مذاہب اور اُن کا باہمی تعلق

ہندتو کی فکری اساسیات کو واضح کرنے کے بعد ہم نے ان صفحات میں مختلف گروہوں کی ان غلطیوں کا جائزہ لیا تھا جن سے اس تحریک کو فروغ میں مدد ملی۔ اس حوالے سے ہم نے مسلم سیاست کا بھی جائزہ لیا اور مسلمانوں کی حیثیت اور ان کی مطلوب حکمت عملی پر بھی اپنی معروضات پیش کیں۔ گذشتہ چند ماہ سے ہم مطلوب سیاسی بیانیے کو زیر بحث لارہے ہیں اور اس کے کئی ذیلی موضوعات پر اپنے خیالات پیش کرچکے ہیں۔ملک کے سیاسی و انتظامی امور سے متعلق بعض موضوعات پر تفصیل سے بات آچکی ہے۔ تعلیم، امور خارجہ، ماحولیات، ٹکنالوجی، میڈیا، خواتین سے متعلق امور وغیرہ جیسے بعض اہم موضوعات ابھی باقی ہیں۔ لیکن اس وقت ہم بحث کا رخ چند اہم نظریاتی امور کی طرف موڑنا چاہتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بحثیں، ہمارے خیال میں موجودہ سیاسی پس منظر میں بڑی بنیادی اہمیت کی حامل ہیں۔

مذاہب، ان کی حیثیت، ان کے حقوق، اور مختلف مذاہب کے باہمی تعلق کی بحث کئی پہلووں سے نہایت اہم بحث ہے۔ ہندتو کے نظامِ فکر میں اس بحث کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ حالیہ دنوں میں اٹھنے والے کئی تنازعات اور مباحث کا تعلق اس بحث سے ہے اور امکان یہی ہے کہ آئندہ بھی اس ملک کے سیاسی و سماجی حالات کی صورت گری میں اس بنیادی بحث کا بڑا اہم رول ہوگا۔ اس حوالے سے کچھ اشارے، اس سے قبل ہم جولائی 2021 اور اگست 2021کے اشارات میں کرچکے ہیں۔ اس وقت اس موضوع پر قدرے تفصیل سے گفتگو پیش نظر ہے۔

مذاہب کے درمیان تعلق کی مختلف شکلیں

بدلے ہوئے منظرنامے میں جب کہ ہر جگہ ہمہ مذہبی معاشروں کا وجود ایک ٹھوس حقیقت بنتا جارہا ہے، یہ سوال ساری دنیا میں اہمیت اختیار کر رہا ہے کہ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان پر امن باہمی تعلق، اتحاد اور خیر سگالی کی شکل کیا ہو۔ اس سوال کو حل کرنے کے لیے مختلف نظریات اور افکار پیش کیے گئے ہیں۔ درج ذیل اہم ماڈل عام طور پر تجویز ہوتے ہیں:

۱۔ کثیر مذہبیت (multiple religious belonging): اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے اندر بیک وقت متعدد مذاہب کو اختیار کرنے اور ان پر عمل کرنے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ چین اور جاپان جیسے ایشیائی سماجوں کی روایت میں یہ رواج خاصی قدیم ہے۔ حکومتِ جاپان کے اعداد وشمار کے مطابق ملک میں 69 فیصد لوگ خود کو شنتو مذہب (Shintoism)سے متعلق قرار دیتے ہیں اور 66.7 فیصد لوگ بدھ مت سے تعلق ظاہر کرتے ہیں۔ ان دونوں کا مجموعہ ہی آبادی سے لگ بھگ 35 فیصد بڑھ جاتا ہے۔ ان کے علاوہ عیسائیت (ڈیڑھ فیصد) اور دیگر مذاہب کے ماننے والے (6.2 فیصد) بھی ہیں اور ایک بڑی تعداد کسی بھی مذہب سے تعلق نہیں رکھتی۔[1] ان حیرت انگیز اعداد و شمار کی توجیہ کرتے ہوئے یہی کہا جاتا ہے کہ جاپانیوں کی بڑی تعداد بیک وقت متعدد مذاہب کو اختیار کیے ہوئے ہے۔[2]

اب پوسٹ ماڈرن فلسفوں کی وجہ سے یہ رویہ دیگر سماجوں میں بھی مقبول ہورہا ہے یا اسے مقبول بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ ہمارے ملک میں سیاسی قائدین کا بیک وقت نماز بھی پڑھنااور پوجا بھی کرنا، یا آخری رسومات کے موقعے پر مختلف مذاہب کی کتب خوانی کو بھی اسی رجحان کا حصہ سمجھاجا جاسکتا ہے۔[3] اگرچہ عام طور پر، سیاسی لیڈروں کے ان رویوں کی پشت پر کوئی گہرا فکری پس منظر نہیں ہوتا بلکہ محض وقتی سیاسی یا سماجی تقاضے و مفادات ہوتے ہیں لیکن ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو سوچ سمجھ کر اور باقاعدہ ایک نظریے کے تحت یہ رویے اختیار کرتے ہیں۔ خود گاندھی جی کی پرارتھنا سبھا )سرو دھرم پرارتھنا)مختلف مذاہب کی دعاؤں پر مشتمل ہوا کرتی تھی۔[4]

۲۔ مذاہب کا امتزاج (religious syncretism): اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ مختلف مذاہب سے مختلف چیزیں لے کر اپنا طرز زندگی تشکیل دیا جائے یا کسی نئے مذہبی فرقے کی بنا ڈالی جائے۔ یہ رویہ متعدد ملکوں کی تاریخ میں بہت قدیم رویہ رہا ہے اور کم و بیش ہر مذہب کی تاریخ میں ایسی کوششوں کے تذکرے ملتے ہیں۔ عیسائیوں میں غنوسطی فرقہ (Gnosticism) اس کی بہت قدیم مثال ہے۔ یہودیوں میں مسیحائی یہودی (Messianic Judaism)، ناصری فرقہ (Nazarenism)، یہودی بدھ مت (Jewish Buddhism) وغیرہ امتزاجی فرقے (Syncretic Sects) ہی ہیں بلکہ یہودی بت پرست (Judeopaganism) فرقے بھی موجود ہیں، جن کی ایک نمایاں مثال امریکہ میں یہودیوں کی ایک تازہ مذہبی تحریک بیت عشیرہ (Beit Asherah) ہے۔[5] مسلمانوں میں ایران میں بہائی مذہب، ہندوستان میں مغل بادشاہ اکبر کا دین الہی، شمالی افریقہ كا برغواطیہ مذہب (اسلام اور قدیم بربر تہذیب کے مقامی مشرکانہ مذاہب کا امتزاج، اس مذہب کے علمبرداروں نے 80سورتوں پر مشتمل اپنا قرآن [قرآن صالح] بھی لکھ ڈالا تھا اور شمالی افریقہ میں اپنی مملکت بھی قائم کرلی تھی [6] شام اور فلسطین کے علاقوں میں موحدین یا دروز، ہمارے ملک میں اسماعیلیوں کا فرقہ ست پت پنت (satpat pant) یا حیدر آباد کے صدیق دیندار کی ‘دین دار انجمن ’وغیرہ ایسی ہی کوششوں کی مثالیں ہیں بلکہ قادیانیت میں بھی اس طرح کے رجحانات محسوس ہوتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی تاریخ میں مسیحیت اور مہدویت کے دعووں کے ساتھ جتنے فرقے پیدا ہوئے، کم و بیش سبھی نے اس طرح کے امتزاج کی کوششیں کیں۔

۳۔ سیکولرزم: مذاہب کے سلسلے میں ایک سیکولرزم کا رویہ ہے۔ یہ اصطلاح ہمارے ملک میں ہمیشہ زیر بحث رہی ہے۔ یورپی نشاة ثانیہ کے زمانہ میں ابھارے گئے سیکولرزم کے فلسفے کی بنیاد یہ تھی کہ آخرت، مرنے کے بعد کی زندگی، خدا، خدا کی کتاب اور اس کے اصول اور ایسے تمام معاملات کو جنھیں عقل و تجربہ کی کسوٹی پر پرکھا نہیں جاسکتا، نظر انداز کردیا جائے۔ان باتوں کو کوئی فرد اپنی خالص ذاتی زندگی میں اختیار کرنا چاہے تو کرے لیکن ان میں سے کوئی بات، کسی اجتماعی معاملے میں زیر بحث نہ آئے۔ سیاست و معیشت، معاشرت و اخلاق، علم و تعلیم، سائنس و ٹکنالوجی اور تہذیب و تمدن وغیرہ کی بنیاد صرف ایسے امور پر رکھی جائے جو اس موجود دنیا کے تجربات اور انسانی عقل کی کسوٹی پر کھرے ثابت ہوں۔اس طرح سیکولرزم کے نظریے کی ابتدا مذہب اور خدا کے تئیں ایک سلبی رویے سے ہوئی تھی۔ اس نظریے نے ایک ایسے سماج کا تصور پیش کیا جہاں مذہب گھر سے باہر بالکل نظر نہ آتا ہو، نیز سماجی معاملات میں مذہب کا عمل دخل بالکل صفر ہو۔ مذہب صرف ایک فرد کا انفرادی روحانی معاملہ رہ جائے اور کسی دو افراد کے کسی بھی معاملے میں مذہب زیر بحث نہ آنے پائے۔ اس وژن میں تہذیب، کلچر، سماجی روایات، رہن سہن، بود وباش، سماجی ادارے، ان سب کو مذہب کے ہر طرح کے اثر سے عاری کرنا شامل تھا۔ گذشتہ دوسو سال کے تجربے کے بعد اب دنیا میں سیکولر سماج کا جو تصور ہے وہ مذہب کی مکمل نفی پر مبنی نہیں ہے۔اب دنیا میں کم سے کم تین طرح کے سیکولرزم ہمارے سامنے ہیں۔مذہب کی مخالفت یا مذہب کو توہّم پرستی اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ سمجھ کر اس کی بیخ کنی کی کوشش کرنا، انتہاپسندانہ سیکولرزم ہے۔ مذہب کو صرف انفرادی زندگی تک محدود رکھنا اور اسے عوامی دائرے سے بالکل خارج کرنے کی کوشش کرنا یہ متشکّک سیکولرزم ہے۔ اور تیسری قسم میں سیکولرزم کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ریاست کسی مذہب کے ماننے والے کے ساتھ مذہب کی بنیاد پر تفریق نہ کرے۔ تمام مذاہب کو مساوی آزادی رہے اور مذہب کے معاملے میں کسی پر کوئی جبر نہ ہو۔ہمارے ملک کے دستور میں بھی سیکولرزم کا یہی مطلب ہے اور یہی مفہوم دستور سازوں کے پیش نظر تھا۔ اس موضوع پر ہم نے اپنی کتاب ‘بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر’ میں تفصیل سے بحث کی ہے۔[7]

۴۔ وحدت ادیان: چوتھا اہم تصور، وحدت ادیان کا ہے۔ جس کا حاصل یہ ہے کہ مذاہب کو اپنی شناخت پر باقی رکھا جائے اور ان کے امتزاج کی کوشش کے بجائے لوگ، اپنے مذہب پر عمل کے ساتھ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو نہ صرف اپنے مذہب پر عمل کی آزادی دیں بلکہ تمام مذاہب کا، ان کے مذہبی پیشواؤں کا، ان کے شعائر کا، بلکہ ان کے اعتقادات اور اصولوں کا بھی احترام کریں۔ مذہب کو نقد و تبصرہ اور بحث و گفتگو کا موضوع نہ بنائیں۔ کسی کو بھی نہ تو غلط سمجھا جائے اور نہ غلط کہا جائے۔ بلکہ سارے مذاہب کو بیک وقت درست سمجھا جائے۔ اسے ہندوستانی اصطلاح میں سرو دھرم سمبھاو (सर्वधर्म समभाव) کہتے ہیں۔ اس تصور کو گاندھی جی سے منسوب کیا جاتا ہے اور اسے ہمارے ملک میں عام کرنے کی مسلسل کوششیں ہوتی رہی ہیں۔

تاریخی پس منظر

ہندو ازم کی روایات میں ہمہ مذہبیت اور امتزاج مذاہب کی قدیم روایات رہی ہیں۔ اسے ہندو مذہب کے متکلمین ہندو مذہب کی انجذاب و ترکیب کی خصوصیت (assmilation and synthesis) کہتے ہیں۔[8] یعنی ہندو مذہب میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ مختلف مذہبی افکار و رجحانات کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور دوسروں کے ساتھ ترکیب پاکر نئے قالب میں ڈھل جاتا ہے۔ اگرچہ اس خصوصیت کا ذکر اب بھی ہوتا ہے اور بعض لوگ یہ چاہتے ہیں کہ یہ عمل اب بھی ہو لیکن ہندو احیا پرستی کی جدید تحریک ہندو مذہب کےامتیازات اور اس کی خصوصیات کا تحفظ چاہتی ہے۔ تحفظ کے لیے فکر مندی نے ہند ومذہب کو نیو ویدانت کا روپ دے کر، سرو دھرم سمبھاو کے نظریے کے فروغ کے لیے راہیں پیدا کی ہیں۔

ہندوستان روایتی طور پربے شمار مذاہب کے ماننے والوں کا ملک رہا ہے۔ مسلمانوں کے یہاں آنے سے پہلے جین مت، بدھ مت اور دیگر متعدد چھوٹے بڑے، مذہبی گروہوں کے ساتھ ایک بڑا گروہ ویدک دھرم کو ماننے والوں کا تھا۔ ویدک دھرم کو برہمن واد اور پھر ہندومت بھی کہا گیا۔[9] یہ آریاؤں کے مختلف مذہبی عقائد اور فلسفوں کے مجموعے کا نام تھا۔ چاروید (वेद)، بھگوت گیتا اور برہما سُترا جیسے سو سے زیادہ اپنیشد (उपनिषद्)، آگم(आगम) اور دیگر تانترک لٹریچر پُران (पुराण)، شاستر (शास्त्र)، سُتر (सूत्र)، اور رامائن، مہابھارت، وغیرہ جیسی کتابیں (इतिहास)—اس طرح کی سیکڑوں کتابوں کو یہاں مذہبی کتابوں کا درجہ حاصل رہا اور مختلف مذاہب ان میں سے مختلف کتابوں کی بنیاد پر اپنا نظریہ حیات تشکیل دیتے رہے۔[10] شَیو(शैवसम्प्रदाय)، شاکت (शाक्त)، اسمارت (स्मार्त)، وَیشنو (वैष्णवसम्प्रदायः) وغیرہ کو تاریخ میں مستقل مذہبی گروہوں کی حیثیت حاصل رہی، جن کے متعدد الگ الگ دیوتا تھے۔ فلسفیانہ سطح پر سنکھیہ(साङ्ख्य)، یوگ(योग)، نیائے (न्याय)، ویشیشیک(वैशेषिक)، ممانسا (मीमांसा)، ویدانت (वेदान्त)، وغیرہ متعدد مکاتب فکر تھے۔[11] ان سب نے سیکڑوں چھوٹے بڑے مذہبی گروہوں کو پیدا کیا۔

دھرم کو دو سطحوں پر دیکھا جاتا تھا۔ سناتن دھرم (सनातन धर्म) جس کا تعلق روحانی و اخلاقی (आत्मन्) دائروں سے تھا اور جو سب کے لیے یکساں تھا اور وَرن آشرم دھرم (वर्णाश्रम धर्म) جو مختلف عمر کے لوگوں اور مختلف ذات کے لوگوں سے الگ الگ تقاضے کرتا تھا۔[12]

پھر یہ سارے گہرے فلسفیانہ رجحانات آبادی کے ایک چھوٹے سے طبقے تک یعنی شمالی ہند کے برہمنوں تک محدود تھے۔ ویدوں کے دائرے کے باہر بھی متعدد مذہبی رجحانات ہر دور میں رہے ہیں۔جنوبی ہند میں متعدد دراوڑ مذہبی رجحانات تھے، جن کا ویدوں سے کوئی تعلق نہیں تھا اور جو سنگم لٹریچر پر مرکوز تھے۔[13] (سنگم لٹریچر قدیم تمل زبان کا روایتی لٹریچر ہے اور سیکڑوں کتابوں پر مشتمل ہے)۔ اسی طرح پالی اور پراکرت لٹریچر تھا جس نے بہت سے دیگر مذہبی رجحانات کو جنم دیا تھا۔[14] آدی باسیوں کا علمی ذخیرہ تو نہیں تھا لیکن ان کے اپنے مذہبی رجحانات، عقائد اور رسوم تھے۔

اسی طرح بدھ مت، جین مت جیسے فلسفے تھے جنھوں نے ایک زمانے میں پورے ملک پر اثر ڈالا تھا۔ یہ بھی غیر ویدک فلسفے تھے اور بالکل جداگانہ فلسفیانہ و مذہبی شناخت رکھتے تھے۔عہد وسطی میں مسلمانوں کے اثرات قبول کرکے اور بھی بے شمار مذہبی رجحانات پیدا ہوئے۔ سکھ مت جیسے مستقل مذہب بھی وجود میں آئے اور بھکتی کی تحریک، بسوا، رامانو جا چاریہ وغیرہ جیسے بے شمار مذہبی فلسفوں اور فرقوں نے بھی جنم لیا۔

خلاصہ یہ کہ قدیم ہندوستان (پراچین بھارت) اور عہد وسطیٰ کے ہندوستان کی جو مذہبی تصویر تاریخ کے مطالعے سے بنتی ہے وہ بے شمار مذہبی گروہوں پر مشتمل تھی جن میں بہت کم باتیں قدرِ مشترک کے طور پر پائی جاتی تھیں۔ ان گروہوں میں تصادم بھی ہوتے تھے اور لڑائیاں بھی ہوتی رہیں۔

مسلم دور حکومت میں یہاں رہنے والے تمام لوگوں کو دریائے سندھ کے حوالے سے ہندو کہا جانے لگا۔[15] اس دور میں اسلام سے خاص طور پر خوف اور عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوا تو مغلیہ دور کے آخر میں بعض مفکرین نے ہندوستان کے مختلف مذاہب کے درمیان قدر مشترک کی تلاش شروع کردی۔ بعض جدید مستشرقین نے اس کا سہرا سولہویں صدی کے فلسفی اور مصنف وجنان بھکشو (विज्ञानभिक्षु – وفات 1600عیسوی) کے سر باندھا ہے جنھوں نے مختلف ہندو فلسفوں اور نظریات کو جوڑ کر ایک مشترک فلسفہ تشکیل دینے کی کوشش کی۔[16]

اس کوشش نے برطانوی اقتدار کے دور میں زیادہ منظم شکل اختیار کرلی جب جدیدیت کے افکار کا اثر ہندوستان پر پڑنے لگا اور یہاں قوم پرستی کے لیے مشترک تہذیبی و مذہبی بنیادوں کی تلاش شروع ہوئی۔ اس زمانے میں جو مختلف اصلاحی تحریکیں شروع ہوئیں انھوں نے ویدانت کے تصورات کی بنیاد پر ایک مشترک ہندو فلسفے کی عمارت کھڑی کی، جسے موجودہ اصطلاح میں نو ویدانت (नव वेदांत – Neo-vedanta) کہا جاتا ہے۔ رام موہن رائے )وفات 1833عیسوی)، دیبیندر ناتھ ٹیگور (رابندر ناتھ ٹیگور کے والد، وفات 1905عیسوی)، راما کرشنا پرم ہنس (وفات 1886عیسوی)، سوامی وویکانند (1863-1902)، اوروبندو گھوش )وفات (1950، ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن )وفات 1975) وغیرہ کے افکار اور تصنیفات نے ان تصورات کی صورت گری کی۔[17]

ان حضرات نے ویدوں اور سناتن دھرم کے تصورات کو بعض ترمیمات اور اصلاحات کے ذریعے ایک مشترک مذہبی فلسفے کی شکل دینے کی کوشش کی اور کہا کہ ادویت ویدانت(अद्वैत वेदान्त)، یا نوویدانت، تمام ہندوستانی مذاہب یا دھارمک مذاہب کی مشترک فکری دھارا ہے۔ اس لیے ان کوششوں کو ہندو مذہبوں کا اتحاد (unification of Hinduism)بھی کہا جاتا ہے۔[18]

ویوویکانند کی خصوصیت یہ تھی کہ انھیں بچپن ہی سے انگریزی میں معیاری تعلیم کا موقع ملا۔ وہ میٹرپولیٹین انسٹی ٹیوٹ اور پریزیڈنسی کالج جیسے معیاری اداروں کے طالب علم رہے۔[19] اسکاٹش چرچ کالج میں انھوں نے مغربی فلسفہ اور منطق کا علم حاصل کیا۔ بعض روایتوں کے مطابق وہ فری میسن کی تحریک سے بھی وابستہ رہے۔[20] اوائل عمری میں وہ برہمو سماج میں بھی رہے اور دیبیندر ناتھ ٹیگور اور رام موہن رائے وغیرہ کے ساتھ رہ کر ہندو فلسفوں کا بھی گہر ا شعور حاصل کیا، اور اپنے والد کی رحلت کے بعد اٹھارہ انیس سال کی عمر میں رام کرشنا پرم ہنس کے ساتھ وابستہ ہوگئے اور جلد ہی ان کے جانشین بھی بن گئے۔[21]

یہ زمانہ قومی تحریکات کے آغاز کا زمانہ تھا۔ ہندو سماج میں نئی بیداری پیدا ہورہی تھی اور قومی قائدین قومی امنگوں کو جگانے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ نوجوان ویویکانند نے ان حالات کا اثر قبول کیا اور اپنی متنوع صلاحیتوں کا استعمال کیا۔ مختلف ہندو فلسفوں کو مغربی باطنیات (western esoterism) سے جوڑا۔[22] اسی زمانے میں امریکہ میں روسی مہاجر خاتون ہیلینا بلواٹسکی (وفات 1891) نے ایک نئے روحانی و الہیاتی باطنی فلسفے کی بنیاد ڈالی تھی جسے تھیو سوفی (theosophy)کہا جاتا ہے۔ ویویکانند نے ان افکار سے بھی استفادہ کیا [23] اور ایک ایسے نظام فلسفہ کو تشکیل دیا جس نے مختلف ہندو فلسفوں کو اور بعض مغربی باطنی فلسفوں کو بلکہ مسلمانوں کے بعض منحرف فرقوں کے بھی باطنی خیالات کو ایک ہی نظام فکر میں سمودیا۔ اس فلسفے نے گویا متفرق ہندو فرقوں کو ایک مشترک نظریاتی و فلسفیانہ بنیاد فراہم کی اور ہندو سماج میں بیداری کی ایک نئی لہر کا آغاز ہوا۔ انگریزی اقتدار، اس کے مقابلے میں قوم پرستی کی تحریک، ہندو مسلم کشمکش، ان کیفیات نے بھی اس نظامِ فکر کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا۔ آج اعلیٰ ذاتوں کے ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد خود کو نو ویدانت فلسفے سے وابستہ رکھتی ہے اور دیگر ذاتوں کے لوگ بھی ان کے نظریاتی اثرات قبول کرتے ہیں۔

نو ویدانت کو بعض لوگوں نے مشنری مذہب بنانے کی بھی کوشش کی۔ اس وقت اس محاذ پر کئی مشنری تنظیمیں کام کررہی ہیں۔ مثلاً راما کرشنا مشن (جو ادویت ویدانت کے فلسفے اور چار یوگی اصول گیان، بھکتی، کرما اور راجایوگا کو دنیا بھر میں عام کرنے کی کوشش کررہا ہے۔) چنمیا مشن، ہرے کرشنا موومنٹ (یا ISKCON) وغیرہ چند بڑے نام ہیں۔ ان کے علاوہ ان گنت چھوٹی بڑی تنظیمیں، آشرم، روحانی تحریکیں وغیرہ اس مقصد کے لیے سرگرم ہیں کہ ویدانت کے فلسفے کو دنیا میں عام کیا جائے اور اس فلسفے کی بنیاد پر زندگی کی تعمیر کی کوشش کی جائے۔[24]

نو ویدانت اور ہندو اتحاد

نوویدانت کا بنیادی تصور وجود کی وحدت (unity of existence) کا تصور ہے۔[25] پہلے عقیدہ ثنویت (द्वैत वेदान्त یعنی خالق و مخلوق کے علیحدہ علیحدہ وجود کا تصور) اور عقیدہ مشروط عدم ثنویت (विशिष्टाद्वैत یعنی یہ عقیدہ کہ خدا اور مخلوق اگرچہ الگ الگ ہیں لیکن ساری مخلوق خدا کے وجود ہی سے نکلی ہے اور خدا اور مخلوق میں وہی تعلق ہے جو سورج اور اس کی کرنوں میں ہوتا ہے)کو فلسفہ ویدانت کے الگ الگ مکاتب مانا جاتا تھا۔ جنوبی ہند میں رامانوجاچاریہ (وفات1137عیسوی—گذشتہ ماہ فروری 2022 میں، حیدرآباد ہوائی اڈے کے قریب وزیر اعظم نے ان کے ایک مجسمے کا افتتاح کیا جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ یہ دنیا کا دوسرا سب سے بڑا مجسمہ ہے اور سونے سمیت متعدد قیمتی دھاتوں سے ایک ہزار کروڑ روپیوں کے صرفے سے بنا ہے[26]) نے وششٹھ دویتا کو مقبول بنادیا تھا۔ ویویکانند نے بڑی ذہانت سے نئی تعبیرات کے ذریعے اس سے بھی مطابقت پیدا کرلی۔ ان کے علاوہ بھی ہندو فلسفے میں متعدد مکاتب فکر اور الہیاتی اور وجودیاتی فلسفوں (ontologies)کی گنجائش پائی جاتی تھی۔ نوویدانت کے فلسفیوں نے ان میں مطابقت پیدا کرکے انھیں ایک ہی فلسفہ ویدانت کا جز بنادیا۔سوامی ویویکانند کے مطابق دویتا، وششٹھ دویتا اور ادویتا، اصلاً’روحانی ترقی’کے تین مدارج ہیں اور حتمی درجہ ادویتا ہی ہے۔[27]

اوروبندو گھوش کے مطابق حاضر و ناظر، حتمی حقیقت ( یعنی خدا ) نے جب وجود کا لطف لینے کا ارادہ کیا تو تین مرحلوں پر مبنی ایک عمل(सच्चिदानंद) کے ذریعے اس نے خود کو وسعت دی اور اپنی توانائی کو کائنات کے مادّے کی شکل عطا کی اور ارتقا کے ایک پیچیدہ عمل سے گزرکر اس مادّے کو مختلف اشیا اور مختلف ذی روح اجسام اور ارواح کے ذریعے ظاہر کیا اور یوں گویا کائنات اور کائنات میں موجود تمام مادی اور غیر مادی حقیقتیں وجود میں آئیں۔[28]

اس فلسفے میں ہر چیز ایک ہی وجود کا حصہ قرار پاتی ہے اور خدا اور کائنات اور خالق و مخلوق دو الگ الگ حقیقتیں نہیں بلکہ ایک ہی حقیقت قرار پاتے ہیں۔بعض صوفیا میں رائج وحدة الوجود کا فلسفہ بھی اسی سے مشابہ ہے۔

جب انسان خدا کے وجود ہی کا حصہ ہے تو مذہب کیا چیز ہے؟ نو ویدانت کے مطابق مذہب انسان کے تجربے (अनुभव)کا نام ہے۔ انسان کی ذمے داری ہے کہ وہ سچائی کی تلاش کرے۔ اس تلاش میں ایک سالک جن تجربات سے گزرتا ہے اور اس پر جو حقائق اور اصول منکشف ہوتے ہیں وہی مذہب کی اصل حقیقت ہے۔ یہ انکشافات ہر فرد پر ہوسکتے ہیں۔[29]

جب ہر فرد پر انکشافات ہوسکتے ہیں تو گویا متعدد مذہبی تجربات نظریاتی طور پر ممکن ہیں۔ چناں چہ نو ویدانت کے حامی مختلف مذاہب کو بیک وقت درست سمجھتے ہیں۔ بعض لوگ اس کے لیے رگ ویدا سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اس منتر کا حوالہ دیتے ہیں۔[30] एकं सद्विप्रा बहुधा वदन्ति (سچائی ایک ہے مگر اسے مذہبی رہ نما مختلف طریقوں سے بیان کرتے ہیں۔) ڈاکٹر رادھا کرشنن لکھتے ہیں:

“ہندوازم محض ایک عقیدہ نہیں ہے۔ یہ عقل اور وجدان کا ایسا اتحاد ہے جس کی تعریف بیان نہیں کی جاسکتی، اسے صرف تجربے سے سمجھا جاسکتا ہے۔ برائی اور غلطی حتمی نہیں ہے۔جہنم کا کوئی وجود نہیں ہے۔ کیوں کہ اسے مانا جائے تو یہ بھی ماننا پڑے گا کہ کوئی جگہ ایسی ہے جہاں خدا نہیں ہے اور یہ بھی کہ ایسے گناہ بھی وجود رکھتے ہیں جو خدا کی رحمت پر بھی بھاری ہیں۔”[31]

اس طرح وجود کی وحدت، خالق و مخلوق کی یکجائی، ہر انسان میں خدا کی روح کی موجودگی اور سچائی کی سچائی تک رسائی کی صلاحیت اور متعدد سچائیو ں کے امکان کا تصور، اس فلسفہ نوویدانت کی نمایاں خصوصیات ہیں۔

دھرم کا تصور اور ہندوستانی مذاہب کا اتحاد

ان فلسفوں کے بطن سے ایک ایسی مذہبی تعبیرکو جنم دیا گیا جو عیسائیت اور اسلام کے سوا ملک کے تمام مذاہب اور مذہبی و روحانی فلسفوں کے لیے مشترک بنیاد بن سکتی تھی۔ جین مت اور بدھ مت بھارت کی اہم مذہبی روایات ہیں لیکن ان کے فلسفے بالکل مختلف ہیں۔ بعض اصطلاحات اور بعض نکات کے اشتراک کے باوجود، ادویتا یا ویدانت کے فلسفوں سے ان کے نظریات بالکل مختلف اورواضح طور پر جداگانہ ہیں۔ نوویدانت کی چھتری کے سائے میں ان کو لے آنا ممکن نہیں تھا اس لیے بعض دانش وروں نے ‘دھرم’ کا ایک نیا تصور دیا [32] اور دنیا کے مذاہب کو خطی (linear) اور دائروی (circular) دو بڑے خانوں میں تقسیم کیا۔

دھرم کا تصور اور اس کی بنیاد پر عیسائیت اور اسلام کو چھوڑ کر باقی ہندوستانی مذاہب میں اتحاد پیدا کرنے کی کوششیں ایک عرصے سے ہورہی ہیں۔ حالیہ دنوں میں مغربی ملکوں میں راجیو ملہوترا )پیدائش 1950 – مقیم پرنسٹن، امریکہ) اس تصور کے نہایت پر جوش مبلغ بن کر ابھرے ہیں۔ اُن کے نزدیک مذہب کی مغربی روایت (یا ابراہیمی روایت یا سامی روایت) اور ہندوستانی روایت (وہ اسے مشرقی روایت، یادھارمک روایت بھی کہتے ہیں) میں بڑے بنیادی فرق ہیں۔ دھارمک روایتوں کی پہلی خصوصیت یہ ہے کہ یہ ابراہیمی مذاہب کی طرح کسی مخصوص تصور حیات پر اصرار نہیں کرتے۔ تہذیبی طور طریقوں کے اختلاف سے ان کو کوئی تکلیف نہیں ہوتی اور وہ اختلافات کے ساتھ آسانی سے رہ سکتے ہیں۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ ابراہیمی مذاہب تاریخ پر مرکوز ہیں۔ تاریخ کے کسی دور میں آنے والے پیغمبروں اور ان کی تعلیمات پر ان کا انحصار ہے، جب کہ ہندوستانی مذاہب ‘اندرونی علوم’ (internal sciences) پر مرکوز ہیں یعنی یہاں ہر فرد سچائی کی آزادانہ تلاش کرسکتا ہے اور اپنے وجدان سے حقیقت تک پہنچ سکتا ہے۔ یہ موقع ہر ایک کو ہر زمانے میں دستیاب ہے۔ اپنی کتاب Being Different میں[33]، جو مغربی علمی حلقوں میں کافی پھیلائی گئی، انھوں نے ابراہیمی مذاہب اور دھارمک مذاہب میں چھ بڑے فرق گِنوائے ہیں اور ان کی تفصیل بیان کی ہے۔

ان کا ایک اور اہم نظریہ ‘عظیم بیانیہ’ (grand narrative) یا نظامِ فکر کا نظریہ ہے۔[34] حالیہ دنوں میں ملک کی متعدد دانش گاہوں میں لیکچرز کے پیہم سلسلے کے ذریعے اس تصور کو انھوں نے عام کرنے کی کوشش کی۔ وہ کہتے ہیں کہ دنیا کی ہر قوم کے پاس ایک نظام فکر ہوتا ہے اور وہی قومیت کی بنیاد ہوتا ہے۔ قومیں دستور اور قانون کی بنیاد پر نہیں بنتیں، بلکہ قوم کی مختلف اکائیوں میں جذباتی اتحاد اس طرح کے نظامِ فکر ہی سے پیدا ہوتا ہے۔ قدیم بھارت میں ایسا نظامِ فکر یا عظیم بیانیہ موجود تھا، لیکن پہلے مسلمانوں کے دور حکومت نے پھر انگریزوں نے اس بیانیے کو بری طرح مجروح کردیا۔[35] آج بھی اس نظامِ فکر کے لیے ملک میں تین قوتوں کے درمیان کشمکش ہے۔ مغرب زدہ انڈیا (westernised India)، انتشار پسند قوتیں (breaking India forces)(کمیونسٹ، اسلام پسند، دلت حقوق کے حامی اور دراوڑی حقوق کے حامی) اور بھارت [36]، ان تینوں کے نظام ہائے فکر کو تفصیل سے واضح کرکے انھوں نے ‘بھارت’ کے بیانیے کو غالب کرنے کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی ہے۔

ملہوترا کی ایک اہم بحث وہ ہے جو انھوں نے دستور ہند کے حوالے سے کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دستور ہند بھارت کے عظیم بیانیے یا نظامِ فکر سے بالکل ہم آہنگ نہیں ہے۔ انھوں نے ایک جامع چارٹ تیار کرکے تفصیل سے اپنے خیالات پیش کیے ہیں کہ ‘بھارت’ کا نظامِ فکر دستور کی کن کن باتوں سے اور کیسے ٹکراتا ہے؟[37]

مثلاً یہ کہ دفعات 25 تا 30 ہندوستانی مذاہب کو بھی ابراہیمی روایات کے چشمے سے دیکھتی ہیں اور دھرما کی امتیازی خصوصیت کو خاطر میں نہیں لاتیں، مذہب کی تبلیغ کا حق دے کر مذہب کی ابراہیمی تعریف کو قبول کیا گیا ہے اور دھارمک تعریف کو قبول نہیں کیا گیا جس میں مذہب کسی حتمی سچائی کا نام نہیں ہے جس کی تبلیغ و تلقین کی ضرورت ہو۔ دفعات 341 اور 34 ذات (caste)کو مغرب کے نسل (race) کے زاویے سے دیکھتی ہیں جب کہ ہندوستان میں یہ محض کاموں کی تقسیم کا نظام ہے؛ وغیرہ۔[38]

ان بحثوں سے مذہب اور ہندوستانی مذاہب کے آپسی تعلق کے سلسلے میں ان حضرات کی سوچ واضح ہوتی ہے۔ ہماری سمجھ کے مطابق اس سوچ کے نمایاں اجزا یہ ہیں:

1. دنیا میں مذہب کی دو قسمیں ہیں۔ ایک ابراہیمی مذاہب اور دوسرے دھارمک مذاہب۔ اسلام، عیسائیت اور یہودیت ابراہیمی مذاہب ہیں اور عام طور پر مغربی دنیا، مشرق وسطی تک، مذہب کی اسی روایت سے آشنا ہے۔ دھارمک مذاہب میں ہندوازم، جین ازم، بدھ مت اور سکھ مت وغیرہ شامل ہیں۔ ہندوستان کے لوگ مذہب کی اسی روایت سے آشنا ہیں اور ابراہیمی روایت ان کے لیے ایک اجنبی اور نامانوس روایت ہے۔

2. ابراہیمی مذاہب ‘حتمی سچائی’ (absolute truth)کے دعوے دار ہیں۔ یعنی وہ خدا کی کچھ خاص صفات پر یقین، خدا کے تعلق سے خاص عقیدہ، خاص رسول، خاص کتاب اور اس کی خاص تعلیمات کی پیروی ہی کو نجات کا ذریعہ اور ساری انسانیت کے لیے فلاح کا واحد نسخہ سمجھتے ہیں۔ جو لوگ ان کے دعوے کو قبول نہیں کرتے انھیں گم راہ اور کافر سمجھتے ہیں اور جہنم کا حق دار مانتے ہیں۔ اس لیے اس سچائی کی تبلیغ ضروری سمجھتے ہیں۔حتمی سچائی کے اس دعوے کی وجہ سے دوسرے مقابل دعووں سے ان کا ٹکراؤ ہوتا ہے اور اس کے نتیجے میں تصادم، جنگ و جدال اور فتنہ و فساد جنم لیتا ہے۔

3. دھارمک مذاہب وجود کی وحدت کے قائل ہیں۔ ہر چیز اور ہر انسان کو الوہی وجود کا حصہ سمجھتے ہیں۔ انسانی شعور کو خدا کے شعور کا حصہ مانتے ہیں اس لیے ہر انسان کو یہ حق دیتے ہیں کہ وہ آزادانہ غور کرے اور اپنے حالات کے لحاظ سے اور اپنے وجدان کے مطابق اپنے فلسفہ حیات کی تخلیق کرے۔یہ کام رشی اور منی برسوں سے کرتے آرہے ہیں۔ ان کے غور و فکر کا حاصل مقدس کتابوں کی صورت میں موجود ہے۔ ان سے استفادہ کیا جائے تاکہ ہمارے غور وفکر کے عمل میں مدد ملے۔ لیکن ان میں سے کسی کی بات بھی حتمی نہیں ہے۔ ہر انسان اپنی نجات کا راستہ خود دریافت کرے گا۔ اس لیے ماضی و مستقبل کی تمام مذہبی روایات یکساں طور پر درست ہیں۔ اور کسی بھی مذہب کونہ تبلیغ کی ضرورت ہے اور نہ کسی خاص نظامِ فکر کو قبول یا رد کرنے کی ضرورت ہے۔

4. سارے مذاہب درست ہیں، وجود کی وحدت کی بنیاد پر تعمیر ہونے والا یہ نظریہ، اصلاً ہندوستانی نظریہ ہے۔ اسی نظریے کو ہندوستان میں مقبول ہونا چاہیے اور بھارت کے مختلف باشندوں کے درمیان پر امن بقائے باہم کا یہی راستہ ہے۔ تمام مذاہب کے ماننے والوں کو اپنے مذہب کے واحد سچ ہونے کے دعوے کو ترک کرنا چاہیے۔ دوسروں کو غلط سمجھنا یا باور کرانا نہیں چاہیے۔ اور سب کا احترام کرنا چاہیے۔ احترام کا پہلا تقاضا یہ ہے کہ ہر ایک کی بات کو درست سمجھا جائے۔

5. سیکولرزم، مذہب پر عمل کا حق، مذہب کی تبلیغ کا حق وغیرہ جیسی باتیں، جن پر جدیدیت نے بہت زور دیا ہے اور جو ہندوستان سمیت دنیا کےکئی جمہوری ملکوں کے قانونی و دستوری نظام کا اہم جز ہیں، ان کی ضرورت ابراہیمی مذاہب کے آپسی تصادم اور عدم رواداری کی وجہ سے پیش آئی ہے۔ ہندوستان کو نہ ان تصورات کی ضرورت ہے اور نہ دھارمک روایتوں پر ان تصورات کا اطلاق ممکن ہے۔ جو کچھ دستور میں اس حوالے سے کہا گیا ہے وہ بھی ابراہیمی مذاہب کے مخصوص پس منظر میں کہا گیا ہے (بین السطور میں یہ بات بھی ہے کہ اس کا اطلاق بھی صرف انھی پر ہوتا ہے)۔اس پس منظر میں دھارمک روایتوں کو مذہب کہنا ہی درست نہیں اور نہ ان روایتوں کا سیاق ان حقوق اور ان بحثوں سے کوئی تعلق رکھتا ہے۔

اس میں خاص طور سے آخری نکتہ بہت تشویش ناک ہے۔ اس نکتے کا اگر حالیہ مباحث بلکہ بعض عدالتی مباحث (جاوید علی صاحب کا ایک مضمون بعنوان ‘ہندو راشٹر کا تدریجی سفر’ اسی شمارے میں موجود ہے، جس میں اس نقطہ نظر کے نمونوں کو دیکھا جاسکتا ہے) کے تناظر میں بھی جائزہ لیا جائے تو مقصد واضح ہوجاتا ہے۔ان کی رو سے سیاست میں عیسائیت یا اسلام کا حوالہ آتا ہے تو وہ غلط ہے کیوں کہ دستور میں مذہب اور سیاست کو الگ کیا گیا ہے۔ لیکن ہندتو کا حوالہ نامناسب نہیں ہے کیوں کہ یہ محض دھارمک روایت یا طرز زندگی ہے، اس میں مذہب جیسی کوئی بات نہیں ہے۔ ان کے مطابق مذہب یعنی ادعائیت پر مبنی منظم مذہب کی علامات عوامی زندگی سے باہر ہونی چاہئیں لیکن دھارمک روایات چوں کہ کسی خاص دعوے پر مبنی نہیں ہیں، اس لیے ٹکراؤ پید اکرنے کا کوئی امکان ان کے اندر نہیں ہے، اس لیےاس کی علامات میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ محض ‘تہذیبی علامات’ ہیں مذہبی نہیں۔ کوئی شخص اسلام یا عیسائیت قبول کرتا ہے تو گویا وہ مذہب تبدیل کرتا ہے لیکن اگر کوئی کسی ہندو فلسفے کو اختیار کررہا ہے تووہ محض سوچنے کا ایک طرز (way of thinking) اختیار کرتا ہے۔

مطلوب رسپانس

اوپر جو نقطہ نظر تفصیل سے واضح کیا گیا ہے، اس میں کئی نظریاتی سقم اور باہم تضادات بھی ہیں اور اسلام کے تعلق سے بعض بڑی غلط فہمیاں بھی ہیں۔یہ خیالات اب بڑی تیزی سے عام ہورہے ہیں اور مستقبل میں ہندوستان کی مذہبی زندگی میں اور مذاہب کے درمیان تعلقات میں ان خیالات کا بڑا اہم رول ہوگا۔ اس لیے ان خیالات کا نوٹس لینا ضروری ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان پر تفصیل سے علمی کام ہو اور ان موضوعات پر سنجیدہ مذاکرات کا اہتمام ہو۔ فی الحال یہ مضمون اس حوالے سے کچھ بنیادی باتوں ہی کا متحمل ہوسکتا ہے جنھیں ہم مختصر اشارات کی صورت میں نیچے درج کررہے ہیں۔

1. اوپر مذاہب کے درمیان تعلق کی جو مختلف شکلیں بیان کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی معقول شکل نہیں ہے۔ پہلی شکل یعنی ہمہ مذہبیت (multiple religious belonging)، مذہب کے بارے میں غیر سنجیدگی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کسی سیاسی یا سماجی مصلحت کے تحت کی گئی مصالحت تو ہوسکتی ہے، کسی سنجیدہ موقف کا نتیجہ نہیں ہوسکتا۔ اوپر جاپان کا ذکر آیا ہے۔ جاپانیوں کے مذہبی رویوں کے بارے میں یہ بات ضرور کہی جاتی ہے وہ مذہب کے معاملے میں سنجیدہ نہیں ہیں۔[39] مختلف مذاہب کی باتیں ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لیے اصل مذہب کو مکمل مسخ کیے بغیر اسے دوسرے مذہب کے ساتھ جمع کرنا ممکن نہیں ہے۔اسی طرح مختلف مذاہب کی مختلف تعلیمات کو جمع کرکے ایک نیا کاک ٹیل بنانے کا رویہ بھی معقول رویہ نہیں ہے۔کوئی بھی مذہب محض منتشر افکار وہدایات کا مجموعہ نہیں ہوتا کہ اس میں سے حسب منشا چیزیں اٹھالی (pick and choose) جائیں۔ عام طور پر مذاہب کی بنیاد عقیدوں پر ہوتی ہے۔ مختلف مذہبوں کے عقیدے ایک دوسرے سے متصادم بھی ہوتے ہیں۔ اس لیے عقیدوں کی بنیاد کے بغیر محض کچھ اچھی اچھی تعلیمات کو ادھر ادھر سے جمع کرلینا، کوئی سنجیدہ اور معقول رویہ نہیں قرار پاسکتا۔

2. وحدت ادیان پر زور اور اصرار، یہ خود ایک طرح کی عدم رواداری ہے کیوں کہ اس میں افراد کو سچائی سے متعلق اپنے نقطہ نظر اور اپنے اعتقاد پر سیریس مصالحت کے لیے مجبور کیا جاتا ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ وحدت ادیان کا نظریہ خود ایک ‘مذہب’ یا ‘نظریہ’ ہے۔ وجود کی وحدت کے جس فلسفے کو اس کی بنیاد بنایا گیا ہے وہ ایک مستقل وجودیاتی نظریہ (ontological theory)ہے۔اس کے علاوہ اور اس سے متصادم دیگر کئی وجودیاتی نظریات موجود ہیں۔ کسی کو اس نظریے پر یقین ہو تو وہ ضرور اسے قبول کر سکتا ہے لیکن وحدت ِادیان کو ایک لازمی قدر بنانے کا مطلب ایک خاص نظریے کو زبردستی مسلط کرنا ہے۔ یہ رویہ مذہب اور مذہبی دعووں کی سنجیدہ تنقیح و تنقید، ان پر مباحث اور رد و قبول کے مواقع ختم کردیتا ہے۔وہ علمی مزاج(scientifc temper) جو کسی بھی میدان میں علمی و فکری ارتقا کی لازمی ضرورت ہے، مذہب کے معاملے میں باقی نہیں رہت۔ایک دوسرے سے اختلاف کرنے کی آزادی اس کے نتیجے میں ختم ہوجاتی ہےاور مذہب کے معاملے میں ایک ایسی جامد اور مردہ صورت حال جنم لیتی ہے جس میں تلاش ِحق کی انسانی کوششوں کے لیے کوئی موقع باقی نہیں رہتا۔

3. دھارمک روایات اور ابراہیمی روایات میں فرق ہوسکتا ہے لیکن اس فرق کو جس مبالغے کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے اور اس فرق سے جو نتائج کشید کیے جاتے ہیں وہ نہ صرف مبالغہ آمیز ہیں بلکہ خلاف واقعہ اور غیر متعلق بھی ہیں۔ عقیدہ یا الہیات، وجودیات، اخلاق اور تہذیب سے متعلق ہر تصور چاہے اس کا تعلق زندگی کے کسی ایک پہلو سے ہو یا پورے ورلڈ ویو اور نظامِ زندگی سے، اسے منظم مذہب کے حصے کے طور پر پیش کیا جائے یا غیر منظم مذہب کے حصے طور پر یا غیر مذہبی بات کے طور پر، اس کا سرچشمہ کسی پیغمبر کی تعلیم ہو یا کسی فرد ِواحد کا وجدان، ہر صورت میں بہر حال یہ ایک دعویٰ ہے۔ ہر دعوے کے مقابلے میں ایک دوسرا متصادم دعویٰ موجود ہوتا ہے۔ ہر دعویٰ اپنے ماننے والوں کے لیے حقیقت ہوتا ہے اور رد کرنے والوں کے لیے باطل ہوتا ہے، اس لیے وہ تفریق پیدا کرتا ہے۔ انسان کی زندگی صرف خانگی امور تک محدود نہیں ہے۔تہذیب، معاشرت، اخلاق اور سماجی زندگی کے کئی پہلو ہیں جن میں لوگ ایک اجتماعی موقف اختیار کرتے ہیں۔ زندگی کے بہت سے سوالات ہیں جن پر اجتماعی طور پر ایک رائے بنائے بغیر زندگی کی گاڑی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ یہ رائے، چاہے وہ مذہبی تعلیمات کے نتیجے میں بنے یا آزادانہ غور کے نتیجے میں، خیالات کا ٹکراؤ لازماً پیدا کرتی ہے۔ مذہبی تصورات سے عقیدت اور جذباتی وابستگی صرف منظم مذاہب کے ماننے والوں ہی کو نہیں ہوتی، دھارمک مذاہب والوں کو بھی ہوتی ہے۔ ملک کی موجودہ صورت حال میں ہر جگہ صاف نظر آرہا ہے کہ دھارمک روایتیں بھی جذباتی وابستگی پیدا کرتی ہیں اور وہ بھی تنازعات اور تصادم کا سبب بن سکتی ہیں۔ اس لیے دھارمک اور ابراہیمی مذاہب کی تفریق اور اس کی بنیادوں پر دونوں کے سلسلے میں جداگانہ سیاسی رویوں کا مطالبہ ایک نامعقول بات ہے۔

4. یہ کہنا کہ دھارمک روایتوں میں ہر فرد آزاد ہے اور منظم ابراہیمی مذاہب خاص تصورات کے لیے فرد کو پابند کرتے ہیں، یہ بھی کم سے کم اسلام کو صحیح طور پر نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ اپنا عقیدہ یا نظام زندگی منتخب کرنے کا حق، اسلام میں بھی فرد ہی کو حاصل ہے۔ بلکہ یہ ہر فرد کے امتحان کا ذریعہ ہے اس لیے کوئی بھی بیرونی جبر اس معاملے میں سخت ناپسندیدہ ہے۔ فرد ہی آزادانہ غور و فکر کرتا ہے اور اس کی عقل ہی اسے مذہبی عقیدے تک پہنچاتی ہے اور وہ اپنی آزادانہ مرضی ہی سے عقیدے کو قبول یا رد کرتا ہے۔ اسلام میں نیت پر جو زور دیا گیا ہے اس کے پس منظر میں کوئی فرد بیرونی دباؤ میں کوئی اچھا کام کر بھی لے تو وہ قابل قبول نہیں ہے۔ قرآن نے اسی لیے غور وفکر پر زور دیا ہے، واقعات سنائے ہیں کہ کیسے اللہ کے نیک بندے غور وفکر اور عقل کے استعمال کے ذریعے عقیدے تک پہنچے حتی کہ یہ حکایت بھی سنائی ہے کہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبر نے بھی اپنے عقیدے پر اطمینان اور شرح قلب کے لیے سوال و تحقیق اور مشاہدے کی خواہش ظاہر کی۔ چناں چہ مذہب کی تعلیمات، ایک مسلمان کسی بیرونی دباؤ کے تحت روبہ عمل نہیں لاتا بلکہ اپنے عقیدے اور اپنے ضمیر کے تحت ہی لاتا ہے۔ اور عقیدے تک اپنی عقل اور وجدان ہی کے ذریعے پہنچتا ہے۔ منظم اور غیر منظم کی بحث یہاں بالکل غیر متعلق ہے۔

5. ہندوستان کے عوام کو اس حوالے سے اسلام کا موقف وضاحت اور دلائل کے ساتھ سمجھانے کی ضرورت ہے۔اسلام کہتا ہے کہ ہر علاقے میں اللہ کے پیغمبر اللہ کا پیغام لے کر آئے۔ پہلے انسانی زندگی بہت زیادہ منظم نہیں تھی۔ اس لیے ان پیغمبرو ں کی تعلیمات اپنی اپنی مقامی آبادیوں کو مخاطب کرنے والی اور بنیادی عقیدوں اور عام اخلاقی قدروں تک محدود تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ ایک عالم گیر پیغمبر تھے۔ کعبة اللہ کی تعمیر کرکے انھوں نے عالمی دعوت توحید کا مرکز قائم کیا۔ یہ گویا اس بات کا اعلان تھا کہ اب انسانی زندگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہورہی ہے۔ اس لیے ان کی دعوت میں سارے عالم انسانی کے لیے اپیل تھی۔ انسانی زندگی منظم ہونے لگی تو خدا کی طرف سے بھی منظم زندگی سے متعلق تعلیمات آئیں۔ رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں جب کہ انسانی شعور خا صا پختہ ہوگیا اور تمدن ترقی کرتے کرتے سائنس و ٹکنالوجی کی عظیم ترقیوں کے دہانے پر پہنچ گیا تو اللہ تعالیٰ نے منظم زندگی کی زیادہ تفصیلی تعلیمات فراہم کیں۔ اس لیے غیر منظم اور منظم مذاہب کا اصل فرق آزادی اور عدم آزادی کا فرق نہیں ہے بلکہ بنی نوع انسانی کی تمدنی ترقی کے مرحلے کا فرق ہے۔ آج جب کہ انسان کی زندگی حد سے زیادہ منظم ہے، اس کی ضرورت ایک منظم مذہب ہی پوری کرسکتا ہے۔ اس لیے مذہب کا منظم ہونا اس کا کوئی عیب نہیں بلکہ خوبی اور اس زمانے کی ضرورت ہے۔

یہ بات بھی سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا منشا ہرگز یہ نہیں ہے کہ بدلتے ہوئے حالات کے لحاظ سے اور زندگی کے تبدیل ہوتے ہوئے تقاضوں کے لحاظ سے انسانی زندگی میں ارتقا نہ ہو اور جامد تعلیمات کے ذریعے زندگی کو متحجر(fossilise)کردیا جائے۔ قرآن وسنت کی دائمی تعلیمات انسانی زندگی کے دائمی حصے کا احاطہ کرتی ہیں۔ قانون اور شریعت کا یہ ایک چھوٹا دائرہ ہے۔ اس دائرے کے باہر زمانے کی ترقیوں اور انسانی زندگی کی رنگا رنگی اور تنوعات کا ساتھ دینے کے لیے اسلام میں اجتہاد کا دروازہ ہمیشہ کھلا ہوا ہے۔ انسان اپنی سہولت کے لحاظ سے ضابطہ سازی کرسکتا ہے۔ البتہ دائمی اصولوں اور عقیدوں کی لگام، اس ضابطہ سازی کو عدل و قسط کے ایک دائرے سے تجاوز کی اجازت نہیں دیتی۔

6. منظم اور غیر منظم مذاہب کی بحث میں یہ نکتہ بھی سامنے لانے کی ضرورت ہے کہ منظم زندگی، منظم اور ہمہ گیر ہدایات چاہتی ہے۔ اگر منظم ہدایت غلط ہے تو اسے ہر جگہ غلط ہونا چاہیے۔ سیکولر زندگی میں بھی ریاست کو تفصیلی قوانین بناکر انسانوں کو کنٹرول کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ جب ریاست اور سماج کی سطح پر قانون، سماجی معمولات، مختلف ریاستی اور سماجی اداروں کے ذریعے انسانی زندگی کو سخت شکنجے میں کس کر منظم کرنے کی کوششیں غلط نہیں ہیں تو مذہب کا منظم تعلیم دینا کیوں غلط ہے؟ جس طرح زمانہ قدیم کی سادہ زندگی کے لیے سادہ قدروں کی ضرورت تھی آج کی منظم زندگی زیادہ منظم اور تفصیلی ہدایت الہی کی متقاضی ہے۔اسی طرح جب منظم اجتماعی زندگی کی تنظیم و تہذیب کے لیے جدید قانونی نظام سزا و جزا کو ضروری سمجھتا ہے تو مذہب کیوں نہ سمجھے؟

7. اصل بات یہ ہے کہ ہر فرد کو مکمل مذہبی آزادی ملنی چاہیے۔ چاہے وہ دھارمک روایت قبول کرے یا کسی منظم مذہب کو ترجیح دے، چاہے سب مذاہب کو درست سمجھے یا کسی مخصوص مذہبی دعوے کو حتمی حقیقت کے طور پر قبول کرے اور اس سے ٹکرانے والی باتوں کو غلط سمجھے، چاہے وحدة الوجود کو قبول کرے یا اسے رد کرے۔ اسلام نے اس آزادی کو بہت اہمیت دی ہے اور قبول و رد کے اس اختیار کو انسان کے امتحان کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ إِنَّا هَدَینَاهُ السَّبِیلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا (ہم نے اسے راستہ دکھا دیا، خواہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا) مولانا آزادؒ لکھتے ہیں:

“اس اصل عظیم کا اعلان کہ دین واعتقاد کے معاملے میں کسی طرح کا جبر واکراہ جائز نہیں، دین کی راہ دل کے اعتقاد و یقین کی راہ ہےاور اعتقاد دعوت وموعظت سے پیداہوسکتا ہے نہ کہ جبر و اکراہ سے۔ احکامِ جہاد کے بعد بھی یہ ذکر اس لیے کیاگیا تاکہ واضح ہوجائے کہ جنگ کی اجازت ظلم وتشدد کے انسداد کے لیے دی گئی ہے نہ کہ دین کی اشاعت کے لیے۔ دین کی اشاعت کا ذریعہ ایک ہی ہے اور وہ دعوت ہے۔” [40]

اس لیے یہ سمجھنا بالکل غلط ہے کہ فرد کو مذہبی آزادی دھارمک مذاہب ہی میں ممکن ہے۔ بلکہ سچی بات یہ ہے کہ واضح تصور دین کی وجہ سے اور جبر و اکراہ کے سلسلے میں متعین ممانعت کی وجہ سے، اسلام کے ماننے والوں کے لیے یہ کہیں زیادہ دشوار ہے کہ وہ مذہب کے معاملے میں جبر سے کام لیں۔

8. سب سے اہم بات یہ کہ دعوے اور جوابی دعوے صرف مذہب میں نہیں ہوتے زندگی کے ہر شعبے میں ہوتے ہیں۔ ان کے سلسلے میں ایک سنجیدہ معقول رویہ ساری مہذب دنیا میں رائج ہے۔ مذہب کو اس سے مستثنیٰ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ سائنس، فلسفہ، معاشیات و سیاسیات سے لے کر کھیتی باڑی اور گھریلو علاج معالجہ کے طور طریقوں تک، زندگی کے ہر معاملے میں ایسے بے شمار امور ہوتے ہیں جن میں ہر انسان کچھ باتوں کو صحیح اور کچھ باتوں کو غلط سمجھتا ہے اور اس کے ساتھ رہنے والے دوسرے انسان اس سے مختلف یا اس کے برعکس رائے رکھتے ہیں۔ ہر مہذب معاشرہ ان سب معاملوں میں ہر انسان کو اپنی رائے رکھنے، اپنی رائے کو دلیل سے پیش کرنے، دوسرے کی رائے پر دلیل سے تنقید کرنے کا نیز دلیل سے متاثر ہونے کے نتیجے میں رائے بدلنے کا حق دیتا ہے۔ یہ حق انسانی تہذیب و تمدن کی ترقی کے لیے بنیادی ضرورتوں میں سے ایک ہے۔ جو رویہ زندگی کے تمام معاملات میں اختیار کیا جاتا ہے وہی مذہب کے معاملے میں بھی اختیار کیا جانا چاہیے۔ آپ جس بات کو صحیح سمجھتے ہیں، اسے صحیح سجھیں۔ یہ حق دوسرے کو بھی دیں۔ اگر رائے مختلف ہو تو بات کریں، دلائل کا تبادلہ کریں، اس کے باوجود اتفاق نہ ہو تو اپنی اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے امن کے ساتھ مل جل کر رہیں۔ یہ نہایت حیرت کی بات ہے کہ زندگی کے ہر معاملے میں جس مہذب اور شائستہ رویے کو اختیار کیا گیا ہے اور کام یابی سے دنیا کے ہر معاشرے میں برتا بھی جارہا ہے، خواہ مخواہ مذہب اور مذہبی معاملات کو اس سے مستثنیٰ کردیا جاتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ دنیا تہذیب و شائستگی کا اگلا زینہ طے کرے اور مذہب کو بھی جذباتی مسئلہ سمجھنے کے بجائے سنجیدہ غور و فکر کا مسئلہ سمجھا جائے۔

9. ہندوستان جیسے ملک کے لیے عملی راستہ یہی ہے کہ ریاست تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کرے، چاہے ان کا تعلق دھارمک روایات سے ہو یا ابراہیمی روایات سے۔ مذاہب اور ان کے ماننے والوں کے درمیان تعلق کی نوعیت بھی مہذب اور سنجیدہ ہونی چاہیے۔ باہم تبادلہ خیال و دلائل، مذاکرات، حق کی سنجیدہ تلاش و جستجو، حق واضح ہونے یا رائے بدلنے کی صورت میں اپنے ضمیر کے مطابق اپنا عقیدہ بدلنے کی مکمل آزادی، مذہبی امور میں بحث و گفتگو یا رایوں کے اختلاف یا رایوں کی تبدیلی کو کسی بدمزگی کے بغیر خوش دلی سے قبول کرنے کا مزاج اور اتفاق رائے نہ ہو تو ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے مل جل کر رہنا، مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان باہم تعلق انھی خصوصیات سے عبارت ہونا چاہیے۔ یہ انتہائی سادہ اور عام فہم بات ہے اور ملک کا دستور بھی اسی بات کو تسلیم کرتا ہے۔ اس کو غیر ضروری فلسفوں سے الجھانے کی کوشش ہی تمام فتنوں کی جڑ ہے۔

10. اس بحث کو ہمارے ملک کے دستور نے بھی بڑی وضاحت سے فیصل کردیا ہے۔ یہ بات غلط ہے کہ دستور سازوں کے سامنے ہندوستانی مذاہب کی خصوصیات نہیں تھیں۔ وہ ہندوستانی مذاہب کی خصوصیات کو بھی اچھی طرح سمجھتے تھے بلکہ نو ویدانت کے بعض نامور ترین ماہرین اور ہندو مذہب کے معتبر ترین جدید شارحین و متکلمین (مثلاً ڈاکٹر ایس رادھا کرشنن) دستور ساز اسمبلی میں موجود تھے۔ ان سب مسائل پر دستور ساز اسمبلی میں بحثیں بھی ہوئیں۔خاص طور پر سیکولرزم کے موضوع پر[41] اور مذاہب کی تبلیغ کے حق کے موضوع پر [42] دستور ساز اسمبلی میں جو مباحث ہوئے انھیں ملحوظ رکھا جائے تو سرو دھرم سمبھاو کو لازم قرار دینے اور مذاہب کی قسمیں کرنے جیسی بحثوں کے لیے کوئی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ n

حواشی و حوالہ جات

1. Government of Japan, Ministry of Cultural Affairs, as referred in https://www.statista.com/statistics/237609/religions-in-japan/ retrieved on 17-03-2022

2. Jan Van Bragt, “Multiple Religious Belonging of Japanese People” in Catherine Cornille Ed.(2010) Many Mansions? Multiple Religious Belonging and Christian Identity; Wipf and Stock Publishers; United States, pp. 7-19.

3. J.P. Dayam Ed. (2015) Many Yet One: Multiple Religious Belonging; World Council of Churches.

4. The Message of Gandhi Through Universities. (1997). India: Gandhi Smriti & Darshan Samiti, p. 86.

5. دیکھیں ان کی ویب سائٹCovenant of Goddess

https://cog.org/ retrieved on 17-03-2022

6. ان کے احوال کی تفصیل کے لیے دیکھیے۔

الدکتورسعد زغلول عبد الحمید۔ نشر وتعلیق (1985) الاستبصار فی عجائب الأمصار;وصف مكة والمدینة ومصر وبلاد المغرب؛دار النشر المغربیة – الدار البیضاء

7. سید سعادت اللہ حسینی (2018) بدلتی ہوئی دنیا اور اسلامی فکر؛ ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی، باب سیکولرزم، ص ۳۸۔

8. Vijay Nath (2001), From ‘Brahmanism’ to ‘Hinduism’: Negotiating the Myth of the Great Tradition in Social Scientist; Vol. 29, No. 3/4 (Mar. – Apr., 2001), pp. 19-50.

9. Heesterman, Jan (2005). “Vedism and Brahmanism”. In Jones, Lindsay (ed.). The Encyclopedia of Religion. Vol. 14 (2nd ed.). Macmillan Reference, pp. 9552–9553.

10. Dominic Goodall (1996), Hindu Scriptures, University of California Press, pp. ix-xi, xx-xxi.

11. J. McDaniel Hinduism, in John Corrigan (2007) The Oxford Handbook of Religion and Emotion, Oxford University Press, pp. 52–53

12. https://iskconeducationalservices.org/HoH/concepts/key-concepts/sanatana-dharma/ retrieved on 18-03-2022.

13. Cuppiramaniyan, C. V., Vacek, J. (1989). A Tamil Reader, Introducing Sangam Literature: Without special title. India: Ulakat Tamilaraycci Niruvanam.

14. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو

Winternitz, M. (1996). A History of Indian Literature. India: Motilal Banarsidass.

15. Sarvapalli Radhakrishnan(1954)The Hindu View of Life;George Allen&Unwin Ltd. London; p. 13.

16. Nicholson, Andrew J. (2010), Unifying Hinduism: Philosophy and Identity in Indian Intellectual History, Columbia University Press

17. Brian Hatcher “Contemporary Hindu Thought” in Robert Rinehart ed. (2004). Contemporary Hinduism: Ritual, Culture, and Practice. (United Kingdom: ABC-CLIO.

18. اس موضوع پر تفصیل سے مطالعے کے لیے ایک دل چسپ کتاب

Nicholson, Andrew J. (2010), Unifying Hinduism: Philosophy and Identity in Indian Intellectual History, Columbia University Press

19. Banhatti, G.S. (1995), Life and Philosophy of Swami Vivekananda, Atlantic Publishers & Distributors

20. De Michelis, E. (2005). A History of Modern Yoga: Patanjali and Western Esotericism. United Kingdom: Bloomsbury Academic, p. 100.

21. Banhatti, G.S. (1995), Life and Philosophy of Swami Vivekananda, Atlantic Publishers & Distributors.

22. De Michelis, E. (2004). A History of Modern Yoga: Patañjali and Western Esotericism. United Kingdom: Continuum, p. 119-123.

23. Nanda, Meera (2010), “Madame Blavatsky’s Children: Modern Hindu Encounters with Darwinism”, in Lewis, James R.; Hammer, Olav (eds.), Handbook of Religion and the Authority of Science, BRILL, p.335.

24. تفصیل کے لیے رجوع کیجیے

Ryan, J. D., Jones, C. ( 2006). Encyclopedia of Hinduism. United States: d.

25. Swami Vivekananda(1961)Complete Works of Swami Vivekananda;Vol 5; Sri Ramakrishna Math; p. 98.

26. https://statueofequality.org/ retrieved on 19-03-2022

27. Swami Vivekananda(1961)Complete Works of Swami Vivekananda;Vol 5; Sri Ramakrishna Math; p. 98.

28. تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں

Aurobindo, S. (1990). The Life Divine. United States: Lotus Press.

29. Rinehart, Robin (2004), Contemporary Hinduism: ritual, culture, and practice, ABC-CLIO

30. प्राचीन भारतीय धर्म एवं दर्शन. (2008). India: Motilal Banarsidass Publishers Pvt. Limited. P. 370.

31. Dr. S. Radhakrishnan; Bhagwat Gita as referred at https://www.sanskritimagazine.com/indian-religions/hinduism/not-just-a-faith/ retrieved on 19-03-2022

32. Larson, gerald James (2012), “The Issue of Not Being Different Enough: Some Reflections on Rajiv Malhotra’s Being Different” (PDF), International Journal of Hindu Studies, 16 (3), p. 314.

33. Rajiv Malhotra (2011)Being Different: an Indian Challenge to Western Universalism; Harper Collins; New Delhi.

34. اس موضوع پر انھوں نے اپنی متعدد تصنیفات میں بحث کی ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر درج ذیل کتابچہ ہے۔

Weaving India’s Grand Narrative for 21st Century. Available at

https://rajivmalhotra.com/wp-content/uploads/2018/04/Weaving-Indias-MAHAKATHA-Grand-Narrative-for-the-21st-Century_RML-20Mar2018.docx-1.pdf

35. Ibid pages 24-39

36. Ibid pages 47-51

37. Ibid pages 40-41

38. Ibid

39. مثلاً دیکھیں:

https://www.csmonitor.com/World/Asia-Pacific/2015/0906/In-non-religious-Japan-the-shrine-can-still-exert-a-pull#: ~: text=Many%20Japanese%20say%20nonchalantly%20that,Yamanaka%20says.

40. مولانا ابوالکلام آزاد: ترجمان القرآن۔ ص ۲۶۷، ۲۶۸، (تفسیر لااکراہ فی الدین۔ البقرہ ۲۵۶)

41. Constituent Assembly Debates on 6th December 1948 at https://indiankanoon.org/doc/1933556/

42. ibid

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: