ہندتو سے متعلق بعض اہم مباحث کو مکمل کرنے کے بعد گذشتہ مہينے سے ہم اُن موضوعات پر گفتگو کررہے ہيں جنھيں ہمارے خيال ميں، ہندتو کے زير اثرہندوستان ميں پوري قوت سے اٹھانے اور زير بحث لانے کي ضرورت ہے۔ ان مباحث کا اصل محرک ہمارا يہ يقين ہے کہ ملک کي موجودہ افراتفري اور فتنہ و فساد کا واحد حل يہي ہے کہ مسلم امت، اسلامي تعليمات کي روشني ميں، ہندتو کے مقابلے ميں ايک واضح نظرياتي موقف اختيار کرے اور اسے اپنے سياسي و سماجي ڈسکورس کي بنياد بنائے۔ يہ امت مسلمہ کي اصل ذمے داري بھي ہے۔ اس سلسلے کے تحت گذشتہ شمارے ميں تکثيري سماج کے تقاضوں کو زير بحث لاتے ہوئے ہم نے کچھ معروضات اور تجاويز پيش کي تھيں۔ اس ماہ ہمارے پيش نظر ايک ايسا موضوع ہے جو اس ملک ميں صديوں سے مباحث ہي کا نہيں بلکہ طاقت ور عوامي تحريکوں کا بھي عنوان رہا ہے ليکن اس کے باوجود يہ مسئلہ آج بھي اس ملک کا ايک سلگتا ہوا مسئلہ ہے۔ ہندتو کي تفرقہ پرداز سياست نےاس مسئلے کي سنگيني اور اہميت بے انتہا بڑھادي ہے۔
سماجي مساوات کا حصول يا سماجي نابرابري کا خاتمہ، ہمارے ملک کا انتہائي بنيادي ايشوہے۔ يہ وہ لعنت ہے جس نے کروڑوں انسانوں کو صديوں سے جانور وں جيسے سلوک کا شکار بنائے رکھا ہے اور انھيں اُن بنيادي حقوق، آزادي اور عز و شرف سے محروم کر رکھا ہے جو ہر انسان کا پيدائشي حق ہے۔ اس لعنت کے خاتمے کے ليے، اصلاح کي متعدد تحريکيں تاريخ کے مختلف ادوار ميں اٹھيں ليکن کام ياب نہيں ہوسکيں۔ آزادي کے بعد بھي اس بيماري کي اصلاح کے ليے متعدد کوششيں ہوئي ہيں ليکن يہ آج بھي ہندوستاني سماج کا ناسور بني ہوئي ہے۔ ہندتو کي سياست نے اس ناسور کو اور گہرا اور زہر ناک بناديا ہے۔ ہمارا اندازہ يہي ہے کہ ملک کے موجودہ حالات، جن اصلاحات کے ليے راہ ہم وار کريں گے، ان ميں اہم ترين اصلاح سماجي برابري سے متعلق ہوگي۔ عدل ومساوات کي حامي قوتوں کے ليے يہ ايک اہم موقع ہے کہ وہ اس لعنت کو ختم کرنے کا بيڑا اٹھائيں اور خاص طور پر اہل اسلام، اس ملک ميں مساوات اور برابري کے سب سے بڑے علم بردار بن کر ابھريں۔
موجودہ صورت حال
آج بھي ہندوستان ميں دلت اور ديگر پس ماندہ طبقات، جس ظلم، زيادتي، نابرابري اور تحقير و تذليل کا شکار ہيں، اس کا اندازہ کرنا بھي ديگر لوگوں کے ليے دشوار ہے۔ آزادي کے پچہتر برس بعد اور دستور کے نفاذ کے ستر برس بعد بھي، ذات پات کي تفريق پورے ملک ميں ايک ٹھوس حقيقت بني ہوئي ہے۔ ملک کي کئي رياستوں ميں دلتوں کے ساتھ ناانصافي کي مختلف قسميں رائج ہيں۔ عوامي استعمال کي سرکاري سہولتوں (کنواں، بورويل، سڑک، ہسپتال، بلکہ عدالت تک) سے استفادے سے انھيں جبرًا روکا جاتا ہے۔ حجام، دھوبي وغيرہ کي خدمات حاصل کرنے کي انھيں اجازت نہيں دي جاتي۔ اُن کے رہائشي علاقے، ديہاتوں ميں ہي نہيں بلکہ شہروں تک ميں الگ رکھے جاتے ہيں۔ ان علاقوں کو شہري سہولتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ باعزت يا زيادہ نفع بخش پيشوں کے دروازے ان پر بند رکھے جاتےہيں اور اُن پيشوں کے ليے انھيں مجبور کيا جاتا ہے جو حقير سمجھے جاتے ہيں (صفائي، گندگي اٹھانا، مردار جانوروں کو ٹھکانے لگانا وغيرہ)۔ انھيں سرکاري اسکيموں سے فائدہ اٹھانے نہيں ديا جاتا۔ مقامي پنچايتوں کے انتخابات سے دور رکھا جاتا ہے۔ دعوتوں و غيرہ ميں ان کے برتن الگ رکھے جاتے ہيں۔ اعليٰ ذات کے لوگوں کي تعظيم کے ليے بلکہ ا ن کے سامنے خود کو ذليل کرنے کے ليے انھيں مجبور کيا جاتا ہے۔ ان کے گھروں ميں مفت خدمات کے ليے ان پر جبر کيا جاتا ہے۔ مجموعي طور پر ان کو نہ صرف مادي لحاظ سے محروميوں و ناانصافيوں کا شکار بناکر رکھا جاتا ہے بلکہ مسلسل ان کي عزت نفس کو مجروح کرکے يہ احساس پيدا کيا جاتا ہے کہ وہ کم تر ہيں اور انھيں ذلت و خواري کي زندگي پر راضي رہنا ہے۔ [۱]
۲۰۱۱کي مردم شماري کے ذات پات کے اعداد و شمار (جو جولائي ۲۰۱۴ميں شائع ہوئے) کے مطابق ملک کے ديہي علاقوں ميں تقريبا ۷۹فيصد آدي باسي اور۷۳فيصد دلت سب سے زيادہ محروم طبقات ميں شامل ہيں۔ تقريباً ۴۵فيصد دلتوں کے پاس اپني زمينيں نہيں ہيں اور وہ محض زرعي مزدوري پر گزارا کرنے پر مجبور ہيں۔ [۲]چند سال پہلے يونيورسٹي آف ميري لينڈ کے ايک سروے کے اس انکشاف نے پوري دنيا کو چونکاديا تھا کہ آج بھي پورے ملک ميں ۲۷فيصد لوگ چھوت چھات پر يقين رکھتے ہيں۔ [۳] برہمنوں ميں يہ تعداد۵۵فيصد ہے۔ [۴]مدھيہ پرديش اور ہماچل پرديش جيسي رياستوں ميں نصف سے زيادہ آبادي اس غير انساني تصور پر يقين رکھتي ہے۔ [۵] ان رياستوں ميں متعددسرکاري اسکولوں ميں دلت بچوں کو آج بھي الگ بٹھايا جاتا ہے۔ مڈ ڈے ميل کے ليے ان کي پليٹيں الگ ہوتي ہيں۔ [۶] ہيلتھ ورکر دلت بستيوں ميں نہيں جاتے۔ انھيں راشن کي دکانوں ميں آنے اور مشترک قطاروں ميں کھڑے ہونے نہيں ديا جاتا۔ [۷] گيارہ رياستوں ميں کيے گئے ايک سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسّي فيصد ديہاتوں ميں آج بھي دلت الگ بستيوں ميں رہنے پر مجبور ہيں۔ [۸] ملک گير سطح کے ايک سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ ايک چوتھائي سے زيادہ گھروں ميں پس ماندہ ذاتوں کے ساتھ چھوت چھات کا معاملہ اختيار کيا جاتا ہے، يعني انھيں گھروں کے اندر آنے نہيں ديا جاتا يا اُن کے ليے الگ برتن مختص کيے جاتے ہيں۔ [۹]پيو فاونڈيشن کے ايک قومي سروے ميں تقريباً تيس فيصد برہمن لوگوں نے واضح طور پر اقرار کيا کہ وہ کسي پس ماندہ ذات کے خاندان کو پڑوسي کي حيثيت سے قبول نہيں کرسکتے۔ [۱۰](يہ ان لوگوں کي تعداد ہے جنھوں نے اقرار کيا ہے۔ ظاہر ہے کہ بڑي تعداد ان لوگوں کي ہوگي جو چھوت چھات پر عمل کرتے ہوں گے ، ليکن قانون کے ڈر اور اخلاقي دباؤ کي وجہ سے اقرار کرنے کي جرأت نہيں رکھتے ہوں گے۔)
پس ماندہ ذاتوں کو جس تفريق و نابرابري کا سامنا ہے، اس کي وجہ سے ان کي زندگياں نہايت دشوار ہوگئي ہيں۔ زندگي کے ہر محاذ پر انھيں ناانصافي، ظلم اور استحصال کا سامنا ہے۔ شمالي ہند کي چار رياستوں ميں کيے گئے ايک سروے سے معلوم ہوتا ہے کہ ديہاتوں ميں دلت کسانوں کو پاني نہيں ملتا۔ انھيں بيج اور کھاد جيسي چيزيں مہيا نہيں کي جاتيں۔ جس کے نتيجے ميں ان کي پيداوار ديگر کسانوں کے مقابلے ميں ۴۵ فيصد تک کم ہوتي ہے۔ [۱۱]
ذات پات کي اس بے رحم تفريق کا نشانہ معصوم بچے بھي بنتے ہيں۔ وہ عدم تغذيہ کا شکار ہوتے ہيں۔ سب سے زيادہ ہمارے ملک ميں عدم تغذيہ کا شکار دلت اورآدي باسي بچے ہي ہيں۔ ان کي افزائش رک جاتي ہے۔ افزائش ميں رکاوٹ (stunting)کے شکار دلت بچوں کا تناسب ايک مطالعے کے مطابق ہمارے ملک ميں چاليس فيصد ہے جو صحرائي افريقہ کے تناسب سے نو فيصد زيادہ ہے۔ [۱۲] يہ کہا جاسکتا ہے کہ يہ دنيا کے مظلوم ترين بچے ہيں۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ چھوت چھات اور ذات پات کي تفريق ديہاتوں تک محدود ہے ليکن بعض مطالعات ميں شہري زندگي کے حوالے سے بھي چونکانے والے حقائق سامنے آئے ہيں۔ مثلاً ملک کي کئي رياستوں ميں آج بھي شہري ملازمتوں ميں بھي ذات پات کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ دلتوں يا نام نہاد نچلي ذاتوں کو صفائي وغيرہ کي ملازمتيں ہي دي جاتي ہيں۔ تازہ ترين صورت حال يہ ہے کہ آج بھي ملک ميں، چاليس سے ساٹھ فيصد پس ماندہ ذاتوں سے متعلق خاندان صفائي کے کاموں ميں لگے ہوئے ہيں۔ [۱۳] غير معلنہ طور پر يہ سمجھ ليا جاتا ہے کہ مثلاً ريسٹورنٹ ميں کھانا پکانے کا کام ان ذاتوں سے متعلق افراد کو نہيں ديا جاسکتا۔ [۱۴] بڑے شہروں کے بڑے کارخانوں ميں ملازمين فراہم کرنے کے اپنے منظم نيٹ ورک ہيں۔ ان پر مخصوص ذاتوں کا غلبہ ہے۔ وہ پس ماندہ ذاتوں کے افراد کو يہ ملازمتيں حاصل کرنے کا موقع نہيں ديتے۔ [۱۵] بعض محققين نے کال سينٹروں اور سافٹ وير کمپنيوں ميں يہ تجربات کيے کہ ايک ہي بايو ڈاٹا، ايک بار دلت نام کے ساتھ اور ايک بار غير دلت نام کے ساتھ ارسال کيا۔ معلوم ہوا کہ دلت ناموں کو قبول نہيں کيا جاتا۔ [۱۶] تجارت ميں ناانصافيوں کا يہ عالم ہے کہ ايک رپورٹ کے مطابق حکومت اور عوامي ملکيت کي کمپنياں دلت اور آدي باسي ملکيت کي تجارتوں سے محض 0.37فيصد اشيا (يا خدمات) خريدتي ہيں۔ [۱۷] مسلمان عام طور پر ملک ميں اپنے خلاف تعصب کي شکايت کرتے ہيں ليکن امر واقعہ يہ ہے کہ جس جانب داري اور قدم قدم پر رکاوٹ کا سامنا دلتوں کو کرنا پڑتا ہے، وہ کيفيت مسلمانوں کو ہرگز درپيش نہيں ہے۔
جو لوگ ان مظالم کے خلاف آواز اٹھاتے ہيں، ان پر وحشيانہ مظالم کيے جاتے ہيں۔ ان کي عورتوں کو اغوا کيا جاتا ہے۔ ننگا کرکے بستي ميں گھمايا جاتا ہے۔ زنا بالجبر کا نشانہ بنايا جاتا ہے۔ پوري بستي کو سنگين سزا دي جاتي ہے۔ قتل عام تک کرائے جاتے ہيں۔ فريد آباد ميں ۲۰۱۵ميں معصوم بچوں کو زندہ جلاديا گيا تھا۔ کھيرانجي واقعے (۲۰۰۶) کي جو وحشت ناک تفصيلات سامنے آئيں ان کے مطابق ‘قصوروار’ دلت نوجوانوں کو برہنہ کرکے پورے شہر ميں گھمايا گيا، مبينہ طور پر انھيں اپني ماؤں کو ريپ کرنے پر مجبور کرنے کي کوشش کي گئي اور ان کے انکار پر برسر عام ان کے اعضاء کاٹ کر انھيں اذيت ناک طريقوں سے قتل کيا گيا۔ [۱۸] آزادي کے بعد ملک کے مختلف حصوں ميں ايسے واقعات پيش آچکے ہيں اور آج بھي پيش آرہے ہيں۔ [۱۹]
اصلاحي کوششيں اور ناکاميوں کے اسباب
ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کے ليے متعد د مصلحين نے کوششيں کيں۔ بارہويں صدي کے جنوبي ہند کے مصلح بسويشور، پندرہويں صدي ميں گرونانک، انيسويں صدي ميں جيوتي باپھلے، بيسويں صدي ميں گاندھي جي اور پيريار وغيرہ نے ذات پات کے نظام اور چھوت چھات کے خلاف طاقت ور تحريکيں چلائيں۔ ليکن يہ تحريکيں پورے ملک کو متاثر کرنے ميں کام ياب نہيں ہوسکيں۔ ا ن ميں سے اکثر بعد ميں ايک فرقہ بن کر آبادي کے چھوٹے سے حصے تک محدود ہو کر رہ گئيں اور بعض وسيع تر ہندو سماج کا حصہ بن گئيں اور خود بھي بالآخر ذات پات کي لعنت کا شکار ہوگئيں۔
اس کي وجہ ذات پات کے برہمني نظام کي يہ خصوصيت ہے کہ يہ طاقت ور حريفوں کو مراعات دے کر اپنے اندر ضم (assimiliate)کرليتا ہے۔ ماضي کي تمام اصلاحي تحريکيں اس انضمام کي شکار ہوکر بے اثر ہوگئيں۔ ايک مضبوط عقيدہ ہي انضمام کي ان کوششوں کي مزاحمت کرسکتا ہے۔ اس کے بغير اعليٰ اصول اور مثاليت پسندي، ايک دو نسلوں کے بعد دم توڑنے لگتے ہيں اور ذات پات کے برہمني نظام ميں آساني سے ضم ہوجاتے ہيں۔
ہمارے زمانے ميں دلتوں کے حقوق کي لڑائي کے حوالے سے بلاشبہ سب سے بڑا نام بابا صاحب بھيم راو امبيڈکر کا ہے۔ امبيڈکر کے خيالات اور بعد ميں دلت تحريکات ميں ان خيالات سے انحرافات کي تاريخ پر ہم تفصيل سے تبصرہ کرچکے ہيں۔ (زندگي نو، ستمبر ۲۰۲۱)۔ امبيڈکر کے نزديک ذات پات کا خاتمہ صرف سياسي اصلاحات سے ممکن نہيں تھا۔ وہ ايک طاقت ور سماجي تحريک کو ضروري سمجھتے تھے۔
“آج ہندوستاني (عوام) دو (متضاد)نظريات کے زير اثر ہيں۔ دستور کے ديپاچے ميں جو سياسي آئيڈيل طے پاچکا ہے وہ آزادي، مساوات اور اخوت کے تصورات ديتا ہے جب کہ ان کا سماجي آئيڈيل ان کے مذہب ميں ہے جو ان تصورات کي نفي کرتا ہے۔ ” [۲۰]
امبيڈکر نے نہايت جرأت کے ساتھ يہ بات بھي لکھي تھي کہ سماجي تبديلي کے بغير ملک کي آزادي يا سوراج دلتوں کے ليے فائدہ مند نہيں بلکہ نقصان دہ ہوگا۔ [۲۱]
آزادي کے بعد سماجي اصلاح کي تحريکيں بہت کم زور ہوگئيں يا کم زور کردي گئيں۔ ريزرويشن نے ان طبقات کو اونچا اٹھانے ميں يقيناً مدد کي ہے۔ اگر ريزرويشن کے ساتھ امبيڈکر کے وژن کے مطابق سماجي اصلاح کي طاقت ور تحريک بھي جاري رہتي تو شايد چند دہوں ميں اس مسئلے پر قابو پايا جاسکتا تھا۔ ليکن سماجي تحريک کے کم زور ہوجانے کے نتيجے ميں ريزرويشن کي پاليسي نے کچھ خاندانوں کو مادي فائدے ضرور پہنچائے ليکن مجموعي طور پر سماج سے نابرابري کو ختم کرنے ميں کوئي کردار ادا نہيں کرسکي۔ اس نےخود دلتوں ميں ايک آسودہ حال طبقہ پيدا کرديا جو عام دلتوں سے ممتاز ہے اور دلت مسائل سے غير متعلق ہے بلکہ بعض دلت محققين نے دعوي کيا ہے کہ دلت خوشحال طبقے اور دلت افسران، عام دلتوں کے مسائل کے تئيں ديگر لوگوں کے مقابلے ميں زيادہ بے حس ہوتے ہيں[۲۲]۔ گويا ريزرويشن کے نتيجے ميں دلتوں کے بعض طبقات کو بعض سہولتيں ضرور مل گئيں ليکن دلتوں کو برابري کا حق نہيں مل سکا۔ دوسري طرف سياسي تحريکوں نے ذات کے تصور کو ختم کرنے کے بجائے اسے اور مستحکم کيا۔ ايک معروف دلت دانش ور نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت صحيح لکھا ہے کہ ذات پات اپني اصل ميں سماجي رتبہ بندي کا نظام ہے۔ [۲۳] يہ مساوات کے تصور کي ضد ہے۔ ذات کي بنياد پر جہاں بھي اور جس مقصد سے بھي تحريک پيدا کي جائے گي وہ عدم مساوات کو بڑھائے گي، کم نہيں کرے گي۔ ذات پات کي دلت سياست يا سياسي مقاصد کے زير اثر چلائي گئيں مول نواسي سماجي تحريکوں نے ذات پات کے نظام کو کم زور کرنے کے بجائے اسے اور مستحکم کياہے۔
حکومتوں کا رويہ
چوں کہ ملک ميں دلتوں کو ريزرويشن حاصل ہے اور اُن کے ووٹ کو نظر انداز کرنا آسان نہيں ہے اس ليے بظاہر آزادي کے بعد دلتوں کي فلاح و بہبود کے ليے بہت سے اقدامات کيے گئے۔ ليکن ان اقدامات کا تفصيلي جائزہ اس نتيجے پر پہنچاتا ہے کہ يہ پس ماندہ طبقات کو اونچا اٹھانے کي سنجيدہ کوششيں کم اور اُن کے ووٹ حاصل کرنے کي خاطر نمائشي اقدامات زيادہ تھے۔ ان کوششوں کي ڈيزائننگ ہي اس طرح تھي کہ سماجي ڈھانچے ميں کوئي تبديلي واقع نہ ہو البتہ پس ماندہ ذاتوں کے نسبتاً بااثر حصوں کو مادي منفعت کا احساس ہو تاکہ وہ پورے سماج کا ووٹ دلاسکيں۔ اگر واقعي مساوات مطلوب ہو تو متعدد محاذوں پر سنجيدہ کوششيں ناگزير ہيں۔ ليکن بہت کم حکومتيں ان سنجيدہ کوششوں کي طرف متوجہ ہوسکيں۔ عام طور پر دلتوں کے مسئلے کو صرف تعليم و سرکاري ملازمتوں ميں ريزرويشن اور سرکاري اسکيموں ميں کوٹے تک محدود رکھا گيااور سماجي اصلاح کے ان اہم پہلوؤں پر کوئي توجہ نہيں دي گئي جن کے بغير محض ريزرويشن يا کوٹےسے نابرابري کا خاتمہ ممکن نہيں تھا۔ ايک تجزيہ نگار نے بہت درست نتيجہ اخذ کيا ہے کہ
“ريزرويشن کو بنياد بناکر ذات پات کي جو سياست يا عوامي مباحثہ چلا، اس نے معيشت اور سماجي و معاشي ترقي ميں ذات کے کردار سے متعلق اصل بحث کو گم کرديا۔ ” [۲۴]
حکومت کے رويے کي ايک بڑي اہم مثال عالمي سطح پر ذات پات کي تفريق کو نسلي تفريق ماننے سے مسلسل انکار کا رويہ ہے۔ نسل کي بنياد پر امتيازات کے خاتمے کے ليے ايک نہايت اہم عالمي معاہدہ ‘بين الاقوامي معاہدہ برائے خاتمہ جملہ اقسام نسلي امتياز ’ (International Convention on Elimination of all forms of Racial Discrimination – ICERD) ہے۔ يہ معاہدہ ۱۹۶۹ ميں نافذ ہوا اور ہمارا ملک بھي اس پر دستخط کرچکا ہے۔ اس معاہدے کے مطابق ہر دو سال ميں نسلي تفريق کي رپورٹ اقوام متحدہ کو پيش کرنا ضروري ہے۔ متاثرہ گروہ راست اقوام متحدہ کي متعلقہ کميٹي سےنسلي امتياز کي شکايت کرسکتے ہيں۔ ايک خصوصي کميٹي CERDا ن شکايتوں کي سنوائي کرتي ہے۔ ليکن ہمارا ملک گذشتہ بيس برسوں سے اپنے سفارتي رسوخ کو يہ باور کرانےکے ليے استعمال کررہا ہے کہ ذات پات کي تفريق، نسلي تفريق نہيں ہے اور يہ کہ مذکورہ عالمي معاہدے کا ہندوستان کے ذات پات کے نظام پر اطلاق نہيں ہوتا[۲۵]۔ اس عالمي معاہدے کو ماہرين بڑي اہميت ديتے ہيں اور سمجھتے ہيں کہ اس کے نتيجے ميں ملک کي بيوروکريسي اور پورے نظام کو عالمي برادري کے سامنے جواب دہ بناکر ذات پات کے نظام کے خاتمے کے سلسلے ميں طاقت ور دباؤ پيدا ہوسکتا ہے۔ ليکن حکومتوں کا اس سے گريز حيرت انگيز ہے۔ اس کي وجہ کيا ہے؟ بعض تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ذات پات کے نظام کو ختم کرنے کے سلسلے ميں ہندوستان کسي عالمي دباؤ کو قبول کرنا نہيں چاہتا۔ بعض کے نزديک اصل وجوہات دو ہيں، ايک يہ کہ اس عالمي معاہدے کا تقاضا يہ ہوگا کہ نسلي تفريق کے شکار لوگوں کو اوپر اٹھانے کے ليے کيے جارہے اقدامات کے سلسلے ميں مذہب کي بنياد پر کوئي تفريق نہ کي جائے جب کہ ہمارے ملک ميں دلت اگرعيسائيت يا اسلام قبول کرتے ہيں تو ان کے خصوصي حقوق(يعني رويزرويشن )ختم ہوجاتے ہيں اور دوسري وجہ يہ ہے کہ اس معاہدے کا ذات پات پر اطلاق کرنے سے، ريزرويشن جيسے اقدامات کي خانگي سيکٹر تک بھي توسيع درکار ہوگي جس کے ليے ہماري حکومتيں تيار نہيں ہيں۔ وجہ جو بھي ہو، ليکن اس تنازعے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ حکومتيں اب پس ماندہ طبقات کي ترقي کے ليے زيادہ سنجيدہ نہيں ہيں۔ [۲۶]
لبرلائزيشن اور پرائيوٹائزيشن کي پاليسيوں کو بھي دولت و قوت کے ارتکاز کي کوششوں کے طور پر ديکھا جاسکتا ہے۔ پس ماندہ طبقات کو بے رحم مسابقت يا سماجي ڈاروينيت کے حوالے کردينے کے بعد ريزرويشن کي کوئي اہميت باقي نہيں رہ جاتي۔ امبيڈکر نے پس ماندہ ذاتوں کي ترقي کا جو پروگرام تجويز کيا تھا اس ميں سرکاري ملکيت اور منضبط و منصوبہ بند معيشت کا نہايت اہم اور کليدي کردار تھا۔ [۲۷] منماڑ کے اپنے مشہور خطاب ميں انھوں نے بڑي وضاحت سے کہا تھا کہ وہ برہمنوں کے خلاف نہيں ہيں، نہ ان کے مفادات کے خلاف ہيں بلکہ ان کي اصل لڑائي وسائل و طاقت و قوت پر کسي خاص طبقے کے تسلط کے خلاف ہے۔ ا ور جب تک اس ارتکاز و تسلط کي راہ ہم وار کرنے والي پاليسياں ختم نہيں ہوں گي، محض دستوري و سياسي اصلاحات سے پس ماندہ ذاتوں کو برابري کا حق نہيں مل سکتا۔ [۲۸]اب جو معاشي پاليسياں اختيار کي جارہي ہيں وہ اس وژن کے بالکل معکوس سمت ميں لے جانے والي ہيں۔ يہ پاليسياں قوت کے تمام وسائل کو خوش حال طبقات ميں زيادہ سے زيادہ مرکوز کرتي جارہي ہيں۔ اس کے نتيجے ميں بھي پس ماندہ طبقات کي مظلوميت بڑھتي جارہي ہے۔
حکومتي جبر کي ايک اور علامت وہ رياستي ظلم ہے جو دلتوں، آدي باسيوں اور ان کے درميان سے اٹھنے والي طاقت ور آوازوں کو دبانے کے ليے ڈھايا جارہا ہے۔ اگر مسلمان کے ليے دہشت گرد کي گالي مختص ہے تو آدي باسيوں اور دلتوں کے ليے نکسل وادي کي گالي ہے۔ اب اربن نکسل وادي کے عنوان سے اعلي تعليم يافتہ دلت دانش وروں کي ہراساني بھي نہايت عام بات ہوگئي ہے۔ [۲۹]
اسلام کا موقف اور امت مسلمہ
انساني مساوات، اسلام کا ايک نہايت اہم آئيڈيل ہے۔ عدل اسلامي شريعت کا نہايت اہم عنوان اور مقصد ہے۔ انساني آزادي، تکريم اور بنيادي امور و معاملات ميں مساوات، عدل کا لازمي تقاضا ہيں۔ حضرت ربعي بن عامرؓ نے رستم کے دربار ميں رسول اللہ ﷺ کے مشن کي تشريح ہي ان الفاظ ميں فرمائي تھي کہ:
لقد ابتعثنا اللهُ لنخرج العباد من عبادة العباد إلى عبادة رب العباد (اللہ تعاليٰ نے ہم کو اس ليے بھيجاہے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کي غلامي سے نکاليں اور انھيں ان کے رب کي غلامي ميں لے جائيں۔ )
اس ليے بعض علما نے مساوات انساني کو بھي شريعت کا ايک اہم مقصد قرار ديا ہے۔ ابن عاشورؒ نے مساوات کو حريت کا ايک اہم تقاضا قرار ديتے ہوئے اسے شريعت کے عمومي مقاصد ميں شامل کيا ہے۔ [۳۰]
سورہ حجرات(آيت ۱۳) اور سورہ نساء(آيت ۱) کي معروف آيات کے علاوہ، جن ميں مساوات انساني کا نہايت واضح اعلان موجود ہے، قرآن و سنت ميں متعدد نصوص اس اہم اسلامي قدر کي وضاحت کرتے ہيں۔ خطبہ حجة الوداع کے موقعے پر آپ نے بڑي وضاحت سے اعلان فرمايا کہ :
يا أيها الناس ألا إن ربكم واحد، وإن أباكم واحد، ألا لا فضل لعربي على أعجمي، ولا لأعجمي على عربي، ولا لأحمر على أسود، ولا لأسود على أحمر إلا بالتقوى (اے لوگو، تمھارا رب ايک ہے۔ تمھارا جد امجد بھي ايک ہے۔ سنو، کسي عربي کو کسي عجمي پر، کسي عجمي کو کسي عربي پر کسي گورے کو کسي کالے پر اور کسي کالے کو کسي گورے پر کوئي فضيلت نہيں سوائے تقويٰ کے)[۳۱]
واقعہ يہ ہے کہ انساني مساوات، اسلام ميں محض ايک قدر نہيں ہے بلکہ يہ اسلامي عقيدہ توحيد کا لازمي حصہ ہے۔ رب کائنات کي بڑائي کا عقيدہ اور سارے انسانوں کے خدا ئے واحد کے بندے ہونے کا عقيدہ، انساني مساوات کا بھي عقيدہ پيدا کرديتا ہے۔ شيخ يوسف القرضاوي نے انساني مساوات کو عقيدہ توحيد کا لازمي نتيجہ قرار ديا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کي ايک دعا نقل کي ہے کہ:
اللهم ربنا ورب كل شيء أنا شهيد أنك الرب وحدك لا شريك لك، اللهم ربنا ورب كل شيء، أنا شهيد أن محمدا عبدك ورسولك: اللهم ربنا ورب كل شيء، أنا شهيد أن العباد كلهم إخوة (اے اللہ ہمارے رب اور ہر چيز کے رب اور مالک ! ميں گواہي ديتا ہوں کہ تو اللہ واحد ہے، تيرا کوئي شريک نہيں۔ اے اللہ! ہمارے رب اور ہر چيز کے رب اور مالک ! ميں گواہي ديتا ہوں کہ محمد ﷺ تيرے بندے اور تيرے رسول ہيں۔ اے اللہ! ہمارے رب اور ہر چيز کے رب اور مالک ! ميں گواہي ديتا ہوں کہ تمام کے تمام بندے آپس ميں بھائي بھائي ہيں۔ )
اور اس سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہيں:
“‘انساني اخوت ’کا اعلان کہ سارے بندے آپس ميں بھائي بھائي ہيں، پہلي دوشہادتوں کا نتيجہ ہے: يہ شہادت کہ اللہ تعاليٰ واحد رب ہے اور اس کي الوہيت و ربوبيت ميں کوئي شريک نہيں ہے، اور دوسرے يہ شہادت کہ محمد ﷺ اللہ کے بندے اور رسول ہيں۔ اس سے الوہيت کے ہر شائبے کي نفي ہوتي ہے کہ آپ الٰہ (معبود ) نہيں ہيں، نہ ابن الہ ہيں اور نہ اْلوہيت کا حصہ ہيں جيسا کہ عيسائيوں کا عيسي عليہ السلام کے متعلق عقيدہ ہے۔ ”[۳۲]
اللہ تعاليٰ نے قرآن مجيد ميں ‘بڑائي چاہنے’ سے منع کيا ہے۔
تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ۔ ( وہ آخرت کا گھر تو ہم اُن لوگوں کے ليے مخصوص کر ديں گے جو زمين ميں اپني بڑائي نہيں چاہتے اور نہ فساد کرنا چاہتے ہيں اور انجام کي بھَلائي متقين ہي کے ليے ہے۔ سورة القصص: ۸۳) اس ميں علو کي تشريح کرتے ہوئے مولانا مودوديؒ لکھتے ہيں:
“يعني جو خدا کي زمين ميں اپني بڑائي قائم کرنے کے خواہاں نہيں ہيں، جو سرکش و جبار اور متکبر بن کر نہيں رہتے بلکہ بندے بن کر رہتے ہيں اور خدا کے بندوں کو اپنا بندہ بنا کر رکھنے کي کوشش نہيں کرتے ۔”
علو في الارض کي خواہش ہي انسانوں کي تقسيم کا ذريعہ بنتي ہے۔ قرآن مجيد ميں اسے ظلم کي بدترين قسم قرار ديا گيا ہے کہ اپني بڑائي کے ليے انسانوں کو تقسيم کيا جائے۔
إِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِي الْأَرْضِ وَجَعَلَ أَهْلَهَا شِيَعًا يَسْتَضْعِفُ طَائِفَةً مِّنْهُمْ يُذَبِّحُ أَبْنَاءَهُمْ وَيَسْتَحْيِي نِسَاءَهُمْ إِنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُفْسِدِينَ ۔ (بيشک فرعون سر زمين سر زمين مصر ميں بہت سرکش ہوگيا تھا۔ اور اس نے اس کے باشدوں کو مختلف طبقوں ميں تقسيم کر رکھا تھا۔ ان ميں سے ايک گروہ کو اس نے دبا رکھا تھا۔ ان کے بيٹوں کو ذبح کر چھوڑتا اور ان کي عورتوں کو زندہ رکھتا، بيشک وہ زمين ميں فساد برپا کرنے والوں ميں سے تھا۔ القصص: ۴)
اس طرح اسلامي تصور مساوات، توحيد کے مضبوط عقيدے کي پائدار بنياد پر استوار ہے۔ بڑائي چاہنے کي شديد ہمت شکني ہر طرح کي تفريق اور رتبہ بندي کا سد باب کرتي ہے۔ اس کے بعد اسلام کي تفصيلي تعليمات اور رسول اللہ ﷺ کي سنت ہے جو مساوات کا سبق اچھي طرح ازبر کراتي ہے۔ پھر اسلام کي تقريباً تمام عبادات ايک اللہ کي بندگي کے ساتھ انساني مساوات کا درس بھي مسلسل ياد دلاتي اور ذہن نشين کراتي رہتي ہيں۔ نمازکي صف بندي سماجي مساوات کا اصول ذہن نشين کراتي ہے تو روزہ و زکوة سے معاشي مساوات، اخوت، برادرانہ خير خواہي اور ہمدردي کے احساسات پروان چڑھاتے ہيں۔ حج اسي اسپرٹ کو عالم گير سطح پر توسيع ديتا ہے۔
اسلام نے صرف اصولي تعليمات دينے پر اکتفا نہيں کيا بلکہ رسول اللہ ﷺ نے مثالي مساوات قائم کرکے دکھائي۔ قبيلوں ميں بنٹے ہوئے ايک ايسے معاشرے ميں جہاں قبائلي تفاخر ايک اہم سماجي قدر تھي، آپ ﷺ نے ايسي صورت حال پيدا کردي کہ بلال حبشي، صہيب روميؓ، زيد بن حارثؓہ جيسے غلامي کا پس منظر رکھنے والے صحابہ انتہائي بلند مقامات پر فائز ہوئے اور اونچے خاندانوں کے سربرآوردہ لوگ بھي ان کي تعظيم و تکريم کو اپني سعادت سمجھنے لگے۔ ايک آزاد کردہ غلام کے بيٹے اسامہ بن زيدؓ کو ايسے اسلامي لشکر کي قيادت کا موقع ملا جس ميں اکابر صحابہ شريک تھے۔ اسلام کي يہ اسپرٹ ہميشہ مسلمانوں ميں کارفرما رہي۔ ليکن بدقسمتي سے ہندوستان ميں بجائے اس کے کہ مسلمان اس اسپرٹ کو آگے بڑھاتے اور مساوات انساني کي ايک عظيم تحريک کے علم بردار بنتے، وہ خود ذات پات کي لعنت کا شکار ہوگئے۔
آزادي کے بعد کے احوال ميں بھي مسلمانوں نے سماجي برابري کو کم ہي اپنا ايجنڈا بنايا۔ وہ دلتوں اور ديگر پس ماندہ طبقات کو يا تو نظر انداز کرتے رہے يا زيادہ سے زيادہ انھيں سياسي حليف بنانے کي کوششيں کرتے رہے۔ حاليہ دنوں ميں مول نواسي سياست اور اس کے زير اثر مظلوم طبقات کے اتحاد کي کوششوں کا آغاز بھي بعض حلقوں ميں ہوا ہے۔ ہمارے خيال ميں مسلمانوں کا اصل مقام يہ ہے کہ وہ طبقاتي يا ذات پات کي کشمکش ميں فريق بننے کے بجائے، اصولوں کے علم بردار بن کر ابھريں۔ ايک طبقے کے مقابلے ميں دوسرے طبقے کي بالاتري کے بجائے، ملک کے تمام شہريوں کے ليے، حقيقي آزادي و مساوات کا حصول ان کا سياسي نصب العين بنے۔ يہي چيز ان کے مقام و منصب اور ان کے فکر و نظريے سے مطابقت رکھنے والي ہے اور آگے ہم واضح کريں گے کہ خود دلتوں کي برابري کے ليے سماج کو ذاتوں ميں تقسيم کرکے ديکھنے کے بجائے، مساوات و عدل کے اصول کي بنياد پر چلنے والي تحريک ہي زيادہ مفيد ہوسکتي ہے۔
مساوات کي يہ تحريک جہاں ممکن ہو وہاں اسلام کے نام اور حوالے کے ساتھ بھي چل سکتي ہے۔ اسے اپنے دعوتي ڈسکورس کا بھي اہم جز بنانا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ، ديگر طبقات کے ساتھ مل کر محض مساوات کي خاطر جدوجہد ميں بھي مسلمان کليدي کردار ادا کرسکتے ہيں کہ مساوات اور حريت اسلام کا ايک اہم مقصود ہے۔
مطلوب اصلاحات
گذشتہ شمارے ميں تکثيري سماج کے تقاضوں کے حوالے سے جن اصلاحات کا ہم نے ذکر کيا ہے وہ نابرابري کے مسئلے کو حل کرنے کے ليے بھي ضروري ہيں۔ ڈاکٹر امبيڈکر يہ محسوس کرتے تھے کہ دلتوں، آدي باسيوں اور ديگر اقليتوں کے ليے مناسب حفاظتي تدابير کے بغير محض اکثريت ( ٰيعني اعلٰي ذاتوں کے ہندووں ) کي حکومت کے ذريعےچلنے والي جمہوريت، نابرابري کو اور مستحکم کرے گي۔ انھوں نے ايک ايسي عاملہ (executive)کا تصور پيش کيا تھا جس ميں درج ذيل انسدادي تدابير موجود ہوں۔
اکثريت کو اس بات سے روکنا کہ وہ اقليتوں (امبيڈکر کي اسکيم ميں دلت اور آدي باسي بھي ان ميں شامل تھے) کي مناسب اور متناسب نمائندگي کے بغير حکومت تشکيل دے۔
انتظاميہ پر اکثريت کي ايسي گرفت قائم نہ ہونے دينا کہ اکثريت کا استبداد ممکن ہوجائے۔
اکثريت کو عاملہ ميں اقليتوں کے ايسے نمائندے شامل کرنے سے روکنا جن پر متعلق اقليتوں کا اعتماد نہ ہو (يا آج کي زبان ميں جو حکومت ميں اقليت کےنمائندے ہونے کے بجائے، اقليتي سماج ميں حکومت کے نمائندے بن کر کام کريں)
اچھي اور کارگر حکومت کے ليے پائدار اور منصفانہ عاملہ فراہم کرنا۔ [۳۳]
ان مقاصد کے حصول کے ليے انھوں نے بہت سے ٹھوس طريقے بھي تجويز کيے تھے، جن کي تفصيل کا اس وقت محل نہيں ہے۔ اس سلسلے ميں ڈاکٹر امبيڈکر کا کتابچہ رياست اور اقليتيں “State and Minorities” ملاحظہ کيا جاسکتا ہے۔ [۳۴]
نابرابري کو ختم کرنے کے ليے پوليس، عدالت اور نوکر شاہي کے نظام ميں بھي بڑي بنيادي تبديلياں و اصلاحات درکار ہيں۔ مظالم و ناانصافيوں کا بڑا سرچشمہ يہي ادارے ہيں۔ ان اداروں کي اصلاح کے بغير اچھے سے اچھا قانون بھي بے اثر ہوکر رہ جاتا ہے۔ سپريم کورٹ کے ايک جج نے ۱۹۹۲ميں کہا تھا کہ دلتوں پر مظالم کے خلاف جو قوانين بنے ہيں، اُن سے متعلق جو کيس عدالتوں ميں آتے ہيں ان ميں سے تين چوتھائي کيسوں ميں ملزموں کو بري کرديا جاتا ہے۔ جج متاثرين کي شہادتوں کو نظر انداز کرديتے ہيں اور کئي دفعہ خود ہي چھوت چھات پرعمل شروع کرديتے ہيں۔ [۳۵] اسي طرح کے مسائل پوليس سے متعلق بھي درپيش ہيں۔ پوليس اصلاحات سے متعلق کچھ اشارے ہم نے گذشتہ ماہ کيے تھے۔ پوليس، عدالتي نظام اور نوکر شاہي ميں اصلاحات کے موضوع کو ہم آئندہ کسي شمارے ميں تفصيل سے بھي زير بحث لائيں گے۔ ان شاء اللہ۔ گذشتہ ماہ ہم انتخابي اصلاحات کو بھي زير بحث لائے تھے۔ دلت مسائل کے حوالے سے، ٹيل ٹمبڑے لکھتے ہيں:
ہندستان ميں سماجي انقلاب، يا ذات پات و طبقات کے تعلقات سے متعلق بنيادي تبديلياں فرسٹ پاسٹ دي پوسٹ انتخابي نظام (يعني پارليماني نشستوں کا ہمارا موجودہ نظام) کے ذريعے نہيں آسکتيں۔ انتخابات ميں کام يابي کے ليے ہمارے ملک ميں اکثريت کي مجہول تائيد کي بھي ضرورت نہيں (محض تيس فيصد ووٹ لے کر بھي اميدوار کام ياب ہوجاتے ہيں) جب کہ سماجي انقلاب کے ليے اکثريت کي فعال شرکت مطلوب ہے۔ غير متناسب ترقي کے نتيجے ميں مختلف انٹرسٹ گروپس نے سماج کو اس قدر منقسم کرديا ہے کہ مضحکہ خير حدتک کم تناسب سے بھي جيت کر لوگ حکومت بناليتے ہيں۔ ۔ ۔ اترپرديش کے تجربے سے واضح ہوتا ہے کہ ذات پات کي بنياد پر بننے والي ساجھے داري، ذات پات کے نظام کو اور گہرا کرتي ہے۔ يہ سماجي انقلاب کي بالکل متضاد صورت حال ہے۔ [۳۶]
مطلوب سماجي تحريک
سياسي و قانوني اصلاحات سے بڑھ کر يہ مسئلہ سماجي اصلاح کا مسئلہ ہے۔ سياسي اصلاحات بھي اسي وقت کارگر ہوسکتي ہيں جب سماجي اصلاح کا کام متوازي طور پر آگے بڑھے۔ سماجي اصلاح کے عمل ميں ناکامي کا سب سے بڑا سبب، ٹھوس نظرياتي بنيادوں کا فقدان ہے۔ ٹھوس اور پائدار نظريے کے بغير ہر سماجي تحريک کو اپنے اندر ضم کرلينا ذات پات کے اس ظالمانہ نظام کے ليے نہايت آسان ہوجاتا ہے۔ مسلمان اسلام کي پائدار نظرياتي بنيادوں کي وجہ سے اس تحريک کو زيادہ کام يابي سے آگے بڑھاسکتے ہيں۔
رسول اللہ ﷺ نے جو بے نظير سماجي مساوات قائم فرمائي تھي اس کے ليے دو اہم ترين عوامل ذمے دار تھے۔ ايک ٹھوس و پائدار عقيدہ و نظريہ اور دوسرا، اسي کے نتيجے ميں آپ کا اصولوں کے سلسلے ميں نہايت بے لچک رويہ۔ مسجدوں، قبرستانوں، محفلوں و مجلسوں ميں ہر جگہ آپ نے کسي قسم کي تفريق يا رتبہ بندي باقي رہنے نہيں دي۔ قانون کے نفاذ ميں ايسا بے لچک رويہ اختيار کيا کہ يہوديوں کو بھي مجبور کيا کہ وہ امير غريب ہر ايک پر يکساں طور پر قانون نافذ کريں۔ حضرت عمرؓنے سلطنت غسان کے شہزادے کے ارتداد کي پروا نہيں کي اور اس پر ايک عام بدو کي اہانت کے جرم ميں سزا نافذ کي۔ رسول پاک ﷺ نے قريش کي دختر اور اپني پھوپي زاد زينبؓ کا نکاح ايک آزاد کردہ غلام سے فرمايا۔ ايک صحابي نے اپنے غلام کو مارا تو ايسي شديد تنبيہ بروقت کردي کہ اُس صحابي نے زمين پر گرکر غلام سے مطالبہ کيا کہ وہ اپنا پاؤں ان کے رخسار پر رکھ کر ان کي نخوت نکال دے۔ اس اسوہ نبي کو مسلما ن پيش نظر رکھيں تو وہ بھي مساوات و برابري کے سلسلے ميں اسي بے لچک رويے کے ذريعے يہاں برابري کي طاقت ور تحريک کے علم بردار بن سکتے ہيں۔
اس تحريک کي پہلي ضرورت يہ ہوگي کہ مسلمان خود اپنے معاشرے کي کم زوريوں کو بھي شديد تنقيد کا موضوع بنائيں۔ ہندوستان کي ذات پات اور اسلامي تاريخ کي غير اسلامي ملوکيت کے اثرات مسلم معاشرے پر بھي بہت گہرے ہيں۔ ايک طرف کئي رياستوں ميں خود مسلمانوں کے اندر ذات پات کي رتبہ بندي کا پورا نظام موجود ہے اور دوسري طرف مخصوص خاندانوں کي بالاتري کے تصور پر مبني موروثي نظام ہمارے معاشرے کے تمام حصوں حتي کہ مذہبي اداروں تک ميں پھيلا ہوا ہے۔ اس صورت حال کو چيلنج کيے بغير اور اس کي علانيہ مخالفت کے بغير برابري کي کوئي تحريک موثر نہيں ہوسکتي۔
يہ تحريک ان تمام علانيہ و پوشيدہ افکار کو چيلنج کرسکتي ہے جو نابرابري کي توجيہ کرتے ہيں يا اسے جواز دينے کي کوشش کرتے ہيں۔ انسانوں کو منقسم کرنے والے تمام افکار ہماري شديد تنقيد کے موضوع بنيں۔ ہندتو کے نظريے کا وہ حصہ جو انسانوں کو الگ الگ خانوں ميں يا ايک تصوراتي جسم کے الگ الگ حصوں ميں تقسيم کرکے ديکھتا ہے وہ خاص طورپر ہمارے مباحث کا موضوع بنے۔ (اس پر ہم جولائي ۲۰۲۱کے شمارے ميں گفتگو کرچکے ہيں) خدائے واحد اور اس کي بندگي کو اساس بناکر انسانوں کو جوڑنے والا اور انھيں بني آدم کي واحد نسل کا حصہ بنانے والا تصور پوري قوت اور پورے زور و شور سے زير بحث لايا جائے۔
تعليم ومعيشت ميں پس ماندہ طبقات کو اونچا اٹھانا ہمارا ايک اہم ملي ايجنڈا بن جائے۔ ہمارے اداروں کے دروازے ان کے ليے کھل جائيں۔ ديہاتوں ميں خاص طور پر ان کي تعليم و ديگر ضرورتوں کے ليے خصوصي ادارے قائم کيے جائيں۔ مساجد کو مرکز بناکر ان کي مختلف ضرورتوں کي تکميل کا سامان کيا جائے۔ بے شک مسلمان بھي نہايت پس ماندہ ہيں۔ اور ان کے پاس خود اپني پس ماندگي دور کرنے کي طاقت اور وسائل موجود نہيں ہيں۔ ليکن اس کے باوجود، ہم يہ سمجھتے ہيں کہ ہميں غريب و مجبور لوگوں کے درميان تفريق نہيں کرني چاہيے۔ اسلام کے اصولوں کا تقاضا يہي ہے اور اسي کے نتيجے ميں اسلام کي صحيح شہادت ہوسکتي ہے کہ ہماري کم زور اور مختصر فلاحي و رفاہي کاوشوں کا ہدف، سيدنا آدم عليہ السلام کے يہ مظلوم ترين اور محروم ترين بيٹے بيٹياں بھي ضرور بنيں۔
ہماري سياسي کاوشيں بجائے مسلم شناخت سے متعلق مسائل پر مرکو ز ہونے کے اسلامي عدل و مساوات کے آفاقي ايجنڈے پر مرکوز ہوں۔ جن سياسي اصلاحات کا ذکر کيا گيا ہے، ان کو ہمارے سياسي بيانيہ کا جز بنايا جائے۔ ان پر تحريکيں چليں۔ معاشي برابري اور دولت کي تقسيم کے اصولوں کو زير بحث لايا جائے۔ پوليس، عدالت اور نوکر شاہي کے نظام ميں ٹھوس اصلاحات ہمارے ايجنڈے کا عنوان بنيں۔ اور ان سب باتوں کو مسلمانوں يا اقليتوں کے مفاد کے حوالے سے نہيں بلکہ اخوت و مساوات کي اسلامي قدر کے حوالے سے زير بحث لايا جائے۔
ہندتو طاقتوں کي غلط پاليسيوں اور تخريبي اقدامات کا چھپا ہوا ايجنڈا بے نقاب کيا جائے۔ يہ واضح کيا جائے کہ ان تخريب کاريوں کا واحد مقصد مسلمانوں کي ہراساني نہيں ہے بلکہ سماجي نابرابري کے نظام کا استحکام ہے۔ کارپوريٹ سرمايہ داري کا اصل مقصد يہ ہے کہ دولت اور سرمايہ کي طاقت کو چند ہاتھوں ميں مرتکز کيا جائے اور پس ماندہ طبقات کو اٹھنے نہ ديا جائے۔ تبديلي مذہب سے متعلق قوانين کا اصل مقصد يہ ہے کہ اس بات کو يقيني بنايا جائے کہ پس ماندہ طبقات اپنا مذہب تبديل کرکے ذات پات کے نظام کو بےاثر نہ کرديں۔ [۳۷] تجزيے کے مطابق گاوکشي پر امتناع کا بھي ايک اہم مقصد کم زور طبقات کي معيشت کو کم زور کرنا ہے۔ [۳۸]
ذات پات کي تفريق فرقہ پرست قوتوں کا مقصد بھي ہے اور ان کي کام يابي کا راستہ اور وسيلہ بھي۔ مختلف ذاتوں کا اپنے وقتي مادي مفادات تک محدود ہوجانا، ان قوتوں کے ليے عين مطلوب صورت حال ہے۔ اس سے وہ اپنا مخصوص استبدادي نظام باقي رکھنے ميں بھي کام ياب ہوتي ہيں اور ذاتوں اور ان کے مفادات کي سوشل انجينئرنگ کے ذريعے کام يابي کے زينے بھي چڑھتي ہيں۔ ان قوتوں کو حقيقي چيلنج اسي وقت ديا جاسکتا ہے جب ملک کے عوام مساوات و آزادي کے آفاقي اصولوں کي بنيادوں پر متحد ہوں اور ان اصولوں کو ملکي سياست و ملکي انتظام کي حقيقي اساس بنانا ان کا مشترک مشن بن جائے۔ n
حواشي و حوالہ جات
Clifford Bob (2007) “Dalit Rights are Human Right” in Hum. Rights. Quraterly Issue 29, 167-173
http: //indianexpress.com/article/india/india-others/landlessness-is-higher-among-dalits-but-more-adivasis-are-deprived/ Retrieved on: 20.12.2021.
Vij, Shivam (1 December 2014). “Between the bathroom and the kitchen, there is caste”. Scroll.
Bhandare, Namita (6 December 2014). “Casteism exists in India, let’s not remain in denial”. Hindustan Times.
Chishti, Seema (29 November 2014). “Biggest caste survey: One in four Indians admit to practising untouchability”. The Indian Express.
Sarkar, Sravani (5 December 2014). “Children bear the brunt of caste abuses in rural areas”. Hindustan Times.
Ibid
Shah, G., Mander, H., Thorat, S., Deshpande, S., & Baviskar, A. (2006). Untouchability in rural India. New Delhi: Sage Publications
Thorat, A., & Joshi, O. (2015). The continuing practice of untouchability in India:Patterns and mitigating influences. Working Paper No. 2015-2. India Human Development Survey, National Council of Applied Economic Research and University of Maryland. Retrieved from http: //ihds.info/working-papers
https: //www.pewforum.org/2021/06/29/attitudes-about-caste/ Retrieved on: 20.12.2021.
Anderson, S. (2011). Caste as an impediment to trade. American Economic Journal: Applied Economics, 3(1), 239–263
Ramachandran, Rajesh and Deshpande, Ashwini, The Impact of Caste: A Missing Link in the Literature on Stunting in India. Available at SSRN: https: //ssrn.com/abstract=3803717 or http: //dx.doi.org/10.2139/ssrn.3803717 Retrieved on: 20.12.2021.
PRIA (2019): Lived Realities of Women Sanitation Workers in India: Insights from a Participatory Research Conducted in Three Cities of India. Participatory Research in Asia, New Delhi, India
Indra, P. S. (2006). What the signboard hides: Food, caste and employability in small south Indian eating places. Contributions to Indian Sociology, 40(3), 311–341
Caste networks in the modern Indian economy. In S. Mahindra Dev & P. Babu (Eds.), Development in India: Micro and macro Perspectives.
Banerjee, A., Bertrand, M., Datta, S., & Mullainathan, S. (2009). Labor market discrimination in Delhi: Evidence from a field experiment. Journal of Comparative Economics, 37(1), 14–27.
Upadhya, C. (2007). Employment, exclusion and ‘‘merit” in the Indian IT Industry. Economic and Political Weekly, 42(20), 1863–1868
https: //thewire.in/business/modi-government-near-zero-effect-meeting-procurement-quota-dalit-adivasi-enterprises Retrieved on: 19.12.21.
https: //feminisminindia.com/2019/08/05/khairlanji-massacre-haunt-brahmanical-state/ Retrieved on: 20.12.2021.
وحشيانہ مظالم کي تفصيل، اس کے محرکات اور اس کے مابعد سے متعلق تفصيلي بحث کے ليے ديکھيں ايک چشم کشا مضمون Anand Teltumbde (2012) Republic of Caste; Navayana Publications; Chapter “Violence as Infrasound” pp 127-152
Dhananjay Keer, Ambedkar: Life and Mission…, Popular Prakashan, Mumbai, 1990, p. 456
B.R. Ambedkar, States and Minorities, Appendices, Appendix I: Explanatory Notes, (http: //www.ambedkar.org/) Retrieved on: 20.12.2021.
Anand Teltumbde (2010) The Presistance of Caste; Zed Books; London; page 183, 184
اس کتاب کا يہ پورا باب پڑھنے کے لائق ہے۔ اس باب کے تجزيے سے ان بہت سي باتوں کي تائيد ہوتي ہے جو اس مضمون ميں ہم پيش کرنا چاہتے ہيں۔ Exploding Myths pages 173-188
حوالہ سابق
Jodhka, S., & Manor, J. (Eds.). (2017a). Contested hierarchies, persisting influence: Caste and power in twenty-first century India. Hyderabad: Orient Black Swan.
اس بحث کي تفصيل کے ليے ملاحظہ فرمائيں:
https://www.epw.in/engage/article/caste-and-race-discrimination-based-descent Retrieved on: 20.12.2021.
https: //thewire.in/caste/india-must-not-shield-itself-from-international-scrutiny-on-caste-discrimination Retrieved on: 20.12.2021.
Ambedkar BR (1947) State and Minorities; @ https: //drambedkar.co.in/wp-content/uploads/books/category2/11states-and-minorities.pdf Retrieved on: 20.12.2021.
اس مشہور خطاب کا متن ملاحظہ فرمائيں
https://velivada.com/2017/06/03/dr-ambedkars-speech-depressed-class-workmens-conference-nashik/ Retrieved on: 20.12.2021.
https: //www.india-seminar.com/2020/727/727 anandteltumbde.htm Retrieved on: 20.12.2021.
الشيخ محمد طاہر بن عاشور؛ مقاصد الشريعة الاسلامية؛(تحقيق محمد طاہر الميساوي) دارالنفائس الاردن ص ۳۲۹
رواه أحمد ( 5/411) (23536)
الشيخ يوسف القرضاوي (۲۰۱۰) حقيقة التوحيد؛ مکتبہ وھبہ، القاہرہ؛ ص ۸۶، ۸۷
Ambedkar BR (1947) State and Minorities; p 29 @ https://drambedkar.co.in/wp-content/uploads/books/category2/11states-and-minorities.pdf Retrieved on: 20.12.21.
حوالہ سابق
William Eisenman, Comment, Eliminating Discriminatory Traditions Against Dalits: The Local Need for International Capacity-Building of the Indian Criminal Justice System, 17 EMORY INT’L L. REV. 133, 139, 161 (2003)
Anand Teltumbde (2012) Republic of Caste; Navayana Publications; p 309.
يہ بات دلت دانش ور بھي محسوس کرتے ہيں۔
https://economictimes.indiatimes.com/news/politics-and-nation/buddhist-ambedkarite-bodies-say-up-law-that-penalises-mass-conversions-is-a-move-to-quell-dalit-resistance/articleshow/79550748.cms Retrieved on: 20.12.2021.
تفصيل کے ليے ديکھيں ذبيحہ گاو کي معيشت
https://www.thehindu.com/opinion/op-ed/the-economics-of-cow-slaughter/article7880807.ece Retrieved on: 20.12.2021.