تاریخ ہند اور تاریخ نگاری

ہندتو کے نظامِ فکر میں تاریخ کو بہت اساسی حیثیت حاصل ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ تاریخ کو دیکھنےکے ایک مخصوص زاویہ نظر ہی پر اس نظامِ فکر کی پوری عمارت کھڑی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندتو کے یہاں، اساس گزار مفکرین ہی کے زمانے سے ہر زمانے میں تاریخ اور تاریخی مباحث کو خصوصی اہمیت حاصل رہی ہے۔انگریزوں کے دور میں ہندو بے داری کی جو جدید تحریکیں شروع ہوئیں ان میں ملک کی تاریخ کو ایک خاص رخ سے بیان کرنے کی کوششوں کا آغاز ہوا۔’لڑاؤ اور حکومت کرو’ کی پالیسی کے تحت انگریزوں نے بھی اس مخصوص رخ کی ہمت افزائی کی۔ ونایک دامودر ساورکر(1883-1966) نے اپنی متعدد کتابوں اور ناولوں کے ذریعے اس رخ کو اور زیادہ جارح و انتہا پسند بنایا۔ ان کی کتاب Six Glorious Epochs of Indian History کا موضوع عہد وسطی کا مسلم دور حکومت ہے [1]۔ اس میں انھوں نے ‘مسلم حملہ آوروں’ کے خلاف ‘مقامی ہندو باشندوں’ کی مزاحمت کی داستانیں بیان کی ہیں۔’مسلم حملہ آوروں’ کے مظالم کا تذکرہ کرتے ہوئے تفصیل سے لیکن مناسب دلائل کے بغیر یہ دعوے کیے گئے کہ ان ‘حملہ آوروں ‘نے مسلم آبادی بڑھانے کے لیے کثرت سے ہندو عورتوں کا اغوا کیا اور ان کا ریپ کیا [2]اور یہ کہ اب اس خوف کا پیدا کیا جانا ضروری ہے کہ ہندو فتوحات کی صورت میں مسلمان عورتوں سے اُن کا انتقام لیا جائے گا۔[3] ہندتو کے دوسرے اہم ترین نظریہ ساز ایم ایس گولوالکر (1906-1973) نے آریاؤں کو ہندوستان کا اصل باشندہ ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگایا۔ ان کے بقول آریا قطب شمالی کے باشندے تھے اور اس وقت قطب شمالی بہار اور اڑیسہ کے ساتھ لگا ہوا تھا۔ بعد میں ارضیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں وہ موجودہ جگہ جاپہنچا۔ [4]اسی کتاب میں انھوں نے متبادل تاریخ نگاری کی ضرورت پر زور دیا۔ لکھتے ہیں:

“اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی تاریخ کا خود مطالعہ کریں، سمجھیں اور لکھیں اور منصوبہ بند اور غیر منصوبہ بند تحریفات سے پیچھا چھڑائیں۔”[5]

اس طرح کی اپیل اور اس ضرورت کا اظہارساورکر نے بھی کیا تھا۔ لکھتے ہیں:

“جس قوم کے پاس ماضی کا کوئی شعور نہیں ہوتا، اس کے پاس کوئی مستقبل بھی نہیں ہوتا۔ کسی قوم کے (وجود کے)لیے ضروری ہے کہ وہ یہ صلاحیت پیدا کرے کہ نہ صرف وہ ایک (شان دار) ماضی کا دعویٰ کرسکے بلکہ اُس ماضی کو مستقبل کی ضرورتوں کے لیے استعمال بھی کرسکے۔ قوم کو اپنے ماضی کا مالک ہونا چاہیے، غلام نہیں۔ “[6]

اپنے اساسی نظریہ سازوں کی دکھائی ہوئی اس راہ پر چلتے ہوئے اب یہ تحریک تیزی سے “اپنے ماضی کا خود مالک بننے” اور”اپنی مرضی کا ماضی”تشکیل دینے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ چھوٹی بڑی جو قوت اور جو اثر و رسوخ بھی ہندتو کی تحریک کو اپنی تاریخ میں حاصل ہوتا رہا، اس کو انھوں نے اس مقصد کے لیے یعنی تاریخ کی تشکیل نو کے لیے ضرور استعمال کیا۔

ان کوششوں کا آغاز آزادی کے کچھ عرصے بعد ہی ہوگیا۔ بھارتیہ ودیہ بھون نے حکومت ہند کے تعاون سے ہندوستانی عوام کی تاریخ لکھنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع کیا اور گیارہ جلدوں پر مشتمل “ہندوستانی عوام کی تہذیب اور تاریخ” The History and Culture of the Indian Peopleشائع کی۔ اس کے مرتب مشہور تاریخ دان آر سی مجمدار (1888-1980)تھے۔ اس کتاب نے عہد وسطی کو دیکھنے کا ایک مخصوص زاویہ تشکیل دے ڈالا۔ اس کتاب کو تمام ہندوستانی زبانوں میں ترجمہ کرانے کے لیے مرکزی حکومت کے محکمہ تعلیم نے بھاری رقومات منظور کیں۔ اس کتاب کا رخ کیا ہے اس کو سمجھنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ مسلم دور حکومت کا نہایت خوف ناک اور وحشت ناک نقشہ کھینچنے کے بعد اس کتاب میں یہ تک کہہ دیا گیا ہے کہ

“ہندووں نے ملک پر مسلم قبضے کی مزاحمت کی اور اس دن کا حسرت سے انتظار کرتے رہے جب ملیچھوں (مسلمانوں ) سے ملک کو پاک کرکے، ملک کے نام’ آریہ ورت ‘کے لیے جواز پیدا ہوسکے۔ “[7]

1973میں آرایس ایس کے ایک پرچارک موروپنت پنگلے (1919-2003) نے اکھل بھارتیہ اتہاس سنکلن یوجنا (ABISY)کی بنا ڈالی اور کئی پر عزم منصوبوں کی شروعات کی۔ اب ملک کے مختلف مقامات پر اس کی شاخیں ہیں اور پروفیسر کی سطح کے پانچ سو کے لگ بھگ سینئر محققین اس سے وابستہ ہیں۔[8] اس تنظیم کا ایک علمی مجلہ بھی اتہاس درپن کے نام سے ہندی میں دلی سے شائع ہوتا ہے۔ [9] مودی حکومت نے 2014میں اپنی تشکیل کے فوری بعد، اس تنظیم کی آندھرا پردیش شاخ کے صدر، وائے ایس راو (Yellapragada Sudershan Rao, born 1945)کو انڈین کونسل آف ہسٹوریکل ریسرچ (ICHR) کا چیئرمین مقرر کیا تھا (واضح رہے کہ آئی سی ایچ آر تاریخی موضوعات پر تحقیقات کے لیے ملک کا سب سے باوقار سرکاری ادارہ مانا جاتا ہے)۔ اب اس تنظیم کے متعدد افراد آئی سی ایچ آر اور دیگر اہم اداروں میں موجود ہیں۔

میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق 2018سے وزارت تہذیب و ثقافت کے تحت ایک چودہ رکنی کمیٹی کام کررہی ہے جس کا مقصد ہندوستان کی تاریخ کو نئے سرے سے مدون کرنا ہے۔ خاموشی سے ہورہے اس کام کے اثرات ریاستی سطحوں پر زیادہ نمایاں ہیں جہاں خاص طور پر اسکول کی نصابی کتابوں میں بالکل نئی تاریخ کو شامل کیا جارہا ہے۔ [10] انڈین ایکسپریس کی ایک چار سالہ پرانی رپورٹ کے مطابق اُس وقت تک مرکزی وزارت فروغ انسانی وسائل کی جانب سے متواتر مداخلتوں کے نتیجے میں این سی ای آر ٹی کی182 کتابوں میں 1334تبدیلیاں کی جاچکی تھیں۔ [11]

یہ بات صحیح ہے کہ تاریخ نگاری پر افکار و نظریات کا اثر پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کی تاریخ نگاری کے متعدد مکاتب فکر موجود ہیں۔ مستشرقی تاریخ نگاری (orientalist historiography) یورپی نقطہ نگاہ کے غلبے والا کیمبریج اسکول، مارکسی مکتب فکر، ‘سب آلٹرن اسکول ‘(subaltern historiography)، مسلم تاریخ نگاری اور قوم پرست تاریخ نگاری’ (nationalist historiography) ہندوستان میں تاریخ نگاری کے اہم اسکول مانے جاتے ہیں۔دلت تاریخ نگاری (dalit historiography) اوردراوڑی تاریخ نگاری بھی حالیہ دنوں میں مستقل مکاتب بن کر ابھرے ہیں۔ لیکن ہندتو تاریخ نگاری کے نام پر جو کوششیں ہورہی ہیں، اُن کا تعلق محض مخصوص نظریاتی زاویے سے تاریخ بیان کرنے تک محدود نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ ہم آگے واضح کریں گے، تاریخ کے نام پر صریح جھوٹ، فرضی واقعات، غیر علمی مناہج و طریقہ ہائے تحقیق، جعل سازی اور دستاویزوں اور شواہد سے چھیڑچھاڑ،بے بنیاد نظریات، اساطیری داستانوں (mythology) اور توہمات کو حقائق کا درجہ دینے کی کوشش، ٹھوس حقائق کا صریح انکاروغیرہ جیسے امور اس کا اہم حصہ ہیں۔ اس رجحان کو مورخین تاریخ کی انکارپسندی (historical negationism) کہتے ہیں۔

جو باتیں ذیل میں پیش کی جارہی ہیں، اُن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ تاریخ نگاری کا کوئی سنجیدہ مکتب نہیں ہے بلکہ سیاسی اغراض کے لیے انکار پسندی پر مبنی ایک جھوٹی سائنس (pseudohistory) ہے اس لیے علمی سطح پر یہ کوئی اثر پیدا کرسکے اس کا امکان کم ہے لیکن حکومتوں کی طاقت، نظام تعلیم اور درسی کتابوں کے استعمال اور میڈیا پروپیگنڈے نیز سیاسی مہمات اور عوامی بیانیوں کی طاقت سے اسے عوامی حافظے کا حصہ ضرور بنایا جاسکتا ہے اوران ذرائع سے بننے والے عوامی ذہن کے اثرات بھی کم خطرناک نہیں ہوتے۔

ہندتو تاریخ نگاری کے کچھ اہم موضوعات

ہمارے خیال میں ہندوتو تاریخ نگاری کا خلاصہ درج ذیل عبارت کی صورت میں بیان کیا جاسکتا ہے:

“ مسلمانوں اور عیسائیوں کو چھوڑکر باقی سب ہندوستانی ایک مشترک تاریخی و تہذیبی ورثے کے حامل ہیں۔ یہ سب سنسکرت بولنے والے آریاؤں کی اولاد ہیں۔ آریا ہندوستان کے اصلی باشندے تھے اور انھوں نے زمانہ قدیم میں، جو ہندو تہذیب کا سنہری دورتھا، ایک شان دار تمدن کی تعمیر کی تھی۔ یہ سنہری دور ‘سرسوتی سندھو’(وادی سندھ یا ہڑپہ) کی تہذیب سے لے کر ویدک دور تک پھیلا ہوا تھا۔ مسلمانوں نے اس شان دار تمدن کو تاراج کیا اور ہندوستان میں ظلم و بربریت کے ذریعے ایک سیاہ دور کی شروعات کی۔یہ سیاہ دور انگریزوں کے زمانے میں بھی جاری رہا اور بہادر ہندوستانیوں کی دلیرانہ جدوجہد کے نتیجے میں بارہ سو سالہ غلامی سے نجات ملی اور اب قدیم سنہری دور کے احیا کا ایک نادر موقع حاصل ہوا ہے۔”

یہ بیانیہ ایک سیاسی ضرورت ہے۔ اسی بیانیے سے ہندوستانی عوام کو متحد کیا جاسکتا ہے۔انھیں قوم پرستی کے لیے ایک مشترک بنیاد فراہم کی جاسکتی ہے۔ اقلیتوں یعنی عیسائیوں اور مسلمانوں کو الگ تھلگ کیا جاسکتا ہے۔ دلت، دراوڑ، آدیباسی وغیرہ طبقات کو وسیع تر ہندو سماج میں ضم کیا جاسکتا ہے۔ اور ہندوستانی اعلیٰ ذاتوں کے مخصوص مذہبی تصورات کی بنیاد پر ہندو تفاخر کو جواز فراہم کیا جاسکتا ہے۔ اس بیانیے میں ہندوستان کی تاریخ کے تمام اجزا کا احاطہ موجود ہے۔ اس بیانیے کو درست ثابت کرنے کے لیے ہندوستانی تاریخ کے کئی اہم مسلمہ نظریات کو چیلنج کیا جاتا ہے اور متبادل نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔ ہمارے خیال میں اہم متبادل نظریات درج ذیل ہیں۔

آریاؤں کا وطن

انسانی تاریخ کے بارے میں مورخین کا اب اس بات پر تقریباً اتفاق ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز افریقہ میں ہوا [12]اور پہلا ہومیو سیپئنس افریقہ سے تقریباً سوا لاکھ سال پہلے باہر نکلا اور 75000سال قبل سب سے پہلے کسی انسان نے ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھا۔ [13] اس انسان کی نسل ہندوستان کے قدیم ترین باشندے تھے۔ان لوگوں نے تقریباً سات ہزار سال قبل مسیح میں زراعت اور مویشیوں کی پرورش پر مبنی منظم زندگی کا آغاز کیا۔اس قدیم ترین آبادی کے آثار موجودہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں دست یاب ہوئے ہیں۔ تقریباً دو ہزار قبل مسیح میں آریاؤں نے ہندوستان کی طرف ہجرت شروع کی۔[14] یہ آریا وسط ایشیاکے باشندے تھے (محققین کے مطابق ہندوستان آنے والے آریا، زیادہ تر موجودہ یوکرین، قزاقستان اور جنوب مغربی روس سے یہاں آئے تھے)۔ ان کے ہندوستان میں آنے سے پہلے یہاں آدیباسیوں کی آبادی موجود تھی اور ساتھ ہی ایک بہت ہی ترقی یافتہ تمدن، وادی سندھ کی تہذیب کی صورت میں موجود تھا جس کے آثار سو سال پہلےہڑپہ (یہ علاقہ اس وقت پاکستان کے صوبہ پنجاب میں لاہور سے جنوب مغرب میں تقریباً دو سو کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے) اور موہنجوداڑو میں کھدائی کے دوران دریافت ہوئے۔[15] مورخین جنوبی ہند کی درواڑی تہذیب کو وادی سندھ کی تہذیب کا حصہ قرار دیتے ہیں۔ وادی سندھ میں جو زبانیں بولی جاتی تھیں ان میں اور درواڑی زبانوں میں کافی مماثلتیں ہیں۔[16]عام طور پر تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ وادی سندھ میں ایک چوتھائی آبادی ایران سے ہجرت کرکے آنے والے کسانوں کی تھی اور باقی پچہتر فی صد آبادی اُس نسل کے لوگوں کی تھی جسے ماہرین جینیات کی اصطلاح میں قدیم نسلی جنوبی ہندی (ancient ancestral south Indians – AASI) کہا جاتا ہے۔[17] متعدد مورخین یہ مانتے ہیں کہ آریاؤں نے اپنی طاقت کے بل پر وادی سندھ کی تہذیب پر غلبہ حاصل کیا اور یہاں کے باشندوں نے ان کے مظالم سے بچنے کے لیے جنوبی ہند کا رخ کیا۔ [18]

مذکورہ تاریخی حقائق کو مان لینے سے اعلٰی ذات کے ہندو مسلمانوں سے زیادہ ‘بیرونی ‘ اور ‘حملہ آور ‘ قرار پاتے ہیں (کیوں کہ مسلمانوں کی آبادی کا محض ایک حصہ ہی دوسرے ممالک سےہجرت کرکے آنے والوں کی نسل پر مشتمل ہے، بڑا حصہ یہاں کے اُن باشندوں کی نسل سے ہے جنھوں نے تاریخ کے مختلف ادوار میں اسلام قبول کیا تھا) ۔ اس لیے ہندتو تاریخ نگاری کا ایک ہدف یہ ہے کہ آریاؤں کو اس ملک کا اصلی باشندہ ثابت کیا جائے۔ چناں چہ وہ آریاؤں کی معکوس ہجرت (out of india theory) کا نظریہ پیش کرتے ہیں۔ یعنی آریا وسط ایشیا سے ہندوستان نہیں آئے بلکہ وہ یہیں کے باشندے تھے۔ ہندوستان کے تمام ہندو، انھی مقامی آریاؤں کی اولاد ہیں۔ تاریخ کے مختلف ادوار میں کچھ آریا قبائل، ایران اور یورپ وغیرہ منتقل ہوئے ۔ یعنی باہر سے یہاں کوئی نہیں آیا، البتہ بعض آریاؤں نے ہندوستان سے باہر ہجرت کی۔ جدید یورپی اقوام انھی کی نسل ہیں۔ وادی سندھ کی تہذیب، دراوڑی تہذیب اور ویدک تہذیب، مختلف تہذیبیں یا مختلف اقوام کی نمائندگی کرنے والے تمدن نہیں ہیں بلکہ ایک ہی آریا تمدن کا تسلسل ہے۔[19]

آریاؤں کی بیرون ملک سےہندوستان ہجرت کے واقعے کی پشت پر اب اتنی مضبوط لسانیاتی (linguistic)، آثاریاتی (archaelogical)، بشریاتی (anthropological)، جینیاتی (genetic)اور جغرافیائی (geographical)شہادتیں فراہم ہوچکی ہیں کہ معتبر علمی حلقوں میں اب اسے ایک ٹھوس حقیقت کے طور پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔ [20] لیکن ہندتو کے علم بردار عجیب وغریب من گھڑت شہادتوں کے ذریعے اپنے نظریے کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کوشش میں یوروپ کے بعض سخت گیر دائیں بازو کے مصنفین (مثلاً بیلجیم کا مصنف کُنراٹ السٹ [پیدائش Koenraad Elst: 1959]، یا فرانسیسی ہندوستانی مصنف فرانسوا گوٹوے (Francois Gautier پیدائش: 1950) کا تعاون انھیں حاصل ہوگیا ہے جو اصلاً اسلام کی مخالفت میں ان نظریات کے ہم نوا ہوگئے ہیں۔ ان مصنفین کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اس نظریے کو مغربی دنیا میں بھی قبولیت مل رہی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ جیسا کہ مشہور صحافی ٹونی جوزف نے واضح کیا ہے، ابھی تک ایک بھی سنجیدہ (peer reviewed) علمی مقالہ دنیا میں کہیں بھی ایسا شائع نہیں ہوا ہے جس میں آریاؤں سے متعلق ہندتو کے نظریے کی تائید کی گئی ہو۔[21]

قدیم ہندوستان کا سنہری دور

تاریخ سے متعلق ان حضرات کا دوسرا اہم نظریہ قدیم ہندوستان (ancient India) کا نہایت مبالغہ آمیز رومانی تصور ہے۔ اس نظریے کا خلاصہ یہ ہے کہ ہندوستان دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے۔ یہاں سات آٹھ ہزار سال قبل مسیح سےایک نہایت ترقی یافتہ تمدن موجود تھا۔اسی زمانے میں وید مرتب ہوئے۔[22] اس وقت ہندوستان ایک مشترک اکائی تھا اور آریاؤں کا وطن تھا۔ یہ ترقی یافتہ تہذیب ایسی ایسی ایجادات اور تمدنی سہولتوں سے مالا مال تھی جو اکیسویں صدی عیسوی کے ترقی یافتہ ممالک کو بھی حاصل نہیں ہیں۔[23] قدیم ہندوستان کو ایک مشترک اکائی ثابت کرنے کے لیے یہ ضروری تھا کہ وادی سندھ کی تہذیب کو آریائی تہذیب کے ساتھ جوڑا جائے۔ چناں چہ مورخین کے اس وسیع اتفاق رائے کو چیلنج کیا جاتا ہے کہ وادی سندھ کا تمدن آریاؤں کی آمد سے پہلے سے یہاں موجود تھا اور اس میں دراوڑی عناصر کا کلیدی رول تھا۔ اب سَنگھ کے مورخین اس تہذیب کو’ سرسوتی سندھو’ تہذیب کہتے ہیں تاکہ اس جداگانہ تمدن کو آریاؤں کے مخصوص ویدک اور سنسکرت تمدن کا حصہ باور کرایا جائے۔[24]

جن داستانوں کی حیثیت محض اساطیری یا لوک کتھاؤں کی ہے، انھیں تاریخی مصادر مان لیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تقریباً چار ہزار قبل مسیح میں ہندوستان میں رسم الخط اور لکھنے کا فن ایجاد ہوچکا تھا۔[25] یہ بات ہندتو کے سنجیدہ مورخین بھی لکھتے ہیں، جب کہ بعض پر جوش مبلغین آگے بڑھ کر یہ دعوے بھی کرنے لگتے ہیں کہ پلاسٹک سرجری، سیٹلائٹ کمیونکیشن، سیاروں کے درمیان سفر کرنے والے جہاز، وغیرہ سب کچھ اس قدیم زمانے میں موجود تھا۔ [26]

ناقدین نے یہ سنجیدہ سوال اٹھایا ہے کہ اگر چار ہزارقبل مسیح میں لکھنے کا فن ایجاد ہوچکا تھا تو ویدوں کو کیوں نہیں ضبط تحریر میں لایا گیا؟ کیوں قدیم تحریری نسخے کہیں بھی دست یاب نہیں ہیں؟ جو ترقیاں عہد قدیم میں ہوئی تھیں، کیوں ایسا ہوا کہ نہ صرف وہ جاری نہ رہ سکیں بلکہ اُن قدیم ترقیوں کا فیض بھی یکسر ایسا ختم ہوگیا کہ ان کے آثار تک باقی نہیں رہے؟[27] ظاہر ہے کہ ان سوالات کا کوئی معقول جواب اس بے بنیاد نظریے کےحاملین کے پاس نہیں ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہندتو کی کرونولوجی میں پانچ تا تین ہزار سال قبل مسیح کے’ روشن عہد’ کے بعد اچانک ایک ہزار عیسوی کے بعد کا ‘تاریک مسلم دور ‘ آجاتا ہے۔ درمیان کے چار، چھ ہزار برسوں میں کیا ہوا، اس پر وہ عام طور پر مہر بہ لب رہتے ہیں۔[28]

مورخین کے نزدیک ویدک زمانہ پانچ ہزار قبل مسیح کا نہیں بلکہ ڈیڑھ ہزار سے پانچ سو قبل مسیح کا زمانہ ہے۔ اسی زمانے میں وید ترتیب پائے۔ چار ورنوں پر مشتمل مخصوص سماجی نظام تشکیل پایا اور دھیرے دھیرےچھوٹی چھوٹی نیم قبائلی سرداریاں وجود میں آنے لگیں جنھیں جن پد (जनपद) کہا جاتا ہے۔ [29] ان سرداریوں نے بتدریج ریاستوں کی شکل اختیار کرنا شروع کیں۔کورو (कुरु بارہویں سے نویں صدی قبل مسیح)، پنچال(पञ्चाल گیارہویں قبل مسیح سے چار سو عیسوی)، کوسل (कोसल ساتویں سے پانچویں صدی قبل مسیح)، ودیہہ (विदेह بارہویں تا چھٹی صدی قبل مسیح) وغیرہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں وجود میں آئیں۔ چھٹی اور ساتویں صدی قبل مسیح میں شرمن (श्रमण)تحریک(جین مت اور بدھ مت) شروع ہوئی جس نے برہمن مذہبی پیشوائیت کو چیلنج کیا۔ اسی زمانے میں ملک میں سولہ بڑی مملکتوں نے جنم لیا جنھیں مہا جن پد کہا جاتا ہے۔ سب سے مشہور مگدھ کی مہا جن پد تھی جس کا صدر مقام بہار کا شہر راج گیر تھا۔

جلد ہی نندا (پانچویں صدی قبل مسیح تا 322قبل مسیح: صدر مقام پاٹلی پترا، موجودہ پٹنہ) اور موریہ (322 تا 180قبل مسیح: صدر مقام پاٹلی پتر) جیسی عظیم سلطنتیں اس ملک میں قائم ہوئیں۔ موریہ دور میں اشوک نے افغانستان سمیت تقریباً پورے بر صغیر (تمل ناڈو چھوڑکر) کو اپنی واحد سلطنت میں شامل کرلیا تھا۔ اشوک نے بدھ مت اختیار کیا تھا اور یہ زمانہ بدھ مت کے عروج کا زمانہ ہے۔ اس زمانے میں برہمن مذہبی پیشوائی کو چیلنج کیا گیا۔ سنسکرت کے مقابلے میں پراکرت زبان کو عروج حاصل ہوا۔ جنوبی ہند میں سنگم لٹریچر کو فروغ ملا۔ ورن آشرم کی مخالفت کی گئی اور اہنسا پر زور دیا گیا۔ ان سب وجوہ سے سنسکرت زبان، ویدانت فلسفہ، برہمن اور آریا نسل، اور مخصوص برہمنی تہذیب پر مشتمل ہندتو کے ہندوستانی تصور سے یہ دَور میل نہیں کھاتا۔ اس لیے اسے نظر انداز کیا جاتا ہے۔

ہندتو مورخین اس زمانے کو امن و امان اور ایک ہی ‘دھارمک’ روایت کے تحت سماجی ہم آہنگی کے انتہائی مثالی دور کے طور پر پیش کرتے ہیں جب کہ واقعہ یہ ہے کہ اس زمانے میں جین، بدھ مت کے ماننے والوں کے خلاف برہمن حکم رانوں کے مظالم اپنے عروج پر تھے۔ حال ہی میں مشہور مورخ ڈی این جھا نے اپنی کتاب میں جو تصویر کشی کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ شرامن (جین اور بدھ مت) عبادت گاہوں کو بڑے پیمانے پر تباہ کیا گیا۔ ان کی جگہوں پر مندر تعمیر کیے گئے۔ شرامنوں کے سروں پر انعامات کے اعلانات کیے گئے۔ [30]

تاریک عہد وسطیٰ

ہندتو کی تاریخ نگاری میں عہد وسطیٰ سے متعلق ایک مخصوص زاویہ نظر کو خاص اہمیت حاصل ہے۔اس نقطہ نظر کے مطابق مسلمان اس ملک میں بیرونی حملہ آور بن کر آئے۔ اس دور کی جنگیں نہایت خوں ریز جنگیں تھیں۔ ان جنگوں کے ذریعے ہندوؤں کا قتل عام ہوا۔ مسلم حکم رانوں کی جنگیں محض بادشاہوں کی سیاسی کشمکش نہیں تھی بلکہ یہاں کے شان دار تمدن کو ختم کرنے کی منصوبہ بند کوشش تھی۔ ان وحشی حملہ آوروں نے یہاں کے شان دار تمدن کو تباہ کردیا اور ملک کو تاریک دور میں پہنچا دیا۔ [31]

ہندتو کے زاویہ نظر سے اس عہد کا نقشہ کھینچنے والوں میں غالباً سب سے نمایاں نام کے ایس لال (1920-2002) کا ہے جنھیں وزیر اعظم واجپئی کی حکومت نے 2001میں آئی سی ایچ آر(Indian Council of Historical Research – ICHR) کا چیئر مین اور تاریخ پر اسکول کی درسیات کی تدوین کی این سی ای آر ٹی کمیٹی کا رکن نامزد کیا تھا۔ اپنے کیریر کی ابتدا میں انھوں نے ایک معتبر مورخ کی شناخت بنائی تھی لیکن بعد میں سیاسی اور نظریاتی اثرات کی وجہ سے ان کی تاریخ نگاری سخت متنازعہ بن گئی۔ بغیر ٹھوس حوالوں اورمعتبر اعداد و شمار کے انھوں نے دعویٰ کیا کہ تیرہویں صدی عیسوی سے سولہویں صدی عیسوی کے درمیان)سلاطین دلی کے دور حکومت میں) ملک کی آبادی 19کروڑ سے گھٹ کر 12کروڑ ہوگئی۔ (مسلم حکم رانوں کی جانب سے ہندوؤں کے قتل عام کی وجہ سے۔گویا ملک کی 37فیصد آبادی کا قتل عام ہوا)۔ [32] اس طرح کی متعدد صریح کذب بیانیاں، منصوبہ بند طریقے سے تاریخ کی کتابوں میں داخل کی جارہی ہیں۔

اس تاریخ نگاری کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ عہد وسطی میں جو خرابیاں تمام حکومتوں اور بادشاہوں میں عام تھیں انھیں مسلم حکم رانوں کے ساتھ مخصوص کردیا جاتا ہے۔اس کی ایک مثال مذکورہ بی ایس لال کی کتاب ‘مغل حرم’[33] ہے جس میں حکم رانوں کی جنسی زندگیوں کی نہایت شرمناک منظر کشی کی گئی ہے۔ ان میں سے بعض قبیح عادتیں ہندوستان کے ہندو حکم رانوں سمیت ساری دنیا میں عہد وسطی کے حکم رانوں میں عام تھیں۔ لیکن انھیں مسلم حکم رانوں کے ساتھ مخصوص کرکے اس طرح بیان کیا جاتا ہے کہ مسلم دور حکومت انتہائی وحشت ناک محسوس ہونے لگتا ہے۔

ان مورخین کی کتابوں میں مسلمان حکم راں ایسے وحشی بیرونی لٹیروں کی صورت میں نظر آتے ہیں، جنھیں تہذیب و شائستگی سے کوئی واسطہ نہیں تھا، جنھوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، ایک شان دار تمدن کو تباہ و تاراج کردیا، ملک کی تمام ترقیوں پرروک لگادی، ظلم و بربریت کا بازار گرم کردیا اور ملک کو صدیوں پیچھے کردیا۔

قتلِ عام، عورتوں کا اغوا اور عصمت دری، مندروں کی مسماری، بالجبر تبدیلی مذہب، ملک کے وسائل کی لوٹ اور اس کے ذریعے انتہائی عیاشانہ زندگی، یہ چند متعین موضوعات ہیں جن کو بنیاد بناکر عہد وسطٰی کے حکم رانوں، مسلم نوابوں، زمین داروں، مذہبی رہ نماؤں (ملا) اور مسلم اشرافیہ کے دیگر عناصر کے حوالے سے بے بنیاد اور فرضی واقعات تخلیق کیے جاتے ہیں۔ حقیقی واقعات کو انتہائی مبالغے کے ساتھ اور اعداد و شمار میں کئی گنا اضافے کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے یا واقعات کو غلط رخ دے کر، غلط معنی پہنائے جاتے ہیں اوراس بیانیے کی تائید نہ کرنے والے سچے واقعات اور حقیقی تاریخ پر پردے ڈال دیے جاتے ہیں۔

اردوو فارسی زبان اور اس سے منسلک علمی و تہذیبی ورثہ اس فرضی تاریخ کے رد کے لیے نہایت ٹھوس شواہد فراہم کرتا ہے اس لیے ہر ممکن کوشش یہ ہوتی ہے کہ زبان کے ساتھ یہ پورا علمی ورثہ ہمیشہ کے لیے دفن ہوجائے۔

تاج محل اور لال قلعہ جیسی عمارتیں، ان کا مسحورکن طرز تعمیراور نہایت اعلیٰ فنی معیار، ان مفروضوں کی تکذیب کے لیے زندہ شہادتوں کا کام کرتے ہیں اور مسلم حکم رانوں کی مہذب، شائستہ اور تعلیم یافتہ حقیقت کو سامنے لاتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل یہ ڈھونڈا گیا کہ ایک ‘مورخ ‘پی این اوک(1917-2007) نے انسٹی ٹیوٹ فار ری رائٹنگ انڈین ہسٹری (Institute for Rewriting Indian History)قائم کیا۔ اس انسٹی ٹیوٹ کی ‘تحقیقات’ کے ذریعے یہ دعوے کیے جانے لگے کہ یہ سب حسین و جمیل عمارتیں اصلاً ہندو راجاؤں کی تعمیر کردہ تھیں۔ تاج محل ایک شیو مندر’تیجو مہالیہ’ تھا[34]، لال قلعہ لال کوٹ تھا [35]بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کعبہ بیت اللہ، ویدک دور کا شیو مندر تھا [36] اور کرسچانیٹی (Christianity)دراصل’ کرشنا نیتی ‘ ہے۔[37]

یہ باتیں مضحکہ خیز محسوس ہوتی ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ انھیں تاریخی حقیقت کا درجہ دینے کے لیے انتہائی منظم کوششیں ہورہی ہیں۔

آزادی کی تاریخ اور مابعد آزادی ہندوستان

آزادی کی جنگ کے بارے میں ان حضرات کا تصور یہ ہے کہ یہ دراصل ہندو بے داری کا نتیجہ تھی۔ ایک ہزار سال کی غلامی کے بعد ہندوؤں میں بے نظیر بے داری پیدا ہورہی تھی اور اس بے داری کا ہدف یہ تھا کہ[38]’بیرونی حملہ آوروں’ سے ملک کو آزاد کیا جائے اور آریہ ورت کی قدیم شان و شوکت کو بحال کیا جائے۔1857 کی جنگ آزادی سوامی ویویکانند اور رامنا مہارشی وغیرہ کی فکری تحریک کا نتیجہ تھی۔ [39])دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں حضرات اس جنگ کے وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ وویکانند کی پیدائش 1863 میں ہوئی اور مہارشی کی 1879میں ہوئی تھی) جنگ آزادی میں گاندھی اور نہرو وغیرہ کا کوئی اہم رول نہیں تھا۔ اصل رول سردار پٹیل اور انقلابی فکر کے حامل مجاہدین آزادی کا تھا۔ [40]خلافت تحریک وغیرہ کے ذریعے گاندھی جی نے سوراج کی تحریک کو غلط رخ پر موڑکر اسے کم زور کردیا اور مسلم علیحدگی پسندی کو تقویت دی جس کے نتیجے میں بھارت ماتا کی تقسیم واقع ہوئی۔[41]

چناں چہ اس طرز فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ آزادی کی جدوجہد میں مسلمانوں کے کسی رول کو نمایاں ہونے نہیں دینا چاہتے۔ ٹیپو سلطان ان کے نزدیک ایک ہندو مخالف حکم راں تھے۔[42] 1921 کی مالا بار کی موپلا بغاوت دراصل مسلم فرقہ پرستی کا اظہار بلکہ ‘طالبانی ذہن کا ہندوستان میں اولین اظہار’ تھا۔چناں چہ موپلا شہیدوں کا نام شہیدوں کی فہرست سے نکالنے کے لیے باقاعدہ منظم کوشش کی گئی۔[43]

مابعد آزادی تاریخ سے متعلق ہندتو نظر یہ تاریخ کا خلاصہ یہ ہے کہ آزادی کے بعد یہ موقع حاصل تھا کہ بھارت کی پراچین سبھیتا [قدیم تہذیب] کا احیا کیا جائے اور جن تہذیبی قوتوں نے اس سبھیتا کو نقصان پہنچایا تھا انھیں الگ تھلگ کیا جائے، لیکن ووٹ بنک کی سیاست اور سیڈو سیکولرزم کے چکر میں اقلیتوں کی منہ بھرائی کے لیے اور مغرب کے گہرے اثرات اور اس کے نتیجے میں مخصوص لبرل طرز فکر کی وجہ سے نہرو خاندان کے حکم رانوں نے بالکل معکوس سمت میں ملک کی پالیسی کو آگے بڑھایا اور سیاسی آزادی کے باوجود ذہنی و تہذیبی غلامی کا سفر جاری رکھا۔اس لیے یہ حکم راں آزاد بھارت کے ہیرو نہیں بلکہ وِلَن ہیں۔ اب ان پالیسیوں کو الٹ کر صحیح پالیسیوں کو آگے بڑھانے کا وقت آیا ہے۔

مطلوب مباحث

تاریخ قوموں کا حافظہ ہوتا ہے۔ جس طرح افراد کے رویے اُن کے لاشعور میں موجود یادداشتوں کا نتیجہ ہوتے ہیں اسی طرح قوموں کے رویوں کی تشکیل میں دیگر چیزوں کے ساتھ اپنے ماضی کے بارے میں ان کے خیالات کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔

ہندتو تاریخ نگاری نہایت کم زور بنیادوں پر کھڑی ہے۔ علمی سطح پر یہ ٹک نہیں سکتی اور جھوٹ اور فریب پر مبنی یہ منصوبہ سنجیدہ علمی حلقوں میں کبھی قابل توجہ نہیں بن سکتا۔ لیکن عوام کی یادداشت ہمیشہ سنجیدہ علمی اور ٹھوس تاریخی حقائق کی بنیاد پر نہیں تشکیل پاتی۔ کئی دفعہ لوک کتھائیں اور فرضی داستانیں بھی عوامی حافظے کی تشکیل کردیتی ہیں۔

اس لیے جس بڑے پیمانے پر اس من گھڑت تاریخ کو تشکیل دیا جارہا ہے اور اسے زبردست حکومتی سرپرستی میں بے پناہ وسائل کی قوت کے ساتھ عام کیا جارہا ہے اور عام کرنے کے لیے تصنیف و تالیف سے لے کر فلموں تک، سیاسی تقریروں سے لے کر، درسی کتابوں تک متعدد ذرائع کو استعمال میں لایا جارہا ہے، اس کے خطرناک نتائج بعید از امکان نہیں ہیں۔ اس لیے اس مسئلے پر سنجیدہ توجہ ضروری ہے۔ ذیل میں کچھ باتیں اس حوالے سے تجویز کی جارہی ہیں۔

تاریخ کا ایسا بیانیہ سامنے لانے کی ضرورت ہے جو فرقہ وارانہ اپروچ سے بالکل پاک ہو۔ ہندو فرقہ پرست تاریخ کے مقابلے میں مسلم فرقہ پرست تاریخ سے مسائل سلجھتے نہیں بلکہ اور الجھتے ہیں۔ مسلم فرقہ پرست تاریخ اور مسلم تاریخی رومانیت، امت مسلمہ کے مزاج اور اس کی حیثیت سے بھی میل نہیں کھاتے۔ یہ امت کچھ اصولوں اورعدل و انصاف کی علم بردار امت ہے۔ اس کی فکر اور مطلوب مزاج کا تقاضا یہ ہے کہ تاریخی دعووں کو جانچنے کا اصل پیمانہ سچائی اور عدل کی قدریں بنیں، فرقہ وارانہ وابستگیاں نہیں۔ حکم رانوں کی ہر وہ پالیسی جو عدل و انصاف کے اصولوں کے مطابق ہو، وہ ہماری تائید کی مستحق ہے، چاہے حکم راں مسلمان ہو یا غیر مسلم۔ اور ہر وہ پالیسی جو عدل و انصاف کے اصولوں سے متصادم ہو وہ ہماری مخالفت اور مذمت کی سزاوار ہے چاہے اس کا تعلق مسلمان حکم رانوں سے ہو یا ہندو حکم رانوں سے۔ کس حکم راں کی واقعی پالیسی اور اقدام کیا تھا؟ اس کو معلوم کرنے کے لیے سچائی کی تلاش کے معروف طریقوں سے کام لیا جائے اور ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ہمارے نظریات اور ہماری عصبیتیں اس معاملے میں ہمارے نتائج پر اثر انداز نہ ہوں۔ ان باتوں پر سختی سے عمل کرنے سے ہی ہمارے اصولوں اور نظریات کا امتیاز اجاگر ہوسکتا ہے۔ ورنہ جس طرح اقلیتی فرقہ پرستی ہمیشہ اکثریتی فرقہ پرستی کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتی ہے اسی طرح تاریخ کے سلسلے میں اقلیت کا فرقہ پرست بیانیہ، اکثریت کے زیادہ جارح فرقہ پرست بیانیے کے لیے راہیں ہم وار کرتا ہے۔شناختوں کی کشمکش کا ایک اہم آلہ کار تاریخ اور تاریخی بیانیہ ہوتا ہے اور ایسی کشمکش تاریخی حقائق کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے ایسی صورت حال میں زیادہ شدید نقصان ہمیشہ اقلیتی تاریخ کو پہنچتا ہے۔ اس لیے کوشش یہی ہونی چاہیے کہ تاریخ شناختوں کی کشمکش کا میدان نہ بنے اور ہماری جانب سے حقیقت پر مبنی ٹھیک ٹھیک ایسی تاریخ سامنے آئے جس کا انکار آسان نہ ہو۔ مستقبل میں ہم ایسی تاریخ کو سامنے لانے میں کام یاب ہوئے تو یہ ملک میں تاریخ نگاری (historiography)کی ایک نئی روایت ہوگی اور مختلف سیاسی مکاتب فکر میں بٹی ہوئی تاریخ نگاری کے ماحول میں یہ عدل پسند اور واقعیت پسند تاریخ نگاری، دنیا کو متوجہ بھی کرے گی اور ہمارےامتیاز کو بھی اجاگر کرے گی۔

مسلمانوں کی عظیم اکثریت اسی ملک کے قدیم باشندوں پر مشتمل ہے۔ قدیم ہندوستان اور اس کے ورثے میں وہ بھی شریک ہیں۔ مسلمان تو سارے انسانوں کو اپنا بھائی سمجھتے ہیں اور دنیا کے مشترک تمدنی ورثے میں سے ہر اچھی بات کو قبول کرنا ان کے دین کی تعلیم کا حصہ ہے۔ہر قوم تک اللہ کی ہدایت پہنچی ہے اور ہر قوم میں اللہ کے نبی آئے ہیں،اس لیے خیر کے عناصر دنیا کی ہر قوم کی تاریخ میں موجود ہیں۔ اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ مسلمان قدیم ہندوستان کے اچھے اور قابل قدر پہلوؤں کی قدر نہ کریں اور اس تاریخ کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھیں۔ قدیم ہندوستان کی تاریخ میں جوباتیں قابل فخر ہیں، ان پر ہم کو بھی فخر محسوس کرنا چاہیے۔ آج دس اعداد کے ذریعے اعداد لکھنے کا عشری نظام (decimal system)ساری دنیا میں رائج ہے اور دنیا اسے عربی اعداد (Arabic numbers)کہتی ہے۔ لیکن مسلمانوں نے کبھی یہ بات نہیں چھپائی کہ اس نظام کے موجد ہندو ہیں اور ہندوؤں ہی سے سب سے پہلے انھوں نے یہ نظام سیکھا اور اسے دنیا میں عام کیا۔ القفطی (وفات: 1248عیسوی) نے اپنی مشہور کتاب اخبار العلماء باخبار الحکماء میں وضاحت کے ساتھ اعتراف کیا ہے کہ یہ ہندوؤں کا علم تھا [44] جسے الخوارزمی اور الکندی کی تصنیفات نے اسلامی دنیا میں عام کیا۔ گویاہر اچھی بات کی قدر کرنا اور اس کے موجدوں کو اس کا کریڈٹ دینا، ہمیشہ سے مسلمانوں کا مزاج رہا ہے۔آج بھی اسی مزاج کی نمائندگی ہمیں کرنی ہے۔شرک اور دیگر ناپسندیدہ عناصر سے ہم ضرور بلکہ لازماً اپنے دامن کو محفوظ رکھیں لیکن اس ورثے کے جو قابل قدر اور نفع بخش پہلو ہیں ان سے خود کو الگ کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

لیکن محض قومی تفاخر کے لیے بے بنیاد تاریخ نگاری، علم اور سچائی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔ اس لیے بے بنیاد اور جھوٹے دعووں کی سنجیدہ علمی مخالفت بھی ضروری ہے۔ ہمیں حقیقت کو مدلل طریقے سے واضح کرنے کے ساتھ سنجیدگی اور خیر خواہی کے ساتھ یہ بات بھی سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ جھوٹ پر مبنی فرضی تاریخ نگاری کے نتیجے میں اپنی تاریخ کی حقیقی خوبیوں کو بھی ہم مشکوک بنادیتے ہیں۔ اس لیے ایسی کوششیں، ہندوستان کی خوبیوں کو سامنے لانے کے اُس مقصد کے لیے بھی مضر ہیں جو ان حضرات کے پیش نظر ہے۔

آریاؤں کے اصل ہندوستانی باشندے ہونے کے نظریے کا ابطال، کئی پہلووں سے ضروری ہے۔ اسی نظریے کے نتیجے میں ہندوستانی عوام کو ملکی اور غیر ملکی کے دو غیر حقیقی خانوں میں تقسیم کردیا جاتا ہے۔ دراوڑی اور آدیباسی تاریخ کا جداگانہ تشخص ماند پڑجاتا ہے۔ اور مخصوص نسل کی بالاتری کے تصور کو تقویت ملتی ہے۔

حقیقت واقعہ یہ ہے کہ اس ملک کی پوری آبادی باہر سے آنے والوں ہی کی اولاد ہے۔ یہاں کے قدیم ترین باشندے آدیباسی لوگ اور اُس نسل کے لوگ ہیں جنھیں’ آسی’ (ancient ancestral south Indians AASI)کہا جاتا ہے۔ خالص اس نسل کے لوگ، اب آدیباسیوں میں یا انڈومان و نکوبار کے جنگلوں میں بہت ہی محدود تعداد میں باقی ہیں۔ زمانہ قدیم میں، اس نسل کے لوگ وادی سندھ میں ایران سے آنے والے شکاری نسل کے لوگوں کے ساتھ رہنے لگے تو دونوں نسلوں کے امتزاج سے ایک جداگانہ نسلی گروہ ASIنسل (ancestral south Indian)کا ظہور ہوا۔ بعد کے ادوار میں یوریشیا سے آنے والے آریاؤں کا آسی (AASI)نسل کے لوگوں سے امتزاج ہوا تو اے این آئی (ancestral north Indians)کا ظہور ہوا۔ آج ہندوستان کے تمام باشندے ASIاور ANIنسلوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ بعض میں (شمالی ہند کی اعلیٰ ذاتوں میں ) ANIکا تناسب زیادہ ہے اور بعض میں ASI کا۔ ہندوستان کے ہر باشندے کے آباو اجداد کسی نہ کسی زمانے میں ملک کے باہر سے آئے ہیں۔ بعض قریبی زمانے میں آئے اور بعض بہت پہلے آئے۔ لیکن جو بہت پہلے آئے، ان کی خالص نسلیں اب مشکل ہی سے ملتی ہیں، اس لیے کہ بعد میں آنے والوں کے ساتھ مل کر اور باہمی شادیوں کے نتیجے میں بالکل نئی نسلوں کا ظہور ہوا۔ اس لیے اکثر ہندوستانیوں کے اجداد میں مختلف دور کے مہاجرین شامل ہیں۔ یہی اب ٹھوس سائنسی حقیقت ہے۔ [45]

واقعہ یہ ہے کہ نسل انسانی کی تاریخ کا ایک ہی معقول بیانیہ ہے اور وہ صرف یہ ہے کہ:

یا أَیهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُم مِّن ذَكَرٍ وَأُنثَىٰ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا : لوگو، ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمھاری قومیں اور برادریاں بنا دیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو (الحجرات:13)

قوم پرستوں نے دنیا کے مختلف ملکوں میں ‘ملکی’ اور ‘بیرونی’ کی تقسیم کے جو نظریات پیش کیے تھے، اب جدید سائنسی تحقیقات کے بعد وہ مضحکہ خیز حد تک فرسودہ ہوچکے ہیں۔ کم سے کم ہندوستان کے معاملے میں تو یہاں کے باشندوں کو ملکی و غیر ملکی میں تقسیم کرنا نہایت نامعقول بات ہے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ ان حقائق کو پوری قوت کے ساتھ سامنے لایا جائے اور وحدت انسانی کے نظریے کو ملک میں زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے۔

۴۔ عہد وسطیٰ کی تاریخ ہندوستانی مسلمانوں کو نشانہ بنانے کا اصل ہدف ہے۔حالیہ دنوں میں اس تاریخ کو لے کر ہر سطح پر شدید اور بڑی گم راہ کن مہمات شروع ہوئی ہیں۔جواب میں بعض مسلمانوں کی جانب سے بھی عہد وسطی کے حکم رانوں کی ہر صحیح و غلط بات کا دفاع کرنے اور قومی تفاخر کے لہجے میں فرقہ پرست تاریخ بیان کرنے کا رجحان سامنے آتا ہے۔ یہ رویہ تاریخ کی غلط کاری کے رجحان کو اور تقویت دینے کا ذریعہ بنتا ہے۔ ہمارے خیال میں درج ذیل حقائق اور اصول، ہمارے رویے کی تشکیل کی بنیاد بننے چاہئیں۔

الف) ازمنہ قدیم اور متوسط میں، انسانوں کی ہجرت، نئی زمینوں کو فتح کرنے کی امنگ اور اس کی خاطر باہمی جنگیں ایک عام عالمی رجحان اور مسلمہ معمول تھا۔ یہ عمل صرف مسلمانوں تک مخصوص نہیں تھا۔ مسلمانوں سے پہلے آریہ اور وسط ایشیا، مشرقی یورپ اور مشرق وسطی سے مہاجروں اور حملہ آوروں کی متعدد جماعتیں اس ملک میں بسیرا کرچکی تھیں۔

ب) عہد وسطی کی جنگوں کو مذہب یا شناخت کے محدود عدسے سے دیکھنا درست نہیں ہے۔ یہ جنگیں اصلاً سیاسی بالادستی کی جنگیں تھیں۔ جتنی جنگیں ہندوؤں نے مسلمانوں کے خلاف لڑیں، اس سے زیادہ مختلف ہندو راجاؤں کے درمیان باہم بھی لڑی گئیں۔ مسلمان حملہ آوروں نے صرف ہندو حکومتوں پر حملے نہیں کیے بلکہ دیگر مسلمان حکومتیں اور زیادہ ان کے حملوں کی نشانہ بنیں۔

ج) عہد وسطیٰ کے مسلمان حکم راں اسلام کے نمائندے نہیں تھے۔ان میں سے متعدد کا تو اسلام کی تعلیمات سے کوئی عملی رشتہ ہی نہیں تھا۔ ان حکم رانوں نے بہت سے اچھے کام کیے۔ ان کاموں کی تفصیل بھی لوگوں کے سامنے آنا ضروری ہے اور بعض غلط کام بھی کیے۔ ان غلط کاموں کی توجیہ نہیں کی جاسکتی اور نہ تاریخی طور پر ثابت شدہ حقائق کو غیر ضروری طور پر جھٹلانے کی کوئی ضرورت ہے۔ ان غلطیوں کو ہم صاف طور پر غلط کہیں گے اور واضح کریں گے کہ ان کی یہ عملی غلطیاں کیسے اسلام کے واضح اصولوں کی صریح خلاف ورزی تھیں۔ لیکن ایسی غلطیاں اس زمانے کے تمام بادشاہوں میں عام تھیں۔ ان غلطیوں کی وجہ سے ان کے اچھے کارناموں اور ملک کے لیے ان کی خدمات کو نظر انداز کرنے کا رویہ بھی مناسب نہیں ہے۔ ان کارناموں کو بھی ہم نمایاں کریں گے۔

د) عہد وسطیٰ کی بااثر قوتوں (حکم راں، ادیب و فن کار، علما و محققین، صوفیا اور مذہبی قائدین اور دیگر سیاسی و تمدنی قوتیں )نے اس ملک کو بہت کچھ دیا ہے۔ آج اس ملک کی جو خوبیاں ہیں ان کو تشکیل دینے میں عہد وسطی کا کنٹری بیوشن، عہد قدیم اور عہد جدید سے کہیں زیادہ ہے۔ اورنگ زیب کے زمانے میں اس ملک نے دنیا کے جی ڈی پی کا24 فیصد)دنیا میں سب سے زیادہ) پیدا کیا ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب معلوم تاریخ میں پہلی بار اور آخری بار ہندوستان دنیا کا صنعتی قائد بن کر ابھرا تھا۔

جنگ آزادی میں مسلمانوں کا کردارہماری تاریخ کا ایک اہم حوالہ اور اس ملک کے لیے مسلمانوں کی خدمات کا ایک قابل فخر باب ہے۔ اس باب پر پردہ ڈالنے کی جان توڑ کوشش ہورہی ہے۔ اس کوشش کا رد نہایت ضروری ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ٹھوس تاریخی دلائل کے ساتھ حقیقی تاریخ کو سامنے لایا جائے۔ آزادی کا ۷۵سالہ جشن اس کا اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ سوشل میڈیا اور میڈیا پر اس سلسلے میں طاقت ور مہم کی ضرورت ہے۔

اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ آزاد ہندوستان کی حقیقی تاریخ تشکیل بھی پائے اور سامنے بھی آئے۔ اس تاریخ کو بگاڑنے کی جو کوشش ہورہی ہے اس کا ایک بڑا نمونہ حالیہ فلم ‘کشمیر فائلس’ ہے۔ کشمیر، بنگال اور کیرلہ کی علاقائی صورت حال، اقلیتوں سے متعلق حکومتوں کی اسکیمیں اور اقلیتوں اور حکومتوں کا تعلق، فرقہ وارانہ فسادات، اردو زبان، اقلیتی تعلیمی ادارے اور جامعات، مسلم ملکوں اور ہندوستان کے تعلقات اور خارجہ پالیسی، بابری مسجد اور اس جیسے بعض دیگر فرقہ وارانہ تنازعات وغیرہ کچھ اہم محاذ ہیں جہاں تاریخ کو بدلنے اور مصنوعی تاریخ کو عام کرنے کی کوششیں بڑے پیمانے پر ہورہی ہیں۔ یہ مصنوعی تاریخ آئندہ ہندوستانیوں کے رویوں کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہر سطح پر اسے چیلنج کیا جائے اور حقیقی تاریخ سامنے لائی جائے۔

ان تاریخی اغلاط کی تنقیح کے لیے معتبر اور مستند ذرائع سے واقفیت اور ان تک رسائی ضروری ہے۔ پہلے انسان سے ہندوستانی آبادی کس طرح وجود میں آئی؟ (Peopling of India)اس سوال پر بڑی مدلل لیکن عام فہم تحقیق کے لیے ہمارے خیال میں ٹونی جوزف (پیدائش: 1963)کی کتاب نہایت مفید ہے۔ اس کتاب کا حوالہ اس مضمون میں موجود ہے۔قدیم ہندوستان کی تاریخ پر معروف مورخ پروفیسر ڈی این جھا(1940-2021) کی کتابیں بہت چشم کشا معلومات فراہم کرتی ہیں۔[46]رومیلا تھاپر (پیدائش: 1931) کی کتابیں بھی اس موضوع پر بہت مفید ہیں۔[47]

جنوبی ہند کی تاریخ پر نیلاکانت شاستری(1892-1975) اور وادی سندھ کی تہذیب پرامریکی ماہر بشریات ریتا رائٹ (ان کی کتابوں کے حوالے اس مضمون میں موجود ہیں)کی تحقیقات مفید ہیں۔ امریکی ماہر جینیات ڈیوڈ رچ(David Reich پیدائش: 1974)، ماہر آثاریات اور بشریات ڈی ڈبلیو اینتھنی(D.W. Anthony) اور ماہر ہندوستانیات آسکو پرپولا(Asko Parpola پیدائش: 1941) کے حوالے بھی اس مضمون میں موجود ہیں۔

عہد وسطیٰ کی تاریخ پر سب سے وسیع اور نہایت اہم کام عرفان حبیب(پیدائش: 1931) کا ہے۔[48] مغربی مصنفین میں ایک اہم نام خاتون امرِیکی مورخ آڈری ٹرشکی (Audrey Truschke)کا ہے جس نے عہد وسطی کی تاریخ پر بڑی جرأت سے لکھا ہے۔[49] امریکی ماہر بشریات رچرڈ ایٹن نے عہد وسطی کی تاریخ کے بعض حساس موضوعات ( مثلاً جبریہ تبدیلی مذہب، مندروں کی مسماری، مسلم بادشاہوں کا ہندو رعایا کے ساتھ تعلق وغیرہ ) پر مستحکم دلائل کے ساتھ روشنی ڈالی ہے۔ ان موضوعات پر ان کی کتابیں بڑی اہم ہیں۔[50]

ششی تھرور کی کتابیں عام قاری کے لیے پر کشش زبان اور لب و لہجے میں قیمتی مواد فراہم کرتی ہیں اور عہد وسطی کی تصویر بگاڑنے کی کوششوں کا بہت خوب صورتی سے سد باب کرتی ہیں۔ [51]

عہد وسطی کی تاریخ پر اردو زبان میں اسلامی نقطہ نظر سے ہوئے تحقیقی کام میں دار المصنفین شبلی اکیڈمی اعظم گڑھ کے کام کی بڑی اہمیت ہے۔ یہ بہت اعلیٰ معیار کا تحقیقی کام ہے۔خاص طور پر سلسلہ تاریخ ہند کی پینتیس کتابیں عہد وسطی کی تاریخ کا معیاری، تحقیقی و مستند سرچشمہ ہیں۔ ان میں مولانا صباح الدین عبد الرحمنؒ (تقریباً بارہ کتابیں)، علامہ شبلیؒ (اورنگ زیب عالمگیر) اور مولانا سید سلیمان ندویؒ (عرب و ہند کے تعلقات) کی کتابیں خاص طور پر اہم ہیں۔

جدید ہندوستان (انگریزوں کا دور اور مابعد آزادی) کی تاریخ پر بھی ششی تھرور کی کتابیں اہم اور دل چسپ ریفرنس ہیں۔ ان کی کتابیں اگرچہ مخصوص کانگریسی نقطہ نظر سے لکھی گئی ہیں لیکن بہت قیمتی مواد فراہم کرتی ہیں۔[52] فرانسیسی ماہر ہندوستانیات کرسٹوف جیفرے لوٹ (Christophe Jaffrelot , born 1964) نے بھی ان موضوعات پر بڑا اہم کام کیا ہے۔[53] ہندو فرقہ پرستی اور ہندتو پر ان کی کئی کتابوں نے پوری دنیا کی توجہ حاصل کی ہے۔ [54]دلت تاریخ [55] اور مسلم صورت حال پر ان کا کام بھی لائق توجہ ہے۔[56]

رام چند گوہا (پیدائش: 1958) ، اروندھتی رائے (پیدائش: 1961)گیان پرکاش، مشیر الحسن (1949-2018) وغیرہ کی تصنیفات سے بھی عصری ہندوستان کی تاریخ پر مفید معلومات حاصل ہوتی ہیں۔

جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار پر سید عبید الرحمٰن(پیدائش: 1975) کی کتابیں جدوجہد آزادی میں مسلمانوں کی خدمات کو اختصار کے ساتھ لیکن مستند حوالوں سے اجاگر کرتی ہیں۔ بچوں کے لیے بعض اہم تاریخی موضوعات پر پروفیسر رام پنیانی نے بہت اچھی کتابیں لکھی ہیں۔

تاریخ پر علمی کام کا یہ مختصر (اور نامکمل) جائزہ ہم نے اس لیے پیش کیا ہے کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان کتابوں سے مدد لے کر عام ہندوستانی عوام تک بڑے پیمانے پر مستند تاریخ پہنچانے کا اہتمام کیا جائے۔ (کتابوں کی تفصیل حواشی میں درج کردی گئی ہے)۔

ہندتو تاریخ نگاری کے اس پورے منصوبے کا اصل ہدف یہ ہے کہ مسلمانوں اور عیسائیوں کو ملک میں عام دھارا سے الگ تھلگ کردیا جائے۔تاریخ کو اس طرح بیان کیا جائے کہ مسلمان ایک بیرونی حملہ آور قرار پائیں اور اس طرح باقی ملک کے لیے اجنبی قوم بن جائیں۔تاریخ کا یہ بیانیہ آنے والے زمانے میں عوامی حافظے کا حصہ بن سکے گا یا نہیں، اس کو ہمارے آج کے رویے طے کریں گے۔ ہمارے موجودہ رویے اس بیانیے کو یا تو تقویت دیں گے یا کم زور کریں گے۔ موجودہ سماج میں ہم جتنا الگ تھلگ رہیں گے، عام ہندوستانیوں سے ہمارا کمیونکیشن جتنا کم زور ہوگا، اور رد عمل کی اور شناخت کی سیاست جتنا زور پکڑے گی، مذکورہ گم راہ کن تاریخی بیانیے کو اتنا ہی استناد فراہم ہوتا رہے گا۔ حال کی سیاست اور سیاسی رویوں نے ہمیشہ ماضی کو دیکھنے کے مخصوص زاویے تشکیل دیے ہیں۔ تاریخی انکار پسندی (historical negationism) کے اس تباہ کن منصوبے کو اس وقت تک شکست نہیں دی جاسکتی جب تک حال کے ہندوستان میں ہمارے ایسے فعال رویے سامنے نہ آئیں جن سے اس تاریخ کا جھوٹ ہونا خود بخود ایک عام ہندوستانی پر واضح ہوجائے۔ یہ فعال رویے کیا ہوں؟ اس پر ہم اس سے قبل کی قسطوں میں بھی اظہار خیال کرچکے ہیں اور ان شاء اللہ اگلی قسط میں بھی ، جو اس سلسلے کی آخری قسط ہوگی، کچھ گذارشات پیش کریں گے۔ n

حواشی و حوالہ جات

1.
V.D. Savarkar (1971) Six Glorious Epochs of Indian History (Tr. And Ed. S.D. Godbole) Bal Savarkar, Mumbai.

2. Ibid pages 174-180

3. Ibid page 179

4. M.S.Golwalkar (1947) We and Our Nationhood Defined; M.N. Kale; Nagpur. Page 12

5. Ibid page 9-10

6. V.D. Savarkar (2014) 1857: Indian War of Independence; Asian Educational Services; Delhi; page 35

7. R.C.Majumdar Ed. (1967) The Delhi Sultanate [Volume 6 of the History and Culture of the Indian People]; Bharatiya Vidya Bhavan; Bombay. Page 623.

8. https: //www.hindustantimes.com/india/among-new-projects-rss-to-focus-on-studying-adivasis-traditions/story-oP1foN81kILIz0w7M1X5mL.html retrieved on 10-04-2022

9. جرنل کی ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں:

http: //www.itihasadarpana.com

10. تفصیل کے لیے دیکھیں کرسٹوف جیفرلیٹ کی کتاب کا ایک اقتباس:

Christofe Jaffrelot(2021) at https: //scroll.in/article/1010670/christophe-jaffrelot-on-the-way-hindutva-is-changing-history-and-science-textbooks-in-schools

11. As quoted in https: //scroll.in/article/1010670/christophe-jaffrelot-on-the-way-hindutva-is-changing-history-and-science-textbooks-in-schools

12. Chan, E.K.F., Timmermann, A., Baldi, B.F. et al. Human origins in a southern African palaeo-wetland and first migrations. Nature 575, 185–189 (2019)

13. Tony Joseph (2018). Early Indians: The Story of Our Ancestors and Where We Came From. India: Juggernaut. Ebook available at Amazon Kindle see the Chapter “The First Indian” page no not given in the ebook.

14. Burton Stein (2010).). A History of India (2nd ed.). Oxford: Wiley-Blackwell. p. 47

15. Rita Wright. (2009). The Ancient Indus: Urbanism, Economy, and Society. Cambridge University Press

16. Ansumali Mukhopadhyay, B. Ancestral Dravidian languages in Indus Civilization: ultraconserved Dravidian tooth-word reveals deep linguistic ancestry and supports genetics. Humanit Soc Sci Commun 8, 193 (2021)

17. https: //www.brownpundits.com/2018/09/01/takeaways-from-the-golden-age-of-indian-population-genetics/

18. V.M. Narsimhan et. al. (2019) The Formation of Human Population in South and Central Asia; in Science; Vol 365 No. 6457 DOI: 10.1126/science.aat7487

19. اس نقطہ نظر کو سمجھنے کے لیے دیکھے اس خیال کے ایک بڑے وکیل کی کتاب:

Koenraad Elst(1999) Update on the Aryan Invasion Debate. Aditya Prakashana

20. ان شہادتوں کی تفصیل درج ذیل مصادر میں ملاحظہ کی جاسکتی ہے:

· جینیاتی شہادتوں کے لیے مشہور ماہر جینیات ڈیوڈ ریچ کا نیچر میں مقالہ:

Reich, David; Thangaraj, Kumarasamy; Patterson, Nick; Price, Alkes L.; Singh, Lalji (2009), “Reconstructing Indian population history”, Nature, 461 (7263): 489–494

· لسانیاتی اور ثاریاتیArchaelogical شہادتوں کے لیے:

D.W.Anthony (2010), The Horse, the Wheel, and Language: How Bronze-Age Riders from the Eurasian Steppes Shaped the Modern World, Princeton University Press

· بشریاتی دلائل کے لیے:

Asko Parpola (2015) The Roots of Hinduism: The Early Aryans and the Indus Civilization. United States, Oxford University Press.

21. Tony Joseph in https: //www.downtoearth.org.in/interviews/governance/-the-govt-s-version-of-history-is-less-dependent-on-science-more-on-divine-sayings–63266

22. Subhash Kak (1987) On the Chronology of Ancient India; in Indian Journal of History of Science, 22(3): 222-234

23. ہندتو مورخین کے ان نظریات کو سمجھنے کے لیے دیکھیں:

Subhash Kak et al. (1999). In Search of the Cradle of Civilization: New Light on Ancient India. India: Motilal Banarsidass.

اور ان کوششوں پر سائنس جرنل کا تبصرہ ملاحظہ فرمائیں

https://www.science.org/content/article/hindu-nationalists-claim-ancient-indians-had-airplanes-stem-cell-technology-and

24. تفصیل کے لیے دیکھیں مشہور آرکیالوجسٹ سورج بھان کا مضمون، اس مضمون میں اس سیمینار کی بھی دل چسپ روداد موجود ہے جو 1993میں دین دیا ل اپادھیائے انسٹی ٹیوٹ نئی دہلی میں منعقدہوا تھا اور جس میں تاریخ میں اس تبدیلی کا منصوبہ تیار ہوا تھا۔

Suraj Bhan(1997) “Recent Trends in Indian Archaeology.” Social Scientist 25(1/2) pages 3–15

25. Navaratna S. Rajaram(1994) in Puratattva; Number 24; Indian Archaelogical Society pages 1-11

26. https: //blogs.soas.ac.uk/ssai-notes/2015/01/05/the-futures-of-india%E2%80%99s-past-by-subir-sinha/

27. Irfan Habib (2022) Rewriting of History in Outlook: https: //www.outlookindia.com/website/story/the-rewriting-of-history/214549

28. ibid.

29. Sudama Misra (2013) Janapada States in Ancient India; Bharatiya Vidya Prakashana; Varanasi; Pages 7-23

30. D.N. Jha (2019) Against The Grain: Notes on Identity, Intolerance and History; Manohar; New Delhi.

31. K.S Lal (1993) The Legacy of Muslim Rule in India; Aditya Prakashana

32. K.S. Lal(1973) Growth of Muslim Population in Medieval India; Research Publications; New Delhi pages 211-217

33. K.S Lal (1993) The Mughal Harem; Aditya Prakashana

34. P.N.Oak (1965) Taj Mahal was a Rajput Palace; Institute for Rewriting Indian History; New Delhi.

35. P.N. Oak (1976) Delhi’s Red Fort is Hindu Lalkot; Jaico Publishers, Mumbai.

36. P.N.Oak (1966) Indian Kshatriyas Once Ruled from Bali to Baltic & Korea to Kaba; Searchlight Press; Patna

37. P.N.Oak (2012) Christianity is Chrisn-nity: is Bible the story of a chrisn temple dispute? Is Christianity an off shoot?; Hindi Sahitya Sadan; New Delhi.

38. دیکھیے وزیر اعظم مودی کا بیان:

https: //www.firstpost.com/politics/1200-years-of-servitude-pm-modi-offers-food-for-thought-1567805.html

39. یہ حیرت انگیز حد تک مضحکہ خیز دعوی سرکاری سطح پر، حکومت ہند کے پندرہ روزہ رسالے، نیو انڈیا سماچار میں کیا گیا:

https://www.thequint.com/news/webqoof/swami-vivekananda-ramana-maharshi-precursors-to-1857-revolt-fact-check#read-more

40. جنگ آزادی کی تاریخ کو بگاڑنے کی کوششیں کس طرح ہورہی ہیں اس پر دیکھیے یہ دو اہم مضامین:

https://www.thequint.com/voices/opinion/reclaiming-the-freedom-fighters-past-wont-take-bjp-a-long-way-70-saal-azadi-zara-yaad-karo-kurbani-bhagat-singh#read-more

https: //www.thequint.com/news/india/sunday-view-the-best-weekend-opinion-reads-17-april-2022

41. https: //www.opindia.com/2019/10/khilafat-movement-100-years-mahatma-gandhi-unleashed-islamic-fanaticism/

42. اس موضوع پر ایک ہندتو مصنف کی کتاب دیکھیں:

Sandeep Balakrishnan(2015). Tipu Sultan- The Tyrant of Mysore; RARE Publications.

43. https: //www.thehindu.com/news/national/kerala/387-moplah-martyrs-to-be-removed-from-dictionary/article61427112.ece

44. علی بن یوسف القفطی(2005) ‫إخبار العلماء بأخبار الحكماء؛ ‫‏دار الكتب العلمیة، منشورات محمد علی البیضون،؛ بیروت

45. تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو نرسمہن اور دیگر کا تحقیقی مقالہ:

Narasimhan VM, Patterson N, Moorjani P, et al. The formation of human populations in South and Central Asia. Science. 2019;365(6457): eaat7487. doi: 10.1126/science.aat7487

46. درج ذیل کتابیں خاص طور پر قابل مطالعہ ہیں:

D.N.Jha (2004). Early India: a concise history. India: Manohar Publishers & Distributors.

D.N.Jha (2018). Against the Grain: Notes on Identity, Intolerance and History. India: Manohar.

47. درج ذیل کتابیں خاص طور پر قابل مطالعہ ہیں:

Romila Thapar (1993). Interpreting Early India. India: OUP India.

Romila Thapar (2000). Cultural pasts: essays in early Indian history. India: Oxford University Press

Romila Thapar (2004). Early India: From the Origins to AD 1300. United States: University of California Press.

48. خاص طور36 جلدوں پر مشتمل ان کی تفصیلی کتاب People’s History of India ایک بڑا اہم ریفرنس ہے۔ اس کی درمیانی جلدیں عہد وسطی کی تاریخ کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے روشنی ڈالتی ہیں۔

49. اورنگ زیب پر ان کی کتاب Aurangzeb: The Life and Legacy of India’s Most Controversial King پر ان کے خلاف امریکہ میں مہم بھی چلائی گئی۔

50. یہ کتابیں خصوصیت سے اہمیت کی حامل ہیں:

Richard Eaton et.al (2001). Essays on Islam and Indian history; Oxford University Press; Delhi

Richar Eaton (2005). A social history of the Deccan, 1300-1761: Cambridge University Press; London

Richard Eaton India’s Islamic Traditions 711-1750 ((2006); Oxford University Press; New Delhi.

51. خاص طور پر ان کی کتاب An Era of Darkness: The British Empire in India اس موضوع پر ایک بڑا اہم حوالہ ہے۔

Shashi Tharoor (2016). An Era of Darkness: The British Empire in India. India: Aleph.

52. ملاحظہ فرمائیں:

Shashi Tharoor (2012). India: From Midnight To The Millennium and Beyond. India: Penguin Random House India Private Limited.

Shashi Tharoor (2018). Nehru: The Invention of India. India: Penguin Random House India Private Limited.

Shashi Tharoor (2021). The Struggle for India’s Soul: Nationalism and the Fate of Democracy. United Kingdom: C. Hurst (Publishers) Limited.

53. آزاد ہندوستان کی تاریخ پر ان کی ایک بڑی تحقیقی کتاب یہ ہے:

Chritophe Jaffrelot(2011). India Since 1950: Society, Politics, Economy and Culture; Yatra Books; New Delhi.

54. خاص طور پر یہ کتابیں:

Chritophe Jaffrelot (2021). Modi’s India: Hindu Nationalism and the Rise of Ethnic Democracy; Princeton University Press. United States

Chritophe Jaffrelot (2021). Saffron ‘Modernity’ in India: Narendra Modi and His Experiment with Gujarat; C. Hurst (Publishers) Limited, UK.

Chritophe Jaffrelot (2005). The Sangh Parivar: A Reader. (2005);Oxford University Press; New Delhi

55. Christophe Jaffrelot(2003). India’s Silent Revolution: The Rise of the Lower Castes in North India; Hurst; UK

56. Christophe Jaffrelot(2012)Muslims In Indian Cities: Trajectories Of Marginalisation; HarperCollins Publishers; India.

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: