اس وقت مختلف عالمی وملکی قوتیں، سماج میں اپنی مطلوب تبدیلی لانے کے لیے سوشل انجینئرنگ (social engineering) کا استعمال کررہی ہیں۔ باطل طاقتوں کی جانب سے استعمال کی جارہی تدبیروں اور سوشل انجینئرنگ یا سماجی تبدیلی کے گہرے منصوبوں پر ان شاء اللہ آئندہ قسطوں میں روشنی ڈالی جائے گی۔ اس شمارے میں سوشل انجینئرنگ کے تعارف اور معاشرتی اصلاح میں اس سے استفادے کے امکانات پر کچھ باتیں عرض کی جارہی ہیں۔
یہ بات واضح رہے کہ سوشل انجینئرنگ کی اصطلاح دو معنوں میں استعمال ہوتی ہے۔ کمپیوٹر سائنس میں اس کا مطلب وہ نفسیاتی حربے ہیں جن کا استعمال کرکے دھوکے باز ہیکرز انٹرنیٹ پر لوگوں سے ان کے پاس ورڈ اور دیگر حساس معلومات حاصل کرلیتے ہیں۔ یہاں سوشل انجینئرنگ کے وہ معنی مراد ہے جو اپلائیڈ سوشیالوجی میں لیے جاتے ہیں۔
سوشل انجینئرنگ کیا ہے؟
سوشل انجینئرنگ اُس حکمت عملی اور منصوبہ بند کوشش کو کہا جاتا ہے جس کا استعمال کرکے کسی سماج میں موجود رویوں، روایتوں اور عادتوں وغیرہ میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ یہ کام حکومتیں بھی کرتی ہیں اور خانگی ادارے اور سماجی تحریکیں بھی۔سوشل انجینئروں کے پاس مطلوب سماجی تبدیلیوں سے متعلق متعین اہداف ہوتے ہیں اور وہ منصوبہ بند طریقوں سے جدید ترین موثر طریقوں کو استعمال کرکے، ان اہداف کی بنیاد پر سماج کو تبدیل کرتے ہیں۔ [1]
ماضی قریب میں ظالم حکومتوں اور ڈکٹیٹروں نے، اپنی مطلوب سماجی تبدیلیوں کے لیے سوشل انجینئرنگ کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا ہے۔ اس کی وجہ سے یہ اصطلاح بدنام بھی ہوئی۔ مثلاً سابق سویت یونین نے اپنے مختلف علاقوں میں (جن میں ایک بڑا حصہ مسلم علاقوں کا بھی تھا) لوگوں کی سماجی زندگی میں بڑی تبدیلیوں کی مہم شروع کی اور طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرکے، سماج کا روپ ہی بدل ڈالا۔“ایک نیا سوویت انسان” (A New Soviet Man) کا نعرہ اس سوشل انجینئرنگ کا باقاعدہ ہدف قرار پایا۔[2] یہی کام جنگ عظیم کے بعد ترکی کے استبدادی سیکولر نظام حکومت نے انجام دیا اور ترک عوام کی معاشرت، رہن سہن، لباس، طور طریقے، زبان وغیرہ میں بڑی دور رس تبدیلیاں پیدا کیں۔[3] نازی جرمنی میں نسلی گروہوں کے درمیان منصوبہ بند طریقے سے دوریاں پیدا کی گئیں اور اکثریت کی رائے عامہ اور اس کے رویوں کو ایک خاص سمت میں پروان چڑھایا گیا۔[4] ہمارے ملک میں بھی اس وقت ایک خاص طرح کی سوشل انجینئرنگ کی کوششیں جاری ہیں۔یہ سب ان کوششوں کی مثالیں ہیں جو ظالم و جابر حکومتوں کی جانب سے انجام پائیں اور جن میں سوشل انجینئرنگ کے لیے نہایت جابرابہ اور متشدد طریقے اختیار کیے گئے اور عوام کی آزادیوں کو بری طرح سلب کیا گیا۔
جمہوری حکومتوں نے بھی سوشل انجینئرنگ کے مختلف طریقے، اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے استعمال کیے۔ ان میں سے بعض کو مثبت اور تعمیری سوشل انجینئرنگ کی مثالوں کے طور پر بھی پیش کیا جاتا ہے۔ مثلاً سنگاپور کی مثال کام یاب سوشل انجینئرنگ کے حوالے سے اکثر دی جاتی ہے جس نے منصوبہ بند طریقے سے ایک ہمہ تہذیبی اور ہمہ نسلی معاشرے کو تشکیل دیا۔سنگاپور نےاپنے ملک میں آباد مختلف نسلی گروہوں کے درمیان اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی غرض سے ہاؤسنگ پالیسی کو سوشل انجینئرنگ کے آلے کے طور پر استعمال کیا اور گھروں کی تعمیر کے لیے خصوصی سبسڈی دے کر ہر ضلع میں ایسی منصوبہ بند کالونیاں آباد کی گئیں جن میں مختلف نسلوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگ مل کر ساتھ رہنے لگے۔ مقصد یہ تھا کہ مختلف بیرونی نسلیں سنگاپور کے معاشرے میں جذب ہوں اور مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے درمیان ہم آہنگی اور بہتر تعلقات پروان چڑھیں۔[5] ہمارے ملک میں ذات پات کے خاتمے اور پسماندہ ذاتوں کو اوپر اٹھانے کی کوششوں کو بھی اس خانے میں رکھا جاسکتا ہے۔اس میں ریزوریشن سوشل انجینئرنگ کا اہم ترین آلہ بنا۔ حالیہ برسوں میں، اسکاٹ لینڈ کی حکوت نے تمباکو نوشی کے خاتمے کے لیے جو منصوبہ بند کوششیں کیں، اسے بھی مثبت سوشل انجینئرنگ کی ایک نہایت کام یاب مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ [6]
ان مثالوں میں سوشل انجینئرنگ کی منصوبہ سازی اور نفاذ کا کام اصلاً حکومتوں یا حکومتوں کے بااختیار اداروں نے انجام دیا ہے۔ حکومتوں کے کنٹرول میں سوشل انجینئرنگ کے بہت سے آلات یا ذرائع ہوتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم ذریعہ قانون اور نفاذ قانون کی سرکاری مشنری ہے۔ قانون کے ذریعے نا مطلوب سماجی روایتوں، رویوں اور معمولات کو ختم کیا جاتا ہے یا کنٹرول کیا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں ستی کی رسم اسی طرح ختم کی گئی۔ اس وقت جہیز کی ہراسانی، گھریلو تشدد اور کم عمری کی شادیوں کو بھی اس طریقے سے ختم کرنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ ایک اور ذریعہ سرکاری پالیسیاں ہیں جنھیں لاکر حکومت بعض سماجی رویوں کی مختلف طریقوں سے ہمت افزائی کرتی ہے۔ مثلاً ہمارے ملک میں ضبطِ ولادت کے لیے طرح طرح کی ترغیبات حکومتیں فراہم کرتی ہیں۔ لڑکیوں کی تعلیم، شمسی توانائی کا استعمال، مالی بچت اور انشورنس وغیرہ کے لیے ٹیکس میں رعایتوں کے ذریعے حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دیہاتوں میں بیت الخلا کی تعمیر کے لیے طرح طرح کی سہولتیں فراہم کی جارہی ہیں۔ میڈیا بھی سوشل انجینئرنگ کا اہم ذریعہ ہے۔ میڈیا پر بعض ملکوں میں حکومتوں کا مکمل کنٹرول ہوتا ہے اور بعض میں غیر معمولی اثر و رسوخ ہوتا ہے۔ نظام تعلیم بھی ایک اہم ذریعہ ہے جو ذہن سازی کے ذریعے سماج میں تبدیلی لانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ اس طرح حکومتوں کے پاس سماجی تبدیلی کے بہت سے موثر ذرائع موجود ہوتے ہیں۔ ان ذرائع کا منصوبہ بند طریقے سے استعمال کیا جائے تو سماج میں مطلوب تبدیلی آسان ہوجاتی ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کی حکومت کی ایک اہم ذمے داری یہ قرار دی ہے کہ جو حکومت انھیں میسر آئی ہے اس کا استعمال کرکے وہ معاشرے کی اصلاح کا فریضہ انجام دیں۔ اَلَّذِینَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِی الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ ’’یہ وہ لوگ ہیں جنھیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے، معروف کا حکم دیں گے اور منکر سے منع کریں گے۔‘‘ (الحج: ۴۱)
اس وقت ہمارا اصل موضوع حکومتوں کی سطح پر انجام پانے والے کام نہیں بلکہ وہ حکمت عملی ہے جو عوامی تنظیمیں اور تحریکیں، سماجی اصلاح کے لیے اختیار کرسکتی ہیں۔ اس لیے جن ذرائع کے لیے اقتدار درکار ہے، انھیں سر دست نظر انداز کرکے ہم غیر سرکاری ذرائع کو ذیل کی سطروں میں زیر بحث لارہے ہیں۔
تدریجی انجینئرنگ (piecemeal engineering)
حکومتوں کے ذریعے سخت گیر ذرائع کا استعمال کرکے سماج میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں لانے کے عمل کے مقابلے میں برطانوی فلسفی اور ماہر سماجیات کارل پوپر (Karl Popper، م 1994) نے تدریجی انجینئرنگ کا تصور پیش کیا تھا۔ مثالی سماج کا ایک تصور قائم کرکے بڑے پیمانے پر تیزی سے سماج کو بدلنے کی کوشش کو اس نے غیر عملی مثالیت پسند سوشل انجینئرنگ (Utopian Social Engineering) قرار دیا اور اس کے مقابلے میں تدریجی سوشل انجینئرنگ کا تصور پیش کیا۔پوپر کا نقطہ نظر تھا کہ مثالیت پسند سوشل انجینئرنگ فرد کی آزادی میں دخیل ہے، اس لیے وہ ایک آزاد اور کھلے سماج (open society) کے تصور سے متصادم ہے۔ اس نے اس کے مقابلے میں تدریجی سوشل انجینئرنگ کو ترجیح دی جس میں سماج کو بدلنے کے لیے متشدد یا جبری طریقے اختیار نہیں کیے جاتے بلکہ لوگوں کی عقلوں کو اپیل کرکے اور رائے عامہ پر اثر انداز ہوکر سماج میں تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ تدریجی انجینئرنگ میں پورے سماج کو یک لخت بدلنے کا ہدف نہیں رکھا جاتا بلکہ سماج کے موجود طریقوں اور ڈھانچوں میں تدریج کے ساتھ اور مرحلہ بہ مرحلہ تبدیلیاں لائی جاتی ہیں۔ مرحلہ وار تبدیلیوں کے عمل میں تبدیلی کے طریقوں اور ذرائع پر باربار نظر ثانی کی جاتی ہے اور تجربات سے سیکھ کر ان طریقوں کو بہتر بنایا جاتا ہے۔ ایسے انقلابی اقدمات سے گریز کیا جاتا ہے جن سے سماج کا ڈھانچہ یا اس کا تانا بانا متاثر ہو اور نئی مشکلات کھڑی ہوں۔
پوپر کے بعض تصورات اسلامی لحاظ سے قابل اعتراض ہوسکتے ہیں۔ خصوصاً، ایک اسلامی حکومت کو سماج کی تبدیلی کے لیے کیا کرنا چاہیے؟ اس سلسلے میں اسلامی اسکیم، پوپر کی بعض تجویزوں سے یکسر مختلف ہوسکتی ہے۔ بلکہ جن رائج طریقوں کو مغربی مفکرین رائے عامہ کی تبدیلی کے جمہوری طریقے کہتے ہیں، ان میں بھی جبر اور فریب کے نہایت شدید پہلو موجود ہیں۔ پوپر کی اسکیم کا تفصیلی تنقیدی جائزہ اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔اس وقت چوں کہ ایک مسلم اقلیتی ملک میں غیر سرکاری ذرائع سے اصلاحی عمل کا طریقہ زیر بحث ہے، اس حوالے سے پوپر کی تدریجی سوشل انجینئرنگ کے بعض تصورات ہمارے لیے معاون ہوسکتے ہیں۔
تدریجی انجینئرنگ کا پہلا اصول: اہم تر برائیوں کو پہلے ہدف بنایا جائے
تدریجی سوشل انجینئرنگ کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ اس میں برائیوں کی درجہ بندی کی جاتی ہے۔ اہم ترین برائیاں جن کو پہلے ایڈریس کرنے کی ضرورت ہے، ان کی شناخت کرلی جاتی ہے اور ان کو ایڈریس کرنے کی ضرورت پر اتفاق رائے پیدا کیا جاتا ہے۔ ان کو حل کرتے ہوئے پھر دوسرے درجے کی برائیوں کو ہاتھ میں لیا جاتا ہے۔ گویا تبدیلی کا عمل مرحلہ بہ مرحلہ اس طرح انجام پاتا ہے کہ سماجی ڈھانچے میں بڑے خلفشارکے بغیر فطری انداز میں سماج بدلنے لگتا ہے۔
قرآن مجید میں انبیاءعلیہم السلام کی دعوت کی جو تفصیل بیان کی گئی ہے، اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ توحید، رسالت اور آخرت کی بنیادی دعوت کے ساتھ، انبیاء نے اپنی قوموں کی اہم ترین برائیوں کی تشخیص کی اور انھیں ہدف بنایا۔سورہ شعراء میں خاص طور پر اختصار کے ساتھ مختلف انبیاء کے اٹھائے ہوئے ایشوز کا ذکر کیا گیا ہے۔ حضرت ہودؑ نے قوم عاد کی مادہ پرستی اور بے جا عمارت سازی کو (سورہ شعراء؛ آیات 128 تا 130) حضرت صالحؑ نے قوم ثمود کے اسراف اور نام و نمود کو (سورہ شعراء؛ آیات 146 تا 152) حضرت لوطؑ نے اپنی قوم کی جنسی بے راہ روی کو (سورہ شعراء؛ آیات 160 تا 175) اور حضرت شعیبؑ نے مالی و تجارتی بدعنوانیوں کو (سورہ شعراء؛ آیات 181 تا 183) ایشو بنایا تھا۔نبی کریم ﷺ کی دعوت میں بھی مختلف ادوار میں مختلف سماجی برائیوں پر خصوصی زور ملتا ہے۔ (مثلاً مکی سورتوں میں فضول خرچی اور غلاموں، یتیموں اور مسکینوں سے منہ پھیر لینے کی برائی کو جگہ جگہ نشانہ بنایا گیا ہے)
مسلمانوں کے درمیان حالیہ زمانے میں جو اصلاحی کوششیں ہورہی ہیں ان میں برائیوں کی درجہ بندی اور اہم تر برائی پر توجہات کو مرکوز کرنے کی اس حکمت عملی کا ہمیں فقدان نظر آتا ہے۔ بیک وقت کئی برائیوں کو ہدف بنانے اور کئی اصلاحی اہداف پر بیک وقت نظریں جمادینے سے کوششیں نتیجہ خیز نہیں ہوتیں۔ اس بات کی بڑی اہمیت ہے کہ برائیوں کی درجہ بندی کی جائے اور اہم تر برائیوں کو پہلے ٹارگیٹ کیا جائے۔مثلاً ایسی کتنی تحریکیں ہیں جو مسلمانوں کے اندر تجارتی دیانت اور معاملات میں ایمان داری اور شفافیت کے لیے کام کررہی ہیں؟ حالاں کہ اسلامی اخلاق کی درجہ بندی میں یہ سر فہرست امور میں شامل ہے۔
یہ بات کہ تمام برائیاں ایک جیسی نہیں ہیں، یہ مسلمانوں کے درمیان ایک متفق علیہ بات ہے۔ ایک اہم فرق کا ذکر ہم نے گذشتہ شمارے میں کیا تھا۔ یعنی متفق علیہ منکرات اور مختلف فیہ محرمات کے درمیان فرق۔ اس کے علاوہ ایک بڑا اہم فرق کبیرہ گناہوں اور صغیرہ گناہوں کا ہے۔ قرآن و سنت میں متعدد ایسی نصوص موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ بعض برائیاں، زیادہ بڑی برائیاں ہیں، جن کا سد باب ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے۔ قرآن میں کہا گیا ہے: اِنْ تَجْتَنِبُوْا كَبَآئِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنْكُمْ سَیِّاٰتِكُمْ وَ نُدْخِلْكُمْ مُّدْخَلًا كَرِیْمًا (اگر تم اُن بڑے بڑے گناہوں سے پرہیز کرتے رہو جن سے تمھیں منع کیا جارہا ہے تو تمہاری چھوٹی موٹی بُرائیوں کو ہم تمہارے حساب سے ساقط کردیں گے اور تم کو عزّت کی جگہ داخل کریں گے۔سورہ النساء ۳۱) نبی کریم ﷺ نے “السبع الموبقات” سات مہلک باتوں سے بچنے کا حکم دیا : اجْتَنِبُوا السَّبْعَ الْمُوبِقَاتِ سات ہلاک کرنے والی چیزوں سے بچو[7] منکرات، کبائر، محرمات صغائر، متشابہات، مکروہات، ان سب کے درجوں میں فرق ہے۔
مولانا مودودیؒ نے لکھا ہے کہ ایک ہی برائی مختلف صورتوں میں مختلف درجات کی حامل ہوگی۔ فرماتے ہیں:
“جو رابطہ جتنا زیادہ اہم ہے اور جس کے کٹنے سے امن کو جتنا زیادہ نقصان پہنچتا ہے اور جس کے معاملہ میں مامونیت کی جتنی زیادہ توقع کی جاتی ہے، اسی قدر اس کو توڑنے اور کاٹنے اور خراب کرنے کا گناہ زیادہ بڑا ہے۔ مثلاً زنا اور اس کے مختلف مدارج پر غور کیجیے۔ یہ فعل فی نفسہ نظام تمدن کو خراب کرنے والا ہے اس لیے بجائے خود ایک بڑا گناہ ہے، مگر اس کی مختلف صورتیں ایک دوسرے سے گناہ میں شدید تر ہیں۔ شادی شدہ انسان کا گناہ کرنا بن بیاہے کی بہ نسبت زیادہ سخت گناہ ہے۔ منکوحہ عورت سے گناہ کرنا غیر منکوحہ سے کرنے کی بہ نسبت قبیح تر ہے۔ ہمسایہ کے گھر والوں سے زنا کرنا غیر ہمسایہ سے کرنے کی بہ نسبت زیادہ برا ہے۔ محرمات مثلاً بہن یا بیٹی یا ماں سے زنا کرنا غیر عورت سے کرنے کی بہ نسبت اشنع ہے۔ مسجد میں گناہ کرنا کسی اور جگہ کرنے سے اشد ہے۔ ان مثالوں میں ایک ہی فعل کی مختلف صورتوں کے درمیان گناہ ہونے کی حیثیت سے مدارج کا فرق انھی وجوہ سے ہے جو اوپر بیان ہوئے ہیں۔”[8]
دین میں اس نظام ترجیحات کی بڑی اہمیت ہے۔مولانا صدرالدین اصلاحیؒ نے ترجیحات میں تبدیلی کو جاہلیت کی واپسی کا ایک مظہر قرار دیا ہے۔ لکھتے ہیں:
“یہی حال منہیات و محرمات اور مکروہات کی ترتیب کا بھی ہے۔ شارع نے سب سے بڑھ کر محرمات اور کبائر کی ممانعت پر زور دیا ہے، اس کے بعد صغائر کی روک تھام کا مرتبہ آتا ہے، اور سب سے آخر میں وہ مکروہات ہیں جن کی ممانعت صراحت کے ساتھ وارد نہیں ہوئی ہے، بلکہ تخریج اور استنباط کے ذریعے نصوص کے اشاروں اور ان کی دلالتوں سے نکالی گئی ہے۔ مگر بالعموم ہر گروہ نے اپنے ذہنی رجحان کے زیر اثر اس ترتیب کو الٹ دیا۔ اب تیسرے درجے کے مکروہات پر سب سے زیادہ داروگیر کی جاتی ہے، اس کے بعد صغائر سے اجتناب پر زور دیا جاتا ہے اور اکثر کبائر و محرمات کو سب سے آخر میں جگہ ملتی ہے اور ان کا ذکر زبانوں پر کم ہی آتا ہے۔ یہ پوری صورت حال اپنی حقیقت اور عواقب کے لحاظ سے بڑی خطرناک ہے۔ کیوں کہ اسے تفقہ اور تشرع کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔ جب کہ حقیقت واقعی یہ نہیں ہے۔ یہ ایک طرح کا دینی فتنہ ہے جس کی شاخیں بے شمار اور جس کے نتائج بڑے دوررس ہیں۔ فکری جمود، دینی مزاج کا بگاڑ، فرقہ بندی کا زور، مسلکی نزاعات کی گرم بازاری، اہم مسائل کی طرف سے بے پروائی، لاطائل بحثوں میں انہماک، کرنے کے کاموں کو چھوڑے رہنا اور غیر ضروری مشاغل میں اپنی قوتوں کو ضائع کرنا۔۔یہ ساری خرابیاں اور نقصانات اس فتنے کے برگ و بار ہیں۔”[9]
ہمارے فقہا نے یہ بات بھی لکھی ہے کہ حقو ق العباد میں، فرد کے حق پر جماعت کے حق کو ترجیح دی جائے گی۔ اصول فقہ میں مصالح و مفاسد کی جو بحث ہے، اس سے بھی مختلف سماجی خرابیوں کے درمیان موازنے اور ترجیح کا ایک نہایت واضح نظام قائم ہوتا ہے۔ مثلاً اصول کی کتابوں میں یہ ضابطہ ملتا ہے کہ شریعت کے مقاصد، دین، جان، عقل، نسل اور مال کی حفاظت میں اہمیت کے اعتبار سے یہی ترتیب عام طور پر ہوگی۔ پھر مقاصد ضروریہ کو مقاصد حاجیہ پر اور مقاصد حاجیہ کو مقاصد تحسینیہ پر فوقیت حاصل ہوگی۔[10] قواعد فقہ میں ایک اہم قاعدہ ہے، الضرر الأشد یزال بالضرر الأخف (شدید ضرر کا ازالہ خفیف ضرر سے کیا جائے گا)[11] اذا تعارضت مفسدتان روعی أعظمھما ضرراً بارتکاب أخفهما (جب دو مفاسد میں ٹکراؤ ہو تو خفیف مفسدہ کا ارتکاب کرکے بڑے مفسدہ سے بچا جائے گا)[12] یعنی جو برائی زیادہ بڑے مفسدہ کا ذریعہ بنے گی وہ زیادہ شدید مانی جائے گی۔اسی طرح یہ بات بھی ایک اہم قاعدہ مانی گئی کہ جو برائی زیادہ لوگوں کو نقصان پہنچانے والی ہوگی اس کا سد باب زیادہ قابل ترجیح ہوگا۔ یتحمل الضرر الخاص لدفع ضرر عام (عمومی ضرر کو دور کرنے کے لیے ضرر خاص گوارہ کیا جائے گا) [13]یا یہ کہ المتعدی افضل من القاصر (جس چیز کا فائدہ متعدی ہوتا ہے وہ اس چیز سے بہتر ہے جس کا فائدہ محدود ہو)[14]
چناں چہ تدریجی انجینئرنگ کا یہ اصول کہ اہم تر برائیوں کو پہلے منتخب کیا جائے اور ان پر توجہات کو مرکوز کیا جائے، اس کے سلسلے میں اسلام میں بڑی واضح رہ نمائی موجود ہے اور برائیوں کے درمیان مراتب کے فرق کا تصور بڑی وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ بلکہ ایسے نہایت واضح اصول بھی موجود ہیں جن کے ذریعے برائیوں کی درجہ بندی کی جاسکتی ہے اور یہ طے کیا جاسکتا ہے کہ کس مرحلے میں کس برائی کے سد باب پر زیادہ توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے؟
تدریجی انجینئرنگ کادوسرا اصول: برائیوں کے خاتمے میں تدریج سے کام لیا جائے
اس اصول کے سلسلے میں ہم علامہ یوسف القرضاوی کا ایک طویل اقتباس یہاں نقل کرتے ہیں۔ فرماتے ہیں:
ہم جس تیسیر (نرمی اور آسانی) کی بات کر رہے تھے اس کے حوالے سے ایک بات یہ ہے کہ تدریج کی سنت کو ملحوظ رکھا جائے جو اللہ کی طرف سے عالمِ تخلیق میں بھی جاری ہے، اور عالمِ تشریع میں بھی۔ اللہ تعالیٰ کے نظامِ تشریع (قانون سازی) میں یہ سنت نماز اور روزے جیسے فرائض کے وجوب میں بھی جاری ہے اور محرمات کی تحریم میں بھی۔اس میں سب سے نمایاں اور معروف مثال شراب کی ہے، جسے کئی مراحل کے بعد حرام کیا گیا۔ اس کی یہ قانونی تاریخ اتنی مشہور ہے کہ دین کا کوئی طالب علم اس سے بے خبر نہیں ہے۔۔۔اگر ہم ایک حقیقی اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں تو ہم یہ خیال تک ذہن میں نہیں لاسکتے کہ ایک فرمان سے یہ کام خود بخود ہو جائے گا یا کوئی بادشاہ، کوئی لیڈر، یا کوئی پارلیمنٹ ایک فیصلہ صادر کرے گی اور اسے سارے لوگ مان لیں گے۔ یہ سب کچھ ایک تدریج کے ساتھ ہی ممکن ہو سکے گا۔میرا مطلب ہے کہ اس کے لیے فکری، اخلاقی اور معاشرتی سطح پر بڑی تیاری کی ضرورت ہوگی اور ان غلط نظاموں کا شرعی متبادل فراہم کرنا ہوگا جن پر باطل کا نظام ایک عرصہ سے قائم اور رائج ہے۔
تدریج سے ہماری مراد یہ نہیں ہے کہ ہم محض بات کو ٹالتے جائیں اور نفاذِ اسلام میں بے جا تاخیر کریں اور تدریج کا بہانہ بنا کر عوام کا اپنے ممالک میں اللہ کا حکم نافذ کرنے اور اس کی شریعت کو عملی جامہ پہنانے کا مطالبہ ٹھنڈا کریں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ہدف کا تعین کیا جائے، اس کی منصوبہ بندی کی جائے اور پوری سمجھ داری سے اس کے لیے مراحل طے کیے جائیں، تاکہ ایک مرحلہ دوسرے مرحلے کے لیے سہارا بن سکے۔ یہ تب ممکن ہوگا کہ جب ہم پھونک پھونک کر قدم رکھیں، نظم و ضبط کے ساتھ آگے بڑھیں اور سارے مراحل میں پختگی کا خاص خیال رکھیں گے، تاکہ یہ سفر اپنے آخری اور فطری مرحلہ کو پہنچے جس میں اسلام کا عملی قیام ہو، مگر پورے کے پورے اسلام کا، نہ کہ اس کے بعض پہلوؤں کا۔یہ وہی طریقِ کار ہے جس پر نبیﷺ جاہلی زندگی کو اسلامی زندگی میں تبدیل کرنے کے لیے عمل پیرا رہے۔ [15]
یہ بات ظاہر ہے کہ اس معاملے میں وہ تدریجی طریقہ جو نبی کریم ﷺ نے اختیار کیا تھا، اُسے اب اختیار کرنا ممکن نہیں ہے۔ آپ ﷺ پر شریعت نازل ہورہی تھی۔ نزول شریعت میں شارع نے تدریج کا لحاظ رکھا لیکن اب جب کہ شریعت مکمل ہوچکی ہے، اس پوری شریعت پر عمل ضروری ہے۔ اس کے کسی حصے کو، وقتی طور پر بھی ہم نظر انداز نہیں کرسکتے لیکن سنت نبوی سے یہ سبق ضرور حاصل کرسکتے ہیں کہ اصلاحی عمل کے دوران، کس بات پر زیادہ توجہ دی جائے، کسے اصلاحی مہم کا اصل ہدف بنایا جائے اس کے سلسلے میں تدریج کا ضرور لحاظ رکھیں۔ علامہ قرضاوی نے اس حوالے سے دور نبوی ﷺکے بعد کی مثالیں بھی نقل فرمائی ہیں۔
“اس سلسلے میں یہ موقف اپنے اندر بڑی معنویت رکھتا ہے جسے مؤرخین نے حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ سے نقل کیا ہے، جنھیں مسلمان علما پانچواں خلیفہ راشد شمار کرتے ہیں اور جو ثانی العمرین کے نام سے مشہور ہیں، کیوں کہ وہ اپنے نانا حضرت عمر فاروقؓ کے نہج پر چل رہے تھے۔ ایک دن ان کے بیٹے نے (جو ایک خدا ترس اور جرأت مند نوجوان تھے) ان سے کہا: ابا جان! آپ شریعت کا مکمل نفاذ کیوں نہیں کرتے؟ خدا کی قسم! مجھے اس بات کی کوئی پروا نہیں کہ مجھے اور آپ کو حق کی خاطر کھولتی ہوئی دیگ میں پھینک دیا جائے!!یہ متقی اور غیور نوجوان اپنے باپ سے، جس کو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے امور کا نگران بنایا تھا، یہ چاہتا تھا کہ وہ مظالم کا قلع قمع کردیں اور فساد و انحراف کو بیک قلم منسوخ کردیں اور اس میں کسی تاخیر اور سستی کا مظاہرہ نہ کریں۔ اس کے بعد جو کچھ بھی ہو سو ہو۔مگر سمجھ دار اور عظیم المرتبت باپ نے کہا: بیٹا! جلدی نہ کرو۔ اللہ تعالیٰ نے دو مرتبہ قرآن میں شراب کی مذمت بیان کی اور تیسری بار جاکر اسے حرام کر دیا۔ مجھے خوف ہے کہ اگر میں نے لوگوں پر حق کو یکبارگی لازم کر دیا تو وہ اسے یکبارگی چھوڑ دیں گے اور یہ ایک بڑا فتنہ ہوگا۔ (الموافقات للشاطبی ۲: ۹۴) خلیفہ راشد کا ارادہ یہ تھا کہ معاملات کو حکمت کے ساتھ حل کریں اور اس میں تدریج سے کام لیں۔ انھوں نے اس سنتِ الٰہی کی پیروی کی جو حرمتِ شراب کے بارے میں اپنائی گئی تھی۔ وہ لوگوں کو گھونٹ گھونٹ کرکے حق پلانا چاہتے تھے اور وہ انھیں ایک ایک قدم اٹھا کر اپنی منزل کی طرف لے جارہے تھے۔ یہی صحیح فقاہت ہے۔”[16]
تدریج میں اس بات کا لحاظ رکھنا بھی ضروری ہے کہ کون سی برائی ایسی ہے، جس پر ضرب زیادہ تر برائیوں کو ختم کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔ مولانا مودودیؒ نےکار تجدید کے جو نو شعبے تجویز کیے ہیں ان میں پہلے دو شعبے یہ ہیں:
“اصلاح کی تجویز، یعنی یہ تعین کرنا کہ اس وقت کہاں ضرب لگائی جائے کہ جاہلیت کی گرفت ٹوٹے اور اسلام کو پھر اجتماعی زندگی پر گرفت کا موقع ملے۔” [17]
مولانا مودودیؒ نےاسلامی تاریخ کے اہم مجددین کے جو کارنامے بیان کیے ہیں ان میں اکثر کے سلسلے میں یہ اشارہ ضرور فرمایا ہے کہ انھوں نے کس طرح اہم برائیوں کی تشخیص کی اور مرحلہ وار ان کے خاتمے کی جدوجہد کی۔ مثلاً حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی ؒکے بارے میں لکھتے ہیں:
“پھر شاہ صاحبؒ نے خرابیوں کے اس ہجوم میں کھوج لگاکر یہ معلوم کرنے کی کوشش کی ہے کہ ان میں بنیادی خرابیاں کون سی ہیں، جن سے باقی تمام خرابیوں کا شجرہ نسب ملتا ہو اور آخر کار دو چیزوں پر انگلی رکھ دی ہے۔ ایک اقتدار سیاسی کا خلافت سے بادشاہت کی طرف منتقل ہونا۔ دوسرے روحِ اجتہاد کا مردہ ہوجانا اور تقلید جامد کا دماغوں پر مسلط ہوجانا۔”[18]
سوشل انجینئرنگ اور سماج کا فہم
سوشل انجینئرنگ کی پہلی ضرورت یہ ہوتی ہے کہ معاشرے کے بارے میں مکمل معلومات ہوں۔ماہرین سماجیات اس کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور اسلامی مصلحین نے بھی اس کو اہمیت دی ہے۔ مولانا مودودیؒ کے نزدیک کار تجدید کا پہلا شعبہ یہ ہے کہ:
“اپنے ماحول کی صحیح تشخیص، یعنی حالات کا پورا جائزہ لے کر یہ سمجھنا کہ جاہلیت کہاں کہاں کس حد تک سرایت کر گئی ہے، کن کن راستوں سے آئی ہے۔ اس کی جڑیں کہاں کہاں اور کتنی پھیلی ہوئی ہیں، اور اسلام اس وقت ٹھیک کس حالت میں ہے۔” [19]
مناسب معلومات کے بغیر سماجی اصلاح کا ٹھوس پروگرام ڈیزائن کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ ہمارے مصلحین عام طور پر اپنے وجدان اور ذاتی مشاہدات و تجربات سے حاصل شدہ معلومات پر انحصار کرتے ہیں۔ لیکن یہ معلومات ہمیشہ قابل اعتماد نہیں ہوتیں۔ ہر انسان کا مشاہدہ محدود ہوتا ہے۔ یہ مشاہدہ خاص علاقے یا زمانے تک ہی محدود نہیں ہوتا بلکہ اپنے علاقے میں بھی آدمی ان طبقات ہی کی سماجی حالت دیکھ پاتا ہے جن کے درمیان وہ رہتا یا کام کرتا رہا ہے۔پھر انسان کے خیالات، رجحانات،مزاج وغیرہ کا بھی اس کے مشاہدہ پر اثر پڑتا ہے۔ بہت سی سماجی کیفیات عام مشاہدے کی دسترس سے باہر ہوتی ہیں۔اس لیے سماجی انجینئرنگ کے ٹھوس منصوبے کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہمارے پاس، ٹھوس سماجیاتی مطالعے کے ذریعے حاصل شدہ قابل اعتماد معلومات اور ڈاٹا ہو۔ اب تک کی بحث کی روشنی میں، خاص طور پر درج ذیل امور سے متعلق معلومات اور ڈاٹا کی اہمیت محسوس ہوتی ہے۔
1. سماجی برائیوں کا علم: سماج میں کون سی برائیاں رائج ہیں؟ کون سی برائیاں کس درجے میں ہیں؟ ان کے سلسلے میں ہمارے پاس متعین سروے، اعداد و شمار اور درست معلومات ہوں تاکہ ہر برائی کو اس کے حقیقی تناسب میں ہم دیکھ سکیں۔
2. سماجی کنٹرول کی معلومات: سماج پر کن قوتوں کا کنٹرول ہے؟ کون سے ادارے سماج کے پورے ڈھانچے کی تشکیل میں کلیدی کردار رکھتے ہیں؟ کن برائیوں میں سماجی کنٹرول کے کن پہلوؤں کا دخل ہے۔ (سماجی کنٹرول پر ہم دسمبر ۲۰۲۰کے اشارات میں گفتگو کر چکے ہیں)
3. سماجی روایات، سماجی عادات وغیرہ کا فہم: کون سی برائیاں سماجی روایات کی حیثیت رکھتی ہیں اور کون سی سماجی عادات کی؟ جو برائیاں رائج ہیں ان میں راست یا بالواسطہ کن روایتوں یا عادتوں کا دخل ہے؟ (روایات اور عادات کی بحث بھی دسمبر ۲۰۲۰کے اشارات میں آچکی ہے)
4. سماجی حساسیت کا فہم: جنوری ۲۰۲۱ کے اشارات میں ہم سماجی حساسیت کو زیر بحث لائے تھے۔ سماجی حساسیت کا بھی مطالعہ ضروری ہے تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن برائیوں کی وجہ صحیح علم کی کمی ہے اور کن برائیوں کا بنیادی سبب علم کے باوجود حساسیت کا فقدان ہے۔
5. برائیوں کی درجہ بندی (hierarchy) اور سماجی عوامل: یہ بڑی اہم اسٹڈ ی ہے جس کے بغیر سوشل انجینئرنگ کی منصوبہ بندی مکمل نہیں ہوسکتی۔ معاشرے میں موجود برائیوں کی پہلے مکمل فہرست بنا لی جاتی ہے۔ اس کے بعد برائیوں کی شناعت اور معاشرے میں ان کے چلن کی کیفیت و کمیت کو سامنے رکھ کر ان کی ترجیحی ترتیب طے کیا جاتی ہے۔ اس کے بعد ایک سانچہ (matrix) بنایا جاتا ہے جس میں ہر برائی کے سلسلے میں یہ متعین کیا جاتا ہے کہ اس کے چلن میں دوسری کون سی برائیوں کا دخل ہے؟ کن سماجی معمولات کا دخل ہےَ؟ کون سے تصورات، روایات یا مفادات اس برائی کو جنم دینے کا سبب بن رہے ہیں؟ اس برائی کا دوسری برائیوں سے کیا رشتہ ہے؟ یعنی یہ برائی دوسری کن برائیوں کی وجہ سے پیدا ہورہی ہے؟ اور کن برائیوں کو جنم دے رہی ہے؟ سماج کے کون سے رجحانات، کون سے بیرونی اثرات اور بدلتی زندگی کے کون سے فطری تقاضے اس برائی کو جنم دینے کا ذریعہ بن رہے ہیں؟ ا س سانچے سے یہ بات ابھر کر سامنے آجاتی ہے کہ کن برائیوں کے خاتمے پر پہلے توجہات مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سانچے سے اصلاح کے طریقہ کار، زبان و بیان و غیرہ کے تعین میں بھی بڑی مدد ملتی ہے۔
6. مستقبلیات: سوشل انجینئرنگ کا منصوبہ صرف آج کے احوال پر نظر رکھ کر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اسے مستقبل کے احوال کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔ اصلاح کے کام کی ایک ضرورت یہ بھی ہے کہ مستقبل پر نظر رکھی جائے۔ یہ دیکھا جائے کہ مسقبل کا سماج کیسا ہوگا؟ اس کے مسائل کیا ہوں گے؟ ٹکنالوجی کیا ہوگی؟ مواصلات کے ذرائع کیا ہوں گے؟ آنے والےد ور کے مسائل کیا سماجی خرابیاں پیدا کریں گے؟ موجود خرابیوں پر آنے والے دور کے احوال کا کیا اثر ہوگا؟ کیا ان کی شدت بڑھے گی یا کم ہوگی؟ مستقبلیات سے متعلق مطالعات کثرت سے شائع ہوتے رہتے ہیں۔ منصوبہ بندی کے ہر عمل میں ان کا استعمال بھی ہوتا ہے۔ لیکن اصلاحِ معاشرہ کے کام میں ان کا استعمال بہت کم ہوپایا ہے۔اس بات کی ضرورت ہے کہ اس استعمال کو فروغ دیا جائے۔ مثلاً اس وقت یہ دیکھنا نہایت ضروری ہے کہ موجودہ سرکار کی پالیسیاں مسلم معاشرے پر مستقبل قریب میں کیا اثر ڈالیں گی؟ یا آگمنٹیڈ ریئلٹی جیسی میڈیا ٹکنالوجی یا بائیوٹیکنالوجی کی جدید ترقیاں سماجی احوال پر کیا اثر ڈالیں گی؟
سوشل انجینئرنگ اور اصلاحی تحریکات
سوشل انجینئرنگ کے غیر سرکاری ذرائع میں سب سے اہم رول سماجی تحریکات کا ہوتا ہے۔ سماجی تحریکات ایک منصوبے کے ساتھ میدان میں آتی ہیں اور برائی کے خاتمے تک اس کا مسلسل پیچھا کرتی ہیں۔ اس وقت این جی اوز اور دیگر مختلف شکلوں میں جو عالمی تحریکیں مسلم سماجوں میں کام کررہی ہیں ان کا طریقہ یہی ہے۔ (اگلی قسطوں میں ان کے سوشل انجینئرنگ کے ماڈل کا جائزہ لیا جائے گا۔ ان شاء اللہ) اس کے برخلاف ہماری اصلاحی تحریکیں نہ صرف غیر منظم اور غیر منصوبہ بند ہوتی ہیں بلکہ زیادہ تر یک طرفہ مواصلات (one way communication) تک محدود ہوتی ہیں یعنی تقریر و لٹریچر کے ذریعے اپنی بات بیان کردینا کافی سمجھا جاتا ہے۔ اوپر کی عبارتوں میں جس اسٹڈی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، اس کے بعد اس کے نتائج کی روشنی میں ترجیحات طے کرکے اور ایک مبسوط منصوبہ بناکر جدوجہدکرنے اور برائی کے خاتمے تک اس کامسلسل تعاقب کرنے کانام در اصل اصلاحی تحریک ہے۔
تحریک اسلامی کو اس معاملے میں پیش قدمی کرنی چاہیے۔ یہ بات تحریک کی فکری اساسیات میں شامل ہے کہ ہم اصلاً امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام کریں گے اور ان امور پر توجہات کو مرکوز کریں گے جو امت میں متفق علیہ ہیں اور ان کو بنیاد بناکر سماج میں اصلاح کی کوشش کریں گے نیز یہ کہ ترجیحات کا جو بگاڑ امت میں پیدا ہوگیا ہے اسے دور کرکے اصل منکرات اور بڑی برائیوں کے خاتمے پر توجہ دیں گے۔ اپنے اس واضح فکر کی وجہ سے، اور جدید علوم و فنون اور وسائل کے استعمال میں وسعت نظری اور پیش قدمی کی صلاحیت کی وجہ سے تحریک اسلامی، آسانی سے سوشل انجینئرنگ کے ترقی یافتہ طریقوں کو منصوبہ بند طریقے سے سماجی تبدیلی کے لیے استعمال کرسکتی ہے اور سماج میں مثبت تبدیلی لانے کے ساتھ ساتھ ان قوتوں کا بھی دفاع کرسکتی ہے جو سوشل انجینئرنگ کے ذریعے مسلم سماج میں طرح طرح کے بگاڑ پیدا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اس کام کے لیے ہمارے مصلحین کو جدید سماجیات اور سماجیاتی طریقوں کو اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سوشل انجینئرنگ کے ان مباحث کی روشنی میں، اصلاحی تحریکوں کا مطلوب طریقہ کیا ہونا چاہیے، اور کن ذرائع کو کن طریقوں سے استعمال کرنا چاہیے، ان سوالات کو ہم اگلے شمارے میں زیر بحث لائیں گے۔ ان شاء اللہ۔
حواشی و حوالہ جات
1. سوشل انجینئرنگ کی تفصیلات کے لیے دیکھیں
Pogorecki et.al. (1996) Social Engineering; Carleton University Press; Ottawa.
2. Campbell, S., & Moghaddam, F. (2018). Social Engineering and Its Discontents: The Case of the Russian Revolution. In B. Wagoner, F. Moghaddam, & J. Valsiner (Eds.), The Psychology of Radical Social Change: From Rage to Revolution (pp. 103-121). Cambridge: Cambridge University Press.
3. Alexandros Lamprou (2015) Nation Building in Modern Turkey; IB Tauris; London
4. Martina Steber and Bernhard Gotto (2014) Visions of Community in Nazi Germany, Social Engineering and Private Lives; Oxford University Press; Oxford UK.
5. Chih Hoong Sin (2002) The Quest for a Balanced Ethnic Mix: Singapore’s Ethnic Quota Policy Examined. Urban Studies. 2002;39 (8): 1347-1374.
6. اس دل چسپ تجربے کی تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں۔
@Smoke Free Success https://www.ashscotland.org.uk/media/2825/Smokefreesuccess07.pdf, retrieved on 12-03-2021
7. صحیح البخاری کتاب الوصایا اورصحیح مسلم، کتاب الایمان؛ رواہ ابو ہریرہؓ
8. مولانا سید ابولاعلی مودودی (۲۰۱۹) تفہیم القرآن؛ جلد اول ؛ ص ۳۴۷ [سورہ نساء حاشیہ ۵۳]
9. مولانا صدر الدین اصلاحیؒ (۱۹۹۱)؛ معرکہ اسلام و جاہلیت؛ ادارہ تحقیق و تصنیف اسلامی، علی گڈھ؛ ص ۱۶۱
10. ڈاکٹر جمال الدین عطیہ (۱۹۹۳)، اسلامی شریعت کا عمومی نظریہ (ترجمہ: مولانا عتیق احمد قاسمی)، اسلامک فقہ اکیڈمی؛ نئی دہلی، ص ۷۶
11. د.محمد مصطفى الزحیلی (۲۰۱۶)؛القواعد الفقهیة وتطبیقاتها فی المذاهب الأربعة؛دارالفکر؛ دمشق؛ ص ۲۱۹
12. ایضاً ص ۲۳۰
13. ایضاً ص ۲۳۵
14. ایضاً ص ۷۲۹
15. علامہ یوسف القرضاوی (۲۰۱۲) دین میں ترجیحات (ترجمہ: گل زادہ شیر پاو)؛؛ منشورات،؛ نئی دہلی ص ۱۳۷، ۱۳۸
16. ایضاً ص ۱۳۸، ۱۳۹
17. مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ؛ (2017) تجدید و احیائے دین؛ مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز؛ نئی دہلی: ص ۳۳
18. ایضاً ص ۶۳
19. ایضاً ص ۳۳