اصلاح معاشرہ و سوشل انجینئرنگ:عملی مثال

اس سلسلۂ مضامین میں ہم نے سوشل انجینئرنگ، اس کے تصورات، عملی طریقے اور معاشرے کی اصلاح میں ان طریقوں کے استعمال کے امکانا ت پر تفصیل سے بحث کی ہے۔ آخر میں ایک عملی مثال کے حوالے سے منظم سماجی اصلاح کے منصوبے کا نمونہ پیش کرکے ہم اس بحث کو فی الحال مکمل کرتے ہیں۔ یہ بات واضح کی جاچکی ہے کہ سماجی انجینئرنگ کا کام ٹھوس تحقیق، تفصیلی معلومات اورمستند ڈاٹا کی پشت پناہی چاہتا ہے جس کے ذریعے گہری منصوبہ بندی ممکن ہوپاتی ہے۔ ہمارا مقصد اس منظم کام کی طرف اپنے قارئین کو متوجہ کرنا ہے۔ معلومات اور ڈاٹا کے بغیر کسی ٹھوس منصوبے کی تشکیل ممکن نہیں ہے۔ یہاں بطور مثال ایک منصوبے کا نمونہ پیش کیا جارہا ہے۔ اس منصوبے کےڈیزائن کے لیے ہم کئی مفروضوں کو بنیاد بنارہے ہیں۔ یہ مفروضے درست بھی ہوسکتے ہیں اور نادرست بھی ہوسکتے ہیں۔ یعنی ریسرچ اور ریسرچ کی بنیاد پر حاصل شدہ مستند ڈاٹا کے بغیر، صرف مشاہدے اور اندازے کی بنیاد پر یہ منصوبہ پیش کیا جارہا ہے۔ کس برائی پر ضرب لگائی جائے؟ یہ بات آچکی ہے[1]کہ تدریجی سوشل انجینئرنگ کا ایک اہم کلیہ یہ ہے کہ ذہانت کے ساتھ ایسی برائی کا انتخاب کیا جائے جس پر ضرب لگانے سے بہت سی دیگر برائیوں کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔یہ کام سنجیدہ ریسرچ چاہتا ہے کہ ایسی برائیوں کی شناخت کی جائے جو دوسری برائیوں کا ذریعہ بن رہی ہیں۔اگر معاشرتی بگاڑ پر نظر ڈالیں تو ہمارا اندازہ یہ ہے کہ معاشرتی برائیوں میں نکاح کا مشکل ہوجانا یا نکاح سے وابستہ تقریبات و فضول خرچیاں ایک بڑی برائی ہے۔ اس برائی کی وجہ سے کئی معاشرتی خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ مثال کے طور پر درج ذیل خرابیو ں کی فہرست پیش کی جاسکتی ہے جن کے فروغ میں نکاح کے مشکل ہونے کا بڑا دخل ہے۔ 1. لڑکوں اور لڑکیوں کی شادیوں میں تاخیر کی وجہ سے ان کے اندر اخلاقی خرابیاں اور جنسی بے راہ روی پیدا ہورہی ہے۔ 2. بین مذہبی اور عدالتی شادیوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ 3. جہیز کی رسم کی وجہ سے وراثت میں حصہ نہیں دیا جاتا اور اسلام کے قانونِ وراثت بلکہ نظام ِوراثت کی پوری عمارت متزلزل ہورہی ہے۔ 4. بہت سے گھرانوں کے لیے شادیاں بڑا معاشی بوجھ بن رہی ہیں اور خطیر سرمایہ مفید کاموں کے بجائے فضول ضائع ہورہا ہے۔ 5. قرضوں اورخاص طور پر سودی قرضوں کا بھی ایک سبب یا تو راست طور پرشادیوں کی تقریبات ہوتی ہیں۔ یعنی لوگ اپنی بیٹیوں کی شادیاں کرنے کے لیےقرض لینے پر مجبور ہوتے ہیں یا پھر بالواسطہ طور پر شادیاں اس کے لیے ذمے دار ہوتی ہیں۔ یعنی جمع پونجی تو شادیوں میں خرچ ہوجاتی ہے پھر بیٹے کے کاروبار یا تعلیم کے لیے یا گھر بنانے یا بیماری کی صورت میں علاج کے لیے قرض لینا پڑتا ہے۔ 6. ماں باپ کے اندر (اورلڑکیوں کے اندر بھی) ذہنی تناو اور نفسیاتی امراض کی نمو ہورہی ہے۔اموات بھی ہونے لگی ہیں، بلکہ خودکشیاں بھی شروع ہوگئی ہیں۔ 7. خوش گوار ازدواجی زندگی میں، یہ مسئلہ ایک بڑی رکاوٹ بن رہا ہے۔میاں بیوی کے درمیان ہی نہیں بلکہ دونوں کے خاندانوں کے درمیان بھی شادی سے متعلق رسوم تنازعات کا سبب بنتی ہیں۔ بعض تنازعات کورٹ کچہری بلکہ قتل و خودکشی پر بھی منتج ہوتے ہیں۔ 8. بہت سی صورتوں میں، لڑکوں پر ان کی بہنوں کی شادیوں کی ذمے داریاں عائد ہوتی ہیں۔اس کی وجہ سے ان کی شادیوں میں تاخیر ہوتی ہے یا شادی کے بعد اپنی بیوی اور بچوں کی ذمےد اریاں اور حقوق ادا کرنے میں دشواری پیش آتی ہے۔ اس سے بھی ازدواجی تنازعات جنم لیتے ہیں۔ 9. لڑکیوں کی پیدا ئش، بعض لوگوں کے لیے باعث تکلیف ہونے لگی ہے۔ لڑکیوں کی پیدائش کو روکنے یا لڑکی کی پیدائش پر ماں کو تنگ کرنے کے رجحانات،مسلم معاشرے میں نسبتاً کم سہی لیکن بڑھنے ضرور لگے ہیں۔ 10. خواتین کے حقوق کے اتلاف کی کئی قسمیں اس مسئلے سے وابستہ ہیں۔ 11. ضیاعِ وقت، رات میں دیر تک جاگنے، نمود و نمائش اور اس جیسی متعدد خرابیوں کا سرچشمہ بھی کئی جگہ شادی کی رسوم ہیں۔ اسلام کی معاشرتی اسکیم میں آسان نکاح کی بڑی مرکزی اہمیت ہے۔عفت و پاکدامنی، عصمت کی حفاظت اور نسل کی حفاظت، اسلام کی ایک اہم قدر ہی نہیں بلکہ ان ’تحفظات خمسہ ‘میں سے ایک ہے جنھیں علمائے دین شریعت اسلامیہ کے مقاصد قرار دیتے ہیں۔ اس لیے اسلام چاہتا ہے کہ لوگ مجرد نہ رہیں۔ وَأَنكِحُوا الْأَیامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِینَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ إِن یكُونُوا فُقَرَاءَ یغْنِهِمُ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ وَاللَّهُ وَاسِعٌ عَلِیمٌ (النور:32) (‘تم میں سے جو لوگ مجرد ہوں اور تمہارے لونڈی غلاموں میں سے جو صالح ہوں، ان کے نکاح کر دو۔ اگر وہ غریب ہوں تو اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے گا۔ اللہ بڑی وسعت والا اور علیم ہے) نکاح کا مشکل ہونا، اسلام کے اس اہم حکم کی تعمیل میں رکاوٹ کا باعث ہے اس لیے اسلام کےمزاج سے راست متصادم ہے۔ اس طرح معاشرتی اصلاح کے لیے ہم نے ایک ایسی بڑی برائی کا انتخاب کیا جو بہت سی برائیوں کا، راست یا بالواسطہ طور پر سبب بن رہی ہے اور جس کی اصلاح سے متعدد معاشرتی خرابیوں کی اصلاح میں مدد مل سکتی ہے۔ اس برائی کے سلسلے میں وعظ و نصیحت، تذکیر و تقریراور جلسو ں ومہمات کے سلسلے تو برسوں سے جاری ہیں لیکن اسے سماجی اصلاح کے سنجیدہ منصوبے کا عنوان بنانے کی ضرورت ہے۔ معاملات، اخلاق، سماجی رویوں وغیرہ امور میں غور و فکر کرکے اور سنجیدہ تحقیق کی بنیاد پر ایسی ہی دیگر بڑی برائیوں کا انتخاب کیا جاسکتا ہے۔ پھر ان کی اصلاح کا ٹھوس منصوبہ تشکیل دیا جاسکتا ہے۔ مستقبل کے اندیشے سماجی برائی کے انتخاب کے لیے جن عوامل کو ہم نے پیش نظر رکھا ہے ان کا تعلق حال سے یا آج کے زمانے سے ہے۔ ہم نے یہ بات بھی عرض کی تھی کہ سوشل انجینئرنگ کا منصوبہ صرف آج کے احوال پر نظر رکھ کر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس کےلیے مستقبل کے احوال کا اور رجحانات کا بھی لحاظ رکھنا پڑتا ہے۔[2] یہ کام بھی سنجیدہ ریسرچ چاہتا ہے۔ تاہم زیر بحث مثال کے سلسلے میں درج ذیل رجحانات کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے اور ان سے ممکنہ مستقبل کا اندازہ ہوتا ہے۔ ۱۔ ہندوستان کا شہری معاشرہ، تیزی سے مغرب کی تہذیبی، معاشرتی اور اخلاقی قدروں کا اثر قبول کررہا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کی پوری طاقت بھی ان قدروں کو مقبول بنانے میں لگی ہوئی ہے۔غیر مسلموں کے متوسط طبقات میں ا ب تیزی سے ’لیو ان ریلیشن‘(live-in relation) اور بوائے فرینڈ، گرل فرینڈ کے فیشن عام ہونے لگے ہیں۔اِن شارٹ کے ایک سروے کے مطابق اسی فیصد ہندوستانی لیو ان ریلیشن کی تائید کرتے ہیں[3] اس سروے پر ہم یقین نہ بھی کریں تب بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ رجحان اب تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے نہ صرف اس کی اجازت دے دی ہے بلکہ یہ بھی صاف صاف کہہ دیا ہے کہ شادی کی عمر سے پہلے، شادی کرنا تو غیر قانونی ہے لیکن ساتھ رہنا اور جنسی زندگی گزارنا قانوناً ممنوع نہیں ہے۔ [4] ہم جنسی بلکہ ہم جنس شادیاں بھی تیزی سے مقبول ہورہی ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ خدا نخواستہ یہ رجحانات مستقبل میں مسلم نوجوانوں پر بھی اثرانداز ہوں گے۔ اخلاقی اور جنسی بے رواہ روی کا چیلنج اور زیادہ شدید ہوگا۔ اس سلسلے میں پائی جانے والی حساسیت کم ہوگی۔ جلد نکاح، ان ممکنہ خرابیوں کے آگے بند باندھنے کے لیے نہایت ضروری ہے۔ اگر نکاح مشکل رہے اور اس میں تاخیر ہوتی رہے تو ان رجحانات کو روکنا کسی کے لیے ممکن نہ ہوگا۔ ۲۔ ہمارے ملک میں مسلم نوجوانوں، خصوصاً لڑکیوں میں بے راہ روی کو عام کرنے اور محبت کی شادی بلکہ شادی سے پہلے ہی گرل فرینڈ کے جھانسے میں ان کو پھنسانے کے لیے نہایت منظم تحریکیں کام کررہی ہیں۔ یہ مسئلہ بھی آئندہ شدید تر ہوگا۔ اس کا حل بھی یہی ہے کہ شادیاں آسان اور جلد سے جلد ہوں۔ ۳۔ جس طرح کے چیلنجوں کا اس وقت مسلم امت کو سامنا ہے اورجس طرح حکومتیں ان کی تعلیمی و معاشی ترقی کی ذمہ داریوں سے کنارہ کش ہورہی ہیں، اس کا تقاضا ہے کہ مسلمان اپنی ترقی پر توجہ دیں۔ اپنے محدود وسائل کو زیادہ سے زیادہ تعلیمی، معاشی، سماجی اور سیاسی ترقی اور حصول قوت کے مقصد پر خرچ کریں۔ شادی کی تقریبات پر بے پناہ خرچ ہر حالت میں ایک برائی ہے لیکن مستقبل میں جن مسائل اور چیلنجوں کا ہمیں سامنا درپیش ہے، اس کے تناظرمیں اس برائی کی شناعت اور اس کے نقصانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ اس لیے نکاح کو آسان سے آسان تر بنانا آج بھی ضروری ہے لیکن مستقبل میں اس کی ضرورت اور شدید ہوجائے گی۔ اس ممکنہ صورت حال کا بھی تقاضا ہے کہ نکاح کو آسان سے آسان تر کرنے کی مہم جلد سے جلد اور تیز سے تیز تر کی جائے اور اسے موثر بنایا جائے۔ فوقی معمول (meta norm) جو آسان نکاح کی راہ میں رکاوٹ ہے ہم نے یہ بات بھی لکھی تھی کہ سوشل انجینئرنگ کی ایک ضرورت یہ ہے کہ اُن بڑے معمولات کو تلاش کیا جائے جو برائی کو فروغ دینے کا سبب بن رہے ہیں اور ان کو ختم کرنےکی کوشش کی جائے۔[5] ہمارا اندازہ یہ ہے کہ آسان نکاح کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ یہ ہے کہ دوسرے سماجوں کے اثرات سے ہمارے یہاں بھی نکاح ایک بہت بڑا جشن(mega celebration )بن گیا ہے۔ اس وقت تو صورت حال یہ ہے کہ ایک سروے کے مطابق ہمارے ملک میں ایک عام آدمی زندگی بھر جو دولت کماتا ہے، اس کا ایک تہائی حصہ شادیوں میں خرچ کردیتا ہے۔یہاں شادیوں کی انڈسٹری ایک بڑی انڈسٹری ہے(تقریباً پچاس بلین ڈالر)۔ اور اس میں، اس مندی کے زمانے میں بھی، تیس فیصد سالانہ کی شرح سے، اضافہ ہورہا ہے[6]۔ ہمارے ملک کی شادیوں کی فضول خرچی بدنام زمانہ ہے بلکہ انگریزی میں محاورہ ہی موجود ہے: Big Fat Indian Wedding۔ یہ ہمارے ملک کی مقامی تہذیب کا اثر ہے جو مسلمان قبول کررہے ہیں اور مسلمانوں میں بھی یہ زندگی کا سب سے بڑا جشن بن چکا ہے۔ چناں چہ لوگ اس کے لیے زندگی بھر جتن کرتے ہیں اورپوری زندگی کی کمائی اس جشن کی نذر کردیتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ایک ادھیڑ عمر کا باپ یہی کہتا پھرتا ہے کہ مجھ پر ایک بیٹی کی یا دو بیٹیوں کی ذمے داری ہے۔ اس لیے کمانا ہے۔ اس لیے اپنے بچوں کو بیرون ملک ملازمت کے لیے بھیجنا ہے۔ گویا نکاح زندگی کا سب سے بڑا بوجھ، سب سے مشکل چیلنج اور سب سے اہم مالیاتی پروجیکٹ بن چکا ہے جو ایک مڈل کلاس فیملی کو اپنی زندگی میں درپیش ہوتا ہے۔پورا سماج اس کے سلسلے میں خصوصی اہتمام کی توقع رکھتاہے۔گھر میں بیٹی ہے تو لوگ پوچھنے لگتے ہیں کہ اس کی شادی کے لیے کیا تیاریاں کی ہیں؟ شادی طے ہوجائے تو ہر ایک پوچھتا ہے کہ تیاریاں کیسی چل رہی ہیں؟ دور و نزدیک کے تمام قرابت داروں کو امید ہوتی ہے کہ انھیں مدعو کیا جائے گا۔ مدعو نہ کیا جائے تو ناراضگی ہوتی ہے۔شادی خانے کا معیار، دعوت کا معیار، جہیز کا معیار، وی آئی پی مدعوئین کی موجودگی، ان سب سے شادی کرنے والے خاندان کی سماجی حیثیت اور مقام و مرتبے کا تعین ہوتا ہے۔کئی خاندانوں میں قریبی مہمانوں کو تحفے دینے یا کپڑے پہنانے کا بھی رواج ہے جو ایک بڑا معاشی بوجھ ہوتا ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ مال دار تاجر، نام ور سیاست دان، بڑے مذہبی قائدین وغیرہ،ان کی تقریبات کو رونق بخشیں۔ اس طرح فوقی معمول پر جو کچھ ہم نے مارچ ۲۰۲۱کے شمارے میں لکھا تھا، وہ یہاں پوری طرح صادق آتا ہے۔ اس فوقی معمول کی وجہ سے سادہ شادی کرنا کسی خاندان کے لیے آسان نہیں ہے۔ شادیوں کو آسان بنانے کے لیے اس بات کی خصوصی مہم چلانے کی ضرورت ہے کہ اس کی یہ میگا سیلبریشن کی حیثیت ختم ہوجائے۔یہ بالکل جاہلی تصور ہے، جس کا دور دور تک اسلام سے تعلق نہیں ہے۔رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں نکاح نہایت آسان اور سادہ تھا۔ رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھی اور عظیم صحابی حضرت عبد الرحمن بن عوفؓ کا نکاح ہوا اور آپ ﷺ کو اس کی خبر بھی نہیں دی گئی۔ [7]اب ہمارے معاشرے میں جہیز وغیرہ کے حوالے سے بیداری لانے کی کوشش تو ہورہی ہے لیکن یہ کوشش نہیں ہورہی ہے کہ اس تقریب کے ساتھ عظیم جشن یا میگا سلیبریشن کی جو کیفیت ہے، اسے ختم کیا جائے۔ بے شک نکاح خوشی کا موقع ہے۔ لیکن ہماری زندگی میں اور بھی بہت سےخوشی کے مواقع آتے ہیں۔ بچے کی پیدائش بھی خوشی کی بات ہے۔ امتحان میں کام یابی، نئی تجارت یا دکان کی شروعات، ملازمت میں ترقی،نئے گھر کی تعمیر یہ سب خوشی کے موقعے ہیں۔ لیکن ان خوشیوں کا جشن منانےکے لیے کبھی ہزار پانچ سو کلومیٹر سے مہمان مدعو نہیں کیے جاتے،نہ اس کے لیے قرض لیاجاتا ہے اور نہ زندگی بھر پیسے جمع کیے جاتے ہیں اورنہ ہی کوئی اس طرح کے کسی جشن میں شرکت کے لیے دوردراز کا سفر کرتا ہے۔ موقع اور فرصت ہو اور دل چاہے تو مٹھائی تقسیم کردیتے ہیں یا اپنی استطاعت کے مطابق ہلکی پھلکی دعوت کردیتے ہیں۔ اورکبھی کچھ نہیں کرتے صرف مبارک بادیاں وصول کرتے ہیں۔نکاح کا معاملہ بھی ایسا ہی سادہ ہونا چاہیے۔ ہماری اصلاحی کوششوں میں دلھن کی جانب سے ضیافت کو تو معیوب باور کرایا جاتا ہے لیکن دولھے کی جانب سے ہونے والی پر تکلف دعوتوں کو بھی ولیمے کے نام پر روا رکھا جاتا ہے۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ ولیمے کی سنت کا مطلب کیا ہے؟ایک صحابیہ روایت کرتی ہیں کہ أَوْلَمَ النَّبِی صلى الله علیه وسلم عَلَى بَعْضِ نِسَائِهِ بِمُدَّینِ مِنْ شَعِیرٍ۔ رسول اللہ ﷺ نے بعض عورتوں سے (نکاح کے بعد) صرف دو مد (تقریباً ایک کلو) جو سے ولیمہ کیا۔[8] ام المومنین حضرت صفیہؓ کے ولیمے کے بارے میں حضرت انسؓ روایت کرتے ہیں کہ وَمَا كَانَ فِیهَا مِنْ خُبْزٍ وَلاَ لَحْمٍ۔ فِیهَا مِنَ التَّمْرِ وَالأَقِطِ وَالسَّمْنِ فَكَانَتْ وَلِیمَتَهُ۔( اس میں نہ روٹی تھی اور نہ گوشت تھا۔ کھجور، پنیر اور گھی رکھ دیا گیا اور یہی نبی ﷺکا ولیمہ تھا۔)[9]۔ اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ مہنگی شادی ایک قبیح سماجی رسم اور بہت سی خرابیوں کے لیے ذمے دار معمول بن چکی ہے۔ شادی کی پرشکوہ تقریب اب ایک انسٹی ٹیوشن بن گئی ہے۔ جب چیزیں انسٹی ٹیوشنلائز ہوجاتی ہیں تو ان میں سماجی جبر شامل ہوجاتا ہے۔ کوئی مطالبہ کرے نہ کرے، ایک عام آدمی پر یہ سماجی جبر ہے کہ وہ اپنے خون کا آخری خطرہ نچوڑکر اپنی بیٹی کی شادی میں پر تکلف دعوت کرے۔ اس لیے اس انسٹی ٹیوشن کواور اس سے وابستہ سماجی جبر کو ختم کرنے کا اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ اس موقع پر استعداد ہو تب بھی پر تکلف دعوت ہر گز نہ کی جائے۔ اب دینی حلقوں میں جشن کی نئی قسمیں ایجاد ہوگئی ہیں۔محفل نکاح میں خطبہ نکاح کے نام پر تقریر کے لیےبڑے مقررین خاص طور پر مدعو کیے جاتے ہیں۔وہ اہتمام سے تشریف لے جاتے ہیں۔ رقعوں میں تمام القابات کے ساتھ ان کا نام نامی شائع کیا جاتا ہے اور ان کے معتقدین انھیں سننے کے مبارک مقصد سے شادی کی تقریب میں بڑی تعداد میں جمع ہوتے ہیں۔ان سب نئی رسموں سے بھی میگا سلیبریشن کا تصور مستحکم ہوتا جارہا ہے۔خطبہ نکاح کا مقصد اس مبارک موقعے پر اللہ کو یاد کرنا اور عاقدین کو یاد دلانا ہے۔ دیگر دعاؤں کی طرح یہ مبارک عمل بھی نہایت سادہ اور آسان ہے۔ لڑکی کا باپ یا آسانی سے دست یاب کوئی بھی مسلمان یہ فریضہ انجام دے سکتاہے۔ اس عمل کو اتنا ہی آسان اور سادہ ہونا چاہیے۔ اس طرح اس بحث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب سے اہم فوقی معمول جو آسان نکاح کی راہ میں رکاوٹ ہے، وہ نکاح کے ساتھ ایک بڑے جشن، بلکہ زندگی کے سب سے بڑے جشن کا وابستہ ہوجانا ہے۔ اخلاقی نقطۂ کور اس سے پہلے ہم واضح کرچکے ہیں کہ بعض اخلاقی مسائل کے سلسلےمیں حساسیت اس لیے نہیں ہوتی کہ سماج میں اُس مسئلے کی موجودگی نظر نہیں آتی یا ارباب حل و عقد اس سے آنکھیں پھیر لیتے ہیں۔[10] اسے ہم نے اخلاقی نقطہ کور(moral blindspot) کا نام دیا تھا۔شادیوں کا ایک بڑا جشن بن جانے کا یہ فوقی معمول بھی اخلاقی نقطہ کور بنا ہوا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جہیز کی رسم کو، دلھن کی جانب سے ہونے والی دعوت کو یا شادیوں میں ناچ گانے وغیرہ کو تو برائی سمجھا جانے لگا ہے لیکن شادی کی پر تکلف تقریب اور اس کے ساتھ وابستہ تکلفات کو عام طور پر مصلحین بھی برائی نہیں سمجھتے۔یہ بھی تحقیق کا موضوع ہے کہ اتنی بڑی اور نقصان دہ رسم کیوں ابھی تک اخلاقی نقطہ کور کی زد میں ہے اور کیوں اس کے سلسلے میں حساسیت پیدا نہیں ہوسکی ہے۔ بہر حال یہ ضروری ہے کہ اس برائی کے سلسلے میں حساسیت پیدا کی جائے اور لوگوں کو اس کے نقصانات دکھائے جائیں۔ شادی کی تقریبات کے مثبت مقاصد ہر سماجی معمول کچھ اچھے مقاصد بھی اپنے اندر رکھتا ہے۔ بلکہ انھی اچھے مقاصد کی خاطر اس کی شروعات ہوتی ہے اور بعد میں دھیرے دھیرے اس کے ساتھ نقصانات وابستہ ہونے لگتے ہیں۔ اصلاحی تحریک اگر ان معمولات کے مثبت پہلوؤں اور اچھے مقاصد کے حصول کے لیے متبادل طریقے فراہم نہ کرے تو انھیں بدلنا آسان نہیں ہوتا۔اس لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ شادی کی پرتکلف تقریب کے مثبت مقاصد (چاہے ان کی حیثیت بہت ذیلی اور جزوی ہی کیوں نہ ہو) کیا ہوسکتے ہیں؟ ان مثبت مقاصد کی تکمیل کے لیے متبادل معمولات کیا فروغ دیے جاسکتے ہیں ؟ شادی کی تقریبات کے ساتھ جشن کے وابستہ ہوجانے کا ایک سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ تقریبات، خاندان کے افراد کے لیے گیٹ ٹوگیدر کا ذریعہ ہوتی ہیں۔بڑھتی مصروفیات اور شہری زندگی کی ہمہ ہمی میں اکثر خاندان کے افراد ایک دوسرے سے برسوں مل نہیں پاتے۔ روزگار اور دیگر مصروفیات کی وجہ سے ایک بڑے کنبے کے خاندان جگہ جگہ منتشر ہوجاتے ہیں اور ایسے خاندان، شادی کی تقریب کے بہانے جمع ہوجاتے ہیں۔ایک دوسرے کی تقریبات میں شرکت کا دباؤ لوگوں کو سفر کرنے اور جمع ہونے پر مجبور کرتا ہے۔ اکثر خاندانوں میں شادیاں ہی خاندان کے اجتماع کا ذریعہ ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ایک مثبت اور اچھامقصد ہے جو ان تقریبات سے حاصل ہوتا ہے۔لیکن بدلتے ہوئے سماجی حالات کے نتیجے میں اب ان تقریبات کا نقصان دہ پہلو ان کے فائدوں پر غالب آگیا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ا ن سے جو فائدے حاصل ہورہے ہیں ان کے لیے کچھ اور طریقے سوچے جائیں اور نئے معمولات کو فروغ دیا جائے۔ مثلاً،ایک معمول جو تحریک سے متعلق ایک بزرگ نے اپنے خاندان میں جاری کیا ہے، وہ مجھے بے حد پسند ہے۔ اس کے بہت سے فائدے ہیں۔انھوں نے اپنے خاندان کو باقاعدہ ایک تنظیم کی شکل دی، خاندان کے بڑے لوگوں پر مشتمل ٹرسٹ قائم کیا، اس کے تحت فنڈ قائم کیا، اور سال میں ایک دفعہ اس ٹرسٹ کے تحت اپنے کنبے سے متعلق تمام خاندانوں کو وہ جمع کرتے ہیں اور باقاعدہ اجتماع کی شکل دیتے ہیں۔ اس موقع پر کسی اہم بیرونی شخصیت کو بھی مدعو کیا جاتاہے۔ کچھ اصلاحی پروگرام ہوتے ہیں۔ بچے اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ امتحانات اور مقابلوں میں نمایاں کارکردگی کرنے والے بچوں کو انعامات دیے جاتے ہیں۔ بڑوں کے اہم کارناموں کو بھی نمایاں کیا جاتا ہے۔مردوں، عورتوں کی، متعین ایجنڈے کے ساتھ، باقاعدہ نشستیں ہوتی ہیں۔ خاندان کے مشترک مسائل زیر غور آتے ہیں۔ کسی کے معاشی یا کسی اور قسم کے مسائل ہوں تو مشترک فنڈ سے یا خاندان کے دیگر افراد کے تعاون سے ان کے حل کی راہیں نکالی جاتی ہیں۔ اس طرح یہ سالانہ تقریب جہاں ملاقاتوں کا ذریعہ بنتی ہے وہیں، افراد خاندان کے مسائل حل کرنے کا، بچوں میں سیکھنے اور آگے بڑھنے کی ترغیب اور ہمت افزائی کا، اچھے نمونوں کو سامنے لانے کا، اور اصلاح و تربیت کا بھی ذریعہ بنتی ہے۔ اس کا خرچ مشترک فنڈ سے اور حسب سہولت پورا کیا جاتا ہے اس لیے کسی خاندان پر بوجھ نہیں بنتا۔ سماجی اصلاح کی خاطر پرانے معمولات کی جگہ نئے معمول کی تخلیق اور اس کی ترویج کی یہ بہت اچھی مثال ہے۔ اگر یہ معمول مستحکم ہوجائے اور اس سالانہ پروگرام میں شرکت ضروری ہوجائے تو خود بخود شادیوں کی تقریبات میں شرکت کم ہوجائے گی۔ اور جو مثبت مقصد اس پرانے معمول سے، یعنی شادی کی تقریبات سے حاصل ہوتا تھا، وہ بھی زیادہ آسانی سے حاصل ہوسکے گا۔ہوسکتا ہے اس طرح کا نظام تمام خاندانوں کے لیے ممکن نہ ہو۔ ہم اسے صرف ’متبادل معمول‘(alternative social norm) کی وضاحت کے لیے بطور مثال پیش کررہے ہیں۔یہ سماجی مصلحین کی ذمے داری ہے کہ وہ غور کرکے ایسے نت نئے بہتر متبادلات اور بہتر و قابل عملِ معمولات تجویز کریں اور انھیں فروغ دینے کی کوشش کریں۔ عملی و شرعی مشکلات اور ان کا حل آسان نکاح کا مطلب صرف نکاح کی تقریب کا آسان ہونا نہیں ہے بلکہ نکاح کی راہ میں درپیش سماجی، تہذیبی اور قانونی رکاوٹوں کا بھی ممکنہ ازالہ ضروری ہے۔ ادھیڑ عمر آدمی نکاح کرنا چاہے تو اس کے بچے اور سماج رکاوٹ نہ بنے۔ مطلقہ اور بیوہ نکاح کرنا چاہے تو اسے لوگوں کی ناپسندیدگی اور طنز و تشنیع کا خوف نہ ہو۔آسان نکاح کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ زوج کے انتخاب کے لیے امکانات کا دائرہ وسیع ہو۔ ذات پات، کفو کی غلط تعبیر، معیار زندگی سے متعلق مادہ پرست تصورات وغیرہ کی وجہ سے بہت سے خاندانوں میں یہ دائرہ بے حد محدود ہوجاتا ہے اور اس سے بھی نکاح مشکل ہوجاتا ہے۔ کم عمری میں نکاح کی راہ میں ایک بڑی مشکل یہ ہے کہ بلوغ کے ایک لمبے عرصے کے بعد ہی لڑکے تعلیم مکمل کرتے ہیں اور اپنے پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں۔اب لڑکیاں بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کررہی ہیں۔ اگر جلد شادی کردی جائے اور خانہ داری کی ذمے داریاں کندھوں پر آجائیں تو تعلیم کا حصول مشکل ہوجاتا ہے۔اس وجہ سے بعض لوگ لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم کی مخالفت کرتے ہیں۔ لیکن اعلیٰ تعلیم،لڑکوں اور لڑکیوں دونوں کے لیے، ہماری ایک اہم سماجی ضرورت ہے۔ (اس کی تفصیل کا یہاں موقع نہیں ہے) اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ نکاح سے نہ لڑکے کی تعلیم رکے اور نہ لڑکی کی، اس کا انتظام ضروری ہے۔علمائے کرام اس پر غور کریں اور شریعت کی رہ نمائی میں، ممکن ہو تو ایسا راستہ نکالیں کہ تعلیم کو منقطع کیے بغیر بھی لڑکے لڑکیاں نکاح کے بندھن میں آسکیں۔ کیا ایسی صورت ممکن ہے کہ تعلیم مکمل ہونے اور لڑکے کے صاحبِ روزگار ہوجانے تک لڑکے اور لڑکی کی ذمے داری ان کے ماں باپ بدستور سنبھالیں؟ مقصد یہ ہو کہ بچے جائز رشتے میں بندھ جائیں۔ گرل فرینڈ نہیں جائز شرعی بیوی سے اسلام کے منشا کے مطابق سکون حاصل کریں۔ کم عمری میں نکاح سے بھی بہت سی خرافات خود بخود کم ہوں گی۔عرب اورمغربی ملکوں میں علما نے اس سلسلے میں کچھ فتوے دیے ہیں[11]۔ ہمارے ملک میں اسلامی فقہ اکیڈمی نے نکاح میں ایسی شرطوں کی اجازت دی ہے جن سے نکاح کے مقاصد پر کوئی ضرب نہ لگتی ہو۔ [12]ان سب باتوں کو سامنے رکھ کر شریعت کے دائرے میں قابلِ عمل حل ڈھونڈنا اب ایک بڑی سماجی ضرورت بن گئی ہے ورنہ بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا فتنہ اب مسلمان خاندانوں کے دروازوں پر بھی دستک دے رہا ہے۔ اصلاح کی زبان اخلاقی حساسیت کے سلسلے میں اصلاح کی زبا ن کی کیا اہمیت ہے، یہ ہم واضح کرچکے ہیں۔[13]احادیث رسول ﷺ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ جن برائیوں کے بارے میں سوسائٹی میں حساسیت کی کمی تھی، ان کے بارے میں حساسیت پیدا کرنے کے لیے، رسول اللہ ﷺ نے، خاص زبان کا استعما ل کیا۔ مثلاً عربوں میں سود کا رواج عام تھا اور اسے بڑی برائی نہیں سمجھا جاتا تھا۔ آپ ﷺنے فرمایا: الربا سبعون حوبا أ یسرها أن ینکح الرجل أمه (سود کے ستر گناہ ہیں ان میں سے ادنٰی ایسا ہے جسے کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔)[14] جس گناہ سے آپ ﷺ نے سود کا موازنہ فرمایا ہے وہ اس معاشرے میں بھی رذالت اور اخلاقی گراوٹ کی انتہا سمجھا جاتا تھا۔چناں چہ اس برائی کے سلسلے میں پائی جانے والی نفرت و کراہیت کو استعمال کرکے آپ ﷺنے سود کے سلسلے میں بھی یہ حساسیت پیدا کی کہ یہ بھی شدید اخلاقی گراوٹ کا مظہر ہے۔ یوم حج اور شہر مکہ کی حرمت عربوں کے نزدیک مسلم تھی۔ اس حرمت کی پامالی کو وہ شدید جرم سمجھتے تھے۔ حجتہ الوداع کے موقعے پر اپنے مشہور خطبے میں آپ نے ارشاد فرمایا۔ فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَینَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ یوْمِكُمْ هَذَا، فِی شَهْرِكُمْ هَذَا، فِی بَلَدِكُمْ هَذَا (بے شک تمہارا خون، تمہارے اموال، اور عزت و آبرو، ایک دوسرے پر اسی طرح حرام ہے جس طرح تمہارے اس شہر میں، اس ماہ میں اس دن کی حرمت ہے) [15]بعض حدیثوں میں آپ ﷺ نے بعض گناہوں کے لیے شدید وعیدیں سنائی ہیں۔ ان کا مقصد بھی ان گناہوں کے سلسلے میں حساسیت پیدا کرنا ہے۔ بعض اخلاقی تعلیمات کے سلسلے میں لوگوں کو حساس بنانے کے لیے انسانوں کے جذبات کا نہایت خوب صورتی سے استعمال فرمایا ہے۔مثلاً ہر انسان چاہتا ہے کہ اس کے عیوب بے نقاب نہ ہوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: من ستر مسلماً ستره الله فی الدنیا والآخرة (جس نے کسی مسلمان بھائی کے عیب کی پردہ پوشی کی اللہ تعالیٰ دنیا اور آخرت میں اس کے عیوب پر پردہ ڈالے گا)[16] یہ اسلوب قرآ ن مجید نے بھی اختیار کیا ہے۔ مثلاً غیبت کو قرآن ایک ایسے کریہہ عمل سے تشبیہ دیتا ہے جس سے ہر انسان شدید کراہیت محسوس کرتا ہے۔وَلَا یغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَیحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن یأْكُلَ لَحْمَ أَخِیهِ مَیتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے کیا تمہارے اندر کوئی ایسا ہے جو اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھانا پسند کرے گا؟ دیکھو، تم خود اس سے گھن کھاتے ہو۔ الحجرات ۱۲) ان باتوں کو سامنے رکھ کر اصلاح کی ایک ایسی زبان تخلیق کرنے کی ضرورت ہے جس سے ان رسوم کی شناعت واضح ہو، اور ان کے سلسلے میں لوگ حساس ہوجائیں۔ ہماری مروج زبان میں بعض ایسی باتیں بھی ہوتی ہیں جن سے بالواسطہ طور پر برائی کے استحکام میں مدد ملتی ہے۔ مثلاً باپ کی ذمے داریوں میں لڑکے کے حوالے سے زیادہ ذکر تعلیم و تربیت کا ہوتا ہے لیکن لڑکی کے حوالے سے اس کی شادی کا ہوتا ہے۔ یا کسی کو نکاح کی ترغیب دینے کے لیے کہا جاتا ہے،“آپ کی شادی کی دعوت یا بریانی کا انتظار ہے۔” ایسے جملوں، محاروں، کہاوتوں اور اصلاحی مواعظ کی ایسی زبان کی بھی شناعت درکار ہے جو اس برائی کو مستحکم کرنے کا ذریعہ بنتی ہے۔ دیگر سماجی عوامل نکاح کو آسا ن بنانے اور جہیز اور دیگر خرافات کے خاتمے کے لیے درج ذیل سماجی عوامل (social factors) پر بھی توجہ ضروری ہے۔ ۱۔ لڑکیوں کی تعلیم:  جہیز کی رسم کے پیچھے یہ احساس کا رفرما ہوتا ہے کہ لڑکیاں ’بیچاری‘ ہیں۔ ان سے نکاح کرکے ہم ان کو ’سہارا‘ دے رہے ہیں۔ گویا ان پر احسان کررہے ہیں۔(ہماری زبان میں بھی اکثر یہ لہجہ آجاتا ہے۔ مثلاً بیواؤں کی شادیوں کو خاص طور پر ان پر احسان سمجھا اور باور کرایا جاتا ہے) لڑکے کی تعلیم پر خرچ کیا گیا ہے جس کا فائدہ لڑکی کو بھی ملنے والا ہے۔ اس لیے اس ’احسان کی قیمت‘ یا لڑکے پر ہوئی سرمایہ کاری کا منافع حاصل کرنے میں ہم حق بجانب ہیں۔ان تصورات کا بھی خلاف اسلام ہونا ظاہر ہے۔اسلام کے نزدیک نکاح ایک معاہدہ ہے۔ خاندان کے لیے عورت اور مرد دونوں کی ضرورت ہے اور دونوں کا رول ہے۔ دونوں ایک دوسرے کا لباس ہیں۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے باعثِ سکون ہیں۔ اس لیے نکاح کرکے دونوں نے ایک دوسرے پر احسان کیا ہے۔ ا س تصور کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ لڑکی بھی تعلیم یافتہ ہوگی تو اس سے غلط تصور کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ ۲۔تقسیم وراثت کے اسلامی نظام کا احیا:  اگر وراثت کی شرعی لحاظ سے تقسیم ہو اور لڑکی کو اس کا حصہ ملے تو اس سے بھی جہیز کے لیے عام طور پر پیش کیے جانے والے اہم جواز پر ضرب لگے گی۔ جہیز کا ایک اہم محرک یہ بھی ہوتا ہے کہ لڑکی کو اور اس کے خاندان کو باپ کی دولت میں حصہ ملے۔ اگر اسے باقاعدہ طور پر شرعی حصہ مل جائے یا ملنے کی ضمانت ہو تو اس سے بھی اس رسم کو ختم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ۳۔ ذات پات کا نظام:  بدقسمتی سے مسلمانوں کے کئی طبقات میں آج بھی ذات پات کے تصورات موجود ہیں۔ ان تصورات کی وجہ سے شادی کے لیے حلقہ انتخاب بہت محدود ہوجاتا ہے۔ اس سے لڑکوں کا ڈیمانڈ بھی بڑھ جاتا ہے اور شادیوں میں تاخیر بھی ہوجاتی ہے۔ کفو کے نام پر اس نظام کو باقی رکھنے کی کوششوں کی شدید ہمت شکنی ضروری ہے۔ ۴۔ بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کی شادیوں کی آسانی، خلع و طلاق میں آسانی:  عہد رسالت اور عہد صحابہ میں بیواؤں اور مطلقہ عورتوں کی شادیاں آسانی سے ہوجاتی تھیں۔ اس لیے عورتوں کا ڈیمانڈ ہمیشہ رہتا تھا۔ طلاق کے بعد دوسری شادی آسان ہونے کی وجہ سے طلاق اصلاً مرد کے لیے باعث نقصان تھی۔ آسان نکاح کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ نکاح ناکام ہونے کی صورت میں (طلاق و خلع کے ذریعے) جدائی میں اور دوبارہ نکاح میں بڑی دشواری درپیش نہ ہو۔ لیو ان ریلیشن کے حق میں دلیل یہی دی جاتی ہے کہ شادی کے بعدنبھ نہ سکے تو علیحدگی آسان نہیں ہوتی اسلام نے نکاح کو بھی بے حد آسان رکھا۔شرط بس یہ ہے کہ ازدواجی رشتے کے ساتھ ذمے داریاں وابستہ رہیں۔رشتے کو توڑنا بھی اتنا مشکل نہیں ہے جتنا ہمارے معاشرے نے بنادیا ہے۔ علیحدگی کے عمل میں بھی فطری مراحل کے ساتھ آسانیاں پیدا کی گئی ہیں۔ نکاح، طلاق، خلع، بیواؤں اور مطلقات کے نکاح و غیرہ اسلامی مزاج کے مطابق ہونے لگیں تو اس سے ازدواجی زندگی نہایت آسان ہوگی اور نکاح کا رشتہ قائم کرنے میں دیر اور مشکل پیش نہیں آئے گی۔ ہم نے عرض کیا تھا کہ مختلف سماجی عوامل کے درمیان کیا تعلق ہے؟ اور زیر بحث برائی میں کس عامل کا کیا رول ہے؟ اس کی واضح سمجھ بھی سوشل انجینئرنگ کی ایک نہایت اہم ضرورت ہے۔ اس کے لیے باقاعدہ سانچے (matrices) بنائے جاتے ہیں۔اس بحث کی روشنی میں، ایک سانچہ بطور مثال چارٹ نمبر ایک میں پیش کیا جارہاہے۔ ریفرنس گروپ کی شناخت اور ان پر کام سماجی تبدیلی کے لیے ضروری ہے کہ مختلف معمولات اور روایات کی پشت پر موجود ریفرنس گروپوں کی شناخت کی جائے اور ان پر محنت کی جائے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ شادی بیاہ سے متعلق معاملات میں سب سے اہم ریفرنس گروپ خواتین کا گروپ ہے، خاص طور پر درمیانی عمر کی اور معمر خواتین جو خاندانوں کی روایات اور تقریبات و غیرہ پر اکثر غیر معمولی کنٹرول رکھتی ہیں اور کئی صورتوں میں مرد بھی ان کے دباؤ کے آگے بے بس ہوتے ہیں۔ ہر خاندان میں دو چار خواتین، تبدیلی کے لیے تیار ہوجائیں تو خود بخود تبدیلی کا عمل شروع ہوسکتا ہے۔ خواتین کے درمیان کام کرنے والی اصلاحی تنظیمیں ہر شہر اور قصبے میں خواتین کے ایسے گروپ تشکیل دے سکتی ہیں جو مستقل ان باتوں کی طرف متوجہ ہوں اور آسان نکاح کے لیے صرف بیداری ہی نہ لائیں بلکہ شدید سماجی دباؤ بھی پیدا کریں۔ نوجوانوں کے خصوصی گروپوں کا قیام خواتین کے ساتھ ساتھ، ان مسائل پر نوجوان بھی اہم رول ادا کرسکتے ہیں۔ بعض مقامات پر نوجوانوں کی مقامی تنظیموں نے، اس محاذ پربہت نمایاں کردار اداکیا ہے۔ ہر مسلم محلے اور گاؤں میں اس فریضے کو انجام دینے کے لیے نوجوانوں کی تنظیمیں، گروپ یا ٹولیاں منظم کی جاسکتی ہیں جو مستقل برائی کے خاتمے کی جد و جہد کریں۔ اپنے محلے یا گاؤں میں مستقل مصلح اور نگراں کا کردار ادا کریں۔ برائیوں کی روک تھام کے لیے پر امن لیکن زبردست دباؤ پیدا کرنے والے طریقے اختیار کریں۔ بااثر افراد کا عمل سیاسی قائدین، سماجی رہ نما، اہم دانش وران و صحافی، علمائے کرام، دولت مند افرادوغیرہ کا عمل بھی عام طور پر سماجی روایات اور معمولات کو بنانے اور بگاڑنے میں اہم رول ادا کرتا ہے۔ اگر ہر شہر یا گاؤں میں، قلیل تعداد میں ہی سہی، لیکن بااثر افراد،اس ارادے کے ساتھ آگے بڑھیں کہ وہ شادی کی پرتکلف تقریبات میں شرکت نہیں کریں گے ، اور اپنے گھروں کی شادیوں کو حد درجہ سادہ بنائیں گے تو اس سے بھی تبدیلی کا عمل نہایت آسان ہوجائے گا۔ مصلحین کے منصوبے میں ہر جگہ ایسے بااثر افراد کو تیار کرنا اور انھیں سادہ اور مثالی شادی کے لیے آمادہ کرنا شامل ہونا چاہیے۔ ادارہ جاتی تعاون آسان نکاح کےلیے تعاون کی غرض سے ادارہ جات کا قیام بھی اس سلسلے میں اہم رول ادا کرسکتا ہے۔ بعض ادارے اجتماعی شادیوں کا انتظام کرسکتے ہیں۔ بعض ادارے اس مقصد کے لیے قائم کیے جاسکتے ہیں کہ وہ اسلامی طریقے سے شادی کے خواہشمند لڑکوں اور لڑکیوں کےلیے رشتے جوڑیں گے۔ کونسلنگ کے مراکز قائم کیے جاسکتے ہیں جو تبدیلی کے لیے مردوں، عورتوں، لڑکوں، لڑکیوں کی ذہن سازی بھی کریں اور اس کام میں ان کی مدد و رہ نمائی بھی کریں۔ مسلم علاقوں میں آج بھی لڑکیوں کی شادیوں میں مدد کرنے کے لیے طرح طرح کے فنڈ قائم ہیں اور غیر رسمی طور پر بھی لوگ مدد کرتے ہیں۔ یہ نہایت نقصان دہ عمل ہے اور اس سے جہیز اور شادی کی تقریبات میں خرچ کی ہمت افزائی ہوتی ہے۔ اس کے مقابلے میں اس بات کی ضرورت ہے کہ شادی کے خواہش مند لڑکوں کی مدد کی جائے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑے ہوسکیں، گھر بسانے کے لیے اور مہر کی ادائیگی کے لیے (شادی اور ولیمے کی تقریب کے لیے نہیں) اُن کی مدد کی جائے یا قرض فراہم کیا جائے۔ سماج کے مختلف ادارو ں اور طبقات کی جانب سے مشترکہ مہم گذشتہ شمارے میں باطل طاقتوں کی سماجی تبدیلی کی جس مہم کا ہم نے ذکر کیا تھا، اس میں یہ بات بھی واضح کی تھی کہ تبدیلی کے اس عمل میں ان طاقتوں کا تعاون سماج کے تمام طبقات حتی کہ کارپویٹ کمپنیاں تک کرتی ہیں۔ مسلم سماج میں بھی اس بات کی ضرورت ہے کہ اصلاح کا عمل ایک ہمہ گیر عمل بنے اورسماج کےمختلف عناصر اس میں اپنا رول ادا کریں۔ منسلک چارٹ (چارٹ نمبر ۲) میں واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ سماج کے مختلف عناصر اس سلسلے میں کیا رول ادا کرسکتے ہیں؟ علمی و تحقیقی پشت پناہی سوشل انجینئرنگ کی سب سے اہم خصوصیت یہی ہوتی ہے کہ یہ کام علمی و تحقیقی بنیادوں پر آگے بڑھتا ہے۔ ایسا تحقیقی ادارہ اور تھنک ٹینک درکار ہے جو متعلق سماجی مسائل پر مسلسل تحقیق و مطالعہ کرتا رہے۔زیر بحث مثال میں آسان نکاح کو یقینی کیسے بنایا جاسکتا ہے؟ اس کے لیے ذمے دار معمولات کیا ہیں؟ ان معمولات کو کیسے تبدیل کیا جاسکتا ہے؟ ان سب کے حوالے سے عام مشاہدے کی بنیاد پر چند باتیں ہم نے عرض کی ہیں۔ مذکورہ تھنک ٹینک ان امور پر سنجیدہ مطالعات کرائے گا۔ اصلاحی کوششوں کا جائزہ لےگا۔ ان کے نتائج کی پیمائش کرے گا۔ مطالعے کی روشنی میں اصلاحی عمل کو بہتر بنانے کے لیے مفید مشورے دے گا۔ کوششیں آگے بڑھیں گی تو ان کے نتائج کا ٹھوس علمی بنیادوں پر جائزہ لے گا۔ ان کوششوں میں مطلوب اصلاحات اور انھیں زیادہ موثر بنانے کی تدابیر تجویز کرتا رہے گا۔ اس طرح مطالعہ و تحقیق کی ٹھوس بنیادوں پر اصلاحی عمل آگے بڑھے گا۔ تحریک اسلامی کا مطلوبہ رول اسلامی معاشرہ کی تشکیل تحریک اسلامی کا ایک نہایت اہم ہدف ہے۔ اس کے لیے ہر سطح پر اسلامی معاشرہ کے شعبے سرگرم ہیں۔ اصلاح معاشرہ کا کام، مسلم معاشرے میں بہت روایتی کام بن گیا ہے اور تقریروں و جلسوں تک محدود ہوکر رہ گیا ہے۔ کسی زمانے میں ان تقریروں اور جلسوں نے بھی بہت اہم رول ادا کیا ہے، لیکن اب یہ جلسے اس قدر رسمی بن گئے ہیں کہ ان سے کسی بڑی تبدیلی کی توقع بہت کم ہے۔ تحریک اسلامی سے وابستہ افراد کی ذمے داری ہے کہ وہ اصلاح معاشرہ کے عمل کو سنجیدہ غور و فکر اور تحقیق کی بنیادوں پر آگے بڑھائیں۔اصلاح کے عمل میں ترجیحات کا شعور اور اصلاح کے طریقوں میں سوشل انجینئرنگ کے مسلمہ اصولوں اور ذرائع کے استعمال کو فروغ دیں۔ اس کے لیے علمائے دین اور سماجی مصلحین نیز، سماجی محققین اور سماجی علوم کے ماہرین کے درمیان بہتر تال میل اور اشتراک کی فضا پیدا کی جائے۔ حواشی و حوالہ جات اصلاح معاشرہ اور سوشل انجینئرنگ ، ماہ نامہ زندگی نو، دہلی، اپریل۲۰۲۱ ایضاً https://www.news18.com/news/lifestyle/more-indian-women-supporting-live-in-relationships-survey-1754575.html دیکھیں: Judgment By Justice A.K. SIkri and justice Ashok Bhushan (April 20, 2018) in Nandakumar v. the State of Kerala. اصلاح معاشرہ اور سماجی معمولات، ماہ نامہ زندگی نو، دہلی، مارچ ۲۰۲۱ https://www.cnbctv18.com/retail/the-recession-proof-big-fast-indian-wedding-just-got-more-corporatised-1012991.htm صحیح البخاری؛ کتاب النکاح؛ باب الصفرۃ للمتزوج؛ رواہ انس بن مالکؓ صحیح البخاری؛ کتاب النکاح؛ باب من اولم باقل من شاۃ؛ رواہ صفیۃ بنت شیبۃ صحیح البخاری؛ کتاب النکاح؛باب بناء العروس فی السفر؛ رواہ انس بن مالکؓ اصلاح معاشرہ۔ اخلاقی تصور اور اخلاقی حساسیت؛ زندگی نو؛ جنوری ۲۰۲۱ مثلاًدیکھیں: الشیخ یوسف القرضاوی؛ (۲۰۰۵) زواج المسیار: حقیقتہ و حکمہ؛ مكتبة وهبة للطباعة والنشر؛ قاہرہ مولانا مجاہد الاسلام قاسمی (۲۰۰۹) مشروط نکاح (اسلامی فقہ اکیڈمی کے چوتھے مذاکرے کے مقالات)؛ ادارہ القرآن والعلوم الاسلامیہ؛ کراچی اصلاح معاشرہ۔ اخلاقی تصور اور اخلاقی حساسیت؛ زندگی نو؛ جنوری ۲۰۲۱ ابن ماجہ، السنن، 2 : 764، رقم : 2274، دار الفکر بیروت: وصححه الألبانی فی صحیح الجامع الصغیر صحیح البخاری؛كتاب الحج؛باب الخطبة أیام منى؛ رواہ عن ابن عباسؓ صحیح مسلم؛ كتاب الذكر والدعاء والتوبة والاستغفار،باب فضل الاجتماع على تلاوة القرآن وعلى الذكر۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: