ہندتوا اور غیر کانگریسی سیکولر مفکرین

گذشتہ شمارے میں ہم نے ہندتوا کا مقابلہ کرنے میں ان سیکولر افکار کی ناکامی کا جائزہ لیا تھا جن کی نمائندگی کانگریس اور اس کے بطن سے نکلنے والی سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔ اس نظام فکر کی خصوصیت یہ ہے کہ آزادی کے بعد سات دہوں میں اکثر اسی سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی حکم رانی رہی ہے اور ملک میں ایک طرح سے اسے ‘قومی دھارا’ کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ اسی نظریہ حیات کی جگہ اس وقت ہندتوا ملک میں حکم رانی کی پوزیشن حاصل کررہا ہے۔ہم نے تفصیل سے واضح کیا تھا کہ اس نظامِ فکر کے مقابلے میں حالیہ دنوں میں ہندتوا کی مقبولیت میں جو اضافہ ہوا ہے اُس کے نظریاتی اسباب کیا ہیں؟ بیرونی اسباب کے علاوہ خود اس فکر کے حاملین کے کیا تضادات، تسامحات اور کم زوریاں ہندتوا کے عروج کا سبب بنی ہیں۔

اب ہم تین نہایت اہم سیکولر رجحانات کا جائزہ لیں گے۔کانگریس کے سیکولرزم کے مقابلے میں یہ تینوں فکری مکاتب ہندتوا کی فکری بنیادوں کو زیادہ گہرائی کے ساتھ چیلنج کرنے کی پوزیشن میں تھے اور ان کے اندر یہ صلاحیت موجود تھی کہ وہ اکثریتی استبداد اور تنگ نظر فرقہ پرستی پر مبنی فکرکے آگے مضبوط بند باندھ سکیں۔ دلت تحریکیں، کمیونزم اور سماج واد، ان تینوں تحریکوں کے پاس ہندتوا سے مقابلے کے لیے نظریات بھی موجود تھے،واضح متبادل وژن بھی موجود تھا اور پر جوش وحوصلہ مند کیڈر کے ساتھ نہایت فعال تحریکی انفرااسٹرکچر بھی دست یاب تھا۔پیریار کی دراوڑی تحریک وغیرہ بعض علاقائی تحریکوں کا دائرہ اثر مخصوص ریاستوں تک محدود تھا لیکن یہ تحریکیں ملک گیر اپیل رکھتی تھیں اور شمالی ہند کے وسیع بیلٹ میں اپنے اثر و رسوخ کی وجہ سے پورے ملک کی سیاست پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتی تھیں۔ ان تحریکوں کے پاس وہ تمام مواقع دست یاب تھے جن کے بل پر وہ آسانی سے ہندتوا کا نظریاتی مقابلہ کرسکتی تھیں۔لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اس کی وجوہات کا تجزیہ ہم ذیل کی سطروں میں کررہے ہیں۔

ایک وجہ جو ان تمام تحریکوں میں مشترک ہے وہ وقت کے ساتھ ان کی نظریاتی مداہنت اور اپنے اصولوں کے مقابلے میں، وقتی سیاسی مفادات کو ترجیح دینے کا رجحان ہے۔ان تمام تحریکوں نے فوری سیاسی مفادات کے لیے اپنے اصولوں اور نظریات پر ایسی مصالحتیں کیں جن کے نتیجے میں ان کے اُصول پس پشت چلےگئے۔ وہ سیاسی طور پر باقی رہے لیکن ان کا نظریاتی وجود گم ہوگیا۔اور پھر سیاسی وجود بھی گم ہونے میں دیر نہیں لگی۔ ہندتوا قوتوں نے اپنی چابک دستی اور چالاکی سے ان کے سیاسی اقدامات کو اپنے نظریات کے فروغ کے لیے استعمال کیا۔

گذشتہ ماہ جن تحریکوں کا ہم نے جائزہ لیا وہ روایتی طور پر اعلیٰ ذاتوں کی نمائندگی کرنے والی جماعتیں تھیں۔ اس لیے ان کے افکار میں ہندتوا کے فکر کے لیے نرمی، ابہام اور مداہنت کے رویے ملتے ہیں جن پر ہم نے روشنی ڈالی۔ یہاں زیر بحث تحریکوں میں اصل نظریاتی بنیادوں پر مداہنت کے آثار تو کم ملتے ہیں لیکن خود اپنے اُن اصولوں سے انحرافات کے نمونے ملتے ہیں، جو ہندتوا کی فکر کے غلط عناصر کے آگے باندھ کھڑا کرسکتے تھے۔ واضح رہے کہ یہاں ہم ان کی سیاسی غلطیوں کا تجزیہ نہیں کررہے ہیں۔یہ ایک الگ اور تفصیل طلب موضوع ہے۔ سردست صرف ہندتوا سے ان کی نظریاتی کشمکش کا تجزیہ پیش نظر ہے۔

بائیں بازو کے افکار

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستان میں ہندتوا کا نظریاتی مقابلہ کرنے میں سب سے اہم کردار تاریخی طور پر بائیں بازوکے افکار نے ادا کیا ہے۔ سیاسی سطح پر بھی انھوں نے فرقہ پرست قوتوں کی مزاحمت کی اور سب سے بڑھ کر فکری و نظریاتی سطح پر ان قوتوں کے لیے اہم ترین مزاحم قوت بنے رہے۔

آزادی کے بعد 1952 میں جب پہلی لوک سبھا تشکیل پائی تو کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا سب سے بڑی اپوزیشن جماعت تھی اور اُس کے قائد اے کے گوپالن کو پہلے اپوزیشن قائد کا مقام حاصل ہوا تھا۔[1] دوسری اور تیسری لوک سبھا میں بھی انھیں اصل پوزیشن کا مقام حاصل رہا۔[2] 1964میں کمیونسٹ پارٹی دو حصوں میں تقسیم ہوئی۔ اس کے باوجود 1967کے انتخابات میں دونوں کی جملہ نشستیں پارلیمنٹ میں بڑھ گئیں۔ 2004 میں لیفٹ پارٹیوں نے پارلیمنٹ کی 64نشستیں حاصل کیں۔[3]یو پی اے کی حکومت، ان کی تائید ہی سے بنی تھی اس لیے حکومت میں بھی ان کو غیر معمولی رسوخ حاصل رہا۔ اس رسوخ کا استعمال انھوں نے قانون حق اطلاعات، حق غذا، حق تعلیم اور مہاتما گاندھی قومی دیہی روزگار ضمانت اسکیم جیسی نہایت اہم اصلاحات کو عملی جامہ پہنانے میں کیا۔ سیاسی سطح پر بائیں بازو کی پارٹیوں نے سماجی انصاف، معاشی مساوات،اقلیتوں اور کم زور طبقات کے حقوق کے تحفظ، نظام حکومت میں شفافیت اور جمہوری قدروں کی ترویج جیسے اہم مسائل کو اٹھانے اور ان کی بنیاد پر کئی اہم اصلاحات کو یقینی بنانے میں غیر معمولی کام یابی حاصل کی۔

لیکن اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وہ سیاسی منظر نامے سے تیزی سے غائب ہورہے ہیں۔ موجودہ لوک سبھا میں ان کی تعداد گھٹ کر صرف پانچ رہ گئی ہے۔ مغربی بنگال میں انھوں نے مسلسل سات دفعہ حکومتیں بنائیں اور مسلسل اسمبلی کی اسی فیصد نشستوں پر کام یابی حاصل کرتے رہے۔ لیکن وہاں بھی اس وقت صورت حال یہ ہے کہ حالیہ اسمبلی انتخابات میں بائیں بازو کی کسی جماعت کو ایک نشست بھی نہیں مل سکی۔ ووٹوں کا تناسب گھٹ کر پانچ فیصد سے بھی کم رہ گیا۔[4] اسی سے ملتی جلتی صورت حال تری پورہ میں ہے اور حالات کا رخ بتارہا ہے کہ کیرلا میں بھی بطور ایک نظریاتی تحریک کے ان کا مستقبل مخدوش ہے۔

بائیں بازو کے اس تیز رفتار زوال کا سبب کیا ہے؟ یہ اس وقت علمی حلقوں میں بحث کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس پر مختلف آرا موجود ہیں۔ خود کمیونسٹ حلقوں میں یہ خود احتسابی اور نقد و تبصرہ کا ایک اہم موضوع بنا ہوا ہے۔

ہندوستان میں کمیونسٹ تحریک کا آغاز پہلے تو دانش وروں کی نظریاتی تحریک کے طور پر ہوا۔ پھر مزدوروں کی یونینوں نے اس تحریک کو عوام تک پہنچایا۔ ان دو واسطوں سے خصوصاً کیرلا میں اس نے عوامی رسوخ بھی پیدا کیا اور وہاں 1957میں ای ایم ایس نمبودری پد پہلے غیر کانگریسی وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

عوامی سطح پر کمیونسٹوں کو بڑی مقبولیت مغربی بنگال میں حاصل ہوئی۔ یہاں کمیونسٹوں کے عروج کی بنیادی وجہ اراضی اصلاحات کا اُن کا انقلابی پروگرام (Radical Land Reform) تھا۔ منتخب ہونے کے بعد آپریشن برگا(Operation Barga) کے نام سے انھوں نے ایک بڑا اقدام کیا۔ مزارعوں کو زمینات میں اختیارات دیے اور فاضل اراضی کی وسیع تقسیم کو یقینی بنایا۔[5] جس کے نتیجے میں زرعی معیشت کو بڑا فروغ ملا اور اسّی اور نوّے کے دہوں میں زرعی ترقی کی شرح کے اعتبار سے ریاست باقی ملک سے بہت آگے نکل گئی۔اس کا بڑا فائدہ انھیں حاصل ہوا اور مسلسل سات میقات یعنی پینتیس سال وہ برسر اقتدار رہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی جمہوری طریقوں سے کسی کمیونسٹ جماعت کواتنا طویل اقتدار حاصل نہیں ہوا۔[6]

اس زبردست موجودہ صورت حال تک پہنچنے کے ہمارے نزدیک تین بڑے اسباب ہیں۔

پہلا بڑا سبب وہ ہے جسے ایک کمیونسٹ دانش ور نے تجربہ کرن (Empircisation) کا نام دیا ہے۔ یعنی انھوں نے سیاسی کام یابیوں کے لیے مساوات، جمہوریت، معاشی تقسیم وغیرہ کے بنیادی اصولو ں میں سیریس مصالحت شروع کردی۔[7] مغربی بنگال اور کیرلا دونوں جگہ کمیونسٹ پارٹیاں دھیرے دھیرے، اعلٰی ذاتوں کے خوش حال طبقات کی نمائندہ پارٹیاں بن گئیں۔ غریب عوام اور محروم و پس ماندہ طبقات کی نمائندگی بھی ان کے درمیان کم ہوگئی اور ان کے حقوق و مفادات کا لحاظ بھی کم ہوگیا۔ اراضی اصلاحات کے ذریعے معاشی مساوات کا جو منصوبہ وہ زرعی شعبے میں روبعمل لائے، اس اصلاحی عمل کو غیر زرعی معیشت تک لے جانے میں وہ ناکام رہے۔ صنعتوں کے فروغ کے لیے بڑے سرمایہ داروں کو دی جانے والی تیز رفتار رعایتوں نے ان کی شبیہ سرمایہ داروں کی حامی جماعت کی بنانی شروع کردی۔ ان حالات میں ممتا بنرجی ’حقیقی لیفٹ‘ کے روپ میں سامنے آئیں اور سنگور اور نندی گرام کی تحریکوں کے ذریعے، خود کمیونسٹ اصولوں کی بنیادوں پر کمیونسٹوں کا پتہ صاف کردیا۔[8] سنگھ پریوار کا حلقہ اثر برسوں اعلیٰ ذاتوں اور متوسط طبقے کے تاجروں تک محدود تھا۔ ان کی پہچان بھی ٹھیٹھ سرمایہ دارانہ نظام کے حامیوں کی رہی ہے۔ اگر کمیونسٹ اپنے اصل ایجنڈے پر قائم رہتے اور سرمایہ داری کی مخالفت پر ڈٹے رہتے تو سنگھ پریوار کو عوام میں نفوذ کا موقع نہیں ملتا۔

مغربی بنگال میں ایک نہایت پس ماندہ طبقہ مسلمانوں کا ہے۔ کمیونسٹ اصولوں کا تقاضا تھا کہ اس پس ماندہ طبقے کی ترقی پرخصوصی توجہ دی جاتی لیکن جن عصبیتوں نے ملک کے دیگر علاقوں میں مسلمانوں کے استحصال کی راہیں ہم وار کیں وہ کمیونسٹوں کے درمیان بھی کارفرما رہیں۔ سچر رپورٹ نے تو یہ چونکانے والا انکشاف کیا کہ مسلمانوں کی ترقی سے عدم دل چسپی میں جو ریاستیں سر فہرست ہیں ان میں مغربی بنگال بھی شامل ہے اور یہاں مسلمانوں کی حالت زیادہ تیزی سے بگڑی ہے۔[9]کمیونسٹ، علمی محاذوں پر اور احتجاجی مہمات میں جس طرح مساوات، جمہوریت، کم زور طبقات کے حقوق کی بحالی اور آزادی وغیرہ کے علم بردار نظر آتے ہیں، سیاسی اقتدار نے ان کی یہ تصویر دھندلادی۔ اور عام لوگوں کو یہ محسوس ہوا کہ ان میں اور دیگر ‘بورژوا’ جماعتوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امیج کے اس بحران نے ان کی نظریاتی قوت کو انتہائی کم زور کردیا۔[10]

دوسرا بڑا سبب، ہندوستان کے احوال سے مناسبت رکھنے والا بیانیہ تشکیل دینے میں ناکامی ہے۔ کمیونسٹوں پر سماج واد، کی تنقید یہی تھی کہ ان کی زبان اور ان کے موضوعات (issues) ہندوستانی احوال سے مطابقت نہیں رکھتے۔ طبقاتی کشمکش (class struggle)کے جس اصول پر اُن کے فلسفے کی پوری عمارت کھڑی ہے وہ ہندوستان کے احوال سے پوری طرح ہم آہنگ نہیں ہے۔ یہاں نصف سے زیادہ آبادی آزاد روزگار کی حامل (self-employed)ہے۔کلاس سے زیادہ، یہاں عدم مساوات اور تفریق کے لیے ذمہ دار عامل، ذات (caste)اور فرقہ (commmunity) ہے۔ سنگھ پریوار نے انھی عوامل کو بنیاد بناکر لوگوں کو متحرک (mobilise) کیا۔ اگر مساوات کی علم بردار طاقتیں ان عوامل کو پیش نظر رکھتیں تو یہ موقع سنگھ پریوار کو حاصل نہیں ہوتا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نکسلی تحریک نے کاسٹ کو بھی اہمیت دی لیکن مین اسٹریم کمیونسٹ تحریک کے،یورپ سے درآمد طبقاتی کشمکش کے فلسفے پر حد سے زیادہ انحصار نے تفریق کے ان اصل عوامل سے ہندوستانی کمیونزم کو غافل رکھا جس کی وجہ سے پیدا شدہ خلا کے استعمال کا موقع ہندتوا قوتوں کو حاصل ہوگیا۔

مذہب ہندوستان کی ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔یہاں مذہب بے زاری کے ساتھ عوام میں کوئی بڑا موبلائزیشن ممکن نہیں ہے۔ کمیونسٹوں کی ایک شبیہ یہ بھی بنی ہے کہ انھیں مذہب اور مذہبی معتقدات و اعمال سے چڑ ہے۔ سنگھ پریوار نے اس امیج کا بھی استحصال کیا ہے۔

تیسرا مسئلہ خاص طور پر مسلمانوں سے متعلق ہے۔ اس مسئلے کی اہمیت اس لیے بھی ہے کہ ہندتوا طاقتوں نے مسلمانوں سے تعصب ہی کو اپنی تحریک کی اصل بنیاد بنایا ہے۔ ہندتوا کا مقابلہ اسی وقت ممکن ہے جب اس مسئلے پر سوچ اور عمل بالکل واضح اور بے لچک ہو۔ عوامی تحریکوں میں کمیونسٹ عام طور یہی شبیہ پیش کرتے ہیں۔ لیکن سیاسی عمل کے دوران ووٹوں کی سیاست کے دبا ؤ سے اس معاملے میں بھی وہ بسا اوقات شدید مداہنت کے شکار ہوتے چلے گئے۔

مغربی بنگال میں مسلمانوں کے احوال سے متعلق ان کے طرز عمل کا حوالہ ہم دے چکے ہیں۔ کیرلا میں بھی سیاسی کام یابیوں کے لیے وہ مذہبی گروہوں کی کشمکش میں فریق بنتے رہے۔

حال ہی میں اسلامک پبلشنگ ہاؤس کیرلا کے اسسٹنٹ ڈائرکٹر اور جماعت اسلامی ہند حلقہ کیرلا کی شوریٰ کے رکن جناب کے ٹی حسین کی ایک چشم کشا کتاب منظرعام پر آئی ہے جس میں انھوں نے کیرلا میں کمیونسٹ سیاسی قائدین کے طرز عمل کا جائزہ لیا ہے۔ ان کے بقول 1985 کی پرسنل لا تحریک کے بعد کیرلا میں کمیونسٹ قائدین کا مسلمانوں کے حوالے سے طرز عمل تیزی سے بدلنا شروع ہوا اور انھوں نے اکثریتی ووٹ بنک کے استحکام کی خاطر اسلامو فوبیائی طرز عمل اور مواقف اختیار کرنے شروع کیے۔[11]

دیگر لبرل دانش وروں کی طرح کمیونسٹوں میں بھی ایک رجحان غیر فطری اور غیر منصفانہ توازن کا ہے۔ اصولی موقف اختیار کرنے کےبجائے وہ سمجھتے ہیں کہ اگر کسی مسئلے میں ہندو فرقہ پرستوں پر تنقید کرنا ہے تو حقیقی یا مصنوعی طور پر تخلیق کردہ مسلم فرقہ پرستوں کو بھی سامنے لانا ضروری ہے۔ان کا نظریہ یہ ہے کہ فرقہ پرست سب یعنی اکثریتی اور اقلیتی فرقہ پرست، ایک ہیں اور باہم ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور ایک دوسرے کے تعاون سے اپنے منصوبے رو بعمل لاتے ہیں۔ اس وقت ہندتوا طاقتوں کی جانب سے، اسلام اور مسلمانوں کے خلاف عام کی جارہی متعدد باتوں کا سرچشمہ کمیونسٹ دانش ور ہیں۔ اسلامی شریعت کا ایک ظالمانہ اور بے لچک تصور انھی دانش وروں کا تخلیق کردہ ہے۔ تین طلاق اور حلالہ وغیرہ کے مسائل کے بارے میں یہ غلط فہمی کہ گویا یہ مسلم سماج کا عام رواج ہے، یہ بھی انھی حضرات کی دین ہے۔وہابی اسلام کی اصطلاح اور اس سے منسلک تصورات کا سرچشمہ بھی اکثر انھی دانش وروں کی تحریریں ہیں۔گذشتہ سال جب تبلیغی جماعت اور کورونا کے حوالے سے تنازع شروع ہوا تو ایک معروف دانش ور نے تفصیلی مضمون لکھا۔ اس میں کورونا کو تبلیغی جماعت کے ساتھ جوڑنے کے فرقہ پرستوں کے بیانیے کی تائید کے ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ تبلیغی جماعت شدھی تحریک کے رد عمل میں وجود میں آنے والی تحریک ہے اور اس کا مقصد ملک میں تفرقہ پیدا کرنا ہے۔[12]۔ جب بھی رام جنم بھومی تحریک کا ذکر آتا ہے تو وہ 1985 کی پرسنل لا تحریک کا ذکر کرنا نہیں بھولتے۔ پرسنل لا تحریک سے ان کو اختلاف کا حق حاصل ہے لیکن مسلمانوں کے اندرونی امور سے متعلق ایک تحریک کو، ایک فرقہ پرست اور مسلم مخالف تحریک سے جوڑ کر دیکھنے کا کیا جواز ہوسکتا ہے؟ اس طرح کی متعدد مثالیں دی جاسکتی ہیں۔ بائیں بازو کے دانش وروں سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ وہ مسلم جماعتوں یا مسلمانوں کے ہر موقف کی تائید کریں۔ وہ اپنے اصولوں کی بنیاد پر موقف اختیار کرنے اور اہل اسلام پر بھی تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں بلکہ اسلام پر بھی تنقید کرسکتے ہیں۔ یہاں ان کی اصولی و نظریاتی تنقیدیں زیر بحث نہیں ہیں بلکہ وہ مواقف زیربحث ہیں جو ہمارے خیال میں توازن کی سیاست میں حقائق کو نظر انداز کرکے اور خود اپنے اصولوں کو نظر انداز کرکے وہ اختیار کرتے رہے ہیں۔ اس طرز عمل نے ان کی اخلاقی و نظریاتی پوزیشن کو انتہائی کم زور کردیا اور ان کے اندر یہ صلاحیت باقی نہیں رکھی کہ وہ ہندتوا کا فکری مقابلہ کرسکیں۔

سماج وادی تحریکیں

ہندتوا کے نظریاتی مقابلے کی بڑی صلاحیت ان تحریکوں میں بھی تھی جنھیں سماج واد کی تحریکات (socilaist movements)کہا جاتا ہے۔ عالمی سطح پر سوشلزم کو مختلف معنوں میں استعمال کیا جاتا ہے اور کہیں کمیونزم ہی کے مترادف کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیکن ہندوستان میں سماج واد کی کمیونزم سے جداگانہ اپنی شناخت ہے۔

بیسویں صدی کی اکثر سماجی تحریکوں کی طرح کانگریس میں بھی ابتدا میں سوشلسٹ نظریات سے قربت رکھنے والے افراد بڑی تعداد میں موجود تھے۔ گاندھی جی کے افکار بھی کئی امور میں سوشلسٹ افکار سےبہت قریب تھے۔ان کی برپا کردہ سرودیہ تحریک (सर्वोदया आन्दोलन – سرودیہ یعنی سب کی ترقی) کے آئیڈیل بھی یہی تھے۔ گاندھی جی جمہوری طریقوں سے دیہی معیشت کے استحکام، دیہی خود انحصاری، معاشی مساوات اور سماج کے تمام طبقات کی متواز ن ترقی کے قائل تھے اور اس کے لیے بہت سے اصول بھی فراہم کیے تھے۔ ونوبا بھاوے جیسے متعدد مصلحین نے اس تحریک کو آزادی کے بعد سماجی سطح پر آگے بڑھانے کی سنجیدہ کوششیں کیں۔

سماج واد کو ایک جداگانہ فکری شناخت دینے میں دو دانش ور قائدین کا بڑا اہم رول ہے:جئے پرکاش نارائن(1902-1979) اوررام منوہر لوہیا(1910-1967)۔ دونوں غریب گھرانوں میں پیدا ہوئے اور بعد میں اعلیٰ تعلیمی اداروں سے اور مغربی یونیورسٹیوں سے تعلیم حاصل کی۔ آزادی کی جنگ میں شریک رہے اور گاندھی جی کے افکار سے متاثر ہوئے۔ آزادی کے بعد جس طرح کا حکومتی نظام ملک میں پروان چڑھا، اُس سے مایوس ہوئے اور سماج واد کی تحریک کی بنیادیں کھڑی کیں۔دونوں کے مقاصد میں اشتراک کے باوجود نظریات میں کئی امور میں اختلاف بھی تھا۔ بعد میں جے پی اور لوہیائی سماج واد کی دو الگ الگ فکری دھارائیں بن گئیں۔

یہ دونوں حضرات یہ سمجھتے تھے کہ نہرو کی قیادت میں کانگریس جس راستے پر چل رہی ہے وہ مغربی اور یورپی ماڈل کی نقل ہے جو ہندوستان جیسے ملک کے لیے قطعاً موزوں نہیں ہے۔ وہ ایک مکمل انقلاب (total revolution) چاہتے تھے (اسی نام سے جئے پرکاش نارائن کی کتاب موجود ہے[13]) لوہیا نے بھی سات انقلابات) (सप्तक्रांति کا تصور دیا تھا۔[14] اس کے لیے جئے پرکاش نارائن نے ایک خاص تصور دو اصطلاحات کے ذریعے واضح کیا جسے وہ انتخابی سیاست (राजनीति/power politics) اور عوامی سیاست (लोकनीति /people’s politics) کہتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ٹھوس تبدیلی کے لیے ان دونوں کو ساتھ ساتھ چلانا ضروری ہے۔[15] لوک نیتی سے ان کی مراد سماجی تبدیلی کی مہمات اور حکومت کی غلطیوں کے خلاف عوام کی احتجاجی مہمات ہیں۔ جئے پرکاش نارائن نے تو صاٖف لکھا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت صرف سیاسی عمل تک محدود ہوجائے تو وہ باقی نہیں رہتی۔ سیاسی جماعت وہی زندہ رہ سکتی ہے جس کا گہرا تعلق سماجی تبدیلی سے ہو۔[16]

اس سماجی تبدیلی کا ایک اہم ہدف ان دونوں کے وژن میں یہ تھا کہ پس ماندہ طبقات بااختیار بنیں۔ دلتوں کے ساتھ وہ دیگر پس ماندہ طبقات (OBCs) ، اقلیتوں اور مسلمانوں کو بھی پس ماندہ طبقات میں شمار کرتے تھے اور ان کی ترقی اور وسائل و اقتدار میں ان کی مساویانہ شرکت کے بغیر جمہوریت کو نامکمل سمجھتے تھے۔

جئے پرکاش نارائن اور رام منوہر لوہیا دونوں ہر طرح کی مرکزیت اور مرکزی حکومتوں کے کلی اقتدار کے خلاف تھے۔دونوں کا تصور یہ تھا کہ جمہوریت نمائندگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ زیادہ سے زیادہ تمام شہریوں کی شمولیت کی بنیاد پر ہو اور سیاسی اقتدار نیچے سے اوپر تک پہنچے۔لوہیا نے ہندوستان کے انتظامی ڈھانچے کے لیے چار ستونوں کا عملی ماڈل (چو کھمبا ماڈل) تجویز کیا گیا۔ جس میں گاؤں کے عام لوگوں کو بھی کافی اختیارات دینے کا تصور تھا۔ حتی کہ پولیس بھی گاؤں کے تحت تھی۔ وہ چاہتے تھے کہ گاؤں کے سارے بالغ شہریوں پر مشتمل گرام سبھا ہو۔ گاؤں زیادہ سے زیادہ خود کفیل ہو اور گاؤں کے تمام معاملات اسی گرام سبھا کے ذریعے فیصل ہوں۔ گرام سبھا اپنے کچھ نمائندوں کو گرام پنچایت کے لیے منتخب کرے جو ایک طرح سے گرام سبھا کی عاملہ ہو یعنی فیصلوں کو نافذ کرنے کا کام کرے۔ گرام پنچایتوں کے چیر مین مل کر ضلعی سبھا بنائیں۔ اس طرح ہر چھوٹی سطح سے اگلی اونچی سطح کے لیے نمائندے منتخب ہوتے جائیں اورمرکز یعنی دلّی کے تمام معاملات گاؤں سے ابھر کر آنے والے افراد کے ذریعے اور گاؤں سے ابھرنے والی امنگوں کی بنیاد پر فیصل ہوں۔جئے پرکاش نارائن کے یہاں سیاسی جماعتوں کے بغیر ایسی جمہوریت کا تصور تھا جو شہریوں کی راست شمولیت سے تقویت پائے اور دیہات کی سطح پر زیادہ سے زیادہ اختیارات کی منتقلی، دیہات کے معاملات میں تمام شہریوں کی شمولیت سے فیصلہ سازی اور اونچی سطحوں پر، پارٹیوں کے نہیں بلکہ پنچایتوں کے نمائندوں کے ذریعے تشکیل پائے۔[17]

اس بحث کو تفصیل سے نقل کرنے کا مقصد یہ ہے کہ ان حضرات نے مخصوص اعلیٰ ذاتوں اور شہری اشرافیہ کے استبداد کو ختم کرکے شہریوں کی حقیقی نمائندگی کی بنیاد پر ملک کی سیاست کا ایک انقلابی خاکہ تجویز کیا تھا اور اسے اپنی تحریک کی بنیاد بنایا تھا۔ اس تحریک نے ہندوستانی سیاست میں کافی ہلچل پیدا کی۔ خاص طور پر شمالی ہند کا سماجی و سیاسی منظرنامہ اس نے بدل کر رکھ دیا۔ اندراگاندھی کے اقتدار کے خاتمے میں اس تحریک کا کلیدی رول رہا۔ 1977 کی جنتا حکومت اسی تحریک کے افراد نے قائم کی۔ شمالی ہند کی متعدد ریاستوں میں اس تحریک نے کانگریس کا خاتمہ کردیا اور پس ماندہ طبقات (او بی سی) کی جماعتوں کو اقتدار کی منزل تک پہنچایا۔ یوگیندر یادو نے اس تحریک کو جمہوریت کی دوسری لہر قرار دیا [18] جب کہ آشو توش ورشنی نے اسے مکمل عوامی جمہوریت کی طرف فیصلہ کن اقدام قرار دیا ہے۔[19] یہ تحریک اعلیٰ ذاتوں کے استبداد کے تصور پر مبنی ہندتوا کے لیے ایک بڑی رکاوٹ بننے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ لیکن درج ذیل وجوہ سے ایسا نہیں ہوسکا:

ایک بڑی وجہ سیاسی جماعتوں کی تقسیم در تقسیم ہے۔ سوشلسٹ پارٹی، جنتا پارٹی اور جنتا دل،، سماج واد تحریک کے یہ تینوں سیاسی روپ مسلسل اختلافات کی زد میں رہے اورتقسیم در تقسیم ہوتے رہے۔جس کے نتیجے میں سیاسی اقتدار تک پہنچ جانے کے باوجود وہ کوئی ٹھوس تبدیلی نہیں لاسکے۔ وی پی سنگھ کی قیادت میں منڈل کمیشن کی سفارشات کا نٖفاذ، ان تحریکوں کی شاید واحد بڑی سیاسی کام یابی ہے۔انھیں متعدد بارمواقع ملے لیکن آپسی اختلافات سے نہ وہ اقتدار کی حفاظت کرسکے اور نہ اپنے ایجنڈے کو روبعمل لاسکے۔ اتر پردیش اور بہار میں ریاستی اقتدار لمبے عرصے تک سماج وادیوں کے پاس رہا۔ لیکن ان کا ایجنڈا مخصوص او بی سی ذاتوں کے مفادات کے تحفظ تک محدود ہوکر رہ گیا۔ آپسی سرپھٹول سے وہ خود تو چلے گئے لیکن کانگریس کو ختم کرکے ایک خلا پیدا کردیا جس کے نتیجے میں شمالی ہند میں بی جے پی کا فروغ آسان ہوگیا۔

اصل وجہ یہ رہی کہ سماجی انقلاب کا جو وژن لوہیا-نارائن کی تحریک کی اصل روح تھا وہ پسِ پشت چلا گیا۔ اگر یہ سماجی تحریک باقی رہتی تو سنگھ پریوار کے عروج کے لیے کوئی موقع نہیں تھا۔جئے پرکاش نارائن اور لوہیا کے بعد ہندوستان کے سیاسی و سماجی حالات نے اس تحریک کوکئی مواقع فراہم کیے۔ اگر سماجی سطح پر یہ تحریک سرگرم رہتی تو ملک کے سماجی ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیوں کا ذریعہ بنتی۔ لیکن سماج وادیوں نے سماجی تحریک سے کنارہ کشی کرلی اور سیاسی اقتدار کی کشمکش تک خود کو محدود کرلیا۔ سیاسی کشمکش بھی اصولوں کی بنیاد پر باقی نہیں رہی بلکہ محض وقتی سیاسی مفادات کے دائرے تک محدود ہوکر رہ گئی۔ البتہ سنگھ پریوار کے کارکنوں نے اس تحریک سے بہت کچھ سیکھا اور سماجی تبدیلی کے ایجنڈے پر لمبے عرصے تک صبر سے کام کرتے رہے اور سماج پر گہرے اثرات چھوڑنے میں کام یاب ہوئے۔

ایک بڑی وجہ سنگھ پریوار کی یہ خوبی ہے کہ وہ اپنی مخالف تحریکوں کے ساتھ بھی ہوکر ان پر اثر انداز ہوجاتے ہیں۔ سمیکٹ سوشلسٹ پارٹی میں سنگھ سے قربت رکھنے والے متعدد افراد شامل ہوگئے۔ چوں کہ لوہیا اور جے پی کو نہرو سے شدید اختلاف تھا۔ اس اختلاف نے دائیں بازو کے متعدد عناصر کو اس تحریک سے قریب کیا۔ سماج وادی قائدین، سماجی انصاف کے واضح تصور کے باوجود، اس خطرے کا انداز ہ نہیں کرسکے جو فرقہ پرست قوتوں کو جواز فراہم کرکے وہ اپنے ایجنڈے کے لیے پیدا کررہے تھے۔ بعد میں پوری جن سنگھ، جنتا پارٹی کا حصہ بننے میں کام یاب ہوگئی۔ اور بی جے پی کی اولین حکومتوں کی تشکیل میں جارج فرنانڈیز جیسے سماج وادیوں نے کلیدی رول ادا کیا۔ کانگریس کے سرمایہ دارانہ اور اشرافیہ ایجنڈے کی مخالفت میں وہ اس حقیقت کا ادراک نہیں کرسکے کہ وہ ایک ایسی تحریک کو تقویت پہنچارہے ہیں جو زیادہ استحصالی اور ان کے جمہوری و سماج وادی ایجنڈے کے لیے کہیں زیادہ بڑا خطرہ ہے۔

دلت تحریکات

ہندتوا کی تحریک کے مقابلے کی صلاحیت رکھنے والی ایک اہم تحریک دلت تحریک تھی۔ انگریزوں کے دور میں دلتوں کے لیے مساوات کی تحریک میں اہم ترین نام مہاراشٹر کے سماجی مصلح جیوتی با پھولے (1827-1890) کا ہے۔ جیوتی با نے ہی لفظ دلت ایجاد کیا۔ بعد میں اس تحریک کو طاقت ور سیاسی و نظریاتی بنیادیں فراہم کرنے کا سہرا مشہور سیاسی رہ نما و نظریہ ساز ڈاکٹر بھیم راو رام جی امبیڈکر (1891-1965)کے سر جاتا ہے۔

امبیڈکر لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈاکٹریٹ یافتہ ماہر معاشیات اور بار ایٹ لا ڈگری یافتہ ماہر قانون تھے۔ انگریزی کے اچھے انشا پرداز اور مصنف تھے اور ایک قانون داں کی حیثیت سے برطانوی حکومت کے اعلیٰ ترین اداروں تک ا ن کو رسائی حاصل تھی۔وائسرائے کی ایگزیکٹیو کونسل میں بھی وہ رہے۔ اپنے اس رسوخ کا استعمال کرکے انھوں نے متاثر کن طریقے سے دلتوں کا کیس دنیا کے سامنے پیش کیا۔ بڑی وضاحت سے یہ بات لکھی کہ ہندو سماج میں رہتے ہوئے دلتوں کے حقوق کی بحالی ممکن نہیں ہے۔[20] دلتوں اور اقلیتوں کے لیے علیحدہ حلقہ ہائے انتخاب کا تصور پیش کیا۔ آزادی کے بعد دستور ساز اسمبلی میں ڈرافٹ کمیٹی کے چیر مین کی حیثیت سے، دستور میں پس ماندہ طبقات اور اقلیتوں کے حقوق کو اور جمہوری قدروں کو اہمیت کے ساتھ شامل کرانے میں کام یابی حاصل کی۔ (اپنی بعض اہم باتوں کودستور میں شامل کرنے میں انھیں ناکامی بھی ہاتھ آئی، جس پر شدید مایوسی کا بھی وہ اظہار کرتے رہے)[21]

امبیڈکر نے آزادی سے پہلے انڈی پنڈنٹ لیبر پارٹی بنائی۔پھر آزادی کے بعد شیڈول کاسٹ فیڈریشن بنائی۔ پھر اپنی وفات سے کچھ پہلے دیگرطبقات اور ہم خیال افراد کو ساتھ لے کر ریپلیکن پارٹی بنائی۔لیکن انھیں کوئی سیاسی کام یابی نہیں ملی۔ وہ خود بھی دستور ساز اسمبلی کے رکن منتخب نہیں ہوسکے۔ (بعد میں مسلم لیگ نے بنگال سے انھیں دستور ساز اسمبلی میں بھیجا)۔ دستور کے نفاذ کے بعدبھی، پہلے عام انتخابات میں وہ شمالی بمبئی سے اپنے ہی سابق ذاتی معاون کے مقابلے میں الیکشن ہارگئے۔ دوسال بعد ضمنی انتخاب میں پھر کوشش کی لیکن باندرہ سے بھی ہارگئے۔ اس طرح اپنے غیر معمولی کارناموں اور خدمات کے باجود انھیں انتخابات میں کام یابی نہیں مل سکی۔ لیکن الیکشن میں بار بار ہارنے کے باوجود، ملک میں مساوات، جمہوریت اور شہریوں کے حقوق کے حصول میں جو کا میابیاں ان کے حصے میں آئیں بعد میں دلت تحریک متعدد انتخابی کام یابیوں کے باوجود اس کا عشر عشیربھی حاصل نہیں کرسکی۔

امبیڈکر کے بعد کانشی رام (1934-2006) کو سب سے قدآور دلت سیاسی رہ نما مانا جاتا ہے۔ فکری سطح پر وی ٹی راج شیکھر (پیدائش 1932)نے دلت فکر کو ایک نیا رخ دیا۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ان حضرات کے افکار اور سیاست نے جہاں دلتوں کو بہت سے فائدے پہنچائے وہیں دلت تحریک کو نقصان بھی پہنچایا۔

امبیڈکر کے فکر کی اصل خصوصیت یہ تھی کہ وہ ذات پات کا خاتمہ چاہتے تھے۔ حقیقی جمہوریت کے لیے ان کے نزدیک یہ نہایت ضروری تھاکہ ہندوستان سے ذات پات کا نظام ختم ہو۔ ان کی کتاب ‘ذات پات کا خاتمہ’ (Annihiliation of Caste) اس موضوع پر اہم ترین مصادر میں شمار ہوتی ہے۔[22] لاہور کے ایک ادارے نے اپنی ایک کانفرنس کی صدارت کے لیے مدعوکیا تو انھوں نے ذات پات کے خاتمے پر اپنا صدارتی خطبہ لکھ کر روانہ کیا۔ یہ خطبہ اس قدر جرأت مند انقلابی خیالات پر مشتمل تھا کہ منتظمین نے اس میں تبدیلی کی درخواست کی۔ امبیڈکر نے درخواست قبول نہیں کی اور کانفرنس میں شریک ہونے سے ہی انکار کردیا اور اس خطبے کو اپنے طور پر شائع کرایا۔ گاندھی جی نے اس پر تنقید کی تو انھوں نے گاندھی جی کی تنقید اور اپنے جواب کو شامل کرکے اس کا اگلا ایڈیشن شائع کیا۔ بعد میں کچھ اور اضافے کیے۔ حال ہی میں اروندھتی رائے کے متنازعہ مقدمے ‘ڈاکٹر اور سَنت’ کے ساتھ اس کا ایڈیشن شائع ہوا ہے[23]۔

“ہندو اخلاقیات پر ذات پات کا اثر انتہائی قابل مذمت ہے۔ ذات پات نے عوامی جذبے کو ختم کردیا ہے۔ ذات پات نے عوامی خدمت کا شعور فنا کردیا ہے۔ اس نے عوامی رائے کو ناممکن بنادیا ہے۔ ایک ہندو کے عوام اس کی کاسٹ ہے۔اس کی ذمے داری اس کی کاسٹ تک محدود ہے۔اس کی وفاداری کا مرکز اس کی کاسٹ ہے۔اخلاقی خوبی کا تصور کاسٹ کے زیر اثر ہے۔ نہ تو ضرورت مند سے ہم دردی ہے نہ لیاقت کی قدر و ستائش ہے۔دکھوں کے لیے کوئی حساسیت نہیں ہے۔ خیر، خیرات ہے لیکن کاسٹ سے شروع ہوتی ہے، کاسٹ پر ختم ہوتی ہے۔ ہم دردی ہے لیکن دوسری کاسٹ کے فرد کے لیے نہیں ہے۔۔۔اپنے کاسٹ کے مفاد میں یہ ہندووں کی ملک سے بے وفائی ہے۔” [24]

یہ اقتباس امبیڈکر کے مقصد کو واضح کرتا ہے۔ ان کی کتابوں میں قدم قدم پر یہی وژن ملتا ہے کہ کاسٹ ختم ہوجائے۔ کاسٹ پر مبنی شناختیں باقی نہ رہیں۔ انھوں نے کاسٹ کو ختم کرنے کے لیے انٹر کاسٹ شادیوں کی ہمت افزائی کی۔ کاسٹ پر مبنی شناختوں کے خاتمے کا تصور دیا۔

انھوں نے بڑی وضاحت سے یہ بات بھی کہی کہ ہندو سماج میں ذات پات کے خاتمے کے لیے ہندو افکار و فلسفوں میں نہایت اساسی تبدیلیاں (a new doctrinal basis) درکار ہیں۔ [25]تصورات حیات او ر اقدار زندگی میں بنیادی تبدیلی مطلوب ہے۔ ایک نئی زندگی درکار ہے۔ اور نئی زندگی درکار ہے۔اور “نئی زندگی مردہ جسم میں نہیں آسکتی۔ اس کے لیے جسم بھی نیا درکا ر ہے”[26]

امبیڈکر کے نظریات کا تعلق صرف دلتوں کی ترقی تک محدود نہیں تھا۔ ایک سنجیدہ دانش ور کی حیثیت سے وہ پورے ملک میں مساوات کا وژن رکھتے تھے اور اس کا عملی پروگرام بھی تجویز کرتے تھے۔

“میرے سیاسی تصور کی ترجمانی تین الفاظ کرتے ہیں:آزادی، مساوات اور اخوت۔ لوگ کہیں گے کہ میں نے یہ تصور فرانسیسی انقلاب سے لیا ہے۔ ہرگز نہیں۔ میرے تصورات کی جڑیں مذہب میں ہیں، علم سیاست میں نہیں۔ بدھْ کے فلسفے میں آزادی اور مساوات کی بڑی اہمیت ہے۔ لامحدود آزادی، مساوات کو ختم کردیتی ہے اور لامحدود مساوات کے نتیجے میں آزادی کے لیے جگہ نہیں رہتی۔ قانون کا جواز صرف یہی ہے کہ وہ آزادی اور مساوات میں مداخلت کے خلاف رکاوٹ بنے۔ ”[27]

جمہوریت کا جو تصور انھوں نے دیا وہ معروف مغربی سیاسی فلسفوں سے بالکل مختلف تھا۔ لکھتے ہیں:

جمہوریت کی جڑ، حکومت کے طرز میں نہیں ہے۔ یعنی اس بات میں نہیں ہے کہ حکومت پارلیمانی ہو یا کسی اور شکل میں ہو۔جمہوریت، طرز حکومت سے بڑی چیز ہے۔یہ اصلاً، ایک دوسرے پر منحصر زندگی کا طریقہ ہے۔ جمہوریت کی جڑ سماجی تعلق میں تلاش کرنا چاہیے۔ یعنی جو لوگ سماج کا حصہ ہیں وہ کیسے (مساوات کی بنیاد پر) ایک دوسرے کے ساتھ رہتے ہیں اور ایک دوسرے کے لیے مفید بنتے ہیں۔ [28]

اس وژن کےحصول کے لیے امبیڈکر کا کمٹمنٹ یہ تھا کہ انھوں نے ہر محاذ پر اس کے لیے سخت سے سخت لڑائی لڑی۔ دستور ہند میں ان الفاظ کو شامل کرایا۔ دلتوں کے ساتھ ساتھ وہ اقلیتوں اور دیگر کم زور طبقات کو بھی مساوی مقام پر اٹھانا چاہتے تھے۔ ایک عرصے تک وہ دلتوں اور مسلمانوں کے لیے جداگانہ حلقہ ہائے انتخاب کے لیے کوشش کرتے رہے۔[29] بعد میں دلتوں اور اقلیتوں کے لیے اسمبلیوں اور پارلیمنٹ میں، کابینہ میں اور سرکاری ملازمتوں میں ریزرویشن کی تجویز انھوں نے نہ صرف پیش کی بلکہ دستور کے ڈرافٹ میں بھی اسے شامل کرنے میں کام یابی حاصل کی۔ [30]

دستور کی ڈرافٹ کمیٹی میں بحث و گفتگو سے پہلے، خاص طور پر اقلیتوں کے حقوق کے تعلق سے انھوں نے ایک تفصیلی ڈرافٹ کیا اور اسے ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا تھا۔ اس ڈرافٹ میں اقلیتوں کا بڑا واضح تصور ملتا ہے۔اب یہ ’ریاست اور اقلیتیں‘ (The State and Minorities) کے نام سے شائع ہوتا ہے۔[31] اس میں اقلیتوں کے حقوق کی تفصیلی وضاحت کے ساتھ امبیڈکر نے ان حقوق کی حفاظت کے طریقے بھی تجویز کیے۔ طاقت ور ہندو ذاتوں کے سیاسی عزائم اور اقلیتوں کو دبا کر رکھنے کی ان کی صدیوں پرانی خواہش کو انھوں نے جمہوریت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا۔ انھوں نے اکثریتی استبداد کے خطرے کو بھی محسوس کیا اور اس کے سد باب کے طریقے بھی تجویز کیے۔ مثلاً انھوں نے تجویز کیا کہ قانونی و دستوری طور پر اس کو یقینی بنایا جائے کہ حکومتی اداروں اور مجالس میں اکثریت کی نمائندگی کبھی آبادی میں ان کے تناسب سے بڑھنے نہ پائے۔[32] اقلیتوں کے لیے ریزرویشن کے ساتھ انھوں نے اس بات کو ضروری قرار دینے کی بھی تجویز پیش کی کہ اکثریتی نشستوں پر جیتنے والا امیدوار بھی لازماًاقلیتوں کے ووٹ کا ایک ضروری تناسب حاصل کرے تاکہ وہ اقلیتوں کے حقوق کے لیے بھی حساس ہوسکے۔[33] سیاسی و سماجی حقوق کے ساتھ امبیڈکر نے معاشی حقوق اور معاشی جمہوریت پر بھی بہت زور دیا اور معاشی جمہوریت کے لیے بھی بڑی انقلابی تدابیر پیش کیں۔

امبیڈکر کے یہ تصورات اور اصول باقی رہتے اور انھی کی بنیادوں پر دلت تحریکیں آگے بڑھتیں تو فرقہ پرستوں کو ہرگزموقع نہیں ملتا۔ لیکن بعد میں دلت تحریکوں کی سمت بالکل بدل گئی اور اس صورت حال نے بھی ہندتوا کی راہوں کو ہم وار کیا۔

سب سے پہلی بڑی تبدیلی یہ آئی کہ دلت تحریکو ں نے کاسٹ کی شناخت کو ابھارنے اور اسی کی بنیاد پر سیاست کرنے کا کام شروع کیا۔ مارکسی جدلیات (Marxist dialectics) کا اطلاق کرکے کہا گیا کہ پہلے ذات پات کی تفریقات شدت کو پہنچیں گی اور اس کے بعد سماجی ڈھانچہ بدلے گا۔ مول نواسی کے تصورات پیش کیے گئے جس کی بنیاد پر دلت، ادیباسی اور اقلیتوں کو باقی ذاتوں سے الگ ایک جداگانہ نسلی گروہ قرار دیا گیا اور انھیں ہندوستان کے اصلی باشندے قرا ردیا گیا۔ مقصد یہ قرار دیا گیا کہ ملک کے سماجی ڈھانچے میں معکوس تبدیلی لاکر مول نواسیوں کو اصل اقتدار و بالاتری ملے اور دوسرے لوگ دوسرے درجے کے شہری بن جائیں۔امبیڈکر نے بار بار یہ بات کہی کہ برہمن ازم ایک استحصالی رویے کا نام ہے۔ دلت تحریک،برہمن ذات کی مخالفت نہیں بلکہ استحصالی اور نابرابری کے رویے کی مخالفت ہے۔ اور یہ کہ برہمن ازم خود دلتوں کے اندر بھی رہ سکتا ہے۔ [34]لیکن جدید دلت تحریکوں نے اعلیٰ ذاتوں کی مخالفت اور ذات پات کی کشمکش کو اپنا ہدف بنالیا۔

اس حکمت عملی نے دلت جماعتوں کو فوری سیاسی فائدے ضرور پہنچائے۔ امبیڈکر دستور بنانے کے بعد بھی لوک سبھا کا الیکشن نہیں جیت سکے لیکن بی ایس پی نے ملک کی سب سے بڑی ریاست میں حکومت تشکیل دینے میں کام یابی حاصل کرلی۔ لیکن دلت تحریک کو ان وقتی سیاسی مفادات کی بھاری قیمت چکانی پڑی اور دلت ترقی کے حقیقی اہداف بہت پیچھے رہ گئے۔

سنگھ پریوار کو شناخت کی سیاست میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے۔جب ذاتوں کو ابھارا گیا تو دلتوں کے اندر کی ذیلی ذاتیں بھی ابھر گئیں۔ ان کے درمیان آپسی کشمکش شروع ہوئی۔ ذیلی ذاتوں کی شناختوں کی نشانیوں (symbols of identity)کو استعمال کرکے سنگھ پریوار نے ان کے درمیان جگہ بنائی۔ بدری نارائن کی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب نے دلتوں کے درمیان سنگھ پریوار کی تیز رفتار مقبولیت پر اور اس کے اسباب پر بڑی چشم کشا روشنی ڈالی ہے۔[35]

دوسری بڑ ی تبدیلی بدھ ازم کے حوالے سے ہے۔ امبیڈکر نے دلتوں کو مساوات دلانے کے لیے پہلے ہندو تصورات اور ہندو طرز زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کی کوشش کی۔ لیکن اس میں کام یابی کے آثار نہ دیکھ کر انھوں نے اعلان کیا کہ وہ ہندوازم چھوڑرہے ہیں۔ ناسک کے قریب ایولہ میں جب انھوں نے یہ اعلان کیا تو بہت سے لوگوں نے سمجھا کہ وہ یا تو اسلام قبول کریں گے یا عیسائیت۔ امبیڈکر کو ہندوستان میں اسلام پر جس طرح عمل ہوتا رہا، اس کے حوالے سے بعض شکایتیں تھیں لیکن وہ اسلام کے بڑے مداح بھی تھے۔ اس وقت کے سیاسی حالات میں، شاید اپنے سماجی و سیاسی مقاصد کے لیے انھوں نے قبول اسلام کو مناسب نہیں سمجھا۔ اور آزادی کے بعد بدھ مت قبول کرنے کا اعلان کیا۔ [36]

ہندتوا فکر کے حوالے سے ہم لکھ چکے ہیں کہ وہ تمام ہندوستانی مذاہب کو قابل قبول سمجھتے ہیں۔ غالباً اس کی وجہ یہ ہے کہ واضح احکام اور مستقل قدروں کے فقدان کی وجہ سے ان مذاہب کی تعبیر اور ان کا وسیع تر ہندو نظام زندگی میں انجذاب آسان ہوتا ہے۔ چناں چہ جب دلتوں نے بدھ ازم قبول کرنا شروع کیا تو ہندتوا کی قوتوں نے اپنے صدیوں سے آزمودہ طریقے اختیار کرنے شروع کیے۔ ایک دلت مفکر کا یہ اقتباس اس صورت حال کی واضح عکاسی کرتا ہے:

“بدھ ازم کے برہمن کرن کا عمل شروع ہوگیا ہے۔ فرقہ پرست عناصر نے بدھ کو وشنو کے دسویں اوتار کے طور پر پیش کرنا شروع کردیا ہے۔ بدھ کے مجسموں کی، ویدک روایات کے مطابق، دیوتاؤں کے طور پر پوجا شروع ہوگئی ہے۔ نو بدھ، اس نئے مذہب میں اپنے ساتھ اپنی ذات بھی لے کر آرہے ہیں۔ اور اپنے گھیٹو تشکیل دے رہے ہیں۔ان نو بدھوں میں شادیاں بھی ذات پات کی بنیاد پر ہوتی ہیں۔ ایک اور تشویش کْی بات یہ ہے کہ جو سماجی کارکن سماج میں تبدیلی کی جدوجہد میں مصروف رہا کرتے تھے، اب اس جدوجہد کو چھوڑ کر دھیان گیان اور میڈیٹیشن میں مصروف ہوگئے ہیں۔ ان کے لڑنے کی صلاحیت اور سماجی تبدیلی کے خواب غائب ہوتے جارہے ہیں۔”[37]

سنگھ پریوار نے پہلے تو امبیڈکر کو اپنے لیے بڑا خطرہ سمجھا اور ان کی شدید مخالفت کرتے رہے۔ گذشتہ صدی کے اواخر (1997)میں ارون شوری نے ایک کتاب لکھی تھی Worshipping False God۔[38] اس میں اپنا زور قلم صرف کرکے اور اپنے مخصوص طریقوں کو استعمال کرکے امبیڈکر کو انگریزوں کا چاپلوس، ملک کا بے وفا، اور ذات پات کا علم بردار ظاہر کرنے کی کوشش کی یہ تھی۔ اس وقت اس کتاب کی دائیں بازوکے حلقوں میں خوب پذیرائی ہوئی تھی۔ اب دلتوں کی آئیڈنٹٹی پالیٹکس کے ایک آلے کے طور پر انھوں نے امبیڈکر کو اپنانا شروع کردیا ہے بلکہ ان سے غلط باتیں منسوب کرکے اپنے فرقہ پرست ایجنڈے کے لیے دلائل حاصل کرنے کی دوڑ بھی شروع کردی ہے۔ آرگنائزر میں سنگھ کے اییک عہدے دار کرشنا گوپال نے اپنے مضمون میں غلط طور پر یہ بات امبیڈکر سے منسوب کی ہے کہ ذات پات کی تفریق مسلم دور حکومت میں شروع ہوئی۔[39] یا موہن بھاگوت فرماتے ہیں کہ امبیڈکر بھگوا پرچم کو ملک کا قومی پرچم بنانا چاہتے تھے،[40] وغیرہ۔

خلاصہ یہ کہ امبیڈکر کے مساوات اور جمہوریت کے اصولوں کی بنیاد پر دلت تحریک آگے بڑھتی تو وہ آسانی سے ملک کے تمام کم زور طبقات کی آواز بن سکتی تھی۔ لیکن اسے جس طرح ذاتوں کی کشمکش کی تحریک بنادیا گیا، اس کے نتیجے میں نہ صرف یہ محدود ہوگئی بلکہ اس کا خاتمہ بھی آسان ہوگیا۔ ذاتوں کی کشمکش ہی کے اصول کو سنگھ پریوار نے خوب صورتی اور مہارت سے اپنے مفاد کے لیے استعمال کیا۔جب بڑے قائدین کے اصول فراموش ہوجاتے ہیں تو وہ محض ایک علامت یا بت بن کر رہ جاتے ہیں۔ اور ان کے اصولوں کو روندنے ہی کے لیے ان کے بتوں کا استحصال شروع ہوجاتا ہے۔اس کی سب سے نمایاں مثال ہندوستان کی سیاست میں امبیڈکر ہیں۔ آج ہر شہر میں ان کا مجسمہ موجود ہے۔ دستور کے معمار اور ایک قد آور رہ نما کی حیثیت سے ہر ہندوستانی ان کا نام لیتا ہے۔ لیکن ان کے اصول و نظریات منظر نامے سے مکمل غائب ہیں اور خود دلت تحریکوں میں ان افکار کا نام و نشان بھی نہیں ملتا۔

اب تک کی بحث سے سیکولر مفکرین کی ناکامیوں کو ہم نے واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندتوا کے حوالے سے مسلمانوں کے رسپانس میں جہاں ان کی اپنی مخصوص پالیسیاں اور مخصوص طرز ہائے فکر کا رول رہا ہے وہیں زیادہ تر اب تک کے زیر بحث سیکولر افکار کے گہرے اثرات بھی مسلم رسپانس پر پڑے ہیں۔ اگلی قسط میں ہم ان شاء اللہ مسلم رسپانس کا جائزہ لیں گے اور اس کے نتیجے میں ہماری اصل بحث، یعنی مطلوب رسپانس کے لیے مکمل پس منظر ان شاء اللہ فراہم ہوگا۔■

حواشی و حوالہ جات:

[1] Election Commission of India; Statistical Report on General Elections 1951 Volume 1

[2] Election Commission of India; Statistical Report on General Elections 1957 Volume 1 and Election Commission of India; Statistical Report on General Elections 1962 Volume 1

[3] See Lok Sabha site

http://loksabhaph.nic.in/Members/partyar.aspx?lsno=14&tab=2 retrieved on 20-08-2021

[4] تفصیل کے لیے دیکھیں، الیکشن کمیشن کی ویب سائٹ

https://eci.gov.in/files/file/13605-west-bengal-general-legislative-election-2021/

[5] Suhas Chattopadhyay, Operation Barga: A comment, Economic and Political Weekly, Vol. 14, No. 49, 8 December 1979

[6] See BBC report

https://www.bbc.com/news/world-south-asia-13374646 retrieved on 20-08-2021

[7] Patnaik, Prabhat (2011): “The Left in Decline,” Economic & Political Weekly, Vol 46, No 29, pp 12–16

[8] Baisya, Arup (2011): “ ‘The Left in Decline’: A Historical Perspective,” Economic & Political Weekly, Vol 46, No 47, pp 78–79,

[9] Prime Minister’s High Level Committe (2006)Social, Economic and Educational Status of the Muslim Community of India. Government of India; pages 295-299

[10] کمیونسٹوں کے زوال کے اسباب پر دیکھیے ایک اچھا تجزیہ

https://www.aljazeera.com/opinions/2019/6/23/the-death-of-the-indian-left retrieved on 20-08-2021

[11] KT Husain, islamophic Marxism: Saffron Spot on the Red Blog

https://www.newindianexpress.com/states/kerala/2021/apr/02/jamaat-book-accuses-cpm-of-islamophobia-2284647.html

[12] شمس الاسلام کےا س گمراہ کم مضمون کے لیے دیکھیے

https://www.counterview.net/2020/04/muslims-punished-though-tablighi-jamat.html

اس پر تنقید ملاحظہ فرمایئے

https://www.counterview.net/2020/04/left-wing-islamophobia-apolitical.html

[13] یہ بڑی اہم کتاب ہے اس سے سماجوادی نطریات اور اس کی تاریخ کو سمجھنے میں بری مدد ملتی ہے۔ چار جلدوں میں ہے

Jay Prakash Narayan (1979) Towards Total Revolution; (vol 1 to 4) Populat Prakashan, Bombay

[14] تفصیل کے لیے دیکھیے لوہیا کی کتاب

RamManohar Lohia (2013) “Marx, Gandhi and Socialism”, centrum Press, New Delhi p-531

[15] تفصیل کے لیے جے پرکاش نارائن کی تحریر ملاحظہ فرمائیں

Jayaprakash Narayan (2005) Jayprakash Narayan: A Centenary Volume. Mittal Publications. New Delhi pages 19-33

[16] Bhattacharjea, Ajit, Jkvaprakash Narayan, Delhi: Vikas Publishing House,

1975. pp 89-90

[17] Ram Manohar Lohia, “The Four-Pillar State”, in Verinder Grover (ed.),Ram Manohar Lohia – A Biography of His Vision and Ideas,NewDelhi: Deep & Deep Publications, 1998, p. 319 and also in Ram Manohar Lohia,Marx. Gandhi and Socialism,Nav Hind Prakashan. Hyderabad, 1963,p.286

[18] Yadav, Yogendra (2000), “Understanding the Second Democratic Upsurge: Trends of Bahujan Participation in Electoral Politics in the 1990s” in Transforming India: Social and Political Dynamics of Democracy, edited by Balveer Arora & Francine R. Frankel Rajeev Bhargava, 120-145, New Delhi: Oxford University Press

[19] Varshney, Ashutosh (2000), “Is India Becoming More Democratic”, The Journal of Asian Studies Vol 59 (No 1): 3-25

[20] B.R.Ambedkar(2016) Riddles of Hinduism, Navayana Publications

[21] Dr. B.R.Ambedkar (1947) State and Minorities; available on internet at

https://drambedkar.co.in/wp-content/uploads/books/category2/11states-and-minorities.pdf

retrieved on 10-07-2021

[22] B.R. Ambdekar (2019) Annihilation of Caste With Reply to Gandhi; MJP Publishers, Delhi

[23] B.R. Ambedkar (2014) with introduction By Arundhati Roy; Annihilation of Caste the Annotated Critical Edition, Navayana Publications

[24] B.R. Ambedkar (2016) Annihilation of Caste in Dr. Baba Saheb Ambedkar: Writings and Speeches; Ambedkar Foundation, Mumbai, pages 56-57

[25] Ibid page 109

[26] ۔ibid page 78

[27] Moon Vasant, ed, Dr.Babasaheb Ambedkar, Writings and Speeches, op. cit., Vol-3, pp.25-26.

[28] [Prospects of Democracy in India, 1956] at https://velivada.com/2015/02/07/what-are-the-prospects-of-democracy-in-india-by-dr-b-r-ambedkar/

[29] Official Report (2014, Sixth reprint); Constituent Assembly Debates;Volume 9; Lok Sabha Secretariat; New Delhi; pages 597 to 670.

[30] Vasant Moon Ed. (2014) Dr. Babasaheb Ambedkar Writings and Speeches; Volume 13;Dr.Ambedkar Foundation New Delhi. Pages 105-313

زیر بحث دفعات ص 243پر ملاحظہ کی جاسکتی ہیں۔۔

[31] Ambedkar, B. (2018). States and Minorities. (n.p.): Amazon Digital Services LLC – KDP Print US.

[32] ibid

[33] B. Shiva Rao et. Al (1968) The Framing of India’s Constitution: Select Documents; Indian Institute of Public Admin. New Delhi. Page 755 and also 760-761

[34] ۔Thoughts of Dr. Babasaheb Ambedkar_. Ed. Y.D. Sontakke. (c) 2004: Samyak Prakashan. Page 88

[35] ۔ Badri Narayana(2021) Republic of Hindutva; Penguin Random House India; Gurgaon.

[36] ۔اس تفصیل کو سمجھنے کے لیے ایک بہت اہم کتاب

“Strategy of Conversion to Buddhism: Intent and Aftermath”, Anand Teltumbde, from The Radical In Ambedkar: Critical Reflections, edited by Suraj Yengde and Anand Teltumbde, Penguin Books India.

[37] https://thewire.in/politics/the-days-of-identity-in-dalit-politics-is-over-we-need-to-focus-on-ideology

[38] Shourie, A. (2012). Worshipping False Gods : Ambedkar, And The Facts Which Have Been Erased. India: HarperCollins Publishers India.

[39] Dr. Krishna Gopal (2020) Multifaceted Ambedkar in Organiser 14-04-2020

[40] ۔https://www.indiatoday.in/india/story/mohan-bhagwat-ambedkar-sangh-ideology-rss-240342-2015-02-14

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: