کے رسالوں کے مدیر بنے۔ پیریار کے مقابلے میں وہ زیادہ اعتدال پسند تھے۔ برہمنیت کے شدید ناقد تھے لیکن مذہب کی شدید مخالفت کو پسند نہیں کرتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کا استقبال کرتے تھے اور اسے پورے ملک کے لیے مفید سمجھتے تھے۔ اور سب سے بڑھ کر پیریار نے جس طرح انتخابی سیاست کو ترک کر دیا تھا، اُس کے خلاف تھے۔ ان امور پر اختلافات بڑھے تو انھوں نے پیریار کی جماعت سے علیحدگی اختیار کی اور 1949میں اپنی جماعت ‘ڈی ایم کے’ (Dravida Munnetra Kazhagan) قائم کی اور 1967 میں ریاست مدراس کے آخری چیف منسٹر منتخب ہوئے۔ پھر نئی ریاست تمل ناڈو بنی تو اس کے پہلے چیف منسٹر بنے۔

سی وی انا دورائی کے اچانک انتقال کے بعد 1969 میں ایم کروناندھی (1924-2018) ‘ڈی ایم کے’ کے سربراہ اور چیف منسٹر بنے۔چند ہی برسوں میں پارٹی کے ایک اور رہ نما ایم جی رام چندرن (1917-1987) کے ساتھ ان کے ذاتی اختلافات بڑھ گئے۔ رام چندرن جنھیں ‘ایم جی آر’ کہا جاتا ہے، ملیالی اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے مقبول فلم اداکار تھے۔ انھوں نے ‘ڈی ایم کے’ سے علیحدگی اختیار کرکے ایک نئی پارٹی ‘انا ڈی ایم کے’ بنائی (جس کانام بعد میں ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’، ہوگیا)۔ اس پارٹی میں جلد ہی اینگر برہمن خاندان سے تعلق رکھنے والی ایک مقبول فلم اداکارہ، جے جے للیتا (1948-2016)کو غلبہ حاصل ہوا جو ایم جی آر کے انتقال (1987) کے بعد پارٹی کی سربراہ بن گئیں۔اس وقت صورت حال یہ ہے کہ اصل سماجی تحریک (دراویڈر کزھگم یا ڈی کے) اب کافی کم زور ہوگئی ہے اور سیاسی منظر نامہ دونوں دراوڑین پارٹیوں (‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ اور ‘ڈی ایم کے’) کی باہمی رقابت اور چپقلش سے عبارت ہے۔ ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ اب بی جے پی کی غیر معلنہ حلیف سمجھی جاتی ہے۔

دراوڑین تحریک، اسلام اور مسلمان
دراوڑین تحریک میں مسلمانوں نے ہر مرحلے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پیریار نے جب کانگریس سے الگ ہوکر پہلے ‘عزت نفس کی تحریک’ پھر جسٹس پارٹی کے ذریعے اپنی سماجی اصلاح کی تحریک شروع کی تو مسلمانوں کا ایک اہم طبقہ ہر مرحلے میں ان کے ساتھ رہا۔ مساوات انسانی کے اسلامی تصور سے پیریار خود بے حد متاثر تھے۔ اگر چہ وہ خود کو ملحد کہتے تھے اور توہم پرستی کی مخالفت میں جہاں مسلمانوں میں رائج بعض غیر اسلامی اور نامعقول رسوم کے شدید ناقد تھے وہیں پردے جیسے اسلامی احکام پر بھی تنقید کرتے تھے۔ لیکن اس کے باوجود اسلام کے متعدد اصولوں کے زبردست مداح بھی تھے۔ انھوں نے متعدد جگہوں پر یہ بات کہی ہے کہ نابرابری کا مسئلہ صرف اسلام حل کرسکتا ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:

‘‘(گوتم) بدھ، عیسی ٰمسیح ؑ اور پیغمبر محمدؐ (اپنے زمانوں کے) عظیم سماجی مصلح تھے۔ (لیکن آج) اگر دنیا کو امن، اتحاد اور سکون کی ضرورت ہے تو (یہ ضروری ہے کہ) تمام مذاہب کا خاتمہ ہو۔ (اس کے باوجود) اگر کوئی مذہب ایسا ہے جس کے باقی رہنے سے دنیا میں امن و امان قائم ہوسکتا ہے تو میرے خیال میں وہ مذہب اسلام ہے۔’’[16]

انھوں نے یہ بھی لکھا ہے کہ اسلام دین فطرت ہے اور یہ کہ ان کا یقین ہے کہ دراوڑین آبادی کا مذہب، پہلے اسلام ہی تھا۔ بعد میں آریاؤں نے اپنے ظلم سے ان کا مذہب تبدیل کرایا اور محمد (ﷺ) کے ذریعے دراوڑین آبادی کا ایک حصہ (یعنی تمل مسلمان) اپنے اصل دین کی طرف لوٹ آیا ہے۔[17]

ان خیالات کا یہ اثر ہوا کہ مسلمانوں نے اس تحریک کا بڑھ چڑھ کر ساتھ دیا۔عزت نفس کی تحریک میں، جسٹس پارٹی کے زمانے میں، ڈی کے کی تحریک کے دوران، غرض اس تحریک کے ہر مرحلے میں مسلم عوام نے بھی اور خواص نے بھی تحریک کو سپورٹ کیا۔ جب انا دورائی نے ‘ڈی ایم کے’ کے تحت انتخاب لڑا تو انڈین یونین مسلم لیگ کے رہ نما قائد ملت محمد اسماعیل صاحب نے بھرپور تعاون کیا بلکہ بعض تجزیہ نگار یہ مانتے ہیں کہ قائد ملت کے تعاون کے بغیر انا دورائی کی حکومت کا قیام اس وقت ممکن نہیں تھا۔ بعد کے زمانوں میں بھی جو لوگ دراوڑین تحریک کے اساسی اصولوں سے زیادہ قریب رہے، عام طور پر انھی کو مسلمانوں کی تائید حاصل رہی۔ [18]

دراوڑین تحریک، کام یابیاں اور ناکامیاں
اس میں کوئی شک نہیں کہ دراوڑین تحریک نے سماج پر جو گہرے اثرات ڈالے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ تمل ناڈو کی تمام سیاسی جماعتیں سماج کے تمام طبقات پر یکساں توجہ دینے پر اور شمولیاتی ترقی کی پالیسیاں اختیار کرنے پر خود کو مجبور پاتی ہیں۔ اس حوالے سے یہ تحریک بہار کی ‘جے پی’ اور ‘لوہیا تحریک’، اتر پردیش کی ‘بہوجن تحریک’ اور ‘مہاراشٹر کی دلت تحریک’، ان سب سے کہیں زیادہ کام یاب ہے۔ آج تمل ناڈو میں ملک میں سب سے زیادہ یعنی 69 فیصد ریزرویشن ہے۔ وہاں کی اسمبلی میں مختلف ذاتوں اور طبقات کو تقریباً متناسب نمائندگی حاصل ہوتی ہے۔ (ملک میں کوئی بھی ریاست اس حوالے سے تمل ناڈو کے قریب بھی نہیں ہے)۔گذشتہ سال کے انتخابات کے بعد جو اسمبلی بنی ہے اس کے تجزیے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ چھوٹی سے چھوٹی ذات کو بھی اس کی آبادی کے لگ بھگ تناسب کے مطابق نمائندگی ملی ہے۔ 2001 سے اب تک ‘ڈی ایم کے’ سے جو 372 ایم ایل اے منتخب ہوئے ہیں ان میں 261مختلف شودر ذاتوں سے متعلق ہیں، 59دلت، 31نائیڈو (غیر تمل)، 14مسلمان اور صرف 7اعلیٰ ذاتوں سے متعلق ہیں۔ کم و بیش ایسا ہی تناسب ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ ارکان کا بھی ہے۔[19]

صرف سیاست نہیں، بلکہ تجارت، صنعت و حرفت، تعلیم، ہر میدان میں مختلف گروہوں نے ترقی کی ہے۔ بعض لوگوں کا یہ بھی خیال ہے کہ برہمنوں کے لیے تمل ناڈو کی زمین تنگ ہوتی گئی جس کے نتیجے میں وہاں سے بڑی تعداد میں برہمنوں نے دیگر ریاستوں اور بیرون ملک ہجرت شروع کردی۔[20]

بہترین پرفارمنس کے انڈیا ٹوڈے کے سروے میں تمل ناڈو مسلسل کئی برسوں سے پہلے نمبر پر ہے۔[21] ہیومن ڈیولپمنٹ انڈیکس کے اعتبار سے ملک کی بڑی ریاستوں میں سر فہرست کیرلہ (ایچ ڈی آئی، چین سے بھی زیادہ) ہے اور اس کے بعد تمل ناڈو (چین سے کچھ کم ایچ ڈی آئی) ہے۔[22] اقوام متحدہ کے پائیدار ترقیاتی اہداف (Sustainable Development Goals)کے سلسلے میں حکومت ہند کے نیتی آیوگ نے ریاستوں کی کارکردگی کے بارے میں جو رپورٹ شائع کی ہے اس کے مطابق پہلے ہدف یعنی غربت کے خاتمے میں تمل ناڈو کا نمبر پہلا ہے۔ اس معاملے میں اس کا اسکور (86) اتنا اچھا ہے کہ ہندی بیلٹ کی ریاستیں (اترپردیش، مدھیہ پردیش، بہار، جھارکھنڈ وغیرہ) اس کے نصف کو بھی نہیں پہنچ پائی ہیں۔ بھکمری کے خاتمے اور سب کے لیے معیاری تعلیم کے معاملے میں، بڑی ریاستوں میں، کیرلہ کے بعد دوسرے نمبر پر، سب کے لیے اچھے روزگار کے ہدف کے معاملے میں تلنگانہ کے بعد بڑی ریاستوں میں دوسرے نمبر پر اور عدم مساوات ختم کرنے کے معاملے میں آندھرا پردیش کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔[23]

یہ ہمہ جہت شمولیاتی ترقی محض حکومتوں کی پالیسیوں کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ اصلاً اُس سماجی بیداری کی دین ہے جو دراوڑین تحریکوں نے پورے سماج میں پیدا کی۔ اس بیداری کی وجہ سے حکومتوں کو بھی جانب داری سے اوپر اٹھ کر شمولیاتی پالیسیاں اختیار کرنی پڑتی ہیں اور بیوروکریسی، پولیس، عدلیہ، مقامی حکومتیں اور پنچایتیں، سماجی تنظیمیں، میڈیا ان سب کو اس کا علم بردار بننا پڑتا ہے۔

اگر دراوڑین تحریک اپنا ابتدائی جذبہ اور رخ برقرار رکھتی تو شاید پورے ملک میں جارح فرقہ پرست قوتوں کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی تھی۔ لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ جارح ہندتو تمل ناڈو میں بھی قوت حاصل کرتا جا رہا ہے۔ اس صورت حال کے اسباب ہمارے خیال میں ذیل کے مطابق ہیں:

انتخابی سیاست یا سماجی تبدیلی؟
گذشتہ صدی کی متعدد نظریاتی تحریکوں کے ساتھ دراوڑین تحریک کے زوال کا بھی ایک بڑا سبب انتخابی سیاست میں اس کی غیر متوازن شمولیت ہے۔ پیریار کا ذہن اس معاملے میں بہت صاف تھا۔ وہ اچھی طرح سمجھتے تھے کہ انتخابی سیاست کی مجبوریاں انھیں بہت سی مصالحتوں کے لیے مجبور کریں گی اور ٹھوس سماجی تبدیلی کے بغیر ایسی مصالحتیں تحریک کے لیے شدید نقصان کا باعث ہوں گی۔ وہ لکھتے ہیں:

‘‘میری طرح کا کوئی آدمی اگر سیاسی عہدے کا خواہش مند ہوجائے تو کیا میں وہ باتیں بول سکتا ہوں جو میں بولنا چاہتا ہوں؟ کیا سیاسی قوت حاصل کرنے کا خواہش مند کوئی شخص اس زبان اور لہجے میں بات کرسکتا ہے؟ میں لوگوں سے پوچھتا ہوں کہ کیا پتھر خدا ہوسکتا ہے؟ کیا خدا کھانا کھاتا ہے؟ کیا خدا کو بیوی کی ضرورت ہے؟ پھر یہ سب تماشے کیوں کیے جاتے ہیں؟ ان سے کس کو فائدہ ہوتا ہے؟ کیا ایسی بحثیں کرنے والا ووٹ حاصل کرسکتا ہے؟ اور(اگر یہ بحثیں نہ کی جائیں تو) کیا ہمارے سادہ لوح عوام کو باتیں سمجھ میں آسکتی ہیں؟ اس لیے دراوڑین موومنٹ کے لوگ اسمبلیوں میں جانے کی کوشش نہیں کرتے۔ وزارتیں نہیں تشکیل دیتے۔ (وہ لوگوں کے ذہنوں اور سماج کی سوچ کو بدلنے کی کوشش کرتے ہیں)’’[24]

پیریار کی یہی سوچ تھی جس کی وجہ سے 1939 میں گورنر کی جانب سے دعوت ملنے کے باوجود انھوں نے جسٹس پارٹی کی وزارت تشکیل دینے سے انکار کر دیا اور اس کے بعد تو ایک پرانی اور مستحکم سیاسی جماعت کو (جو تیرہ سال تک حکومت کرچکی تھی) ایک غیر انتخابی عوامی تحریک میں بدل دیا۔ یہ بہت بڑا انقلابی فیصلہ تھا۔ 27 اگست 1944کو سیلم میں منعقد پارٹی کانفرنس ملک کی سماجی تحریکات کے لیے ایک بہت بڑا سبق ہے۔ اس کانفرنس میں پیریار نے ہدایت دی کہ پارٹی کے ارکان برطانوی حکومت کے تمام عہدوں، خطابات اور اعزازات کو واپس کردیں۔ آئندہ کسی بھی سطح کے انتخاب میں حصہ نہ لیں اور اپنے ناموں سے ذات پات کی علامتیں ختم کر دیں۔ یہ وہ پارٹی تھی جو تیرہ سال تک حکومت کرچکی تھی۔ پیریار کے مخاطبین میں پارٹی کے وہ کارکن بھی تھے جو مختلف سطحوں پر حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہ چکے تھے اور بعض اب بھی فائز تھے۔ بہت سے نواب اور برطانوی سرکاروں کے اعزاز یافتہ لوگ تھے۔ ان سب نے پیریار کی ان ہدایات پر سر تسلیم خم کر دیا اور ایک عوامی سماجی تحریک کے لیے خود کو وقف کرنے کا اعلان کیا۔

بدقسمتی سے بعد میں لوگوں نے ان نزاکتوں کو محسوس نہیں کیا۔ صف اول کے لوگ سیاسی کشمکش کا حصہ بنتے چلے گئے۔ اس کے نتیجے میں اقتدار ضرور حاصل ہوا اور سماجی تبدیلی کے لیے اقتدار کا کچھ استعمال بھی ہوا لیکن سماجی بیداری کی جو لہر اس زمانے میں پیدا ہوئی تھی وہ کم زور ہوتی چلی گئی۔ سیاسی مفادات کی کشمکش نے پارٹی کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ‘ڈی ایم کے’ ایک خاندانی پارٹی بن کر رہ گئی جب کہ ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ کے اوپر بتدریج انھی قوتوں نے تسلط حاصل کرنا شروع کیا جن کی بالادستی کو ختم کرکے سماجی مساوات ختم کرنا اس تحریک کا اصل مقصد تھا۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ سماجی تبدیلی کے عمل کے لیے ایک مرحلے میں سیاسی قوت بھی ضروری ہوتی ہے۔ تمل ناڈو میں جو تبدیلیاں آئیں ان میں پیریار کی سماجی تحریک کے ساتھ، دراوڑین حکومتوں کی پالیسیوں کا بھی رول ہے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ نظریاتی تحریکوں کے لیے وہی ماڈل زیادہ معقول ہے جو آر ایس ایس نے اختیار کیا ہے۔ یعنی اصل تحریک، سماجی و نظریاتی محاذ پر پوری اصول پسندی کے ساتھ ڈٹی رہے اور سیاسی قوت حاصل کرنے کی کوشش ضروری ہو تو وہ علیحدہ سیاسی جماعت کے ذریعے ہو۔اس سے سماجی تحریک بھی باقی رہتی ہے اور سیاسی قوت کے فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ اگر تحریک کی صف اول سیاسی کشمکش کا حصہ بن جائے اور ایک ہی جماعت سیاسی عمل اور سماجی عمل دونوں کی علم بردار بن جائے تو بالآخر نظریاتی و سماجی کام پس پشت چلاجاتا ہے اور سیاست کی ہنگامہ خیزی اور فوری درپیش تقاضے، سماجی تبدیلی کے دھیمے طویل المیعاد کام کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔

سابقہ مضامین کے تجزیوں میں بھی ہم یہ بات لکھ چکے ہیں کہ نظریاتی اساس کا کم زور ہوجانا اور سیاسی مفادات کا نظریات پر غالب آجانا، اسی نے اکثر سماجی تحریکوں کو زوال کا شکار بنا دیا۔ کمیونسٹ تحریک، دلت تحریک اور لوہیا اور جے پی کی سماج وادی تحریک، سب کے زوال کا بنیادی سبب یہی ہے کہ پہلے نظریاتی تحریک ایک سیاسی جماعت میں بدل گئی اور سیاسی مفادات غالب آتے چلے گئے، پھر اکثر معاملات میں سیاسی جماعت بھی ایک خاندانی جماعت میں بدل گئی اور خاندانی جماعت کرپشن کا شکار ہوکر مکمل طور پر بے اثر ہوگئی۔ ان تجزیوں سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اگر نظریاتی تحریک سیاسی جماعت میں بدل جائے اور اس کے سرکردہ قائدین انتخابی عمل کا حصہ بن جائیں تو یہ خطرہ ہمیشہ باقی رہتا ہے۔

جدید ہندوستان کی تاریخ میں اس بات کو دو نظریاتی تحریکوں نے اچھی طرح محسوس کیا تھا۔ ایک تو خود ہندتو کی قیادت نے، جس نے اول روز سے نظریاتی تحریک کو انتخابی سیاست سے الگ رکھا اور انتخابی سیاست کے لیے موجود پارٹیوں میں نفوذ اور ان پر اثر اندازی کی حکمت عملی اختیار کی اور بعد میں ایک مرحلے میں اپنی علیحدہ سیاسی پارٹی قائم کی۔ دوسری تحریک، جس نے اس کو محسوس کیا تھا وہ پیریار اور ان کی دراوڑین تحریک ہے۔ پیریار زندگی بھر اس اصول پر سختی سے قائم رہے لیکن بعد میں ان کے جانشینوں نے اس کو فراموش کردیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ جدید ہندوستان کی تاریخ کی یہ انتہائی بااثر تحریک بھی زوال کا شکار ہوگئی۔

پیریار کی جماعت، دراویڈر کزھگم آج بھی موجود ہے۔ اس کی سربراہی پیریار ہی کے تربیت یافتہ ایک بزرگ ادیب کرشناسامی ویرامنی (پیدائش (1933کے ہاتھوں میں گذشتہ 44 برسوں سے ہے، لیکن تمل ناڈو کے سماجی منظر نامے میں اب اس تحریک کا کوئی اثر باقی نہیں رہا۔ ویرامنی کچھ اسکول چلاتے ہیں اور برسر اقتدار جماعتوں کے ساتھ اشتراک و تعاون سے بعض سماجی خدمات انجام دیتے رہتے ہیں۔[25]

سماجی مساوات کے ایجنڈے کی نظر اندازی
نظریاتی تحریکیں جب سماجی نظریاتی کاموں کو چھوڑ کر محض سیاسی عمل میں مصروف ہوجاتی ہیں تو ایک بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وہ محض اپنے سماجی اساس (social base)سے متعلق طبقوں کے مفادات کی نمائندہ بن کر رہ جاتی ہیں۔ ان طبقوں کے مفادات کے تقاضے کے طور پروہ اپنے اساسی اصولوں سے مصالحت کرنے لگتی ہیں، یہاں تک کہ وہ اصول پوری طرح نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ پچھلے باب میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ کمیونسٹ، سماج وادی اور دلت تحریکات اسی عبرت ناک انجام سے دوچار ہوچکی ہیں۔ یہی معاملہ دراوڑین جماعتوں کے ساتھ بھی پیش آیا۔

سماجی برابری، دلتوں اور پس ماندہ طبقات کو اونچا اٹھانا اور ذات پات کی تفریق پر مبنی برہمنی نظام کو ختم کرنا، دراوڑین تحریک کے اساسی اصول تھے۔ اس تحریک نے پہلے مرحلے میں درمیانی پس ماندہ طبقات کے اندر بیداری پیدا کی۔ لیکن بعد میں ان درمیانی پس ماندہ طبقات نے (جن کو او بی سی کے زمرے میں شامل کیا جاتا ہے) جب قوت حاصل کی اور دراوڑین جماعتوں میں بھی رسوخ حاصل کیا تو یہی طبقات دلتوں پر ظلم کرنے لگے۔

انتخابی سیاسی عمل کے آغاز کے کچھ برسوں بعد ہی یہ صور ت حال نمایاں ہونے لگی تھی۔ ستھیاوانی موتھو (1923-1999)ایک قدآور دلت رہ نما تھیں جو جسٹس پارٹی اور عزت نفس تحریک ہی کے زمانے سے دراوڑین موومنٹ کے ساتھ تھیں اور انا دورائی اور کروناندھی کی حکومتوں میں وزیر بھی رہ چکی تھیں۔ موتھو نے 1974میں حکومت اور ‘ڈی ایم کے’ سے یہ کہتے ہوئے استعفا دے دیا کہ پارٹی میں دلتوں کے حقوق کا کوئی احترام باقی نہیں رہا۔ انھوں نے ایک الگ جماعت ‘تزتھاپتور منیترا کزھگم’ (ٹی ایم کے) بنائی۔ [26] اس کے بعد بتدریج دراوڑین پارٹیوں کی یہی شناخت بننے لگی کہ وہ سماجی انصاف کی علم بردار پارٹیاں نہیں بلکہ مخصوص او بی سی اور ان کے مفادات کی نمائندگی کرنے والی پارٹیاں ہیں۔ یعنی وہی معاملہ جو شمالی ہند میں جے پی اور لوہیا کی سماج وادی تحریکوں کے ساتھ پیش آیا، جنوب میں دراوڑین پارٹیاں بھی اسی کی شکار ہوکر رہ گئیں۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ مختلف دراوڑین جماعتیں مختلف ذاتوں کی نمائندگی کرتی ہیں اور دراوڑین جماعتوں کی باہمی سیاسی کشمکش، یوپی اور بہار ہی کی طرح، ذات پات کی کشمکش بن چکی ہے۔ جب کہ دلت ان پارٹیوں سے الگ اپنی سیاسی و سماجی لڑائی خود لڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔[27]

قومی سیاست کا اثر و نفوذ
دراوڑین تحریک کی ابتدائی پالیسی یہ تھی کہ وہ قومی سیاسی جماعتوں سے اور ان کے اثرات سے خود کو محفوظ رکھ کر سماجی تبدیلی کے ایجنڈے پر مرکوز رہے گی۔ پیریار کا ابتدائی موقف تو ایک علیحدہ دراوڑ ناڈو کا تھا۔ آزادی کے بعد وہ ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ خود مختار دیکھنا چاہتے تھے اور مرکز کا رول کم سے کم چاہتے تھے۔ دراوڑین جماعتوں کا خیال تھا کہ مضبوط مرکز کے بہانے سے آریائی یا برہمنی تسلط کی کوشش ہوگی۔ ملک میں سب سےز یادہ دراوڑین پارٹیاں ہی وفاقیت کی حامی تھیں اور دستور ساز اسمبلی میں بھی زیادہ سے زیادہ وفاقی ڈھانچے کے لیے سب سے زیادہ انھی کا اصرار تھا۔ چناں چہ اسمبلی کے عام رجحان کے برخلاف این جی رنگا (1900-1995) اور کرشنا سوامی بھارتی (1904-1999) وغیرہ، مدراس کے ارکان ہی تھے جنھوں نے دستور ساز اسمبلی میں وفاقیت نیز ریاستوں کے لیے زیادہ سے زیادہ اختیارات کی وکالت کی۔ [28] پیریار نے کل ہند سطح کی سیاسی جماعتوں سے محتاط دوری بنائے رکھی۔ انھوں نے حسب ضرورت ریاست کی سطح پر کامراج کی کانگریس کے ساتھ ضرور تعاون کیا لیکن اس کا اصل سبب یہ تھا کہ کامراج خود پیریار کے فلسفے سے متاثر تھے اور سماجی برابری کے فلسفے کے حوالے سے کانگریس پر بھی انھوں نے اثرات پیدا کیے تھے۔ اس استثنا کے ساتھ انھوں نے عام طور پر مرکزی پارٹیوں کی ریاست میں ہمت افزائی نہیں کی۔ انھوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں سماجی برابری کے ایجنڈے پر کام کرنے کی کوشش ضرور کی (تفصیل آگے آرہی ہے) لیکن مرکزی حکومت کے معاملات یا مرکزی سیاست میں دل چسپی لینے کی کوشش بہت کم کی۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ وہ یہ سمجھتے تھے کہ مرکزی جماعتوں سے قربت بھی برہمنی تسلط کی راہوں کو ہم وار کرے گی۔

لیکن بعد میں دراوڑ ین تحریک کی تقسیم نے قومی سیاسی جماعتوں سے دراوڑین پارٹیوں کی قربت کے لیے راہیں ہم وار کیں۔ 1971 میں کروناندھی نے اندرا گاندھی کی کانگریس کے ساتھ باقاعدہ انتخابی مفاہمت کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ پہلی بار 1979میں چرن سنگھ کی حکومت میں ‘اے ڈی ایم کے’ کے ارکان مرکزی وزیر بنے۔ یہ کسی دراوڑین پارٹی کا مرکزی حکومت میں پہلا داخلہ تھا۔[29] یہی نہیں بلکہ دونوں دراوڑین پارٹیوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں مرکزی سرکار میں موجود اپنی حلیف جماعت کی مدد سے ریاست میں حریف جماعت کی حکومت کو گرانے کی مذموم کوششیں بھی کیں۔ چناں چہ کروناندھی پانچ بار چیف منسٹر بنے جن میں سے دو دفعہ ان کی حکومت کو مرکزی حکومت نے برخاست کردیا (1976 اور1991 میں)۔ اسی طرح ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ کی حکومتیں بھی دو بار (1980اور 1988 میں) گرائی گئیں۔ 1999 میں واجپئی کی مرکزی حکومت گرنے کا سبب بھی بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق یہی ہے کہ جے للیتا، کروناندھی کی ریاستی حکومت کو برخاست کرانا چاہتی تھیں لیکن واجپئی کے انکار پر انھوں نے مرکزی حکومت کی تائید واپس لے لی۔ [30]

بعد میں ایم جی آر اور پھر جے للیتا کے ذریعے قومی سیاسی جماعتوں نے دراوڑین سیاست میں اپنا رسوخ بڑھایا۔ ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ بتدریج مضبوط مرکز کی حامی جماعت کے طور پر ابھری۔ دراوڑین بیانیے کا زور تھوڑا کم زور ہوا تو اس سے حوصلہ پاکر ریاست میں دراوڑین اصولوں کے کچھ شدید مخالف بھی سامنے آگئے، جنھوں نے ایک طرف اپنے اخبارات و رسائل کے ذریعے دراوڑ اصولوں کے خلاف ذہن سازی شروع کردی اور دوسری طرف دراوڑین پارٹیوں پر اور خصوصاً ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ پر پہلے کانگریس کے پھر بی جے پی کے اثرات بڑھانے کے لیے کام شروع کیا۔ ان دراوڑین مخالف شخصیات میں تین برہمن دانش ور اہم ہیں۔ یعنی مشہور تمل ہفت روزہ ‘تغلق’ کے بانی ایڈیٹر چوراما سوامی (1934-2016)[31]، سنگھ کے دانش ور اور تغلق کے موجودہ ایڈیٹر سوامی ناتھن گرومورتی (پیدائش1949)[32] اور معروف لیکن انتہائی متنازعہ دانش ور، کالم نگار اور سیاست داں ڈاکٹر سبرامنیم سوامی (پیدائش 1939)۔ ان کے علاوہ ان لوگوں میں تمل سنیما کے ایک انتہائی مقبول ہیرو، مراٹھی مہاجر شیواجی راؤ گائیکواڑ بھی (جو رجنی کانت کے نام سے مشہور ہیں، پیدائش 1950) ایک اہم نام ہے۔[33] ان سب نے مختلف طریقوں سے اُس شدت و حساسیت کو کم کیا جو تمل عوام کے ذہنوں میں برہمنی بالادستی کے حوالے سے پائی جاتی تھی۔ مذہب اور ہندو رسوم و رواج کو قابل قبول بنایا اور ہندتو سیاست کے لیے راہوں کو ہم وارکیا۔

اس کے بعد بتدریج ‘اے آئی اے ڈی ایم کے’ کی حکومتوں نے خالص ہندتو ایجنڈے پر بھی کام شروع کردیا۔سرکاری سطح پر مندروں کی تعمیر و تزئین شروع ہوئی،تبدیلی مذہب کے خلاف قانون بنایا گیا اور مندروں میں جانوروں کی بلی پر پابندی لگائی گئی۔ [34]

کل ہند اثرات میں ناکامی
دراوڑین تحریک اگر اپنے ابتدائی انداز پر آگے بڑھتی تو اس کے امکانات موجود تھے کہ وہ تمل ناڈو سے نکل کر ملک کے دوسروں حصوں میں بھی پھیل جاتی اور سماجی انصاف کی ایک ملک گیر طاقت ور تحریک کا روپ اختیار کرتی۔ پیریار کی تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے منصوبوں میں اس تحریک کو باقی ملک میں بھی آگے بڑھانا تھا۔ انھوں نے دو دفعہ امبیڈکر سے ملاقات کے لیے بمبئی کا سفر کیا۔ پہلی بار 1940 میں اور دوسری بار امبیڈکر کے انتقال سے کچھ پہلے 1955میں۔ 1945میں کلکتہ کا سفر کیا اور ایک کانفرنس میں شرکت کی۔1959میں رام منوہر لوہیا سے ملاقات کی۔ 1960 اور 1967 میں شمالی ہند کے مختلف شہروں کے طویل سفر کیے اور1967کے سفر میں لکھنؤ میں پس ماندہ ذاتوں، ایس سی، ایس ٹی اور مسلمانوں کی ایک مشترکہ کانفرنس میں شرکت کی اور خطاب کیا۔[35] یہ بالکل فطری بات تھی کہ اس تحریک کا امبیڈکر، لوہیا، جے پرکاش نارائن وغیرہ کی تحریکوں سے تعلق قائم ہوتا اور جو بیداری تمل ناڈو میں پیدا ہوئی، اس کی ان سب کے باہم اشتراک سے باقی ملک میں بھی توسیع ہوتی۔اگر دراوڑین تحریک کا سماجی تبدیلی کے ایجنڈے کے سلسلے میں کمٹمنٹ باقی رہتا تو یہ باتیں عین ممکن تھیں۔ لیکن ایسا متعدد وجوہ سے نہیں ہوسکا۔

سب سے پہلی وجہ تو یہ تھی کہ اپنے مخصوص نظریاتی رخ کی وجہ سے انھوں نے اپنے آپ کو شعوری طور پر دانستہ تمل ناڈو تک محدود رکھا۔ وہ یہ سمجھتے تھے کہ تمل ناڈو کے باہر اور خاص طور پر شمالی ہند کے ہندی بیلٹ سے ان کا تعلق قائم ہوگا تو برہمنی تسلط سے وہ خود کو نہیں بچا پائیں گے۔ اس لیے تحریک کے دور شباب میں انھوں نے خود کو تمل ناڈو ہی تک محدود رکھا۔ بعد میں، جیسا کہ اوپر واضح کیا گیا، سیاسی اغراض کے لیے تو انھوں نے قومی پارٹیوں سے مصالحت بھی کی اور قومی سیاست میں کردار بھی ادا کیا لیکن اپنی سماجی تحریک کو ملک کے دیگر حصوں تک لے جانے میں کبھی دل چسپی نہیں لی۔ برہمنی تسلط کا زیادہ امکان سیاسی سطح پر تھا اور آئندہ یہ امکان حقیقت بھی بن گیا۔

دوسری وجہ زبان تھی۔ تمل زبان درواڑین تحریک کا سب سے طاقت ور آلہ کار تھی۔اس تحریک کے تمام قائدین تمل زبان کے نہایت قادر الکلام شاعر، ادیب اور مقرر تھے۔ پیریار خود ایک اچھے ادیب تھے۔ انا دورائی کو تو تمل زبان کا بادشاہ سمجھا جاتا ہے۔وہ جہاں جاتے اپنی سحر بیانی سے مجمع کو مسحور کرکے رکھتے۔ افسانہ، ڈرامہ، ناول، سیاسی انشایئے، سبھی اصناف میں ان کی دسیوں گراں قدر تصنیفات موجود ہیں۔[36] یہی معاملہ کروناندھی کا تھا۔ شاعری، خطوط نویسی، اسکرین پلے، ڈرامہ، ناول، سوانح، تاریخی ناول، مکالمے، فلموں کی اسکرپٹ، فلموں کے نغمےمتعدد اصناف میں ان کی تقریباً ڈیڑھ سو کتابیں موجود ہیں۔[37] تمل سنیما اور تھیٹر اس تحریک کی اہم ترین آواز بن گیا تھا۔ ان کے علاوہ بھی دسیوں نام گنائے جاسکتے ہیں جنھوں نے تمل زبان کی مخصوص اصناف کا نہایت موثر طریقے سے اپنی تحریک کے لیے استعمال کیا۔ تمل ناڈو کے باہر درواڑین تحریک کا یہ سب سے طاقت ور ذریعہ بالکل بے فیض ہوجاتا تھا۔ اس نے بھی اس تحریک کو باقی ملک کے لیے اجنبی بنائے رکھا۔

تیسری وجہ وہ نظریاتی زوال ہے جس کی طرف ہم نے اوپر اشارہ کیا ہے۔ ریاست کی سطح پر استحکام کا اپنا ابتدائی دور مکمل کرنے کے بعد بھی اگر اس کے اندر ایک سماجی و نظریاتی تحریک کی طاقت و قوت باقی ہوتی تو شاید اگلے مرحلے میں وہ ضرور باقی ملک کی طرف متوجہ ہوتی اور اس صورت میں زبان کا مسئلہ بھی حل کرتی۔ لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔

مستقبل کے امکانات
ان سب کے باوجود ہمارا خیال یہ ہے کہ جارح فرقہ پرستی کو روکنے کی طاقت آج بھی تمل سوسائٹی ہی میں ہے۔زوال کے باوجود آج بھی بطور ایک ہمہ گیر سماجی تحریک، سماجی برابری کی آواز سب سے زیادہ تمل ناڈو ہی میں باقی ہے۔ مہاراشٹر، اترپردیش، بہار، بنگال ان سب جگہوں پر تو سماجی برابری کے نام پر صرف مفاد پرست سیاسی ٹولے باقی رہ گئے ہیں۔ تمل ناڈو میں آج بھی ادب، فنون لطیفہ، فلم، تھیٹر اور عوامی جہد کاری کے محاذوں پر کچھ نہ کچھ حرکت مسلسل جاری ہے۔[38]

حال ہی میں ‘17مئی تحریک ’نے پوری ریاست میں ہل چل پیدا کی ہے۔17مئی 2009 کا دن سری لنکا میں تمل ٹائیگرز کی شکست کا دن ہے۔ اس سے قبل کے چند مہینوں میں بڑے پیمانے پر عام تمل شہری قتل ہوئے تھے۔ ان کی یاد میں تمل ناڈو کے تمل گروپوں نے تمل عوام کے حقوق اور ان کی عزت نفس کا عالمی دن منانے کا اہتمام شروع کیا ہے۔ (اس سال کینیڈا کی پارلیمنٹ نے اس دن کو ‘تمل قتل عام کا دن’ [Tamil Genocide Rememberance Day] قرار دیا ہے)۔[39] تمل ناڈو میں یہ دن ہمارے ملک کی فرقہ پرست قوتوں کے خلاف بھی شدید مزاحمت کی علامت بن کر ابھرا ہے۔[40] حال ہی میں بی جے پی ترجمان کی جانب سے نبی کریم ﷺ کی گستاخی کے واقعے پر بھی اس وفاق نے وسیع احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔[41] پیریار کے حامیوں کا وفاق (Periyariya Unarvalargal Kootamaippu) کے نام سے 140 چھوٹی بڑی سماجی تنظیموں کا ایک بڑا وفاق تشکیل دیا گیا جو ملک میں برابری اور عدل کی خاطر ایک ہمہ گیر عوامی جدوجہد کی خاطر کام کر رہا ہے۔ سیاہ قمیص (سیاہ فام دراوڑین نسل کی علامت)، دراوڑین تحریک کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ 2018 میں ترچی میں سیاہ قمیص ریلی (Karunjattai Perani) منعقد ہوئی تھی[42] جس میں لاکھوں لوگ سیاہ شرٹ پہن کر شریک تھے۔ اس کے بعد 2020 میں اسی وفاق نے کوئمبتور میں نیلی قمیص ریلی (Neelachattai Perani – امبیڈکر اور دلت کی علامت) منعقد کی تھی۔[43] اس سال مدورائی میں سرخ قمیص ریلی (Senchattai Perani – کمیونسٹوں کی علامت) منعقد کی گئی۔[44] دراوڑین، دلت اور کمیونسٹ تحریکوں کے اس اتحاد کو بھی مبصرین تمل سوسائٹی میں ایک بڑی بیداری کی علامت کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔[45] یہ مستقبل ہی بتائے گا کہ یہ تحریک سماج میں کس قسم کی اور کس پیمانے کی تبدیلی کا ذریعہ بنتی ہے۔

حواشی و حوالہ جات
1. Dr.C.Manoranjothamoni (2018) History of Tamil Nadu Upto 1565 AD; Dave-Beryl; Tirunelveli. pages 254-259

2. Kolappa PK Pillay (1977) The Caste System in Tamil Nadu; University of Madras (Original from University from California); pages 18-20

3. K. Lakshmi (2011) Priests under Pallavas in S. Ganeshram and C. Bhavani Ed. (2011)History of People and Their Environs. Indian Universities Press; Chennai. Pages 85-108

4. K. Nambi Arooran (1980);Tamil renaissance and Dravidian nationalism, 1905–1944; Koodal Publishers; Madurai. p. 37

5. مینی فیسٹو کا مکمل ڈرافٹ ملاحظہ فرمائیں:

https://www.periyarbooks.in/blog/the-non-brahmin-manifesto-english/

6. دیکھیے فری میسن کی ویب سائٹ پر اینی بیسنٹ کا سوانحی نوٹ:

https://www.universalfreemasonry.org/en/famous-freemasons/annie-besant

7. اس روحانی تحریک کی تفصیل کے لیے سوسائٹی کی ویب سائٹ:

https://www.ts-adyar.org/

8. Savita Nigam (2011) Dr. Annie Besant: First Woman President of Congress. India: Universal Voice; Delhi.

9. K.Nambi Arooran (1980) Tamil Renaissance and Dravidian Nationalism, 1905-1944; Koodal Publishers; Madurai. Pages 46-47

10. Dahl (1977) E. V. Ramaswami Naicker-Periyar : a study of the influence of a personality in contemporary South India. University of Michigan.

11. https://indianexpress.com/article/explained/a-man-an-ideology-the-importance-of-ev-ramasamy-periyar-statue-vandalised-5090002/

12. Bala Jeyaraman(2013)Periyar: A Political Biography; Rupa; New Delhi pages 86-90

13. Debi Chatterje e (2004) Up Against Caste: Comparative study of Ambedkar and Periyar. Rawat Publications: Chennai. Page 40-42

14. Venkatacalapati (2006) In Those Days There was No Coffee: Writings in Cultural History. India: Yoda Press. New Delhi. Pages 89-183

15. ملاحظہ ہو ایک دل چسپ کتاب:

Preminda Jacob (2009) Celluloid deities : the visual culture of cinema and politics in South India. ; Lexington Books; Lanham USA.

16. Kudiya Rasu 23-08-1931 as quoted in https://en.wikiquote.org/wiki/Periyar_E._V._Ramasamy

17. Viduthalai 15-07-1947 as quoted in J. B. Prashant More (2004). Muslim Identity, Print Culture, and the Dravidian Factor in Tamil Nadu; Orient Longman; New Delhi page 164.

18. پیریار، دراوڑین تحریک اور مسلمانوں کے درمیان رشتوں کو سمجھنے کے لیے درج ذیل مقالہ مفید ہوگا:

S. Anwar (2018) Muslims and the Dravidian Movement in Seminar (magazine) August 2018.

19. https://scroll.in/article/994446/tamil-nadus-new-assembly-in-33-charts-lowest-women-representation-in-25-years-obcs-dominate

20. https://timesofindia.indiatimes.com/city/chennai/the-angst-of-the-tamil-brahmin-live-and-let-live/articleshow/45408151.cms

21. https://www.indiatoday.in/magazine/state-of-the-states/story/20211206-best-performing-big-state-overall-tamil-nadu-1880826-2021-11-27

22. ملاحظہ ہو یواین ڈی پی کے اعداد و شمار:

https://globaldatalab.org/shdi/shdi/IND/?interpolation=0&extrapolation=0&nearest_real=0

23. Niti Ayog (2021) SDG India Index and Dashboard 2020-21; Niti Ayog New Delhi pages 63-148

24. Viduthalai 23 June 1949 as quoted in, A.R. Venkatachalapthi (2018) DK and DMK The Double Barrelled Gun in Seminar August 2018.

25. ڈی کے کی موجودہ صورت حال کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو ویرامنی کا انٹرویو:

https://countercurrents.org/2021/07/in-conversation-with-k-veeramani/

26. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو:

Sathyavani Muthu: The Dalit Politician Who Stood Up To Karunanidhi | #IndianWomenInHistory

27. تمل ناڈو میں دلتوں کی صورت حال اور دلت سیاست کی تاریخ پر ایک بڑا چشم کشا تجزیہ، ملاحظہ ہو کتاب:

S. Visvanathan (2005) Dalits in Dravidian Land, Navayana Publishing; Pondicherry.

28. Constituent Assembly Debates; Vol VII, (Tuesday 9th November 1948): Lok Sabha Sec; New Delhi.

29. Peu Ghosh (2020) INDIAN GOVERNMENT AND POLITICS, Third Edition. N.p.: PHI Learning Pvt. Ltd, Delhi page 347.

30. https://www.newindianexpress.com/states/tamil-nadu/2019/mar/12/aiadmk-ditches-bjp-in-1999-dmk-makes-ties-1949968.html

31. https://www.indiatoday.in/fyi/story/cho-ramaswamy-dead-jayalalithaa-narendra-modi-thuglak-356154-2016-12-07

32. https://thewire.in/economy/gurumurthy-demonetisation-modi-swamy

33. https://scroll.in/article/952429/why-many-believe-rajinikanth-has-become-the-bjps-loudspeaker-in-tamil-nadu

34. https://theprint.in/pageturner/excerpt/how-tamil-nadus-hindutva-forces-are-using-the-dravidian-movement-to-get-dalits-on-their-side/367219/

35. K.Veeramani (1990)Collected Works of Periyar EVR; The Periyar Self Respect Propaganda Institute; Chennai Page 23

36. https://tamilnation.org/hundredtamils/annadurai.htm

37. https://www.newindianexpress.com/entertainment/tamil/2018/aug/08/karunanidhi-from-rajakumari-to-ponnar-shankar-a-script-writer-par-excellence-1854960.html

38. https://www.deccanchronicle.com/nation/in-other-news/080517/tamil-nadu-journals-that-took-forward-the-dravidian-movements-legacy.html

39. https://www.thestar.com/politics/2022/05/18/parliament-creates-day-to-remember-tamil-genocide-in-sri-lanka.html

40. اس تحریک کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تمل ویب سائٹ (گوگل کی مدد سے انگریزی میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے):

https://may17iyakkam.com/

41. https://may17iyakkam-com.translate.goog/?_x_tr_sl=en&_x_tr_tl=ar&_x_tr_hl=en-US&_x_tr_pto=op,wapp

42. https://timesofindia.indiatimes.com/city/trichy/outfits-following-periyar-ideology-take-part-in-karunjattai-perani/articleshow/67222068.cms

43. https://caravanmagazine.in/politics/massive-rallies-unite-periyarists-and-ambedkarites-against-the-bjp-in-tamil-nadu

44. https://www.newindianexpress.com/states/tamil-nadu/2022/may/30/red-shirtconference-want-royalty-for-tamil-nadus-mineral-resources-2459596.html

45. https://thewire.in/rights/madurai-red-shirt-rally-bjp-hindutva-tamil-nadu

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: