ہندتوا کی فکری اساسیات

تحریک اسلامی جس تبدیلی کی داعی ہے اس کا تقاضا ہے کہ وہ جہاں پوری استقامت اور استقلال کے ساتھ اسلام کی اصولی دعوت پیش کرتی رہے وہیں اپنے زمان و مکان کے اہم نظریاتی، سماجی و سیاسی رجحانات سے ضرور تعرض کرے اور اپنے مخاطب سماج کے ساتھ خیر خواہانہ رابطے اور اس میں رائج خیالات کے ساتھ بامقصد مکالمے کا عمل جاری رکھے۔ اس مخاطبت کے لیے ضروری ہے کہ تحریک کے پاس ایسا بیانیہ ہو جو اپنی فکری بنیادوں سے مضبوطی سے وابستہ ہو اور ساتھ ہی اپنے زمانے کے اہم ترین سوالات اور زیر بحث موضوعات اور افکار کے سلسلے میں واضح اور مدلل موقف کا بھی حامل ہو۔

اس وقت ہمارے ملک میں ایک غالب فکری رجحان وہ ہے جس کی نمائندگی ہندتوا (Hindutva) کی تحریک کرتی ہے۔ یہ رجحان تیزی سے ملک کے پڑھے لکھے عوام میں مقبول بھی ہورہا ہے۔ چناں چہ اب ہندتوا کی سیاسی پیش قدمی روکنے کی کوشش کافی نہیں ہےبلکہ زیادہ ضروری، فکر و نظریے کی سطح پر ان کا مقابلہ ہے۔ اس نظامِ فکر کا خالص اسلامی بنیادوں پر جائزہ و تجزیہ ہمارے زمانے کی ایک اہم دعوتی و نظریاتی ضرورت ہے۔ ہم آئندہ چند ماہ تک اس فکر کو زیر بحث لانے کی کوشش کریں گے۔ اس تحریک کے مفکرین اور قائدین کے سیاسی مواقف اور عملی و سیاسی اقدامات پر تجزیوں کی تو کوئی کمی نہیں ہے۔ مسلم حلقوں میں بھی ہماری صحافت کا اب یہ اہم موضوع بن گیا ہے۔ ہم اس سلسلہ مضامین میں ان امور کا احاطہ نہیں کریں گے بلکہ یہ سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ اس تحریک کی نظریاتی بنیادیں کیا ہیں؟ اُن کا ورلڈ ویو کیا ہے؟ وہ کس طرح کی سماجی، سیاسی اور تہذیبی تبدیلی کے داعی ہیں؟ ہماری کوشش ہوگی کہ ان باتوں کو اس تحریک کے اولین فکر سازوں کے حوالوں سے بھی سمجھیں اور اُن کے افکار میں جو ارتقا یا تبدیلی واقع ہوتی رہی ہے اور موجودہ دور میں جو سوچ پائی جاتی ہے اس کا بھی سنجیدہ مطالعہ کریں۔

ہمارے ملک میں متعدد فکری رجحانات اس نظام فکر کے حریف کے طور پر سامنے آتے ہیں اور سیکولر، سماج واد، اشتراکیت وغیرہ شناختوں کے ساتھ، ہندتوا کے مقابلے کے دعوے دار ہیں۔ ہم ان کو بھی زیر بحث لائیں گے۔ ان میں سے ہر مکتبِ فکر نے اس ہندتوا کو اپنے زاویہ نظر سے دیکھا ہے۔ یہ زاویے ہم پر، یعنی مسلمانوں اور وابستگان تحریک کی سوچ پر، بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ ہم خیال و نظر کے ان زاویوں کو بھی گہرائی سے سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ ان کی خوبیوں اور کم زوریوں کو زیرِ بحث لائیں گے اور ان کی اُن نظریاتی، عملی اور سیاسی و سماجی غلطیوں کے تجزیے کی کوشش کریں گے جو ان کے نظریاتی زوال اور ان کے مقابلے میں زیرِ بحث فکر کے تیز رفتار فروغ کا سبب بن رہی ہیں۔

اس تحریک کو مسلمان اپنے لیے شدید نقصان دہ سمجھتے رہے اور مختلف طریقوں سے اس پر ردِ عمل کا مظاہرہ بھی کرتے رہے۔ مختلف طرح کے مسلم رد عمل کی پشت پر بھی سوچ کے مختلف دھارے ہیں۔ بعض دھارے مسلمانوں کے اپنے ہیں اور بعض معاصر سیکولر و دیگر تحریکات سے مستعار یا ان کے اثرات کا نتیجہ ہیں۔ رد عمل کی ان مختلف اقسام کا، خصوصاً نظریاتی ردِ عمل کی اقسام کا بھی تجزیہ کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

یہ بڑی اہم بحث ہے جو ہم چھیڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اس میں پیش کیے جارہے خیالات پر ایک سے زیادہ آرا اور بحث و مباحثے کی نہ صرف گنجائش ہے بلکہ اس سلسلے کا مقصد ہی یہ ہے کہ ان موضوعات پر سنجیدہ اور گہرے مباحث آگے بڑھیں اور عملی سیاست کی وقتی الجھنوں کے بجائے اس تحریک کو ان کے افکار کی گہرائی میں جاکر سمجھا جائے۔ مجھے امید ہے کہ اہل علم اس بحث کو آگے بڑھانے میں ہماری مدد کریں گے۔

اہم نظریہ ساز

ہندتوا تحریک کے نظریہ سازوں میں شاید سب سے اہم نام ونایک دامودر ساورکر (وفات: 1966) کا ہے۔ چٹپاون مراٹھی برہمن خاندان میں پیدا ہونے والے ساورکر، اس وقت تمام ہندو احیا پرست تحریکوں کے باوا آدم مانے جاتے ہیں۔ مراٹھی اور انگریزی میں ان کی جملہ 38 تصانیف دستیاب ہیں۔ Six Glorious Epochs of Indian History [1] ایک اہم کتاب ہے جس سے ہندوستان کی تاریخ کو دیکھنے کا ساورکر کا نظریہ معلوم ہوتا ہے۔ تاریخ پر ان کی کچھ اور کتابیں بھی ہیں، کچھ آپ بیتیاں اور جیل کی روداد وغیرہ ہیں۔ سب سے اہم کتاب ’ہندتوا‘ ہے جو 1923 میں ساورکر نے اپنے نام کے بغیر ’ایک مراٹھا‘ (A Maratha) کے نام سے شائع کروائی تھی۔ یہ 68 صفحات کا مختصر کتابچہ ہے۔[2] اب جو ایڈیشن عام طور پر فروخت ہوتا ہے وہ ? Hindutva: Who is a Hindu [3] کے نام سے، مقدمے وغیرہ کے اضافے کے ساتھ، قدرے تفصیلی (159 صفحات) ہے جس میں ہندتوا کے نظریے کی وضاحت کی گئی ہے۔

ساورکر ایک قوم پرست تھے اور خود کو دہریہ کہتے تھے۔ ان کے افکار زیادہ تر یورپ کے سیکولر قوم پرست اور نازی خیالات سے متاثر تھے۔ آر ایس ایس کے دوسرے سرسنگھ چالک، مادھوراو گولوالکر (وفات 1973) نے ان افکار کو قدیم ہندو فلسفوں اور روحانی و مذہبی خیالات کی بنیاد پر نیا پرکشش جامہ پہناکر ہندو عوام میں مقبول بنایا ہے۔ گولوالکر کو سنگھ کے حلقوں میں گروجی کہا جاتا ہے۔ اس وقت وہ ان حلقوں کے سب سے مقبول مفکر ہیں اور سب سے زیادہ انھی کے حوالوں سے یہ نظامِ فکر زیر بحث آتا ہے۔ ان کی باقاعدہ تصانیف توصرف دو ہیں۔ ایک Bunch of Thoughts [4] اور دوسری We or Our Nationhood Defined [5]۔ ان کے علاوہ ان کی جملہ تقریروں اور تحریروں کو 12 جلدوں میں جمع کیا گیا ہے۔ یہ ہندی کتاب بھی آسانی سے دستیاب ہے۔ [6] انگریزی میں Guruji Vision and Mission [7] نامی کتاب میں ایک جلد میں ان کے خیالات کو مختلف عنوانات کے تحت جمع کیا گیا ہے۔

سنگھ کے فلسفے اور نظریات کی سب سے زیادہ تفصیلی وضاحت گولوالکر ہی کی تصانیف سے ملتی ہے اور انھی کا حوالہ سب سےزیادہ دیا بھی جاتا ہے۔ ساورکر کی طرح ان کے بعض خیالات بھی انتہائی شدید ہیں۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس وقت سنگھ کے سب لوگوں کو ان خیالات سے اتفاق نہ ہو۔ بعض دفعہ اس کا اظہار بھی کیا گیا ہے، مثلاً آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت نے ان کی بعض باتوں کو آج کے احوال سے غیر متعلق قراردیا ہے۔ (تفصیل آگے آرہی ہے) لیکن اکثر تجزیہ نگار وں کے نزدیک اس تحریک کی اصل سوچ کی سب سے زیادہ دیانتداری کے ساتھ وضاحت گولوالکر ہی نے کی ہے جب کہ دیگر مفکرین نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر لاگ لپیٹ سے کام لیا ہے۔

دین دیال اپادھیائے(وفات 1968) کی اہمیت یہ ہے کہ انھیں سیاسی جماعت، جن سنگھ اورپھر اس کی بدلی ہوئی شکل یعنی بی جے پی کا اصل نظریہ ساز مانا جاتا ہے۔ انھوں نے 1965 میں ممبئی میں دیے گئے اپنے چار لیکچروں میں اپنی پارٹی کے نظریے کی وضاحت کی ہے اور اس نظریہ کو ’متکامل انسانیت پسندی‘ (Integral Humanism) کا عنوان دیا ہے۔ انٹیگرل ہیومنزم کو بی جے پی، اپنا سیاسی نظریہ قرار دیتی ہے۔ یہ بات بی جے پی کے دستور (دفعہ 3) میں باقاعدہ لکھی ہوئی ہے۔ [8] بی جے پی کا رکن بننے کے لیے بھی انٹیگرل ہیومنزم پر یقین و ایمان کےعہد نامے پر دستخط کرنے ہوتے ہیں۔ [9]

اس طرح ساورکر، گولوالکر اور اپادھیائے کے خیالات کو اس تحریک کی اساسی فکر کی حیثیت حاصل ہے۔ ان کے بعد اس تحریک کی فکر کو سمجھنے کے لیے کئی مصادر سے مدد ملتی ہے۔ سنگھ کے سرچالکوں کے خیالات کو جمع کرکے کئی کتابیں شائع کی گئی ہیں۔ اس کے ترجمان آرگنائزر میں متعدد قائدین مسلسل لکھتے رہے ہیں۔ ان میں بلراج مدھوک (وفات 2016)، کے ایس سدرشن (وفات 2012) ایچ وی سیشادری (وفات 2005) اٹل بہاری واجپئی (وفات 2018) بھیا جی جوشی، منموہن ویدیہ، سیشادری چاری وغیرہ کا مختلف ادوار میں اس تحریک کی نظریہ سازی میں رول رہا ہے۔ حال ہی میں (ستمبر 2018) سنگھ کے موجودہ سرسنگھ چالک، موہن بھاگوت نے دلی کے وگیان بھون میں تین روز تک سنگھ کے افکار و پالیسیوں پر لیکچروں کے سلسلے کا اہتمام کیا تھا اور تیسرے دن سوالات کے جوابات بھی دیے تھے۔ ان لیکچروں کو[10] Future India: An RSS Perspectiveکے عنوان سےکئی زبانوں میں شائع کیا گیا ہے۔ ان سے موجودہ قائدین و مفکرین کی سوچ کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ ذیل کی سطروں میں ہم ان سب سرچشموں کو سامنے رکھ کر اس تحریک کی فکر کے تجزیے کی کوشش کریں گے۔

اگرچہ یہ مفکرین اس بات کا بار بار دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے نظامِ فکر میں مختلف عقائد، افکار اور مذاہب کے تنوع کی گنجائش ہے اور یہ ان کے نظامِ فکر کی قابلِ فخر خصوصیت ہے۔ اس سلسلے میں عملی رویوں کا جائزہ ہم الگ سے لیں گے لیکن جہاں تک اعلان شدہ فکر کا تعلق ہے اس میں بھی کم سے کم درج ذیل باتیں ایسی ہیں جسے اس نظامِ فکر کی امتیازی خصوصیات کہا جاسکتا ہے۔ سنگھ کے مفکرین کی تحریروں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان امور پر کسی مصالحت کے لیے وہ تیار نہیں ہیں جب کہ یہ ایسے افکار ہیں جن کے ذریعے وہ ملک کے کچھ طبقات کو باقاعدہ الگ (exclude) کرتے ہیں۔

وجود کی وحدت

کسی بھی نظام فکر کی اصل بنیاد اس کا ورلڈ ویو ہوتا ہے۔ ہندتوا کے ورلڈ ویو کو سمجھنے کی کوشش کی جائے تو ایک اہم سوچ جو تمام مفکرین میں مشترک نظر آتی ہے وہ وجود کی وحدت (Unity of Existence) کا نظریہ ہے۔ یہ قدیم ہندو فلسفہ ہے جسے ہندو لٹریچر میں ادویتا ویدانتا (अद्वैत वेदान्त) کہا گیا ہے۔ اس فلسفے کی جڑیں ہندوؤں کی تمام مقدس کتابوں ویدوں، برہما سُوترا اور بھگوت گیتا میں ملتی ہیں۔ آٹھویں صدی عیسوی میں مشہور ہندو فلسفی آدی شنکر نے اس قدیم فلسفے کے احیا کی کوششیں کیں جس کے نتیجے میں عہد وسطیٰ اور عہد جدید کے برہمن روحانی افکار میں یہ غالب فکر رہی ہے۔

اس کا خلاصہ یہ ہے کہ کائنات میں اصل حقیقت صرف ایک یعنی برہما ہے۔ انسانی روح بھی اصلاً اسی کا حصہ ہے اور کائنات کے سارے اجزا دراصل اسی ایک وجود کا حصہ ہیں۔ باقی جو بھی نظر آتا ہے وہ محض مایا (माया) یعنی اسی ایک حقیقت کا فریب ظہور ہے۔ اس فکر کے اثرات سے بعض مسلمان صوفیا میں بھی وحدت الوجود جیسے نظریات کی بعض انتہا پسندانہ شکلوں کا فروغ ہوا۔ (حالاں کہ صوفیا کے تصورات اور ادویتا میں بعض جوہری فرق ہیں جن پر آئندہ ہم گفتگو کریں گے) سنگھ کے مفکرین اس نظریے کو اپنے نظامِ فکر کی اہم بنیاد قرا دیتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں رہنے والے سب لوگ اسے تسلیم کریں۔ اس وقت دارا شکوہ اور بعض مسلمان صوفیا کے افکار کو مقبول بنانے کی جو کوششیں ہورہی ہیں، اُس کے پیچھے بھی یہی محرک ہے۔ بظاہر یہ محض ایک روحانی نقطہ نظر محسوس ہوتا ہے لیکن آگے ہم واضح کریں گے کہ جس طرح اس کی تعبیرات کی گئی ہیں، اس سے گہرے سماجی، مذہبی، تہذیبی، قانونی بلکہ سیاسی نتائج بھی نکلتے ہیں۔

گولوالکر سے ایک مسلمان صحافی جیلانی نے تفصیلی انٹرویو لیا تھا۔ آج کل اس انٹرویو کے متن کو خوب پھیلایا جارہا ہے۔ اس میں انھوں نے کہا کہ:

اسے آپ ادویتا کہیں یا کچھ اور کہیں لیکن یہ فلسفہ نہ ہندوؤں کا ہے نہ مسلمانوں کا (یعنی سب کا ہے)۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وجود صرف ایک ہے۔ وہی ایک سچائی ہے۔ (وہی) حقیقی مسرت ہے۔ وہی خالق ہے، رب ہے اور وہی تباہ کرنے اور ختم کرنے کی طاقت رکھتا ہے۔ ہمارے درمیان خدا کے جتنے مختلف تصورات پائے جاتے ہیں وہ اسی حتمی حقیقت کے محدود تصورات ہیں۔ اس حتمی حقیقت کی بنیادیں ہم سب کو جوڑتی ہیں۔ یہ حقیقت کسی خاص مذہب تک خود کو محدود نہیں رکھتی… مذہب صرف پرستش کا طریقہ ہے۔ [11]

گولوالکر کا یہ فلسفیانہ بیانیہ اپادھیائے کے انٹیگرل ہیومنزم میں ایک سیاسی و سماجی بیانیے کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ [12] اپادھیائے نے فرد پسندی (individualism) کے مغربی تصور کو مسترد کیا۔ ان کے مطابق سماج، افراد کے درمیان سماجی معاہدے کا نتیجہ نہیں ہے (جیسا کہ مغربی ماہرین سماجیات بیان کرتے رہے ہیں) بلکہ سماج خود ایک زندہ وجود ہے۔ اس کی اپنی روح ہے۔ اس کے چار اہم اجزا جسم، دماغ، عقل اور روح ہیں[13]۔ اور ان چاروں کے ساتھ چار طرح کی کوششیں (पुरुषार्थ) وابستہ ہیں جنھیں انھوں نے ارتھا (अर्थ) (معاشی اطمینان) کاما (काम) (خواہش کی تسکین)، دھرما (धर्म) (اخلاقی اطمینان ) اور موکشا (मोक्ष) (نجات) کے الفا ظ سے تعبیر کیا۔ [14]یہ سب ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جدید مغربی تصورات نے صرف جسم اور دماغ کو ایڈریس کیا اس لیے وہ ناکام ہیں۔ فرد کی طرح سماج کی بھی روح ہوتی ہے جسے انھوں نے چیتی (चिति) کا نام دیا۔ [15]انسانی روح (आत्मा) عظیم ترین الہامی روح (चैतन्य) کا اظہار ہے۔ انسانی روح جب اپنے تمام کمالات حاصل کرلیتی ہے تو الوہی روح میں ضم ہوجاتی ہے جو موکشا ہے اور انسان کا حتمی مقصد ہے۔ اس کے حصول کے مختلف طریقے مذہبی رہ نماؤں نے بیان کیے ہیں۔ جس کو جو طریقہ پسند ہو اس کے مطابق وہ یہ مقصد حاصل کرسکتا ہے یا اپنا طریقہ و راستہ خود ایجاد کرسکتا ہے۔ ہندوستانی تہذیب ان چاروں کو ملاکر ایڈریس کرتی ہے۔

فرد، سماج، فطرت اور کائنات یہ شعور کی چار سطحیں ہیں لیکن ان میں باہم کوئی تضاد نہیں ہے۔ ان کے درمیان ہم آہنگی ہے۔ ان کے درمیان توازن کا نام ہی دھرما ہے۔

انھوں نے ان اصولوں کی بنیاد پر سیاسی و سماجی نظاموں کا ایک خاکہ پیش کیا جو ان کے مطابق ہندوستان کی تہذیبی روح سے ہم آہنگ ہے۔ اسی خاکے کو بی جے پی اپنا سیاسی نظریہ قرار دیتی ہے۔

سنگھ کے موجودہ سرسنگھ چالک موہن بھاگوت نے اپنے لیکچر میں ہندوستانی مذہبی فکر پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہاں بہت سے اختلافات ہیں لیکن چند باتوں پر مکمل اتفاق ہے۔ یہ اتفاق ہی ہندوستانیت کو ظاہر کرتا ہے۔ اس اتفاق کو انھوں نے پانچ اصولوں کی صورت میں بیان کیا۔ جن میں چوتھا اصول یہ ہے کہ:

پورے وجود کا تم ایک حصہ ہو۔ تمہاری تشکیل اس ایک مکمل وجود کی وجہ سے ہوئی ہے… جسم مجھے والدین کی وجہ سے ملا۔ تہذیب مجھے خاندان کے ذریعے ملی۔ تعلیم، سماج اور اساتذہ کے ذریعے ملی۔ کپڑا پہنتا ہوں تو کہیں مل چلتی ہے، کہیں کوئی بنتا ہے۔ کسان کھیتی کرتا ہے جو کپاس مہیا کرتا ہے… آپ اس کائنات کے جزو ہیں۔ آپ کو اس کے لیے تعاون پیش کرنا ہے۔ اس کے حوالے سے ممنون رہنا ہے۔ وہ ایک (وجود) کیا ہے؟ جب اس کا تجزیہ شروع ہوتا ہے تو کوئی اس کو معبود مانتا ہے، کوئی تحریک مانتا ہے کوئی کُل مانتا ہے۔ باہمی اختلاف بھی ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی مذمت اور رد بھی ہوتا ہے۔ لیکن کوئی کسی کو ختم نہیں کرتا… (یہ بھارتیتا ہے)[16]

جدید مغربی فلسفے میں ایک رجحان ہے جسے نامیاتیت (Organicism) کہا جاتا ہے۔ اس کے مطابق کائنات اور انسانی سماج ایک زندہ وجود ہے اور تمام اجزا الگ الگ اشیا یا افراد نہیں بلکہ اُسی ایک زندہ وجود کے حصے ہیں۔ [17] برطانوی فلسفی تھامس ہابس نے کہا تھا کہ ریاست ایک سیکولر خدا ہے اور شہریوں کو اپنے اندر سموکر ایک زندہ وجود بنتی ہے۔ [18] محسوس ہوتا ہے کہ ویدانت کے قدیم فلسفوں کے ساتھ، ان جدید مغربی فلسفوں کا بھی اثر ان مفکرین نے قبول کیا ہے۔

اس نامیاتی فلسفے کے نتیجے میں فرد کی اہمیت کم ہوجاتی ہے۔ مختلف سماجی گروہوں کی اہمیت بھی کم ہوجاتی ہے۔ اصل اہمیت اس بڑے’نامیاتی وجود‘کو حاصل ہوجاتی ہے جسے یہ لوگ راشٹر کہتے ہیں۔ افراد اور سماجی گروہ اس بڑے وجود کے اجز ا اور کل پرزے بن جاتے ہیں۔ ان کے انفرادی یا گروہی مفادات کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ سنگھ کے افکار اور مواقف پر اس طرز فکر اور اس فکری اساس کی گہری چھاپ صاف محسوس کی جاسکتی ہے۔ یہ بات ظاہر ہے کہ نامیاتیت کے اس فلسفے کو تمام ہندوستانیوں کے مشترکہ فلسفے کے طور پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔ اسلام سمیت کئی مذاہب کے عقائد اور تعلیمات سے یہ راست متصادم ہے۔ لیکن سنگھ کے مفکرین اسے ایک جوڑنے والے اور مشترکہ فلسفے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

ہندو قوم یا بھارت ماتا

ا ن تمام مفکرین کی ایک مشترک دھارا شدید قسم کی قوم پرستی کی دھارا ہے۔ قوم پرستی اصلاً ایک جدید یورپی فکر ہے جو، قوم (nation)، نسلیت (ethnicity)، قوم کی خود مختاری (national sovereignty)، خودمختار ریاست (state)، وغیرہ جیسے تصورات سے تشکیل پاتی ہے۔ ہندتوا مفکرین نے ویدوں کے قدیم فلسفوں کو ان جدید مغربی فلسفوں سے ملا کر ایک ملغوبہ تیار کیا ہے۔ کئی جگہوں پر یہ تصور دھندلا اور غیر واضح بھی ہو جاتا ہے۔

اس رجحان کی ابتدا ساورکر سے ہوتی ہے۔ ساورکر کے یہاں قوم پرستی کا تصور جدید یورپی تصور سے کافی قریب تھا۔ وہ ہندوستان کے اصلی باشندوں کو ایک قوم سمجھتے تھے۔ ہندو، ان کے نزدیک اسی قوم کا نام ہے، جس کے افراد، جغرافیائی وحدت کےساتھ نسلی اشتراک اور تہذیبی وحدت کے بندھنوں میں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ جن لوگوں نے اسلام یا عیسائیت قبول کی، انھیں وہ ایک جداگانہ قوم تصور کرتے تھے۔ [19]

بعد میں جب وجود کی وحدت کے مذکورہ نظریہ نے سیاسی زبان اختیار کی تو وہ ہندوؤں کی وحدت میں بدل گیا۔ گولوالکر نے واضح کیا کہ قدیم فلسفوں میں انسان سے مراد، ہندو عوام ہیں۔ ہندوستان میں رہنے والے سب لوگ ایک مقدس کل کا جزو ہیں۔ خدا پوری کائنات پر محیط ہے۔ سورج اور چاند اس کی آنکھیں ہیں۔ ستارے اس کی ناف سے نکلے ہیں۔ برہمن اس کا سر ہیں۔ بادشاہ اس کے ہاتھ ہیں۔ ویشیہ اس کی رانیں ہیں اور شودر اس کے پیر ہیں۔ تمام ہندو عوام اس کا جز ہیں اس لیے الوہی صفات رکھتے ہیں۔ اُن کی خدمت خدا کی خدمت ہے۔ ان کے درمیان تفریق جائز نہیں۔ [20]

ان کے نزدیک ہندوستانی عوام کی الوہیت کا اظہار ‘بھارت ماتا ‘سے ہوتا ہے جو محض ایک مورتی نہیں بلکہ ایک زندہ خدا (living god) ہے۔ یہ خدا کی بھی علامت ہے اور بھارتی عوام کی بھی جو دونوں دراصل ایک ہی یعنی ایک ہی وجود کا حصہ ہیں۔ اس لیے مقدس ہیں۔ (سبحان اللہ عما یصفون)

گولوالکر کے بقول:

لوگ مندروں کو جاتے ہیں اور وہاں مورتیوں پر توجہ مرکوز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ (یہ سوچ کر) کہ یہ خدا کی علامات ہیں۔ ایک بے شکل (निराकार) اور بے صفت (निर्गुण) خدا (کا تصور) ہمیں کہیں نہیں لے جاپاتا۔ لیکن ہم جیسے سرگرمی اور زندگی سے بھرپور لوگوں کو یہ سب مطمئن نہیں کرسکتا۔ ہمیں ایک زندہ خدا (living god) کی ضرورت ہے۔ [21]

اگلی سطروں میں وہ ہندو قوم کو اس زندہ خدا کے طور پر تسلیم کرتے ہیں۔ [22]

مزید لکھتے ہیں:

ہندوستان کی یہ مقدس سرزمین ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے سے بحر ہند تک وسیع ہے۔ بھارت ماتا نے ہزاروں سال سے اپنے دو ہاتھ دو سمندروں میں ڈبو رکھے ہیں۔ اس لیے (مغرب و مشرق میں) اس کے حدود ایران سے سنگاپور تک وسیع ہیں اور جنوب میں سری لنکا در اصل اس کے قدموں پر چڑھایا ہوا کنول کا پھول ہے۔ [23]

یہی وہ تصور ہے جس کا اظہار بنکم چندر چٹرجی کے نغمے وندے ماترم میں ہوتا ہے اور اسی سے بھارت ماتا کی دیوی، اس کی پوجا اور اس کی جے جے کار کی روایتوں کو تخلیق کیا گیا ہے اور اسی نظریے کی تربیت اور اس کے مطابق ذہن سازی کی کوشش آر ایس ایس کی شاکھاوں میں کی جاتی ہے جہاں شاکھا کا آغاز عام طور پر ایک خاص پرارتھنا سے ہوتا ہے جس کے ابتدائی الفاظ ہیں۔ नमस्ते सदा वत्सले मातृभूमे (میں سر خم کرتا ہوں تیرے آگے ہمیشہ کے لیے اے مادر ارضی)

اس بحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہندتوا کے نظامِ فکر میں وطن یا قوم سے صرف محبت کافی نہیں ہے بلکہ اسے خدا سمجھ کر یا خدا کا روپ سمجھ کر اس کی پوجا کرنا بھی ضروری ہے۔

ہندو یا بھارتی قوم کون ہے؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ ‘مقدس عوام’ جن سے ہندوستانی قوم کی تشکیل پاتی ہے یا جنھیں ہندو کہا جارہا ہے وہ کون ہیں؟ اس کا تعین اس لیے ضروری ہے کہ اسی پر اس تحریک کے فکر کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ سنگھ کے موجودہ مفکرین یہ تاویل کرتے ہیں کہ ان کی پوری قوم کا نام ہندو ہے، اور وہ سب کو ہندو سمجھتے ہیں لیکن اگر کوئی ہندو کو کسی مذہب کانام سمجھتا ہے اور ہندو کہلانا نہیں چاہتا تو وہ بھارتی کہلائے، اس پر اعتراض نہیں ہے۔ بہر حال وہ اس قوم کا حصہ ہے۔ [24] لیکن اس قوم کی تعریف کیا ہے؟ کیا بھارت کا ہر شہری اس قوم کا حصہ ہے؟ اس سوال پر اصل کنفیوژن ہے۔ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ جو لوگ مختلف ہندوستانی مذاہب کی پیروی کرتے ہیں وہ سب اس میں شامل ہیں۔ لیکن جولوگ عیسائیت یا اسلام کی پیروی کرتے ہیں کیا وہ بھی ہندوستانی قوم کا حصہ ہیں؟ اس سوال نے ان مفکرین کو اول روز سے پریشانی میں ڈال رکھا ہے۔

ساورکر نے بڑی وضاحت سے ’ہندو‘ کی قوم پرستانہ تعریف متعین کی تھی۔ ان کے مطابق ہندو کا مطلب کسی خاص مذہب کے ماننے والے نہیں بلکہ وہ تمام لوگ ہیں جن کے اندر تین خصوصیات پائی جاتی ہیں۔ ایک ہندوستان میں جنم (राष्ट्र) دوسرے ہندوستانی نسل میں جنم (जाती) اور تیسرے ہندوستانی تہذیب (संस्कृति) کو اختیار کرنا۔ [25] جغرافیائی اور نسلی اعتبار سے تو مسلمان اور عیسائی بھی اس تعریف پر پورے اترتے ہیں۔ لیکن تہذیب کا کیا مطلب ہے؟ اگر تہذیب کا مطلب، زبان، رہن سہن، غذا، شاعری، آرکٹیکچر وغیرہ ہے تو اس کے اکثراجزا بھی مشترک ہیں لیکن ساورکر کے نزدیک تہذیب کے اہم ترین مظاہر ریتی، رواج اور میلے و تیوہار ہیں۔ اس لیے تہذیبی اشتراک کا مطلب، دیوالی، دسہرہ جیسے تیوہاروں میں اور کمبھ اور دیگرمیلوں میں اشتراک ہے۔ [26]اس تعریف کی رو سے مسلمان، قوم کی اس تعریف سے خارج ہوجاتے ہیں۔

ساورکر کے مطابق اس قوم کا جز ہونے کی ایک اور شرط ہے اور وہ یہ کہ اس ملک کی سرزمین کو آبائی زمین (fatherland/पितृभू) اور مقدس سرزمین (holy land/पुण्यभू) تسلیم کریں۔ [27] مقدس دریا یہاں کے دریا ہوں۔ مقدس مقامات یہاں واقع ہوں۔ جن ہیرووں اور تاریخی کرداروں پر فخر ہو، ان کا تعلق اسی زمین سے ہو۔ ظاہر ہے کہ اس شرط پربھی مسلمان اور عیسائی پورے نہیں اترتے۔

گولوالکر نے ساورکر کے خیالات کو ہندو قوم کی سب سے زیادہ سائنٹفک تعریف قرار دیا تھا اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے مسئلے کا حل یہ قرار دیا تھا کہ وہ ہندو قوم میں جذب (assimilate) ہوجائیں۔ اپنے عقائد اور مذہبی طور طریقے ضرورباقی رکھیں لیکن علحدہ تہذیبی تشخص اور بیرون ملک واقع مقامات سے عقیدت کے جذبات ختم کردیں یعنی گویا مذکورہ تعریفات کے مطابق خود کو ڈھال لیں تاکہ وہ ہندوستانی قوم کا حصہ بن سکیں۔ [28]

مقدس سرزمین (पुण्यभू) کو قومی تشخص کے ساتھ وابستہ کرنے کا یہ فلسفہ، اس تحریک کے نظام فکر کا نہایت ہی اہم جز ہے۔ اٹل بہاری واجپئی کو اس تحریک کا معتدل چہرہ اور معتدل دماغ سمجھا جاتا رہا ہے۔ وہ بھی لکھتے ہیں:

اس ملک کے مسلمانوں کے ساتھ تین طرح کا سلوک ممکن ہے۔ ایک ہے تِرسکار (तिरस्कार) یعنی وہ خود کو نہ بدلیں تو انھیں اکیلا چھوڑدو، مسترد کردو اور اپنا مخالف سمجھو۔ دوسرا ہے پرسکار (पुरस्कार) یعنی خوشامد کا رویہ یعنی انھیں درست رکھنے کے لیے رشوت دو، جواس وقت کانگریس کررہی ہے۔ تیسرا طریقہ ہے پرشکار (परिष्कार) یعنی انھیں تبدیل کرو، انھیں آداب (संस्कार) سکھاؤ اور قومی دھارا میں شامل کرو۔ ہم یہی کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا مذہب نہیں بدلا جائے گا۔ وہ اپنے مذہب پر عمل کرسکتے ہیں۔ مکہ ان کی مقدس جگہ رہ سکتا ہے لیکن بھارت اس مقدس جگہ سے بھی مقدس تر ہونا چاہیے۔ آپ مسجد جائیں، نماز پڑھیں، روزہ رکھیں، ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن اگر مکہ اور ہندوستان کے درمیان منتخب کرنے کی نوبت آئے تو آپ ہمیشہ ہندوستان کو ترجیح دیں۔ تمام مسلمانوں کے اندر یہ جذبہ ہونا چاہیے کہ ہم ہندوستان کے لیے جئیں گے اور اسی کے لیے مریں گے۔ [29]

آر ایس ایس کے موجودہ مفکرین ان خیالات سے اختلاف کرتے ہیں یا ان کی تاویلات پیش کرتے ہیں۔ بنچ آف تھاٹ کو ان میں سے بعض مفکرین گولوالکر کی تصنیف ہی نہیں مانتے اور بعض یہ کہتے ہیں کہ یہ کتاب اس وقت لکھی گئی تھی جب وہ آر ایس ایس کے عہدیدار نہیں تھے اوریہ سنگھ کے خیالات کی نمائندگی نہیں کرتی۔ موہن بھاگوت کہتے ہیں:

خاص سیاق میں یا کسی واقعے کے پس منظر میں باتیں کہی جاتی ہیں۔ ایسی باتیں ہمیشہ کے لیے درست نہیں ہوسکتیں۔ گروجی کے دائمی اہمیت کے حامل افکار کو ہم نے ’Shri Guruji: His Vision and Mission‘ کے عنوان سےْ الگ سے شائع کیا ہے۔ اس میں وہ ساری باتیں، جو ہر زمانے کے لیے قابل توجہ ہیں، انھیں شامل کیا گیا ہے اور جو باتیں مخصوص حالات کے تناظر میں کہی گئی تھیں انھیں نکال دیا ہے۔

آر ایس ایس کے لکھنے والے یہ دعوی بھی کرتے ہیں کہ خود گولوالکر کے خیالات وہ نہیں تھے جو مذکورہ تحریروں سے سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے ثبوت میں جیلانی کو دیا ہوا انٹرویو پیش کیا جاتا ہے۔

ڈاکٹر جیلانی نے پوچھا: ’ہندوستانی کرن‘ (Indianisation) کے بارے میں بہت کچھ کہا گیا اور بہت سا کنفیوژن ابھی بھی باقی ہے۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ اس کنفیوژن کو کیسے دور کیا جائے؟ گولوالکر نے جواب دیا:

جی ہاں، ہندوستانی کرن ہمارا نعرہ رہا ہے۔ اس میں کنفیوژن کی کیا بات ہے؟ اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ تمام لوگوں کو ہندو مذہب میں لایا جائے۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہم سب اس سرزمین کے بچے ہیں اور اس سرزمین سے ہماری وفاداری ہونی چاہیے۔ ہمارا سماج ایک ہے اور ہمارے اجداد ایک تھے۔ ہماری امنگیں بھی ایک ہیں۔ اس کا شعور پیدا کرنا ہی ہندوستانی کرن ہے۔ اس کا مطلب کوئی مذہب چھوڑنا نہیں ہے۔ ہم نے نہ کبھی یہ کہا ہے اور نہ کبھی کہیں گے۔ بلکہ ہم تو یہ مانتے ہیں کہ تمام انسانی سماج کے لیے ایک ہی مذہبی نظام مناسب نہیں ہے۔ [30]

یہ بھی کہا گیا کہ گولوالکر کا تصور ایک ہندو قوم کا تصور تھا جو ایک تہذیبی تصور ہے۔ اس کا تعلق ریاست سے نہیں ہے۔ حکم ران چاہے جو بھی ہو اور ریاست کچھ بھی ہو، ہم لوگ ایک تہذیب کے حامل ایک قوم ہیں۔ [31]

آر ایس ایس کے موجودہ سربراہ موہن بھاگوت نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا:

مذہب اور تہذیب سے قطع نظر، وہ تمام لوگ جو قومی جذبہ رکھتے ہیں اور بھارت کی تہذیب اور ورثے کا احترام کرتے ہیں، وہ سب ہندو ہیں۔ آر ایس ایس اس ملک کے تمام 130کروڑ باشندوں کو ہندو سمجھتی ہے اور ہم ایسا ہی متحدہ سماج تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ [32]

یہ موجودہ سربراہ کا ایک ڈپلومیٹک بیان ہے۔ اوپر کی تفصیل سے واضح ہے کہ یہ نظامِ فکر، ہندو راشٹر یا بھارتی قوم کا حصہ اُن لوگوں کو مانتا ہے جو بھارت ماتا کی پوجا کرتے ہیں، ملک کو مقدس سمجھتے ہیں، وجود کی وحدت کے قائل ہیں اور تمام مذاہب کو سچ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ یہ نہیں مانتے وہ ان کی اصلاح چاہتے ہیں۔ جب اصلاح ہوگی تو وہ قوم کا حصہ بنیں گے۔

سامی طرز فکر (Semitic Thought) کی مخالفت

اس نقطہ نظر کی مزید وضاحت اُن تنقیدوں سے ہوتی ہے جو سنگھ کے نظریہ ساز ایک طرز فکر پر کرتے ہیں جسے وہ سامی طرز فکر (Semitic Thought) کہتے ہیں۔ گولوالکر نے اس کے سلسلے میں اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے لکھا تھا:

وہ مذاہب جو ایک کتاب، ایک پیغمبر اور ایک خدا میں یقین رکھتے ہیں، جن کو مانے بغیر انسانی روح کی نجات (کو) ممکن نہیں (سمجھتے، وہ اصل مسئلہ ہیں)۔ اس نقطہ نظر کی نامعقولیت کو سمجھنے کے لیے غیر معمولی ذہانت کی ضرورت نہیں ہے۔ [33]

جہاں تک بھارت کا تعلق ہے، یہاں پر خدا کو کسی بھی نام سے پکارنے پر کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔ اس زمین کے مزاج میں یہ بات شامل ہے کہ یہاں تمام مذاہب کا یکساں احترام اور ان سے محبت پائی جاتی ہے۔ دوسرے عقائد یا مذاہب کے سلسلے میں عدم رواداری رکھنے والا کوئی فرد اس زمین کا بیٹا نہیں ہوسکتا۔ [34]

ایک اور ہندتوا مفکر لکھتے ہیں:

روایتی طور پر سامی طرز فکر، انسانوں کو دو حصوں میں تقسیم کرکے دیکھتا ہے۔ ایک وہ جو کسی مخصوص عقیدے کو قبول کرتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے قبول نہیں کرتے۔ جو قبول نہیں کرتے اُن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ شیطان کے دوست اور کافر ہیں اور انھیں زندہ رہنےکا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ اس تخریجی (exclusivist) طرز فکر نےکمیونزم جیسے ان(مغربی) نظریات پر بھی اثر ڈالا ہے جو ان (سامی)علاقوں میں پروان چڑھے ہیں۔ اور یہ(ان نظریات کے ماننے والے) لوگ بھی اُن تمام کو جو اُن کے خیالات سے اتفاق نہیں رکھتے غیر سمجھنے لگتے ہیں۔ یعنی آپ کمیونسٹ نہیں ہیں تو آپ دائیں باز وکے ہیں جو قابل شرم بات ہے۔ [35]

سنگھ کے فلسفہ حیات کو سمجھنے میں اس نقطہ نظر کی بڑی مرکزی اہمیت ہے۔ اُن کے نزدیک یہ بڑی برائی ہے کہ آدمی دوسرے کے مذہب کو غلط سمجھے اور مذہب کو کسی ایک مستند کتاب یا شخصیت سے وابستہ کرلے۔ وہ اسے ہندوستانی طرز فکر کے خلاف باور کراتے ہیں اور سامی، مغربی یا ایسا طرز فکر سمجھتے ہیں جو اس ملک کے لیے بالکل اجنبی ہے۔ وہ اس طرز فکر کو بہت سے مسائل کی جڑ سمجھتے ہیں۔

اسلام اور عیسائیت سے ان کی مخالفت کا سبب بھی وہ یہی باور کراتے ہیں کہ یہ مذاہب اپنے سوا کسی اور کو صحیح نہیں سمجھتے۔ کافر اور گم راہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے دوسروں کو وہ کبھی عزت و احترام نہیں دے سکتے۔

ہندتوا اور ہندو راشٹر کے نظریات

ان اساسی مباحث سے ہندتوا اور ہندوراشٹر کے تصورات کو سمجھنا اب آسان ہوگیا ہے۔ سنگھ کے مفکرین کا استدلال یہ ہے کہ ہندو کسی مذہب کا نام نہیں ہے۔ یہاں سناتن دھرم، بدھ مت، جین مت و غیرہ دسیوں مذاہب پائے جاتے ہیں۔ ہندو کیا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہندو ایک طرز زندگی کا نام ہے اور ایک تہذیب کا نظام ہے۔ اس لیے ان لوگوں کو ہندو دھرم کو ہندوازم کہنے پر بھی شدید اعتراض ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ازم کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ آپ کسی خاص طرز فکر یا آئیڈولوجی کے علم بردار ہیں اور باقی نظریات کو جھوٹ سمجھتے ہیں جب کہ ایسی سوچ ہندومت کے مزاج ہی کے خلاف ہے۔ اس لیے وہ کہتے ہیں کہ ہم’ ہندتوا‘ کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں، یعنی ’ہندو پن‘ یا ’ Hinduness‘۔

ہندتوا کی اصطلاح سب سے پہلے بنگالی ادیب و مصنف چند رناتھ باسو (وفات: 1910) [36]نے انیسویں صدی میں استعمال کی تھی لیکن اسے مشہور کرنے کا سہرا ساورکر کے سر جاتا ہے جنھوں نے اسے کثرت سے استعمال کیااور اس کے ذریعے گویا ہندو قوم کو ایک تشخص دینے کی کوشش کی۔

ہندتوا کے اصولوں کی وضاحت اوپر آچکی ہے۔ اساسی اصول سچائی کی اضافت کا نظریہ ہے۔ (ekam sat, viprah bahudha wadanti) یعنی سچائی صرف ایک ہے، اسے مختلف مذہبی گروہ مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔ گرو گولوالکر نے اسے ہمالیائی وژن کا نام دیا اور سنگھ کی اساسی فکر قرار دیا۔ [37]

جب ہندو کسی مذہب یا نظریہ کا نام نہیں ہے تو ہندو راشٹر کیا ہے اور کن اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پائے گا؟ یہ سوال ہمیشہ ان مفکرین کے سامنے آتا رہا۔ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ہندو راشٹر کا مطلب کسی خاص مذہب کے لوگوں کو فوقیت یا کسی مذہب کی تعلیمات کا نفاذ نہیں بلکہ ہندتوا پر مبنی طرز زندگی کا فروغ ہے۔ منموہن ویدیہ لکھتے ہیں:

راشٹر ایک ویدک اصطلاح ہے اور مغربی تصور قومیت سے بالکل مختلف ہے۔ مغربی تصور قومیت، ریاست کی طاقت پر مرکوز ہے جب کہ راشٹر کا تصور مخصوص تہذیبی قدروں کے ساتھ وابستہ ہے۔ اس میں کسی پر کوئی بات تھوپنے یا اس پر ظلم کرنے کا کوئی شائبہ تک نہیں ہے۔ اس لیے نیشنلزم اور راشٹر واد کے الفاظ بھارت کے پس منظر میں غیر متعلق ہیں۔ یہاں راشٹریتا کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ بھارت کی راشٹریتا۔ [38]

اگر ہندوازم مذہب نہیں ہے تو اسے دھرم کیوں کہا جاتا ہے؟ اس کا جواب وہ یہ دیتے ہیں کہ ہندو فلسفے میں دھرم کے معنی وہ نہیں ہیں جو مذہب یا ریلیجن کے ہیں۔ دھرما کی تشریح بھی تقریباً تمام ہندتوا مفکرین نے کی ہے۔ مثلاًویدیہ، دھرما کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔

اپنائیت کے دائرے کو بڑھاکر سب کو اپنا سمجھنا اور ان کی بھلائی کے لیے کام کرنا دھرما ہے۔ دھرما کا مطلب مذہبی تشخص کی علامات پہن لینا یا مندر یا کسی عبادت گاہ کو جانا نہیں ہے، نہ ہی (کچھ مخصوص) حقائق کا ادراک یا خاص مذہبی رسوم کی ادائیگی دھرما ہے۔ یہ اپاسنا (उपासना) یا عبادت ہے جو دھرما کے راستے پر آگے بڑھنے میں مدد دیتی ہے۔ دھرما کا مطلب بس یہ ہے کہ آپ سماج کی طرف واپس جائیں اور اسے (احسانات کا بدلہ) واپس کریں، سماج کے تئیں اپنی ذمہ داریاں ادا کریں اور سماجی سرمائے کو مالامال کریں۔ [39]

بھارت ہندو راشٹر ہے، یہ کہنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم اس میں مسلمانوں کو نہیں چاہتے۔ جس دن یہ کہا جائے گا کہ اس راشٹر میں مسلمانوں کے لیے جگہ نہیں ہے، اس دن ہندتوا باقی نہیں رہے گا۔ ہندتوا کے مطابق تو ساری دنیا ایک خاندان ہے۔ [40]

سنگھ کے مفکرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کبھی بھی مذہبی ریاست نہیں رہا اور نہ سامی تصور کے مطابق مذہبی ریاست بننے کے مواقع اس کے پاس دستیاب ہیں۔ یہاں ہمیشہ طرح طرح کی مذہبی روایات ایک ساتھ چلتی رہی ہیں۔ ان سب کو بیک وقت درست سمجھا گیا ہے۔ سنگھ کے ایک مفکر کا درج ذیل اقتباس، اس ذیل میں موجودہ علانیہ موقف کی ترجمانی کرتا ہے۔

آرایس ایس نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ہم ایک نیا ہندو راشٹر بنائیں گے یا دستور کو بدل کر اس ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کریں گے۔ اس کےباوجود ہندو راشٹر کے سلسلے میں سنگھ کی وابستگی خوف، غصہ اور مایوسی کی لہر پیدا کرتی ہے۔ دونوں جانب اس سلسلے میں ناواقفیت اور وضاحت کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ایک طرف یہ اندیشوں، بے اطمینانی اور نامعلوم چیز کا خوف پیدا کرنے کا سبب بنتا ہے تو دوسری طرف فخر اور سلامتی کا جھوٹا احساس پیدا کرنے اور متحد کرنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ جب کہ سنگھ اصل میں یہ مانتی ہے کہ کوئی ہندو راشٹر تشکیل دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ بھارت پہلے ہی ہندو راشٹر ہے۔ ہندو اور راشٹر کے الفاظ سمجھنے سے معلوم ہوگا کہ ہندو کسی مذہب کا نام نہیں ہے بلکہ مشرق کے اس خطے میں واقع لوگوں کی دیسی تہذیبی روایات کے مجموعے کا نام ہے۔ [41]

ذات پات کا مسئلہ

عیسائیوں اور مسلمانوں کے مسئلے کے علاوہ جس مسئلے نے اس نظام فکر کے سلسلے میں سب سے زیادہ اضطراب پیدا کیا وہ ذات پات کا مسئلہ ہے۔ ساورکر نے اگرچہ موجودہ دور میں ذات پات کی بنیاد پر تفریقات کو غلط ٹھہرایا لیکن چار ورنوں کے قدیم نظام (चतुर्वर्ण) کی جگہ جگہ توجیہ کی ہے۔ [42]

گرو گولوالکر کے افکار میں تو اس ظالمانہ نظام کی توجیہ ہی نہیں تعریف وتوصیف بھی ملتی ہے۔ مثلاً وہ یورپ کی تاریخ کا تجزیہ کرکے بتاتے ہیں کہ خونی انقلابات، جنگ وجدال، ظلم و استحصال اور غلامی کا اصل سبب سیاسی و معاشی قوتوں کاایک جگہ جمع ہوجانا ہے۔ اس لیے ہندو سماج میں (ورن آشرم کے ذریعے) سیاسی و معاشی قوتوں کو الگ کیا گیا ہے۔ جو لوگ دولت کماتے ہیں (ویشیہ) وہ حکم ران نہیں بن سکتے۔ جو حکومت کرتے ہیں (شتریہ) ان کے ہاتھ میں دولت نہیں ہوتی اور یہ دو نوں طاقتیں یعنی معاشی اور سیاسی طاقت ایک تیسری ’بے غرض طاقت‘ (برہمن ) کی نگرانی میں ہوتی ہے جس کے پاس کوئی طاقت یا اختیار نہیں ہوتا۔ وہ طاقت اور لالچ کے تمام محرکات سے اوپر رہ کر، محض اپنی روحانی و اخلاقی برتری کی بنیاد پر اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ حکم ران یا دولت مند لوگ کوئی ناانصافی نہ کریں۔ [43] اس طرح کی بہت ساری باتیں گولوالکر کی تحریروں میں ہم کو جگہ جگہ ملتی ہیں۔

حتی کہ اپادھیائے کے انٹیگرل ہیومنزم میں بھی ذات پات کے نظام کی توجیہہ و حمایت ملتی ہے۔ وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ یہ دراصل تقسیم کار کا اصول ہے تاکہ سماج کے مختلف بازو ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے قوم کو فائدہ پہنچائیں۔ وہ لکھتے ہیں:

سماج میں طبقات پائے جاتے ہیں۔ یہاں(ہمارے ملک میں) بھی ذاتیں تھیں لیکن ہم نے کبھی ایک ذات اور دوسری ذات کے درمیان ٹکراو کے تصور کو قبول نہیں کیا۔ چار ذاتیں ہمارے تصور کے مطابق انسانِ عظیم (विराट पुरुष) کے اعضا ہیں۔ یہ سمجھا گیا کہ برہمن اس انسانِ عظیم کا سر ہے، شتری اس کے ہاتھ، ویشیہ اس کا پیٹ اور شودر اس کے پیر ہیں۔ کیا ایک ہی انسان کے سر، بازو، معدے اور پیروں میں کوئی ٹکراو ہوسکتا ہے؟۔ ۔ ذات پات کے نظام کا آغاز اس تصور سے ہوا۔ اگر اس تصور کو زندہ نہ رکھا گیا تو ذاتیں بجائے ایک دوسرے کے معاون ہونے کے، باہمی تصادم پیدا کرسکتی ہیں۔ یہی اس وقت ہورہا ہے۔ لیکن یہ حقیقی تصور سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ [44]

سیاسی و معاشی سوچ

یہاں ہم مختصرًا ان سیاسی و معاشی افکار کا جائزہ لیں گے جو مذکورہ فکری بنیادوں پر تشکیل پاتے ہیں اور جنھیں اپادھیائے کے خطبات میں تفصیل سے واضح کیا گیا ہے اور جنھیں بی جے پی اپنا فلسفہ قرار دیتی ہے۔ یہ سب سے زیادہ دل چسپ حصہ ہے کیوں کہ ان افکار کی کوئی جھلک موجودہ پالیسیوں میں نظر نہیں آتی۔

اپادھیائے کہتے ہیں کہ چوں کہ تمام بھارتی، بھارتیتا کے ایک ہی جسم کے اجزا ہیں اس لیے کوئی اقلیت یا اکثریت نہیں ہے۔ جسم میں ناک ایک ہے اور کان دو ہیں تو جس طرح ناک کو اقلیت نہیں سمجھا جاتا بلکہ جسم کا ایک جزو لاینفک سمجھا جاتا ہے اسی طرح اقلیتوں کو الگ کرکے نہیں دیکھنا چاہیے بلکہ جسم کے حصے کے طور پر دیکھنا چاہیے۔ سیکولر جماعتوں نے اپنے سیاسی مفادات کے لیے اقلیت اور اکثریت کی تقسیم کی ہے اور مختلف طبقات میں علحدگی کا احساس پیدا کیا ہے۔ اسے ختم کرنا ہوگا۔ [45]

معاشی ترقی کا نہرو کا ماڈل مغربی ماڈل ہے جو مادہ پرستی پر مبنی ہے۔ مادی وسائل میں اضافے اور صنعت کاری کی دوڑ نے بھارت میں صارفیت کو جنم دیا ہے۔ اس سے نہ صرف طبقاتی تفریق اور علاقائی عدم توازن پیدا ہوا ہے بلکہ غربت بھی بڑھی ہے۔ ملکیت کو قومیانے کی پالیسیاں کرپشن کو جنم دیتی ہیں اور بے لگام سرمایہ داری حرص اور ارتکاز دولت کا سبب بنتی ہے۔ انفرادی ملکیت کے بھرپور حق کو سماج کے تئیں ذمہ داریوں کے اخلاقی و روحانی احساس کے ساتھ فروغ دیا جانا چاہیے اور آنٹرپرینیرشپ کی اسپرٹ کے ساتھ کام کرنے والوں کے حقوق اور کم زور و محروم طبقات کے لیے فلاحی اقدامات کو یقینی بنانا چاہیے۔

اپادھیائے کا چوتھا لیکچر معاشی پالیسیوں سے متعلق تھا۔ اس لیکچر کو ختم کرتے ہوئے جو باتیں بطور خلاصہ انھوں نے بیان کیں، ان کو یہاں درج کرنا مناسب ہوگا۔

سرمایہ داری اور اشتراکیت، دونوں نظام ایک متکامل انسان (integral man) پر، اس کی اصل شخصیت اور اس کی امنگوں پر توجہ دینے میں ناکام ہیں۔ ایک نے اسے ایک ایسا خود غرض جانور سمجھ رکھا ہے جو پیسے کا بھوکا ہے، جس کے سامنے صرف ایک قانون ہے، اندھی مسابقت کا قانون، جب کہ دوسرے (اشتراکیت) نے اسے ایک بڑی اسکیم کا حقیر و بے معنی پرزہ سمجھ لیا ہے جو سخت قوانین کے ذریعے ہی منضبط ہوسکتا ہے اور جبر کے بغیر اس سے کوئی خیر بر آمد نہیں ہوسکتا۔ دونوں نے انسان کو انسانیت سے گرادیا (dehumanise) ہے۔ انسان، خدا کی سب سے اعلی ترین مخلوق ان مادہ پرست نظاموں میں اپنے اصل تشخص سے محروم ہورہا ہے۔ ہمیں اس تشخص کا احیا کرنا ہے۔ اسے اس کی اصل جگہ دلانا ہے، اسے اس کی عظمت کا احساس دلانا ہے۔ اس کی قابلیتوں کو جگانا ہے اور اس کی ہمت افزائی کرنا ہے کہ وہ اپنی شخصیت کی الوہی بلندیوں(divine heights)تک پہنچے۔ یہ صرف ایک غیر مرکوز معیشت کے ذریعے ممکن ہے۔ ہم نہ سرمایہ داری چاہتے ہیں نہ اشتراکیت۔ ہم انسان کی خوشی چاہتے ہیں۔ دونوں نظام اسی انسان سے لڑتے ہیں۔ دونوں اس انسان کو نہ سمجھتے ہیں نہ اس کو خاطر میں لاتے ہیں۔ اس لیے ایک ایسی معیشت ہونی چاہیے جس میں:

1. ہر فرد کو ایک کم سے کم ضروری معیار کی عزت و تکریم والی زندگی کے درکار وسائل کی دستیابی کاتیقن حاصل ہو۔

2.
ہر فرد اس کم سے کم معیار سے مسلسل اوپر اٹھتا رہے اور افراد بھی اور پوری قوم بھی اس لائق ہو کہ اپنی چیتی کی بنیاد پر دنیا اور سماج کی ترقی میں اپنا رول ادا کرسکے۔

3.
ہر صحت مند انسان کو بامعنی روزگار میسر آسکے جس سے، اوپر کے دو مقاصد حاصل ہوسکیں۔ قدرتی وسائل کے استعمال میں فضول خرچی سے بچا جائے۔

4.
بھارت کے وسائل کو استعمال کرتے ہوئے اور پیداوار کے سات عناصر کا لحاظ رکھتے ہوئے، بھارت کی ضرورتوں سے ہم آہنگ، دیسی ٹکنالوجی کو فروغ دیا جائے۔

5.
ایسا معاشی نظام تشکیل پائے جو ہر انسان کے لیے مددگار ہو، یہاں کی تہذیبی اور اخلاقی قدروں کا تحفظ کرے۔

6.
ان اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے معیشت کے مختلف زمروں کے بارے میں فیصلہ کیا جائے کہ کسے کس حد تک خانگی کنٹرول میں دینا ہے اور کسے ریاستی کنٹرول میں۔ [46]

آخر میں—

اس قسط میں ہم نے سنگھ کی فکر کے کچھ بنیادی اجزا کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کی پالیسیوں پر ان افکار کے اثرات صاف نظر آتے ہیں۔ اس فکر پر بہت سے سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر ایک کتاب اور ایک مذہبی قائد کو تسلیم کرنا سامی طرز فکر ہے، ہندوستانی تہذیب سے متصادم ہے اور اس کی وجہ سے کوئی گروہ ہندوستانیت کے دائرے سے خارج ہے تو ایسے بہت سے “ہندوستانی مذاہب” جو اس کیٹیگری میں آتے ہیں ان کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کیا سکھ ازم بھی ہندوستانیت کے دائرے سے خارج ہوگا؟ اس سوال کا جواب ان مفکرین کے پاس نہیں ملتا۔ یا یہ کہ اگر ہندتوا کا تعلق سیاست و مذہب سے نہیں بلکہ “محض تہذیب” سے ہے اور دونوں سمندروں اور پربت و لنکا کے درمیان کی زمین اور یہاں کے عوام مقدس ہیں تو اس تحریک کو سب سے زیادہ اپنے پڑوسی ممالک سے برادرانہ تعلقات کا علم بردار ہونا چاہیے تھا اس لیے کہ اس تعریف کی رو سے وہاں کے عوام بھی ہماری قوم کا حصہ ہیں۔ ان سے جدائی محض ریاست کی جدائی ہے یا مذہب کی ہے، جو سنگھ کے نظریہ سازوں کے نزدیک ہندتوا کی دل چسپی کا موضوع نہیں ہے۔ ۔ لیکن تاریخی ریکارڈ اس کے خلاف شہادت دیتے ہیں۔

اصل سوال یہ ہے کہ کیا اس تحریک کے عملی اقدامات، ان کے اس نظامِ فکر کی تصدیق کرتے ہیں؟ اگر یہ تحریک کسی خاص مذہب کی حمایت میں نہیں ہے تو کیوں ان کے قائدین اور قلم کاروں کے یہاں“ہندوازم خطرے میں ہے” کی تکرار ملتی ہے؟ کیوں مسجد مندر کے تنازعے کھڑے کیے جاتے ہیں؟ رام مندر کی تحریک کے سلسلے میں یہ کہا جاتا رہا کہ یہ مذہبی تحریک نہیں بلکہ بیرونی حملہ آروں کے مقابلے میں اس ملک کے عوام کی امنگوں اور قومی جذبات کا اظہار ہے… اگر یہ بات ہے تو کیا اس تحریک کے لوگوں کی دل چسپی اس ایک مسئلے تک محدود ہے؟ کیا ایسا نہیں ہے کہ ملک کے دسیوں شہروں اور دیہاتوں میں مندر مسجد ہی نہیں بلکہ پوجا کے منڈل اور مذہبی جلوسوں کو لے کر بھی تنازعات پیدا کیے جاتے رہے ہیں اور اس تحریک کے لوگ ان تنازعات میں سرگرم کردار ادا کرتے رہے ہیں؟

دین دیال اپادھیائے جو معاشی نظام تجویز کرتے ہیں اور جسے بی جے پی نے باقاعدہ دستور میں لکھ کر اپنی آئیڈیالوجی قرار دیا ہے، اور سنگھ کی فکری اساسیات سے جس کا گہرا تعلق ہے، وہ کیوں نظر انداز کردیا گیا ہے؟ آج اس کی کوئی جھلک اس تحریک سے وابستہ تنظیموں کی پالیسیوں میں نظر نہیں آتی۔ اس ملک میں اس وقت سرمایہ داری، سرمایہ دارانہ استعمار اور لبرل غریب مخالف معاشی پالیسیوں کے سب سے طاقتور حامی یہی لوگ مانے جاتے ہیں۔ انٹیگرل ہیومنزم کا وژن نہ معاشی پالیسیوں میں نظر آتا ہے اور نہ سیاسی و سماجی پالیسیوں میں۔

فکر کے اندر موجودیہ تناقضات اور فکر و عمل کے تضادات، اس تحریک اور اس کے نظامِ فکر کے سلسلے میں طرح طرح کے شبہات کو جنم دیتے ہیں۔ سنگھ کے بہت سے ناقدین کا یہ کہنا ہے کہ یہ پورا نظامِ فکر اور اس کی پشت پر کھڑی کی گئی یہ تحریک دراصل برہمن بالادستی کے قدیم نظام کو جدید روپ میں زندہ کرنے کی کوشش ہے۔ کتاب اور نبی کی واضح تعلیمات پر مبنی عقیدہ و ضابطہ زندگی اورمتعین وواضح اصول و اقدار، اس راہ میں اصل رکاوٹ بنتے ہیں، اس لیے وہ مسلمانوں اور عیسائیوں کا یہاں کے مخصوص تہذیبی نظام میں انضمام چاہتے ہیں۔ یہ نقطہ نظر بھی سنجیدہ، گہرے اور معروضی تجزیے کا متقاضی ہے جس کی آئندہ کوشش کی جائے گی۔

اس طرح کے متعدد سوالات آنے والے مہینوں میں، ان صفحات میں زیر بحث لائے جائیں گے اوران امور کے سلسلے میں اسلام کے نقطہ نظر کو بھی دلائل سے پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔

وما توفیقی الا باللہ۔ ■

حواشی و حوالہ جات:

1. V.D. Savarkar (1971) Six Glorious Epochs of Indian History (Tr. Ed. S.T.Godbole), Associate Publishers, New Delhi.

2. A Maratha (1923) Hindutva, VV Kelkar (Publisher) Pune.

3. V.D.Savarkar (1969) Hindutva: Who is a Hindu?, Veer Savarkar Prakashan, Bombay.

4. M.S. Golwalkar (2000) Bunch of Thoughts, Sahitya Sindhu Prakashana, Bangalore.
Hindi version is विचार नवनीत

5. M.S. Golwalkar (1939) We or Our Nationhood Defined, Bharat Publications, Nagpur.

6. Bhartiya Vichar Sadhana Ed. (1978) Shri Guruji: Samagra Darshan, Khand 1-12, Bharatiya Vichar Sadhana, Nagpur
اس کی ساری ۱۲ جلدیں آن لائن بھی دستیاب ہیں https://epustakalay.com/book/146612-shri-guriji-samrg-khand-4-by-hedgewaar/ retrieved on 12-06-2021

7. Vaidehi Nathan (2008) Sri Guruji: Mission and Vision, Kurukshetra Prakashana, Kochi.

8. Constitution of Bhartiya Janta Party, https://www.bjp.org/en/constitution , retrieved on 12-6-2021

9. Refer BJP Membership Form at BJP website: https://www.bjp.org/var/assets/reg-form/Membership%20Application%20Form.pdf retrieved on 13-06-2021

10. Mohan Bhagwat (2018) Future India: An RSS Perspective, Vichar Vinimay Prakashan, New Delhi.
اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی شائع کیا گیا ہے:
ڈاکٹر شیخ عقیل احمد (مترجم)، مستقبل کا بھارت، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔

11. Rakesh Sinha, (2020), Sri Guruji and Indian Muslims, page 11 PDF available at http://www.archivesofrss.org/Encyc/2014/1/21/23_07_02_19_muslim.pdf retrieved on 12-06-2021

12. Deen Dayal Upadhyay, Ed. VR Pandit, (2002), Integral Humanism, Deendayal Research Institute, Delhi.

13. Ibid page 17

14. Ibid page 19

15. Ibid page 25-26

16. موہن بھاگوت (۲۰۱۸)، ڈاکٹر شیخ عقیل احمد (مترجم)، مستقبل کا بھارت، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔

17. For details refer:
Internet Encycopedia of Philosophy Plato: Organicism at https://iep.utm.edu/platoorg/ retrieved on 13-06-2021

18. See Thomas Hobbes in Stanford Encyclopedia of Philosophy at https://plato.stanford.edu/archives/win2020/entries/hobbes/

19. V.D.Savarkar, (1963), Hindu Rashtra Darshan Vol 2 , Maharashtra Prantic Hindu Sabha, Pune, p. 52.

20. M.S. Golwalkar, (1966), Bunch of Thoughts, Vikram Prakashan, Bangalore, pp. 46-47.

21. Ibid, p. 24.

22. Ibid, pp. 24-25.

23. Ibid, p. 81.

24. موجودہ سر سنگھ چالک نے حالیہ خطابات میں اس موضوع پر تفصیل سے اپنے خیالات بیان کیے ہیں۔ دیکھیے:  ڈاکٹر شیخ عقیل احمد (مترجم)، مستقبل کا بھارت، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان، نئی دہلی۔ص ۳۸ تا ۴۰

25. V.D.Savarkar, (1969), Hindutva: Who is a Hindu?, Veer Savarkar Prakashan, Bombay, p. 117.

26. Ibid, p. 115.

27. Ibid, pp. 129 and 152.

28. M.S. Golwalkar, (2000), Bunch of Thoughts, Sahitya Sindhu Prakashana, Bangalore, p. 256.

29. Atal Bihari Vajpayee, (2020), The Sangh is My Soul, in Organiser issue dated 16 August 2020.

30. Manmohan Vaidya, (2019), Come with Open Mind in Organiser issue dated 16 September 2019.

31. Ibid

32. ‘RSS regards 130 crore population of India as Hindu society’: Mohan Bhagwat in Hindustan Times, Delhi, December 25,2019.

33. M.S. Golwalkar, (2000), Bunch of Thoughts, Sahitya Sindhu Prakashana, Bangalore, p. 95.

34. Ibid, p. 134.

35. Manmohan Vaidya, (2018), Rashtra and Nation: Eternal Hindu Rashtra in Organiser issue dated 14 April 2018.

36. C.C. Basu(1888) Old India’s Hope: Proposal for Establishment of Hindu National Congress, CC Basu, Calcutta.

37. M.S. Golwalkar, (2000), Bunch of Thoughts, Sahitya Sindhu Prakashana, Bangalore, p. 48.

38. Manmohan Vaidya, (2018), Rashtra and Nation: Eternal Hindu Rashtra in Organiser, issue dated 14 April 2018.

39. Manmohan Vaidya (2020) Decline in Proportion to Denationalisation in Organiser, issue dated 22 June 2020.

40. Mohan Bhagwat, (2018), Future India: An RSS Perspective, Vichar Vinimay Prakashan, New Delhi.

41. Seshadri Chari, Decoding Hindu Rashtra in India Today, Nov 8, 2019.

42. مثلاً دیکھیں:
V.D.Savarkar, (1969), Hindutva: Who is a Hindu?, Veer Savarkar Prakashan, Bombay, pp. 101-104.

43. 43. M.S. Golwalkar, (2000), Bunch of Thoughts, Sahitya Sindhu Prakashana, Bangalore, pp. 75-76.

44. 44. Deen Dayal Upadhyay, Ed. VR Pandit, (2002), Integral Humanism, Deendayal Research Institute, Delhi, p. 29.

45. 45. B.N. Jog, (2014), Pt. Deendayal Upadhyay: Ideology and Perception, Part 6, Suruchi Prakashan, Delhi, p. 74.

46. 46. Deen Dayal Upadhyay, Ed. VR Pandit, (2002), Integral Humanism, Deendayal Research Institute, Delhi, pp. 53-54.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: