مشکل اور پرخطر حالات طرح طرح کے نظریاتِ سازش (conspiracy theories) کے لیے زرخیز زمین فراہم کرتے ہیں۔اس وقت اسلامی دنیا میں جس تیزی سے فتنوں اور آزمائشوں کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے، اہل اسلام کے درمیان ایسے نظریات کی مقبولیت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ بلکہ بعض صورتوں میں وہ کیفیت بھی نظر آرہی ہے جسے ماہرین سماجیات سازشیت (conspiracism) کہتے ہیں، یعنی یہ شعوری یا غیر شعوری عقیدہ کہ تاریخ کو بنانے اور بگاڑنے میں کلیدی کردار چند طاقت ور لوگوں کی خفیہ سازش کا ہوتا ہے۔
سازش انسانی زندگی اور سماج کی ایک ناقابل تردید حقیقت ہے۔ روز مرہ کی عام زندگی سے لے کر عالمی سطح کے اہم معاملات تک، ہر سطح پر یقینا ً سازشیں ہوتی ہیں۔ شیطان بنیادی طور پر ایک سازشی کردار ہے۔ (قَالَ فَبِعِزَّتِكَ لَأُغْوِيَنَّهُمْ أَجْمَعِينَ: شیطان نے کہا: تیری عزت کی قسم، میں اِن سب لوگو ں کو بہکا کر رہوں گا۔ سورہ ص۔۸۲) چنانچہ ہر زمانے میں شیطان کے پیروکار سازش کرتے رہے ہیں۔ مکر وفریب اور سازش بعض لوگوں کے مزاج کا حصہ ہوتی ہے اسی طرح بعض اجتماعی گروہ بھی سازشی سوچ اور طبعیت کی بنیاد پر اس طرح تشکیل پاتے ہیں کہ یہ ان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے۔ چنانچہ وہ آئے دن سازش کرتے رہتے ہیں۔ بعض سازشیں کامیاب بھی ہوتی ہیں اور بعض ناکام بھی۔ فسادی قوتوں کی سازشوں سے باخبر رہنا اور اُن کو ناکام بنانے کی حکمت عملی تیار کرنا دنیا میں خیر وصلاح کے فروغ کی اہم ضرورت اور تقاضا ہے۔ اس حد تک سازشوں کو زیر بحث لانا، اُن کا تجزیہ کرنا اور اُن کے مقابلہ کی تدابیر ڈھونڈنا، ایک اہم ضرورت ہے اور دنیا بھر کے سنجیدہ دانش وروں اور تجزیہ نگاروں کی تحریروں میں سازشوں کے بارے میں متوازن بحث ملتی ہے۔
لیکن جس انتہا پسندانہ سوچ اور زاویہ فکر کو سازشیت (conspiracism) کہا جاتا ہے، وہ ان سنجیدہ مباحث سے مختلف ہے۔ اس زاویہ فکر کے حاملین، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعے کو سازش کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ اُن کی سوچ کے مطابق تاریخ کا اصل فیصلہ کن ایجنٹ ایک نظر نہ آنے والا مکار سازشی گروپ ہوتا ہے۔(1) اس سوچ کے شکار لوگ، کسی بھی واقعے یا حادثے کو، اُس کی ظاہری صورت میں قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ چنانچہ زلزلہ، طوفان، سونامی، وائرس کی وبا، ٹڈی دلوں کا حملہ جیسی اجتماعی آفتیں ہوں یا کینسر، ایڈس، سڑک حادثات جیسی انفرادی مصیبتیں، ہر چیز کو وہ سازش کا نتیجہ سمجھتے ہیں اور سازش بھی ایک ہی نہایت طاقت ور گروہ کی جو ساری دنیا کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے۔ دنیا میں بھلائی کے جو کام ہوتے ہیں اُن کے ڈانڈے بھی وہ اسی عالمی سازش سے ملاتے ہیں۔ چنانچہ ماحولیات کے تحفظ کی کوشش ہو یا بعض بیماریوں کی روک تھام کی مہم، ہر چیز کو وہ اسی عالمی سازش کا نتیجہ سمجھتے ہیں۔ دنیا میں خیر اور بھلائی کا کوئی وجود اور کوئی امکان وہ نہیں دیکھ پاتے۔ ہر با اختیار فرد اور ادارہ، اُن کے نزدیک یا تو مجسم شر ہوتا ہے یا شر کا ایجنٹ و آلہ کار۔
نظریات سازش صرف مسلمانوں یا تیسری دنیا میں رائج نہیں ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی ان کا چلن ہے بلکہ اکثر نظریات وہیں سے درآمد ہوتے ہیں۔ الیومیناٹی اور فری میسن وغیرہ سے متعلق اکثر مافوق الفطری تصورات، مغربی ممالک ہی سے در آمد ہوئے ہیں۔ (2) اسلامی روایات سے ہٹ کر مسیح دجال اور آخر زمان سے متعلق، جو تصورات اور پیشین گوئیاں وقتاً فوقتاً ہمارے حلقوں میں گردش کرتی ہیں، اُن کا سرچشمہ بھی دقیانوسی عیسائیت کے اینٹی کرائسٹ (Antichrist) اور اینڈ ٹائم (Endtime) کے تصورات ہیں۔ امریکہ ویورپ میں آج بھی بہت سے لوگ زمین کو مسطح مانتے ہیں، چاند پر انسان کے قدم رکھنے کے واقعہ کو فریب سمجھتے ہیں، موسمی تبدیلی اور ماحولیاتی بحران کو جھوٹ اور مفادات حاصلہ کی گھڑی ہوئی سازش تسلیم کرتے ہیں، ٹیکوں (vaccination) کو نقصان دہ اور کسی بھیانک سازش کا حصہ باور کرتے ہیں۔ ہٹلر کے عروج کے زمانے میں یہ تصور عام تھا کہ وہ مسیح دجال ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ عیسوی سن ۶۱۴سے ۹۱۱ کے درمیان کا عرصہ (رسول اللہ ﷺ کی نبوت کے بعد سے یورپ کی اسلامی فتوحات تک کا تقریباً تین سو سال کا عرصہ) سرے سے وقوع پذیر ہی نہیں ہوا اور ان سالوں کے دوران کی ساری تاریخ جعلی ہے۔(3) جس طرح بعض مسلمان ہر مسئلہ کے لیے یہودیوں کو ذمہ دار سمجھتے ہیں اسی طرح مغربی ملکوں میں، ایسے بے شمار لوگ ہیں جو اس بات پر یقین رکھتے ہیں (اس نظریہ کو یوریبیا [Eurabia] کہا جاتا ہے) کہ مسلمان نہایت مکار، ذہین اور بااثر قوم ہیں اور دنیا کے تمام احوال پر اس حد تک اثر انداز ہورہے ہیں کہ بہت جلد پورے یورپ پر قابض ہونے والے ہیں اور اس سازش میں یورپ و امریکہ کے انتہائی بااثر حکمراں، دولت مند سرمایہ دار اور اہل علم وفن، مسلمانوں کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔(4) یا یہ کہ بارک اوباما اصلاً مسلمان ہیں جنہیں مسلمانوں نے امریکہ پر قبضہ کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقہ سے امریکی نظام میں داخل کرایا ہے، یا وہ مسیح دجال ہیں۔ اب یہ تصور بھی عام ہونے لگا ہے کہ دجال دراصل اسلام اور کمیونزم کے اشتراک سے پیدا ہونے والی عالمی تحریک کا نام ہے۔(5) وغیرہ۔
ان مثالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سازشی نظریات ہر قوم میں مقبول ہیں۔ فرق یہ ہے کہ ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ معاشروں میں ان نظریات کو حاشیائی (fringe) اور مجنونانہ (paranoid) افکار مانا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں مین اسٹریم کے سمجھ دار لوگ بھی ان سے متاثر ہونے لگتے ہیں۔
سازشی نظریات کی تین قسمیں
ثبوت وصحت کے امکان کے اعتبار سے سازشی نظریات کی تین ممکنہ قسمیں ہوسکتی ہیں۔ ایک تو وہ نظریات ہیں جو ٹھوس دلائل وشواہد کے ساتھ ثابت شدہ ہیں۔ مثلاً یہ بات کہ عراق جنگ کا مقصد عام تباہی کے ہتھیاروں کا اتلاف نہیں بلکہ تیل کے ذخائر پر کنٹرول تھا، اب ناقابل تردید شواہد (مثلاً چلکوٹ رپورٹ[6]) کے ساتھ سامنے آچکی ہے۔ مختلف فسادات کی معتبر تحقیقاتی رپورٹیں موجود ہیں جو فسادات کی سازشوں کو بے نقاب کرتی ہیں۔ یہ بات کہ مسلمانوں میں ماڈریٹ اسلام کے نام سے گمراہی اور قرآن و سنت سے دوری پیدا کرنے کی منصوبہ بند کوشش ہورہی ہے، متعدد دستاویزی شہادتوں کے ساتھ ثابت شدہ ہے۔ سرمایہ دارانہ استعماری قوتوں کے سازشی تجارتی ومعاشی ہتھکنڈے، ذرائع ابلاغ کی جانب سے جھوٹ پھیلانے اور اباحیت وصارفیت زدہ تہذیب کے فروغ کی کوششیں وغیرہ بھی وہ سازشیں ہیں، جن کا سازش ہونا ٹھوس علمی طریقوں سے معلوم ہے۔ مشکل یہ ہے کہ عام طور پر ایسی ناقابل تردید شہادتیں، واقعہ کے کافی عرصہ بعد حاصل ہوپاتی ہیں لیکن ان شہادتوں اور اُن کی تفصیلات کو سامنے رکھ کر آئندہ پیش آنے والے واقعات کا تجزیہ کیا جاسکتا ہے۔
دوسری قسم، اُن واقعات کی ہے جن میں سازش کا عنصر ثابت شدہ تو نہیں ہوتا لیکن اس کے سلسلے میں مضبوط شواہد موجود ہوتےہیں، واقعات کی ظاہری شکل اور ان کی سرکاری توجیہ کی بنیادیں بہت کمزور ہوتی ہیں اور سرکاری موقف پر بہت سے سوالات کھڑے ہوتے ہیں۔ مثلا گیارہ ستمبر کے واقعات کے سلسلہ میں امریکی حکومت کے موقف پر بہت سے سوالات لوگوں نے کھڑے کیے ہیں۔ ہمارے ملک میں دہشت گردی کے اکثر واقعات کے سلسلہ میں، سرکاری بیانیوں پر ذمہ دار اہل علم اور اعلٰی عہدے داروں نے شکوک کا اظہار کیا ہے۔ ان واقعات کی توجیہ کے لیے جو متبادل نظریات پیش کیے جاتے ہیں گو کہ وہ بھی ثابت شدہ نہیں ہیں لیکن سرکاری بیانیہ بھی مشکوک ہے۔ اس لیے سازش کا اچھا خاصا امکان موجود ہے۔ ایسے واقعات کے سلسلہ میں سوالات اٹھائے جانے چاہیے۔ متبادل بیانیوں کا تجزیہ ہوتے رہنا چاہیے اور حقیقت کی تلاش جاری رہنی چاہیے۔
ان دوقسموں کو ہم معقول نظریات کہیں گے۔ ان معقول نظریات کی خصوصیت یہ ہے کہ اس طرح کی سازشوں کی مثالیں تاریخ کے ہر دور میں ملتی ہیں۔ جنگ اور فساد وغیرہ، انسانی عمل کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں، مفادات کی خاطر جنگیں لڑی گئیں اور ان کے لیے حقیقی اسباب سے ہٹ کر، مصنوعی اسباب کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ اس لیے آج بھی ان کا بھر پور امکان ہے۔ ان سازشوں کا اثر محدود ہوتا ہے۔ محدود تعداد میں افراد متاثر ہوتے ہیں یا محدود علاقہ تک یا محدود وقت کے لیے اُن کا اثر ہوتا ہے۔ ایسی سازشوں کو بروئے کار لانے کے لیے مافوق البشر قوتوں کی یا عالمی سطح کے اتفاق رائے کی ضرورت پیش نہیں آتی بلکہ یہ عام قوانین فطرت کے مطابق روبہ عمل لائی جاتی ہیں۔ ان کو بے نقاب کرنا اور ان کا مقابلہ کرنا ممکن ہوتا ہے۔ ایسی سازشوں سے یقینا ً خود بھی باخبر رہنا چاہیے اور لوگوں میں بھی بیداری لانا چاہیے اور فیصلہ واقدام کرتے ہوئے اُن کو اور ان سے حاصل شدہ اسباق کو پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اس وقت یہ معقول نظریات زیر بحث نہیں ہیں۔ بلکہ تیسری قسم زیر بحث ہے، جسے ہم نامعقول نظریات (irrational theories) کہیں گے۔ یہ وہ نظریات ہیں جو بغیر کسی ٹھوس علمی وعقلی بنیاد کے، محض اٹکل پر مبنی ہوتے ہیں اور سماجی رابطہ کے ایپ اورسوشل میڈیا کے ذریعہ، غیر معروف ویب سائٹوں کے ذریعہ یا سنسنی پسند صحافت اور ٹیبلائڈ کے ذریعے عام ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں مین اسٹریم صحافت بھی ان کی ترویج کا ذریعہ بنتی رہتی ہے، نیز جذباتی خطیبوں اور ناپختہ مصنفین کے ذریعہ بھی یہ عوام میں مقبول ہوتے ہیں۔
نامعقول سازشی نظریات کے نقصانات
نامعقول سازشی نظریات کے کئی سماجیاتی، نفسیاتی اور عملی نقصانات ہیں۔ سب سے بڑا عملی نقصان یہ ہے کہ تجزیہ کی یہ غلطی ہماری اسٹریٹیجی اور عملی اقدامات کا رخ بگاڑ دیتی ہے۔ ہم پر اثر انداز ہونے والے واقعات بہت سے پیچیدہ اندرونی وبیرونی اسباب کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ متعدد دشمنوں کی ظاہری و پوشیدہ کوششیں ہوتی ہیں، ایسے اتفاقی واقعات وعوامل ہوتے ہیں جن پر کسی کا کنٹرول نہیں ہوتا، خود ہماری کمزوریاں، غلط فیصلے واقدامات، بے عملیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں۔ ان سب عوامل کے پیچیدہ باہمی تعامل کے نتیجہ میں کوئی خراب اور نقصان دہ صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ اس صورت حال کا معقول ردّعمل اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب ان سارے عوامل پر ہماری نظر ہو، ان کو ان کے صحیح تناسب اور تناظر میں دیکھا جائے، اُن کا دقیق تجزیہ ہو اور ان سب عوامل کو سامنے رکھ کر کسی حل کو ڈیزائن کیا جائے۔(7) لیکن سازشیت سے متاثر سہل انگار مزاج، اس دقیق عمل کا متحمل نہیں ہوتا۔ ہر خرابی اور ہر مشکل ان کے نزدیک اُسی واحد، مفروضہ سازشی قوت کی پیدا کردہ ہوتی ہے۔ بس ہلکی پھلکی ذہنی ورزش سے، واقعہ کی ظاہری شکل کو مشکوک بنادینا اور واقعہ کو اُس سازشی قوت سے جوڑ دینا کافی ہوتا ہے۔ چنانچہ یہ ذہن ومزاج درست تجزیوں کی راہ میں بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے اور کبھی کسی ٹھوس اسٹریٹیجی یا عملی پروگرام تک پہنچنے نہیں دیتا۔
یہ ایک راہ فرار ہے۔ سنجیدہ، باعمل اور حوصلہ مند لوگ کبھی اس طرح کے فریب کا شکار نہیں ہوسکتے۔ جن لوگوں نے سازشیت کے نفسیاتی پہلووں پر کام کیا ہے(8) وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ عام طور پر ناکام لوگوں کی ذہنی ساخت اور شکست خوردگی کا نتیجہ ہوتی ہے۔(9) آدمی یا قومیں پے در پے ناکامیوں کے اثر سے جب بری طرح مجروح ہوجاتی ہیں اور عمل اور جدوجہد کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی تو وہ نامعقول سازشی نظریات میں پناہ لینے لگتی ہیں۔
چونکہ یہ نظریات اور ان کی بنیاد پر کیے جانے والے تجزیے کوئی عملی پروگرام تجویز نہیں کرتے اور نہ کسی عملی پروگرام پر منتج ہوپاتے ہیں، اس لیے یہ بے عملی اور تعطّل کو فروغ دیتے ہیں۔ ان میں یقین رکھنے والوں کے پاس، سوائے ان نظریات کی تکرار وتبلیغ کے، اور کوئی ٹھوس کام نہیں رہ جاتا۔ وہ ہر واقعہ میں سازش کا پہلو ڈھونڈنے اور اسے پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ سازشی عناصر کے ہمہ گیر استبداد کا تصور، ہر طرح کی عملی کاوش اور جدوجہد کو بے نتیجہ باور کراتا ہے اور منصوبہ بندی و حکمت عملی، سعی و کاوش اور مقابلہ و جدوجہد کا کوئی داعیہ باقی رہنے نہیں دیتا۔
یہ نظریات شدید قسم کی مایوسی کا نتیجہ ہوتے ہیں اور مایوسی وقنوطیت کو اور فروغ دیتے ہیں۔ جب آدمی یہ محسوس کرے کہ اس کے معاملات مکمل طور پر ایک ایسے اَن دیکھے دشمن کے کنٹرول میں ہیں جو دنیا کے تمام امور پر کنٹرول رکھتا ہے، تو وہ کس لیے جدوجہد کرے گا؟ عام طور پر یہ واقعات وحوادث ہی ہوتے ہیں جو تحقیق وتفتیش، اختراع و اپج اور جہد وسرگرمی کے لیے مضبوط محرک فراہم کرتے ہیں۔ لیکن اگر کسی کے ذہن پر سازشی نظریات چھائے ہوئے ہوں تو وہ کیوں مسئلہ کے (حقیقی) ظاہری اسباب کے پیچھے پڑے گا؟ وہ اسے ایک سازش سمجھے گا اور سازشیوں کو کوسنے کے سوا کوئی اور کام اس کے پاس نہیں بچے گا۔
سازشیت، سماجی تعلقات پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ پراسراریت کا یہ لازمی تقاضا ہوتا ہے کہ آدمی اپنے ہم مشربوں کے نہایت قریبی اور محدود ترین حلقہ کے سوا، باقی ساری دنیا کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتا ہے۔ کسی بھی واقعہ وحادثہ کے ان اسباب کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتا جن پر لوگ بھروسہ کرتے ہیں۔ دیگر انسانوں کے ساتھ اس کی کوئی قدر مشترک تشکیل ہی نہیں ہوپاتی اس لیے کسی کے ساتھ بھی تعاون و اشتراک، یا مل کر کام کرنا یا معاملہ کرنا اس کے لیے دشوار ہوجاتا ہے۔ جن باتوں پر انسانوں میں عام طور پر اتفاق رائے ہوتا ہے ان میں بھی اس کا زاویہ نظر بالکل مختلف ہوتا ہے۔
اس طرح کی سوچ عام طور پر قوموں میں اس وقت پنپنے لگتی ہے جب وہ زوال کی انتہا کو پہنچتی ہیں۔(10) بے بسی اور لاچاری جب عروج کو پہنچتی ہے تو قومیں ہر ایک کو اور ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتی ہیں۔ خود مسلمانوں کی، تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، کہ زوال کے ہر مرحلے میں اس طرح کے سازشی نظریات کو خوب فروغ ملا اور ان کے خوب چرچے ہوئے۔
سازشی نظریہ، درست یا غیر درست؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کن نظریات کو معقول مانا جائے اور کن کو نامعقول؟ اس کے لیے جب ہم قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں تو بڑی واضح روشنی ملتی ہے۔ ہم پہلے اس سلسلہ میں اس موضوع پر قرآن مجید کے مطالعہ کا حاصل پیش کریں گے اور پھر ایسے نظریات کی تنقیح کے جدید علمی طریقوں کا بھی تعارف کرائیں گے۔
سازشی نظریات اور اسلامی عقائد
قرآن مجید، اپنے ماننے والوں کے ذہنوں کی تربیت اس طرح کرتا ہے کہ ایک بندہ مومن کسی غیر عقلی رویہ کا روادار نہیں ہوسکتا۔ توہم پرستی اور اندھی روایت پرستی، قرآن کے نزدیک مشرکانہ ذہن کی پیداوار ہے۔ اسی طرح پر اسراریت، اعجوبہ پرستی، نامعقول تشکیک اور بے بنیاد وہم وگمان بھی کمزور ایمان کے پھل ہیں۔ کھلی ہوئی حقیقتوں کو نظر انداز کر کے سربستہ اسرار کے پیچھے پڑنے کے اعجوبہ پرست مزاج کی قرآن سختی سے مذمت کرتا ہے۔ وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ إِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ أُولَـٰئِكَ كَانَ عَنْهُ مَسْئُولًا (کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے۔الاسراء ۳۶)۔ قرآن جو مزاج پروان چڑھاتا ہے اس کے نتیجہ میں ایک بندہ مومن واقعات وحوادث اور معاملات زندگی کو اللہ کی آیات اور اس کی سنت نیز محکمات و تجربات کی روشنی میں دیکھنے کا عادی ہوتا ہے۔
ذیل میں، قرآن کی روشنی میں، کچھ ایسے اصول درج کیے جارہے ہیں جن سے سازشی نظریات کی تنقیح کے لیے ٹھوس بنیادیں میسر آتی ہیں۔
الف) فسادی اور فتنہ پرداز لوگ، نہایت کمزور ہوتے ہیں۔
نامعقول سازشی نظریات، اللہ کے نافرمان شرپسندوں اور فتنہ پردازوں کو بہت طاقت ور اور غیر معمولی قوت اور صلاحیت کے حامل باور کراتے ہیں بلکہ ان کے بارے میں یہ تصور کیا جاتا ہے کہ وہ ایک ایسی ہمہ گیر قوت کے مالک ہیں کہ ان کی مرضی اور منصوبہ بندی سے دنیا کے سارے واقعات انجام پاتے ہیں، گویا انہیں قادر مطلق (Omnipotent) اور عالم کل (Omniscient) مانا جاتا ہے۔ الیومیناٹی، فری میسن، صیہونیت بلکہ ہمارے ملک میں دائیں بازو کی فسطائی فرقہ پرستی، ان سب کے سلسلہ میں یہ تصورات موجود ہیں کہ ہر چھوٹا بڑا واقعہ انہی کی مرضی اور پلاننگ سے وقوع پذیر ہوتا ہے۔ سیاسی و معاشی امور سے لے کر سماوی آفات تک اور سائنسی وعلمی تحقیقات سے لے کر، اخلاقی و تہذیبی تصورات کے چلن تک، انسانی زندگی کا کوئی گوشہ ایسا نہیں ہے جہاں اُن کی مرضی کے بغیر کچھ ہورہا ہو۔ وہ کبھی ناکام نہیں ہوتے اور نہ کبھی کوئی پتہ ان کی مرضی کے خلاف ہل پاتا ہے۔ وہ منصوبہ بندی کرتے ہیں اور دنیا کا ہر چھوٹا بڑا معاملہ، ان کے منصوبہ کے مطابق ہو بہو انجام پاتا ہے۔
جبکہ قرآن کہتا ہے کہ سازش کرنے والی شیطانی قوتیں تو بہت حقیر اور کمزور ہوتی ہیں، مکڑی کے جال سے بھی کمزور۔ سب سے بڑا اور سب سے طاقت ور سازشی تو شیطان مردود ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ اس کی سازشوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ فَقَاتِلُوا أَوْلِيَاءَ الشَّيْطَانِ ۖ إِنَّ كَيْدَ الشَّيْطَانِ كَانَ ضَعِيفًا (پس شیطان کے ساتھیوں سے لڑو اور یقین جانو کہ شیطان کی چالیں حقیقت میں نہایت کمزور ہیں۔سورۃ النساء۔۷۶) قرآن اللہ کے نافرمان بندوں کے بارے میں کہتا ہے کہ وہ اپنی طاقت و صلاحیت کے بارے میں دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ إِنِ الْكَافِرُونَ إِلَّا فِي غُرُورٍ (َحقیقت یہ ہے کہ منکرین دھوکے میں پڑے ہوئے ہیں۔ سورہالملک۔۲۰)۔فرعون و نمرود جیسے طاقت ور بادشاہوں اور خدائی کے دعوےداروں کو بھی محدود اور ناقص اقتدار ہی ملا تھا۔ ان کی چالوں کا بھی ذکر کرکے قرآن یہ ابدی اصول بیان کرتا ہے کہ وَمَا كَیْدُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ (کافروں کی چالوں کا انجام اس کے سوا کچھ نہیں ہوتا کہ وہ مقصد تک نہ پہنچ سکیں۔المومن۔۲۵) کوئی انسان بھی لامحدود اور پوری دنیا پر محیط ہمہ گیر قدرت کا مالک نہیں ہوسکتا۔
ب) اللہ تعالیٰ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعہ دفع کرتا ہے اور ہمہ گیر و دائمی فساد کی روک تھام کے لیے ان کو ایک دوسرے سے ٹکراتا اور ان کا زور توڑتے رہتا ہے۔
قرآن کہتا ہے کہ شرپسند لوگ، سب نہایت کمزور لوگ ہیں۔ آپس میں ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں۔ وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِّلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّـهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّـهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ (ہم نے ان کے درمیان قیامت تک کے لیے عداوت اور دشمنی ڈال دی ہے جب کبھی یہ جنگ کی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اُس کو ٹھنڈا کر دیتا ہے یہ زمین میں فساد پھیلانے کی سعی کر رہے ہیں مگر اللہ فساد برپا کرنے والوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔ سورۃ المائدہ۔۶۴) ہر سازشی نظریے کی بنیاد اس مفروضے پر ہوتی ہے کہ اللہ کے دشمن انتہائی منظم اور متحد لوگ ہیں۔ قرآن اس مفروضے کی تردید کرتے ہوئے صاف کہتا ہے کہ بَأْسُهُم بَيْنَهُمْ شَدِيدٌ تَحْسَبُهُمْ جَمِيعًا وَقُلُوبُهُمْ شَتَّىٰ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْقِلُونَ (یہ آپس کی مخالفت میں بڑے سخت ہیں تم اِنہیں اکٹھا سمجھتے ہو مگر ان کے دل ایک دوسرے سے پھٹے ہوئے ہیں اِن کا یہ حال اِس لیے ہے کہ یہ بے عقل لوگ ہیں۔ سورۃ الحشر آیت ۱۴)۔ ساری دنیا کو بے بس کرنے والی سازش کے لیے ضروری ہے کہ یہ فسادی مکمل طور پر متحد ہوں۔ دنیا کے تمام باصلاحیت اور بااثر افراد اور ادارے، اُن کے آلہ کار ہوں، ہر وہ فرد جو کسی نہ کسی درجے میں واقعہ کو متاثر کرسکتا ہو، وہ ان کا وفادار ہو۔ مثلاً کسی بڑی آسمانی آفت کے نام پر سارے انسانوں کو بے وقوف بنانے کے لیے ضروری ہے کہ دنیا کے تمام حکمراں، تمام متعلقہ سائنسداں، شماریاتی ماہرین، متعلقہ سرکاری وغیر سرکاری اداروں کے منتظمین، کمپنیاں اور ان میں خدمت انجام دینے والے ماہرین وغیرہ سب اس سازش میں شریک ہوں۔ ان سب افراد کی تعداد کروڑوں میں پہنچتی ہے۔ ان کا تعلق مختلف قومیتوں، مذاہب اور نظریات سے ہے، وفاداریاں مختلف بلکہ بعض اوقات متصادم ہیں۔ اسی طرح کا معاملہ ویکسین سے متعلق اور ماحولیاتی تبدیلی سے متعلق امور کا ہے۔ کیا یہ ممکن ہے کہ یہ سب ایک سازشی ٹولے کا آلہ کار بن کر متحد ہوکر ساری انسانیت کے خلاف جرم میں شریک ہوجائیں؟ اور دنیا میں ہمیشہ کے لیے یا ایک لمبی مدت کے لیے ہمہ گیر فساد پیدا کردیں؟
قرآن مجید کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ دنیا میں فتنہ وفساد پھیلانے والی قوتوں کے ساتھ سارے عالم انسانی کا ایسا متفقہ اشتراک، اللہ کی سنت کے خلاف ہے۔ انسانوں کے مختلف گروہوں کا ایک دوسرے کے ذریعہ دفع، یہ اللہ کی مستقل سنت ہے۔ وَلَوْلَا دَفْعُ اللَّـهِ النَّاسَ بَعْضَهُم بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ۔(اور اگر اللہ بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو (روئے) زمین پر فساد برپا ہوجاتا،۔ لیکن اللہ تو جہان والوں پر بڑا فضل رکھنے والا ہے۔ البقرہ ۲۵۱)۔ اس آیت کی تفسیر میں مولانا مودودیؒ لکھتے ہیں:
یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین کا انتظام برقرار رکھنے کے لیے یہ ضابطہ بنا رکھا ہے کہ وہ انسانوں کے مختلف گروہوں کو ایک حد خاص تک تو زمین میں غلبہ و طاقت حاصل کرنے دیتا ہے، مگر جب کوئی گروہ حد سے بڑھنے لگتا ہے، تو کسی دوسرے گروہ کے ذریعے سے وہ اس کا زور توڑ دیتا ہے۔(11(
ج) پوری دنیا اور دنیا کے تمام معاملات پر ہمہ گیر استبدادی تسلط وقدرت اور ساری دنیا پر قدرت مطلقہ، کسی انسان یا انسانی گروہ کو نہیں مل سکتی۔
قرآن میں کہیں بھی ایسی کسی بڑی اور طاقت ور سازش کا اشارہ موجود نہیں ہے جو سارے انسانوں کو بے بس کرکے رکھ دے۔ قرآن مجید میں سازش کا جہاں بھی ذکر کیا گیا ہے، اسے ایک نہایت کمزور اور بودی چیز بتایا گیا ہے۔ کہا گیا کہ اسلام کے دشمن سازش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ بھی چال چلتا ہے۔ وَيَمْكُرُونَ وَيَمْكُرُ اللَّـهُ وَاللَّـهُ خَيْرُ الْمَاكِرِينَ (وہ اپنی چالیں چل رہے تھے اور اللہ اپنی چال چل رہا تھا اور اللہ سب سے بہتر چال چلنے والا ہے۔انفال ۳۰) جس طرح لَا اِلٰہ کے ساتھ اِلَّااللّٰہ کہنا ضروری ہے، اسی طرح يَمْكُرُونَ کے ساتھ يَمْكُرُ اللَّـهُ کو ایک اٹل حقیقت کے طور پر پیش نظر رکھنا، ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ یہی مومن اور غیر مومن کے درمیان فرق ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ سازش کرنے والے اپنے جال میں خود ہی پھنستے ہیں۔ وَكَذَٰلِكَ جَعَلْنَا فِي كُلِّ قَرْيَةٍ أَكَابِرَ مُجْرِمِيهَا لِيَمْكُرُوا فِيهَا وَمَا يَمْكُرُونَ إِلَّا بِأَنفُسِهِمْ وَمَا يَشْعُرُونَ (اور اسی طرح ہم نے ہر بستی میں اس کے بڑے بڑے مجرموں کو لگا دیا ہے کہ وہاں اپنے مکر و فریب کا جال پھیلائیں دراصل وہ اپنے فریب کے جال میں آپ پھنستے ہیں، مگر اُنہیں اس کا شعور نہیں ہے۔الانعام ۱۲۳) اور یہ کہ سازش کی عمر ہمیشہ مختصر ہوتی ہے اور دیر سویر وہ ناکام ہوکر رہتی ہے۔ لَقَدِ ابْتَغَوُا الْفِتْنَةَ مِن قَبْلُ وَقَلَّبُوا لَكَ الْأُمُورَ حَتَّىٰ جَاءَ الْحَقُّ وَظَهَرَ أَمْرُ اللَّـهِ وَهُمْ كَارِهُونَ (اس سے پہلے بھی اِن لوگوں نے فتنہ انگیزی کی کوششیں کی ہیں اور تمہیں ناکام کرنے کے لیے یہ ہر طرح کی تدبیروں کا الٹ پھیر کر چکے ہیں یہاں تک کہ ان کی مرضی کے خلاف حق آ گیا اور اللہ کا کام ہو کر رہا۔ التوبہ۔۴۸)
طاقت ور سے طاقت ور انسانی گروہ بھی اللہ کے سامنے بالکل بے بس ہے۔ کسی انسان میں اتنی طاقت نہیں کہ وہ سارے عالم انسانی کو بے بس کرکے رکھ دے۔ ایسا سوچنا انسانوں کو نعوذ باللہ خدائی طاقت میں شریک قرار دینا ہے۔
د) وہم وگمان، تجسس، نامعقول سازشی نظریات، بے بنیاد افواہوں پر یقین اور ان کی اشاعت وغیرہ قابل مذمت ہیں۔
قرآن مجید میں کئی جگہوں پر سازشوں کا ذکر ہے۔ ان کے مطالعہ سے سازشوں کے تمام ڈائنامکس کے تعلق سے قرآن کا نقطہ نظر معلوم ہوتا ہے۔ وہم وگمان، اٹکل اور بے بنیاد اندازے، تجسس، افواہوں کی تخلیق، ان کی اشاعت، ان پر یقین اور ان کی بنیاد پر سوچ اور رویوں کی تشکیل، یہ سب سازشی نظریات کے مسلمہ ڈائنامکس ہیں۔
سورہ نور میں واقعہ افک پر تبصرہ ہے، جو ایک بڑی سازش تھی۔ تبصرہ کرتے ہوئے یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ إِذْ تَلَقَّوْنَهُ بِأَلْسِنَتِكُمْ وَتَقُولُونَ بِأَفْوَاهِكُم مَّا لَيْسَ لَكُم بِهِ عِلْمٌ وَتَحْسَبُونَهُ هَيِّنًا وَهُوَ عِندَ اللَّـهِ عَظِيمٌ (خیال کرو جب تم اپنی زبانوں سے وہ بات نقل کر رہے تھے اور اپنے مونہوں سے وہ بات کہہ رہے تھے جس کی بابت تمہیں کوئی علم نہیں تھا! اور تم اس کو معمولی بات خیال کر رہے تھے حالانکہ اللہ کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔ النور ۱۵)اس آیت میں جو ہدایت کی گئی ہے اور آگے مزید جو ہدایات اور اصول دیے گئے ہیں، ان سے قرآن کا منشا واضح ہوتا ہے کہ مریضانہ تجسس پسندی اوربے بنیاد افواہوں کی اشاعت قرآن کے نزدیک قابل مذمت ہے۔ ایک بندہ مومن کے معاملاتِ زندگی کو، تحقیق پسندی اوردلیل و برہان کی بنیاد پر استوار ہونا چاہیے۔
فرعون کے دربار میں جب جادوگروں نے ایمان لانے کا اعلان کیا تو فرعون اور اس کے حواریوں کا جو بیان قرآن نے نقل کیا ہے اس میں نظریہ سازش کو شکست خوردہ ذہن کی پیداوار کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ إِنَّ هَـٰذَا لَمَكْرٌ مَّكَرْتُمُوهُ فِي الْمَدِينَةِ لِتُخْرِجُوا مِنْهَا أَهْلَهَا (یقیناً یہ کوئی خفیہ سازش تھی جو تم لوگوں نے اس دارالسلطنت میں کی تاکہ اس کے مالکوں کو اقتدار سے بے دخل کر دو۔الاعراف ۱۲۳)
دوسری طرف جو سازشیں واضح دلائل وشواہد کے ساتھ سامنے آئیں، اُن کے سلسلہ میں قرآن بیدار مغزی، مومنانہ فراست اور حوصلہ وجرأت سے ان کے مقابلہ کی تاکید کرتا ہے۔ اس کی واضح مثال مسجد ضرار کا واقعہ ہے جس کے سلسلہ میں قرآن نے واضح تاکید کی کہ لَا تَقُمْ فِيهِ أَبَدًا (تم اس میں عبادت کے لیے ہرگز کھڑے نہ ہو۔التوبہ ۱۰۸)
ہ) آسمانی آفات، اللہ کی قدرت و جبروت کی نشانی اور اس کی جانب سے تنبیہ ہوتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کہا ہے کہ آسمانی آفتیں، اللہ تعالیٰ انسانوں کو متنبہ کرنے کے لیے بھیجتا رہا ہے۔
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا إِلَىٰ أُمَمٍ مِّن قَبْلِكَ فَأَخَذْنَاهُم بِالْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ لَعَلَّهُمْ يَتَضَرَّعُونَ (تم سے پہلے بہت سی قوموں کی طرف ہم نے رسول بھیجے اور اُن قوموں کو مصائب و آلام میں مبتلا کیا تاکہ وہ عاجزی کے ساتھ ہمارے سامنے جھک جائیں۔الانعام۔۴۲) انسانی تاریخ کے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے زلزلوں، طوفانوں، وباؤں وغیرہ کے ذریعہ انسانوں کو متنبہ کیا ہے اور اپنی قدرت اور انسانی بے بسی کو واضح کیا ہے۔ مثلاً بنی اسرائیل کے سلسلے میں کہا گیا ہے کہ فَاَرْسَلْنَا عَلَيْهِمُ الطُّوفَانَ وَالْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ وَالضَّفَادِعَ وَالدَّمَ آيَاتٍ مُّفَصَّلَاتٍ فَاسْتَكْبَرُوا وَكَانُوا قَوْمًا مُّجْرِمِينَ (آخر کار ہم نے ان پر طوفان بھیجا، ٹڈی دل چھوڑے، سرسریاں پھیلائیں، مینڈک نکالے، اور خو ن برسایا یہ سب نشانیاں الگ الگ کر کے دکھائیں، مگر وہ سر کشی کیے چلے گئے اور وہ بڑے ہی مجرم لوگ تھے۔ الاعراف ۱۳۳) ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا کہ ہمارے دور میں اللہ تعالیٰ کی یہ سنت منسوخ ہوگئی ہو اور یہ کام اللہ نے، نعوذ باللہ سازشیوں کے حوالے کررکھا ہو۔
ہ) اہل اسلام کے خلاف دشمنوں کی سازشیں خود ہماری کمزوری کی وجہ سے کامیاب ہوجاتی ہیں۔
عام سازشیں لوگ ایک دوسرے کے خلاف کرتے ہیں۔ قرآن بہت واضح طور پر یہ بات کہتا ہے کہ فسادیوں کی یہ حقیر، بودی اور کمزور سازش اگر کہیں کامیاب ہوتی نظر آئے تو وہ محض اہل ایمان کی کمزوری کی وجہ سے ہے۔جب اہل ایمان کمزور (vulnerable) ہوجاتے ہیں تو شیطانی قوتوں کی سازشوں کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ خود شیطانی سازش کے بارے میں کہا گیا۔ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ إِلَّا مَنِ اتَّبَعَكَ مِنَ الْغَاوِينَ (بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں۔ سورۃ الحجر۔۴۲) قرآن نے کہا کہ صبر اور تقویٰ پیدا کرو، کسی کی کوئی سازش تمہارے مقابلہ میں ٹک نہیں پائے گی۔ إِن تَمْسَسْكُمْ حَسَنَةٌ تَسُؤْهُمْ وَإِن تُصِبْكُمْ سَيِّئَةٌ يَفْرَحُوا بِهَا ۖ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا ۗ إِنَّ اللَّـهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ (تمہارا بھلا ہوتا ہے تو ان کو برا معلوم ہوتا ہے، اور تم پر کوئی مصیبت آتی ہے تو یہ خوش ہوتے ہیں مگر ان کی کوئی تدبیر تمہارے خلاف کارگر نہیں ہوسکتی بشرطیکہ تم صبر سے کام لو اور اللہ سے ڈر کر کام کرتے رہو جو کچھ یہ کر رہے ہیں اللہ اُس پر حاوی ہے ۔آل عمران ۱۲۰(
مشکلات ومصائب کا ایک پہلو آزمائش اور امتحان بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ مشکل حالات کے ذریعہ اپنے بعض بندوں کو آزماتا ہے۔ لیکن عام طور پر مشکلات کے اسباب اندرونی ہوتے ہیں۔ قرآن نے یہ بات بہت صاف صاف کہی ہے کہ ہم پر آنے والی ہر مصیبت کے ذمہ دار، خارجی عناصر نہیں بلکہ ہم خود ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنی کمزوریوں، پسپائیوں اور مصیبتوں کے اسباب باہر کی دنیا میں نہیں بلکہ خود اپنے اندر تلاش کرنے چاہئیں۔ وَمَا أَصَابَكُم مِّن مُّصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ وَيَعْفُو عَن كَثِيرٍ(تم پر جو مصیبت بھی آئی ہے، تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے آئی ہے، اور بہت سے قصوروں سے وہ ویسے ہی در گزر کر جاتا ہے۔الشوریٰ ۳۰) ہمارے علوم و فنون، ہمارا جاہ و جلال، ہمارا اثر و رسوخ، ہماری طاقت و قوت، ہمارا شاندار ماضی وغیرہ وغیرہ یہ کسی دشمن کی سازش سے نہیں سلب ہوتا ہے، بلکہ ہماری اپنی کمزوری سے چھن جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس بات کو اپنا مستقل اصول، یعنی سنت اللہ قرار دیا ہے۔ ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ ۙ وَأَنَّ اللَّـهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ (یہ اللہ کی اِس سنت کے مطابق ہوا کہ وہ کسی نعمت کو جو اس نے کسی قوم کو عطا کی ہو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک کہ وہ قوم خود اپنے طرزِ عمل کو نہیں بدل دیتی اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔سورہ انفال۔۵۳(
قرآن میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر آنے والی بعض بڑی مشکلات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے، لیکن کہیں بھی دشمن کی سازش کو ہزیمت کا اصل سبب نہیں قرار دیا۔ مثلا غزوہ احد میں پیش آنے والی مشکلات پر تبصرہ کرتے ہوئے قرآن نے یہ نہیں کہا کہ یہ اس وجہ سے ہوا کہ قریش کی پلاننگ بہت زبردست تھی، یا کسی نے بڑی سازش رچی تھی یا یہ کہ خالد بن ولید جیسا ماہر جنگجو اُن کی طرف موجود تھا اور انہوں نے صحیح وقت پر زبردست چال چل کر پانسہ پلٹ دیا۔ یہ سب باتیں ہم کو تاریخ سے معلوم ہوتی ہیں، قرآن نےان باتوں اور دشمنوں کی چالوں کواصل سبب نہیں بتایا۔ بلکہ صاف صاف لفظوں میں سبب بس یہ بتایا ہے کہ أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَـٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ (اور یہ تمہارا کیا حال ہے کہ جب تم پر مصیبت آ پڑی تو تم کہنے لگے یہ کہاں سے آئی؟ حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دو گنی مصیبت تمہارے ہاتھوں (فریق مخالف پر) پڑ چکی ہے اے نبی، اِن سے کہو، یہ مصیبت تمہاری اپنی لائی ہوئی ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔سورہ آل عمران۔۱۶۵) اور پھر تفصیل سے بتایا ہے کہ وہ کمزوریاں کیا تھیں؟
قرآن نے اس کے علاوہ بھی متعدد جگہوں پر ایسے تبصرے کیے ہیں۔ فتح و شکست، عروج و زوال اور نرم گرم حالات پر قرآن نے جہاں بھی تبصرہ کیا ہے، اس سے وہ اہل ایمان کی اس طرح تربیت کرتا ہے کہ زندگی علم و یقین، تحقیق اور دلیل، اور محکمات و تجربات کی روشن شاہراہ پر آگے بڑھے اور تردد و تذبذب، گمان وبے یقینی، بے عملی اور بے بنیاد اٹکلوں کی تاریک وادیوں میں بھٹک کر نہ رہ جائے۔
غلط سازشی نظریات کی پہچان
اوپر کی بحث سے غلط سازشی نظریات کی شناخت کے کچھ اہم پیمانے معلوم ہوتے ہیں۔ جدید فلسفیانہ طریقوں میں بھی ان پیمانوں کی تائید ملتی ہے۔
۱۔ ہر وہ نظریہ جس میں سازش کرنے والے کو غیر معمولی اورمافوق البشر قوت کا مالک اور عالمی احوال پر مکمل قدرت کا حامل باور کرایا گیا ہو۔
۲۔ ہر وہ نظریہ جس میں کسی عظیم قدرتی آفت کو یا دنیا بھر کو بے بس کردینے والی کسی مصیبت کو، کسی انسانی گروہ کی خفیہ منصوبہ بندی کا نتیجہ بتایا گیا ہو۔
۳۔ ہر وہ نظریہ جس میں سازش کے توڑ یا اس کے مقابلہ کی کوئی ممکن شکل نظر نہ آتی ہو اور جو کسی ٹھوس جوابی حکمت عملی کی طرف رہ نمائی نہ کرتا ہو۔(12(
اس کے علاوہ درج ذیل بعض اور طریقے ہیں جو تحقیق و تفتیش کے عصری طریقوں سے ماخوذ ہیں:
۴۔ غلط سازشی نظریہ کی ایک بڑی اہم پہچان اس کی اندرونی کمزوریاں ہوتی ہیں۔ اس میں اندرونی تضادات ہوتے ہیں۔ اہم سوالات کے جوابات نہیں ملتے۔ نظر آنے والے حقائق سے یا ٹھوس سائنسی صداقتوں سے ٹکراؤ ہوتا ہے۔(13) مثلاً یہ کہنا کہ ماحولیاتی تبدیلی، سازش کی خاطر گھڑا ہوا ایک جھوٹ ہے، بہت سے اُن مشاہدات کے خلاف ہے جو ہر آدمی کررہا ہے۔ یا یہ نظریہ کہ کینسر، سرے سے کوئی بیماری ہی نہیں ہے بلکہ محض فلان وٹامن کی کمی ہے، اُن لاکھوں اموات کی کوئی توجیہ نہیں کرپاتا جو ہر جگہ ہورہی ہیں، اس سوچ کے حاملین اور ان کے اقرباء کے حلقوں میں بھی ہورہی ہیں۔
۵۔ ایک پہچان یہ بھی ہوتی ہے کہ نظریہ پیش کرنے والے یہ نہیں بتا پاتے کہ اس سازش سے کس کو فائدہ ہوسکتا ہے؟(14) اور کیا ہوسکتا ہے؟ مثلاً دنیا بھر میں پھیلنے والی کورونا بیماری کا فائدہ کس کو ہوسکتا ہے؟ ویکسین تیار کرنی والی کمپنیاں؟ یہ کمپنیاں کتنا فائدہ حاصل کریں گی؟ یہ فائدہ اس نقصان کے مقابلہ میں کیا حیثیت رکھتا ہے جو اس وبا کے نتیجہ میں معیشتوں کو پہنچ رہا ہے؟ اگر یہ چند ویکسین بنانے والی کمپنیوں کی سازش ہے تو دنیا بھر کے ڈاکٹر، حکومتیں، ماہرین حیاتیات، پالیسی ساز، اسپتال وغیرہ سب کیوں ساتھ دے رہے ہیں؟ اگر کوئی گروہ اس کے ذریعہ دنیا کا کنٹرول حاصل کرنا چاہتا ہے تو یہ عمل کیسے ہوگا؟ وبا میں اور اس ان دیکھی غیبی قوت کے کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں کیا تعلق ہے؟ اور اگر وہ قوت اتنی طاقت ور اور بااثر ہے کہ دنیا بھر کی حکومتوں ہی کو نہیں بلکہ دنیا کے سارے اداروں، ارباب علم، سائنسدانوں، ڈاکٹروں، مذہبی وسماجی رہ نماؤں وغیرہ کو ایک قبیح غیر انسانی جرم پر مجبور کرسکتی ہے، تو پھر اسے کنٹرول حاصل کرنے کے لیے کسی ڈرامہ کی کیا ضرورت ہے؟ اس کا استبدادی کنٹرول تو پہلے ہی سے موجود ہے!
۶۔سازشی نظریہ کی جانچ، سازش کے درجے (scale)کو سامنے رکھ کر بھی کی جاسکتی ہے۔(15) جس امکانی سازش میں جتنے کم افراد کی شمولیت ہو، اس سے جتنے کم لوگ متاثر ہوں، اس کا جنتا کم نقصان ہو، جتنے کم جغرافیائی علاقہ پر اور جتنے کم وقفہ کے لیے اس کا اثر ہو، اُس کے صحیح ہونے کا امکان اتنا ہی زیادہ ہوتا ہے۔ چند لوگ مل کر، دس بیس افراد کے خلاف، یا کسی ایک حکومت کے خلاف، سال دو سال کے لیے کوئی سازش کریں اور انہیں نقصان پہنچائیں یہ ممکن ہے۔ لیکن دنیا کے کروڑوں لوگوں کے خلاف سازش، دسیوں ممالک کے خلاف سازش، ساری دنیا کو معطل اور بے بس کر کے رکھنے والی سازش، یا ایسی سازش جو کئی دہوں اور صدیوں تک جاری رہے یہ عقلاً ممکن نہیں ہے اور اللہ کی سنت کے خلاف ہے۔
۷۔غلط سازشی نظریہ کو ان حقائق اور معلومات (data) کی جانچ کے ذریعہ بھی پہچانا جاسکتا ہے جسے نظریہ کی بنیاد بنایا جاتا ہے یا اس کی تائید میں بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔ غلط سازشی نظریات جھوٹ اور غلط خبروں کی بنیاد پر پھیلائے جاتے ہیں۔ حکمرانوں، ماہرین اور دیگر بڑی شخصیات سے غلط بیانات منسوب کرنا یا اُن کے بیانات کو توڑ مروڑ کر ان سے غلط مطلب اخذ کرنا، کتابوں اور جرنلوں وغیرہ کے غلط اور گمراہ کن حوالے، جعلی تصاویر اور ویڈیوز، غلط اور فرضی سائنسی ڈاٹا، سائنسی اصولوں کی گمراہ کن لیکن (بھاری بھرکم اصطلاحات کے استعمال کی وجہ سے) مرعوب کن تعبیرات، ان سب کو عام طور پر نامعقول سازشی نظریات کی بنیاد بنایا جاتا ہے۔ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ عام لوگ ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے لوگ بھی ایسی باتوں سے مرعوب ہوجاتے ہیں حالانکہ موجودہ دور میں غلط باتوں کی تحقیق بہت آسان ہے اور تھوڑی سی کوشش سے ہم واقعات ومعلومات کی صداقت کی جانچ کرسکتے ہیں۔
۸۔اسی سے متعلق ایک اور جانچ جسے ماہرانہ شہادت (epistemic authority) کی جانچ کہتے ہیں، یہ ہے کہ نظریات پیش کرنے والوں یا نظریات کی بنیاد بننے والے ڈاٹا کی پیشکش کرنے والوں کے علم اور تخصص کی جانچ کی جائے۔ آج کی پیچیدہ دنیا میں ہر معاملہ کو گہرائی سے سمجھنے کے لیے مخصوص علوم و فنون میں اعلی درجے کا درک درکار ہوتا ہے۔ جس شعبہ سے متعلق معاملہ ہو، اس کے معتبر اہل علم واہل فن کو پہچاننے کی صلاحیت اور ان پر اعتماد، یہ سنجیدہ علمی تجزیوں کی نہایت اہم ضرورت ہے۔ بہت سے لوگ یہ بھی نہیں سمجھ پاتے کہ زیر بحث معاملہ کا تعلق کس شعبہ علم سے ہے۔ مثلاً وائرس کے پھیلاؤ کے علم کا تعلق ڈاکٹروں سے نہیں بلکہ وائرولوجی، اور ایپیڈیمیولوجی سے ہے
اوپر جن واقعات کو ہم نے معقول سازشی نظریات کی مثالوں کے طور پر درج کیا ہے، ان کے بارے میں ہم سب جانتے ہیں کہ ان کی سرکاری توجیہات کو رد کرنے والے یا ان پر شبہات کا اظہار کرنے والے عام لوگ نہیں ہیں بلکہ اپنے شعبہ کے معتبر ترین اہل علم ہیں۔عراق جنگ پر اول روز سے دنیا بھر کے کئی معروف ماہرین سیاسیات وعسکریات امریکی وبرطانوی حکومتوں کی باتوں کو رد کرتے رہے ہیں۔ دہشت گردی کے واقعات پر تحفظ کا اظہار کرنے والے، انتہائی سینیر پولیس افسران، قومی سلامتی کے ماہرین، جج صاحبان اور دیگر ماہرین ہیں۔ ہر معقول بات کے سلسلے میں ایسا ہی ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے کچھ بندوں کو سچائی کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے آگے بڑھاتا ہے۔ کوئی سازشی نظریہ حقیقت سے قریب ہو تو ایسا نہیں ہوسکتا کہ دنیا کے تمام معتبر اہل علم وفن اس پر خاموش رہیں اور اس کو بے نقاب کرنے کا کام، غیر معروف، نیم خواندہ یا متعلقہ شعبہ فن سے غیر متعلق نظریہ سازوں کے حوالے ہوجائے۔ اس لیے تشخیص کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ پیش کرنے والوں کی قابلیت واستناد کی جانچ کی جائے اور معتبر ماہرین فن سے ان کی رائے معلوم کی جائے۔ یہ کام بھی سنجیدگی اور باریک بینی چاہتا ہے۔ اس لیے کہ اکثر سازشی نظریات کو پیش کرنے والے خود کو ماہرین فن کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ عطائی، بھاری بھرکم اصطلاحات کے ساتھ خود کو ماہر ڈاکٹر بناکر پیش کرتے ہیں۔ وغیرہ۔۔ آج کے زمانہ میں کسی بھی شخص کے پروفائل کی جانچ کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ ایک منٹ میں یہ جانچ ہوسکتی ہے۔ اس کی عادت ہم کو ڈالنی چاہیے۔ خود ہمارے حلقوں میں، اور دنیا بھر کے اسلامی وتحریکی حلقوں میں اب الحمد للہ، ہر میدان کے ماہرین موجود ہیں۔ ان کی آراء پر اعتماد کرنا چاہیے۔
۹۔اس کے علاوہ سازشی نظریات کی تنقیح کے بعض اعلیٰ سائنسی طریقے(مثلاً قابلیتِ تکذیب کا ٹسٹ (falsifiability test) وغیرہ) بھی ہیں۔ محققین نے ایسے ریاضیاتی ماڈل بھی تشکیل دیے ہیں (16) جن کو استعمال کرکے بہت سے نظریات کی تنقیح کی جاسکتی ہے۔ لیکن یہ پیچیدہ علمی بحث، اس مقالہ کے دائرہ سے باہر ہے۔ ہم کسی اور مناسب پلیٹ فارم پر اس کو زیر بحث لائیں گے۔ دلچسپی رکھنے والے اہل علم فی الحال حاشیے میں درج کتابوں اور مقالات سے مدد لے سکتے ہیں۔(17)
یہ واقعاتی حقیقت ہے کہ ہر بڑے واقعہ یا حادثہ سے فائدہ اٹھانے کی لوگ کوشش کرتے ہیں۔ موجودہ دور کی مادہ پرست کفن چور ذہنیت نے اس رجحان کو اور فروغ دیا ہے۔ حادثات اور قدرتی آفات یا کسی انسانی غلطی سے پیدا ہونے والی تباہ کن صورت حال کا بدطینت لوگ، ادارے اور حکومتیں، اپنے سیاسی، معاشی اور دیگر مفادات، کے لیے استعمال کرسکتے ہیں اور کرتے رہے ہیں۔ کسی زلزلہ، سونامی، عالمی وبا وغیرہ کی صورت حال کا مفادات حاصلہ کے لیے استحصال کرنا، اس غرض کے لیے دھوکے اور مبالغہ سے کام لینا، یا غلط معلومات بہم پہنچانا وغیرہ ایک مختلف بات ہے اور آفت کو بطور سازش تخلیق کرنا الگ ہے۔ پہلی بات کا امکان بہت زیادہ رہتا ہے۔ لیکن اس کی وجہ سے جو شکوک پیدا ہوتے ہیں وہ دوسری بات تک پہنچاتے ہیں۔(18) اس لیے اس بات کی سنجیدہ کوشش ہونی چاہیے کہ اگر کہیں کوئی سازش نظر آئے تو اس کی حقیقت کو سمجھا جائے اور جتنی وہ ہے اتنی ہی دیکھی اور دکھائی جائے۔
سازشی نظریات اور کتاب الفتن کی روایات
سازشی نظریات کے لیے فتنہ دجال اور اُن روایتوں کا سہارا لیا جاتا ہے جو حدیث کی کتابوں میں باب الفتن کے تحت درج ہیں۔ چنانچہ باور کرایا جاتا ہے کہ جو کچھ خراب ہورہا ہے وہ دجال اور اس کے حواری کرارہے ہیں۔۔۔ اس طرح سوچنے والوں کے پاس کبھی کوئی سولوشن یا حل نہیں ہوتا۔ دجال کے فتنے کا مقابلہ تو سیدنا مہدی اور سیدنا عیسی علیہما السلام کریں گے۔ اس لیے ہمارا کام بس یہ رہ جاتا ہے کہ ان کا انتظار کریں اور اس وقت تک ہر چھوٹی بڑی مصیبت کو دجالی سازش سے جوڑ کر کڑھتے اور گھلتے رہیں۔
کتاب الفتن کی روایتوں کا تفصیل سے تجزیہ اس مضمون میں ممکن نہیں ہے۔ ان پر اور ان سے حاصل ہونے والے اسباق پر ہم آئندہ کسی شمارہ میں روشنی ڈالیں گے۔ ان شاء اللہ۔ لیکن فی الحال کتاب الفتن کی روایتوں کے بارے میں یہ بات ہم کو سمجھنی چاہیے کہ قیامت کی جو نشانیاں اللہ کے رسولﷺ نے بتائی ہیں وہ بہت واضح ہیں۔ ان سب نشانیوں کو ایک ساتھ سامنے رکھ کر ہی ان سے کوئی نتیجہ نکالنا درست ہے۔ ایک آدھ روایت کو اِدھر اُدھر سے پکڑ کر یہ کہنا کہ اب دجال کا زمانہ آگیا ہے اور قیامت آلگی ہے، نہایت گمراہی کی بات ہے۔ ہماری تاریخ میں ہر مشکل دور میں قرب قیامت کی اس طرح کی باتیں ہوتی رہی ہیں۔
اس وقت جو کشمکش ہورہی ہے وہ حق وباطل کی کشمکش ہے جو تاریخ کے ہر دور میں ہوتی رہی ہے۔ یہ چراغ مصطفوی اور شرار بولہبی کی مستقل کشمکش ہے جس میں ہمیں اپنا رول ادا کرنا ہے۔ ہاتھ پر ہاتھ دھرے مہدی کا یا عیسی کا انتظار نہیں کرنا ہے۔ جب مہدی آئیں گے یا عیسی آئیں گے وہ اپنا کام کریں گے۔ اس وقت تو ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہے۔ ہر شرار بولہبی کو ہم دجال سمجھ بیٹھیں گے تو اپنا رول ادا نہیں کرپائیں گے۔ اس کشمکش میں ہمارے زمانہ میں چراغ مصطفوی کی نمائندگی کا فریضہ ہم پر ہے اور ہم اس کے لیے جواب دہ ہیں۔ اگر ہم صحیح رخ پر اور صحیح جذبہ کے ساتھ جدوجہد کریں گے تو اللہ کی مدد و نصرت ہمارے شامل حال رہے گی اور عام قوانین فطرت کے مطابق ہماری کامیابی و ناکامی کا فیصلہ ہوگا۔ جو صلاحیت وقوت اللہ تعالیٰ نے ہمارے دشمنوں کو دی ہے وہی ہم کو بھی دی ہے۔ ان سے مرعوب ہوکر حوصلے ہارنے کی کوئی وجہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ اچھے اور برے دنوں کو لوگوں کے درمیان ادلتے بدلتے رہتا ہے۔ وَ َتِلْكَ الْأَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ (یہ تو زمانہ کے نشیب وفراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں۔ آل عمران ۱۴۰)۔ آزمائشوں اور مشکل حالات کی عمر مختصر ہوتی ہے۔ ان سے گھبرا کر فسادیوں کو لامحدود قوت کا مالک سمجھ بیٹھنا بہت بڑی غلطی اور بڑی نفسیاتی کمزوری ہے۔
ہمارا مطلوب عملی رویہ
بے شک ہم کو دنیا کے احوال اور شر پسند طاقتوں کی سازشوں سے باخبر رہنا چاہیے۔ صحیح جدوجہد کے لیے اس کی بھی ضرورت ہے۔ لیکن اس میں حد سے زیادہ مبالغہ اور ان کو اپنے دماغ پر اس طرح حاوی کرلینا کہ ہر چیز کو اسی عینک سے ہم دیکھنے لگیں، دنیا کے ہر چھوٹے بڑے واقعہ میں سازش کا پہلو تلاش کرنے لگیں اور ہم کیا کریں اور ہم کو کیا کرنا چاہیے؟ یہ کبھی زیر بحث نہ آئے بلکہ ساری بحث صرف اُن صحیح اور غلط نظریات پر ہو کہ ہمارے سلسلہ میں وہ کیا کررہے ہیں؟ تو یہ نفسیاتی مرض کی علامت ہے۔ اوپر ہم نے معقول اور نامعقول نظریات کی پہچان بتائی ہے۔ جو معقول نظریات ہیں، ان پر بے شک ہم کام کریں اور ان سازشوں کے مناسب توڑ کی سعی کریں لیکن نامعقول نظریات سے اپنا پیچھا چھڑائیں اور ان سے امت کو بھی محفوظ رکھیں۔
امت مسلمہ کی تو یہ ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف اپنے مسائل کا خود چارج لے بلکہ دنیا کے مسائل کا بھی آگے بڑھ کر چارج لے۔ جس دن ہم اپنے اور دنیا کے مسائل کے لیے خود کو ذمہ دار سمجھیں گے اور ان کے حل کا پورا چارج خود لیں گے، وہ ترقی اور کامیابی کی شاہراہ پر ہمارا پہلا قدم ہوگا۔ اپنی کسی ناکامی کے لیے دوسروں کو ذمہ دار قرار دینے کا رویہ دراصل راہ فرار ہے۔ جو فرد یا قوم اس راہ فرار کی عادی ہوجاتی ہے وہ کبھی کامیابی کا سرا نہیں پاسکتی۔ ایک کامیاب فرد، اپنی ناکامی کی ذمہ داری قبول کرتا ہے۔ اس کے اسباب، بیرون سے زیادہ اپنے اندرون میں تلاش کرتا ہے۔ بیرونی احوال اس کے کنٹرول میں نہیں ہوتے۔ اس لیے انہیں وہ خدا کے سپرد کردیتا ہے البتہ اندرونی احوال پر اس کا کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ ان کی اصلاح کرتا ہے۔ زیادہ قوت اور زیادہ دانش مندی کے ساتھ کوشش کرتا ہے۔ یہاں تک کہ کامیاب ہوجاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی کامیابی کے لیے توکل کو ضروری قرار دیا ہے۔ توکل کے فلسفے پر ہم زندگی نو کے صفحات میں اس سے پہلے بھی لکھ چکے ہیں۔ تَوَکُّل کا فلسفہ ہم کو آخری حد تک ہمت ہارے بغیر اور مایوس ہوئے بغیر کوشش کرتے رہنے پر آمادہ کرتا ہے۔ تَوَکُّل ہم کو باعمل اور عملیت پسند (pragmatic) بناتا ہے۔ یہ ہمیں ممکنات پر ارتکاز عطا کرتا ہے۔ مطلب یہ کہ جو امور ہم پر واضح نہیں ہیں، یا ہمارے دائرہ اختیار سے پرے ہیں وہ خدا کے حوالہ کرنا اور جو کام اور جو امور ہمارے لیے ممکن ہیں، جن کے ہم مکلف ہیں، ان پر اپنی ذہنی وعملی توانائیوں کو مرکوز کرنا ہی توکل ہے۔ کمزور اور ناکام افراد اور قوموں کی ایک کمزوری یہ ہوتی ہے کہ ان کی زیادہ توجہ بیرونی مسائل، مشکلات اور دوسروں کی چالوں اور سازشوں پر ہوتی ہے۔ جبکہ کامیاب افراد کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ ان کی نظر اپنے مقصود پر ٹکی ہوتی ہے۔ وہ دوسروں کی چالوں اور حرکتوں سے بس اسی حد تک تعارض رکھتے ہیں جس حد تک خود ان کی جدوجہد کے رخ اور حکمت عملی کے تعین کے لیے ضروری ہوتا ہے۔ جو کچھ ان کے بس میں ہے اور ممکن ہے، اسے کر گزرنے پر ان کی زیادہ توجہ ہوتی ہے۔ جو امور ان کے دائرہ امکان سے پرے ہیں، ان پر وہ زیادہ دھیان نہیں دیتے۔ تَوَکُّل یہی اسپرٹ پیدا کرتا ہے۔ امکان کی آخری حد تک کوشش کرنا اور جو امور ہمارے دائرہ اختیار سے باہر ہوں، ان کو خدا کے حوالہ کردینا یہی تَوَکُّل ہے۔ یہ سوچ کا ایک بالکل مختلف پیراڈائم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بھی یہی حکم دیا ہے کہ دشمنوں کی حرکتوں میں زیادہ نہ الجھیں، بس اپنا کام کرتے رہیں۔ وَكَذَلِكَ جَعَلْنَا لِكُلِّ نَبِيٍّ عَدُوّاً شَيَاطِينَ الْأِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوراً وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ (اور ہم نے تو اسی طرح ہمیشہ شیطان انسانوں اور شیطان جنوں کو ہر نبی کا دشمن بنایا ہے جو ایک دوسرے پر خوش آئند باتیں دھوکے اور فریب کے طور پر القا کرتے رہے ہیں۔ اگر تمہارے رب کی مشیت یہ ہوتی کہ وہ ایسا نہ کریں تو وہ کبھی نہ کرتے۔ پس تم انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو کہ اپنی افترا پردازیاں کرتے رہیں۔الانعام۔۱۱۲)
سید قطب شہیدؒ نے اس آیت پر جو تفصیلی تفسیری نوٹ تحریر فرمایا ہے وہ بڑا بصیرت افروز ہے۔ طوالت کے خوف سے ہم اس نوٹ کا صرف ایک پیرا گراف یہاں نقل کررہے ہیں۔
ان قوتوں کی یہ مکاری مکمل طور پر آزاد اور بے قید بھی نہیں ہے۔ اس کے اردگرد مشیت الہی کا ایک وسیع دائرہ ہے۔ یہ شیاطین جو سرگرمیاں بھی دکھاتے ہیں وہ اللہ کی مشیت کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے دکھاتے ہیں۔ یہ مشیت کا دائرہ اللہ کی تقسیم کا دائرہ ہے۔ یہیں سے اللہ کے بندوں کی نظروں میں شر کی قوتوں کا یہ جماوڑا اور ان کی پشت پر عالمی تائید پرکاہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتی۔ یہ مقید اور پابہ زنجیر ہے۔ یہ جماوڑا اور گٹھ جوڑ بے قید اور آزاد نہیں ہے۔ اللہ جس طرح چاہتا ہے، کرتا ہے اور یوں نہیں کرتا کہ ہر کوئی ان کے اس جال میں بغیر کسی مدافعت اور مزاحمت کے پھنس جائے جس طرح ہمیشہ تمام سرکش شیاطین چاہتے ہیں کہ انہیں بےقید حاکمیت حاصل ہو اور لوگ ان کی غیر مشروط اطاعت کریں اور ان کی مرضی اور خواہش کے اوپر عمل پیرا ہوں۔ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان سرکشوں کی تمام سرگرمیاں اللہ کی مشیت اور اس کی تقدیر اور ضوابط کے اندر محدود ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ شیطانی قوتیں اللہ کے دوستوں کو کوئی اذیت اور نقصان نہیں پہنچا سکتیں۔ ہاں اس قدر اذیت یہ ضرور پہنچا دیتے ہیں جس قدر اللہ اپنے دوستوں کی آزمائش کے طور پر اجازت دے۔ آخر کار تمام معاملات اللہ کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس لیے اہل حق کو چاہیے کہ وہ اپنے یقین اور عقیدے کو اللہ کی ذات کبریا کے ساتھ وابستہ رکھیں خواہ شیطان چاہے یا نہ چاہے۔ اور وہ اپنی راہ پر اس طرح گامزن رہیں کہ ان کے اخلاق واعمال میں سچائی رچی بسی ہو، ان کے دل و دماغ حق سے سرشار ہوں۔ رہی شیطانوں کی دشمنی اور ان کی مکاری تو اہل حق کو چاہیے کہ ان کو اللہ کی مشیت اور قدرت کے حوالے کردیں جو ہر صورت میں کامیاب اور غالب رہتی ہے۔ اس لیے کہ یہ سب امور اللہ کی مشیت کے مطابق چلتے ہیں اور ” اگر تمہارے رب کی مشیت ہوتی تو وہ ایسا نہ کرتے پس انہیں چھوڑ دیں جو چاہیں افترا پردازیاں کرتے پھریں۔(19( ■
حواشی و حوالہ جات:
1. Mintz, Frank P. (1985). The Liberty Lobby and the American Right: Race, Conspiracy, and Culture. Westport, CT: Greenwood.
2. اس کی تفصیل کے لیے دیکھیں
Michael Barkun (2013); A Culture of Conspiracy :Apocalyptic Visions of Contemporary America; University of California Press; Berkeley.
3. https://www.cl.cam.ac.uk/~mgk25/volatile/Niemitz-1997.pdf retrieved on May 31, 2020
4. اصل نظریہ کی حمایت میں لکھی گئی دلچسپ کتاب دیکھیے
Bat Ye’or (2005) Eurabia: The Euro-Arab Axis; Fairleigh Dickinson University Press
اور اس کے تنقیدی جائزے کے لیے دیکھیں
Andrew Brown (16 August 2019) “The myth of Eurabia: how a far-right conspiracy theory went mainstream”. The Guardian. Retrieved on May 31, 2020.
5. Terry L. Cook (2009) The Antichrist’s New World Order: What Will Happen to America?; CreateSpace.
6. عراق جنگ کی تحقیقات کے لیےبرطانوی حکومت کی جانب سے بنائے گئے، سر جان چلکوٹ کمیشن کی رپورٹ، جس نے اس جنگ کو غیر قانونی قرار دیا تھا
7. کارل پوپر نے اس صورت حال پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ دیکھیے
Karl R. Popper, The Conspiracy Theory of Society; as quoted in Cass Sunstein and Adrian Vermeule; Conspiracy Theories in University of Chicago Law School, Law and Economic Research Paper Series, Paper no. 38; 2008.
8. سازشی نظریات کی نفسیات کو سمجھنے کے لیے دیکھیے ایک دلچسپ کتاب
Bilewicz, Cichocka and Soral (Eds.) (2015); The psychology of conspiracy; Routledge, New York,
9. سازشی نظریات اور شکست خوردگی میں تعلق کے لیے دیکھیے
Joseph Uscinski and J.M. Parent; (2014)American Conspiracy Theories; Oxford University Press; New York. Chapter 6 (Pages 130-153)
10. Peter Knight (Ed.) (2003); Conspiracy Theories in American History: An Encyclopedia; ABC CLIO: Santa Barbara USA.
11. مولانا سید ابوالاعلی مودودیؒ؛ تفہیم القرآن؛ جلد اول؛ حاشیہ ۲۷۴
12. Hepfer, K. (2015). Verschwörungstheorien: Eine philosophische Kritik der Unvernunft. Transcript Verlag. As quoted in Internet Encyclopedia of Philosophy; https://www.iep.utm.edu/conspira/ retrieved on June 1, 2020
13. Basham, L. (2001). “Living with the Conspiracy”, The Philosophical Forum, vol. 32, no. 3, p.265-280. As quoted in Internet Encyclopedia of Philosophy; https://www.iep.utm.edu/conspira/ retrieved on June 1, 2020
14. Hepfer, K. (2015). Verschwörungstheorien: Eine philosophische Kritik der Unvernunft. Transcript Verlag. As quoted in Internet Encyclopedia of Philosophy; https://www.iep.utm.edu/conspira/ retrieved on June 1, 2020
15. Ibid
16. مثلاً ایک دلچسپ ریاضیاتی ماڈل دیکھیں
Grimes DR (2016) On the Viability of Conspiratorial Beliefs. PLOS ONE 11(1): e0147905. https://doi.org/10.1371/journal.pone.0147905
17. اس موضوع پر مختصر مطالعہ کے لیے درج ذیل کتاب کے باب سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اس میں مصنف نے ایسے نظریات کی تنقیح کے چھ اہم سائنسی طریقے تجویز کیے ہیں۔ مصنف کے بعض خیالات سے اختلاف کے باوجود اس کے تجویز کردہ طریقے ہمارے لیے مفید ہیں۔
Joseph Uscinski and J.M. Parent; (2014)American Conspiracy Theories; Oxford University Press; New York. Chapter 2 (Pages 23-53)
مزید گہرے مطالعہ کے لیے درج ذیل کتابوں سے مدد لی جاسکتی ہے۔
David Coady (Ed.) (2006) Conspiracy Theories: Philosophical Debates; Ashgate Publishing Co. London
18. اس موضوع پر نوم چومسکی کا ایک مختصر انٹرویو بہت واضح اور متوازن نقطہ نظر پیش کرتا ہے
https://zcomm.org/zblogs/9-11-institutional-analysis-vs-conspiracy-theory-by-noam-chomsky/ retrieved on June 2, 2020
19. سید قطب شہید ؛ فی ظلال القرآن؛ الانعام ۱۱۲ کے حواشی