ہندتو کی تحریک میں تعلیم اور نظام تعلیم کی ابتدا ہی سے بڑی اہمیت رہی ہے بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ تعلیم اور ذہن سازی اس تحریک کا اول روز سے اصل ہدف رہا ہے۔ ہندتو کی تعلیمی تحریک میں سب سے پہلا نام بی ایس مونجے (بالاکرشنا مونجے1872-1948 ) کا آتا ہے۔ مونجے نے 1931 میں اٹلی کا دورہ کیا اور فاشسٹ وزیر اعظم مسولینی سے ملاقات کی۔ اٹلی کے اس دورے میں فوجی تربیت کے فسطائی مراکز مثلاً Accademia fascista della Farnesina كا تفصیل سے جائزہ لیا۔ یہ مراکز اٹلی کی فسطائی جماعت کے اہم مراکز تھے اور ان میں نوجوانوں کو نیم فوجی تربیت بھی دی جاتی تھی اور مخصوص فسطائی نظریاتی و سیاسی تربیت بھی دی جاتی تھی۔ او این بی (Opera Nazionale Balilla) جو فسطائی پارٹی کی یوتھ موومنٹ تھی، اس کا بھی انھوں نے قریب سے مشاہدہ کیا [1]اور واپس آنے کے بعد 1937میں ‘ہندو ملٹری ایجوکیشن سوسائٹی’ کی بنیاد ڈالی جس کے تحت ناسک میں بھوسلا ملٹری اسکول قائم کیا گیا تاکہ ‘‘ملک کی فوج کا ‘بھارتی کرن’ (indianisation) کیا جاسکے۔’’[2] بعد میں اس سوسائٹی کے تحت اسی طرح کا ایک اسکول ناگپور میں بھی قائم کیا گیا۔ مونجے کے ایک عزیز و لائق شاگرد ڈاکٹر ہیڈگیوار تھے جنھوں نے آر ایس ایس قائم کی۔[3]
اس سے قبل 1886 میں دیانند سرسوتی کے افکار پر مبنی ایک تعلیمی تحریک کا ‘گروکل’ یا ‘ویدک اسکول’ کے نام سے آغاز ہوچکا تھا۔ اس تحریک کا تعلق آریہ سماج سے تھا۔ بہت جلد اس تحریک نے دیانند اینگلو ویدک اسکول (DAV Schools) کے نام سے تعلیمی اداروں کا پورا جال قائم کردیا۔ اس وقت ملک میں اور ملک کے باہر ڈی اے وی کے تحت نو سو سے زیادہ اسکول اور پچہتر کالج چل رہے ہیں۔ یہ ملک کی سب سے بڑی تعلیمی سوسائٹی ہے۔ ہر سال بیس لاکھ سے زیادہ طلبہ اس سے فارغ ہوتے ہیں اور گذشتہ دس برسوں میں دسویں اور بارہویں جماعتیں ٹاپ کرنے والوں کی سب سے بڑی تعداد اسی سوسائٹی کے تعلیمی اداروں سے متعلق رہی ہے۔[4] ویدوں اور قدیم مذہبی تصورات کو جدید علوم سے جوڑ کر اور انگریزی کو ذریعہ تعلیم بناکر انھوں نے اپنے مخصوص تعلیمی تصورات تشکیل دیے ہیں۔ ان اسکولوں میں انھی تصورات کو بنیاد بناکر تعلیم دی جاتی ہے۔[5]
آریہ سماج کے اسکولوں کے قیام میں اہم کردار ادا کرنے والے ایک قدآور رہ نما لالہ لاجپت رائے (1865-1928) تھے۔ آریہ سماج کی تعلیمی تحریک سے وابستگی کے باوجود، لالہ لاجپت رائے، تعلیم کی جدید کاری کے قائل تھے اور قدامت پرستی کو تعلیم کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے تھے۔[6]
نوآبادیاتی دور میں تعلیمی محاذ پر ہندو نقطہ نظر سے اصلاحات کے سلسلے میں غالباً سب سے طاقت ور اور بااثر آواز پنڈت مدن موہن مالویہ (1861-1946)کی تھی جنھوں نے ہندو مہاسبھا اور بنارس ہندو یونیورسٹی قائم کی تھی۔[7] مالویہ نے کلی تعلیم (holistic education) پر زور دیا اور جدید علوم کے ساتھ طلبہ کی اخلاقی و روحانی تربیت کو تعلیم کا اہم ہدف قرار دیا۔ قدیم ہندوستانی علوم کو جدید علوم کے ساتھ جوڑنے اور اس جوڑ کو تعلیم کی بنیاد بنانے کے بھی وہ زبردست وکیل تھے۔ ویدانت، سنسکرت لٹریچر، آیورویدا، علم نجوم وغیرہ کی شمولیت کے بغیر وہ ہندوستانی تعلیم کو نامکمل سمجھتے تھے۔[8]
اوروبندو گھوش (1872-1950)ایک بنگالی فلسفی تھے۔ انھوں نے اپنی فرانسیسی شریک کارمیرا الفاسا 1878-1973)، جس نے تمل ناڈو میں اورولی شہر بسایا ہے) کے ساتھ مل کر ایک خالص تعلیمی تصور اور طریقہ تدریس (pedagogy) تشکیل دیا تھا۔ انٹیگرل یوگا کے فلسفے پر مبنی اینٹیگرل ایجوکیشن کے اس تصور پر ملک میں مختلف تجربات شروع ہوئے۔
آریہ سماج، مالویہ، گھوش وغیرہ کے افکار کے مقابلے میں اسی زمانے میں ایک دوسری فکری دھارا بھی تھی۔ ا س میں نمایاں نام بھیم راو امبیڈکر اور جیوتی با پھلے کا ہے جنھوں نے قدیم روایات کے احیا کو برہمنی نظام کے احیا کی کوشش سمجھا اور ایک ایسے نظام تعلیم کی وکالت کی جو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہو اور کم زور و پس ماندہ طبقات کو ظلم و استحصال کے مقابلے کی صلاحیت سے آراستہ کرے۔ امبیڈکر سمجھتے تھے کہ نظام تعلیم اور تعلیمی پالیسی کا مقصد فرد کو محض سماج کے موجود رواجوں اور معمولات سے ہم آہنگ کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کے اندر تبدیلی کا داعیہ اور صلاحیت پیدا کرنے کا ذریعہ ہونا اور نظام تعلیم کو آزادی و مساوات کا سب سے طاقت ور ذریعہ بننا چاہیے۔[9] اسی سے ملتے جلتے خیالات پنڈت نہرو کے بھی تھے۔ آزاد ہندوستان میں تشکیل پانے والی ابتدائی تعلیمی پالیسیاں انھی افکار سے متاثر تھیں۔ اس پالیسی سازی کی قیادت مولانا ابوالکلام آزاد کے ہاتھوں میں تھی جو ملک کے پہلے وزیر تعلیم مقرر ہوئے تھے۔ مولانا جدید ہندوستان میں نظام تعلیم کو مساوات، آزادی، جمہوریت وغیرہ جیسی دستوری قدروں اور تحقیق و تجسس اور اختراع و ایجاد جیسی خصوصیات کی بنیاد پر تعمیر کرنا چاہتے تھے۔ وہ کہتے تھے کہ تعلیم کا مقصد سچائی کی تلاش ہونا چاہیے لیکن اس عمل میں اپنے عقائد و نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے کی کوششوں کی ہمت افزائی نہیں ہونی چاہیے۔ عدل و مساوات کونظام تعلیم کا اصل رہ نما اصول ہونا چاہیے اور تعلیم کی ہر شخص تک رسائی ہونی چاہیے۔[10]
ان تصورات کو ہندو احیا پرستوں نے اُس زمانے میں بھی چیلنج کیا۔ ہندتو کے علم برداروں نے ملک کی قومی تعلیمی پالیسیوں کے مقابلے میں، پنڈت مدن موہن مالویہ، سوامی دیانند نیز اوروبندو گھوش وغیرہ کے تصورات کی بعض باتوں کو انتہائی شکل دے کر، اسے ملک کو مطلوب قومی تعلیم کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔ دین دیال اپادھیائے[11]، گروگوالوالکر[12]، شیاما پرساد مکھرجی[13]، ناناجی دیشمکھ[14] وغیرہ نے اس سلسلے میں اپنے خیالات بھی پیش کیے اور ان خیالات کی بنیاد پر تعلیم کی ایک عملی تحریک کا بھی آغاز کیا۔
ہندتو کی تعلیمی تحریک اور تعلیمی ادارے
ان تصورات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سنگھ کے ایک دانش ور اور سماجی رہ نما ناناجی دیشمکھ (1916-2010) نے گورکھپور میں 1956 میں پہلے ‘سرسوتی ششو مندر’ کی بنیاد رکھی۔[15] ملک کے مختلف مقامات پرجب تیزی سے اس نمونے پر اسکولوں کے قیام کا سلسلہ چل پڑا تو ان کے نظم و انتظام کے لیے مرکزی باڈی ‘ودیا بھارتی اکھل بھارتیہ شکشا سنستھان’ (विद्या भारती अखिल भारतीय शिक्षा संस्थान)کے نام سے قائم کی گئی۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق اس وقت 12828 باقاعدہ اسکول اور 6418 غیر رسمی ‘سنسکار کیندر’ یا تربیتی مراکز ودیا بھارتی کے تحت چل رہے ہیں جن میں تقریباً پینتیس لاکھ طلبہ زیر تعلیم ہیں۔[16] ودیا بھارتی کے تحت کئی ریاستی سطح کی تنظیمیں ہندو شکشا سمیتی (دہلی، ہریانہ) بھارتیہ ودیا نکیتن (کیرلہ) ویویکانند کیندر (تمل ناڈو) سری سرسوتی ودیا پیٹھم (تلنگانہ، آندھرا پردیش) بھارتیہ شکشا سمیتی (اتر پردیش، اتراکھنڈ) وغیرہ کام کررہی ہیں۔[17]
اس کی ویب سائٹ پر اس کا جو مشن لکھا گیا ہے اس کے ابتدائی جملے اس طرح ہیں:
‘‘ایک ایسا قومی نظام تعلیم فروغ دینا جس کے ذریعے نوجوان مردوں اور عورتوں کی ایسی نسل پروان چڑھ سکے جو ہندتو کی وفادار اور وطن پرستی کے جذبے سے معمور ہو اور جسمانی، ذہنی اور روحانی لحاظ سے مکمل طور پر تربیت یافتہ ہو۔’’[18]
اس سے کیا مراد ہے؟ اس کا اندازہ ان اسکولوں کے نصاب اور ان کی سرگرمیوں سے ہوتا ہے۔ ان اداروں کے نصاب، نظام تعلیم اور ان کی عملی سرگرمیوں کا جائزہ مختلف مطالعات میں تفصیل سے لیا گیا ہے۔[19] یہ مضمون ان تفصیلات کا متحمل نہیں ہے۔ مختصر یہ کہ قومی ورثے کے نام پر مخصوص برہمنی فلسفوں اور تہذیب کو یہاں تعلیم کی بنیاد بنایا گیا ہے۔ سرسوتی کی پوجا اور مختلف ہندو رسوم کو ‘قومی کلچر’ قرار دے کر انھیں تمام طلبہ پر مسلط کیا جاتا ہے۔ تاریخ کے نام پر وہ تصورات پڑھائے جاتے ہیں جن کا جائزہ ہم تفصیل سے (ماہ مئی ۲۰۲۲ کے اشارات میں) لے چکے ہیں۔ اسلام اور عیسائیت کے سلسلے میں اجنبیت یا غیریت کا ایک خاص تصور پروان چڑھایا جاتا ہے۔ کلچر اور ہندوستانی ورثے کے نام پر توہمات اور فرضی داستانوں کو حقیقت کے طور پر ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔ اخلاق کی تعلیم کے نام پر بھی ہندو اخلاقیات اور ہندو روحانیات کی تعلیم دی جاتی ہے۔[20] دلت، آدیباسی اور ہندوستانی سماج اور ہندوستانی تاریخ کے تمام غیر برہمنی اجزا کے سلسلے میں بے اعتنائی یا نظر اندازی کا رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔[21] ودیا بھارتی کے لٹریچر میں اخلاقی و روحانی قدروں کی جو تفصیل دی گئی ہے ان میں ‘ہندو فلسفہ حیات سے شعوری عقیدت’، (हिंदू जीवन-दर्शन के प्रति ज्ञानयुक्त श्रद्धा) ‘سماج ہی خدا کا روپ ہے’، وغیرہ جیسی باتیں بھی شامل ہیں جن سے اخلاقی یا روحانی تعلیم کا رخ واضح ہوجاتا ہے۔[22] یوگا، موسیقی، سنسکرت، اخلاقی و روحانی تعلیم اور جسمانی تربیت، ان پانچ مضامین کو ‘بنیادی مضامین’ کی حیثیت حاصل ہے۔ ویدک میتھس جیسے مضامین بھی اضافی طور پر شامل ہیں۔[23]
گذشتہ صدی کے اواخر سے ان حضرات نے اعلیٰ تعلیم پر بھی خصوصی توجہ مرکوز کی ہے۔ نصف صدی قبل ناگپور میں بھارتیہ شکشن منڈل قائم کیا گیا جس کا مقصد ‘‘ایسے بھارتی نظام تعلیم کا فروغ جس کی جڑیں بھارت کی تہذیب میں ہوں، جو بھارتی قدروں پر مبنی اور بھارت پر مرکوز مقاصد کا حامل ہو’’ قرا ردیا گیا ہے۔[24] اس وقت ملک کی تمام ریاستوں میں اور تقریباً سات سو اضلاع میں اس کی شاخیں موجود ہیں۔ مشن ریسرچ کا کام کرتا ہے، عوامی بیداری کے لیے تحریکات چلاتا ہے، سرکاری پالیسی میں انٹروینشن کرتا ہے، اساتذہ، انتظامیہ، سرپرستوں کے تربیتی پروگرام کرتا ہے، مہمات چلاتا ہے، کتابیں شائع کرتا ہے اور ان سب ذرائع سے اپنے مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔[25] اسی طرح گڑگاؤں میں ایک ہندو ایجوکیشن بورڈ ہے۔ اس کے بھی مقاصد مماثل ہیں۔
اعلیٰ تعلیم کے سلسلے میں ان کا وژن کیا ہے، اس کی وضاحت دو اہم دستاویزوں سے ہوتی ہے۔ ایک تو وہ مشورے ہیں جو بھارتیہ شکشن منڈل نے مرکزی حکومت کو پیش کیے ہیں اور بعد میں انھیں کتابی صورت میں شائع کردیا ہے۔[26] دوسرے ہندو ایجوکیشن بورڈ کی شائع کردہ دستاویز ہے، جس کا عنوان Positioning Bharat as a Knowledge Leader by Re-architecting our Higher Education System[27] ہے۔
ان دستاویزات میں بہت سی قابل قدر باتیں بھی ہیں۔ مثلاً تعلیم کو زیادہ سے زیادہ عام کیا جائے اور اسے عام آدمی سے جوڑا جائے۔ میڈیکل کالجوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہو تاکہ ڈاکٹروں اور آبادی کا تناسب ترقی یافتہ ممالک کے مماثل ہوسکے۔ تحقیق اور ایجاد و اختراع کو فروغ دیا جائے۔ فراڈ اور بدعنوانیوں کو روکا جائے۔ تعلیم کو ہندوستانی ضرورتوں سے ہم آہنگ کیا جائے، وغیرہ۔ ان سب کے سلسلے میں بعض اہم عملی مشورے بھی دیے گئے ہیں۔
لیکن ان میں کئی تجاویز وہ ہیں جن پر مخصوص نظریاتی چھاپ ہے۔ مثلاً یہ کہا گیا ہے کہ میڈیکل کا صرف ایک ہی کورس ہو اور اس میں بھارت کے روایتی طریقوں آیورویدا، سِدھا وغیرہ کے مفید عناصر کو عصری طب کے اچھے عناصر کےساتھ جوڑا جائے اور اسی امتزاج کی تعلیم تمام میڈیکل کالجوں میں دی جائے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے کورسوں میں ‘نیائے’ اور ‘درشن’ کے مختلف مضامین شامل ہوں۔ انسانی علوم میں ہندوستانی روایات اور ہندوستانی فلسفہ علم کو اساسی اہمیت دی جائے، وغیرہ۔ ان کا ایک اہم مطالبہ یہ ہے کہ تعلیمی اداروں کو زیادہ سے زیادہ آزادی دی جائے تاکہ وہ آزادانہ طور پر اپنا تعلیمی پروگرام تشکیل دے سکیں، اپنا نصاب تیار کریں اور خود ہی ڈگریاں دیں۔ سب سے اہم اور قابل ذکر مشورہ ‘قدروں کی تعلیم’ (value education) سے متعلق ہے۔ اعلیٰ تعلیم میں قدروں کی تعلیم اور تہذیب اور اخلاق کی تعلیم کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ لیکن اخلاق کی تعلیم کا ان کا تصور ہندو فلسفوں کی بنیاد پر تعلیم ہی کا ہے۔ چناں چہ دونوں دستاویزوں میں چار پرش ارتھ (चार पुरुषार्थ or पुरुषार्थचतुष्टय, धर्म, अर्थ, काम और मोक्ष) کی بات کہی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ انھیں ویلیو ایجوکیشن کی بنیاد بننا چاہیے۔ یا وجود کی وحدت کے تصور کو ذہن نشین کرانے کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے۔
‘‘The oneness of the soul residing in every individual and theomnipotent Almighty must be realized.’’[28]
تعلیمی اداروں کے اس وسیع جال اور انھیں منظم کرنے اور ان کی رہ نمائی کرنے والے کل ہند اور ریاستی سطح کے اداروں کے علاوہ بھی تعلیمی محاذ پر سنگھ کی متعدد تنظیمیں اور ادارے سرگرم ہیں۔ ودوت پریشد (विद्वत परिषद) ایک تربیتی ادارہ ہے جو سنگھ کے فلسفہ تعلیم کے مطابق اساتذہ وغیرہ کی تربیت کے لیے ماسٹر ٹرینرز کی تربیت کا کام کرتا ہے۔[29] لکھنؤ میں ایک تحقیقی ادارہ، بھارتیہ شکشن شودھ سنستھان، تعلیم سے متعلق موضوعات پر تحقیق و ریسرچ کے میدان میں سرگرم ہے۔ وسیع کیمپس، لائبریری اور سائیکولوجی لیب وغیرہ جیسی سہولتوں سے آراستہ اس سینٹر سے ایک جرنل بھی شائع ہوتا ہے۔[30] بھارتیہ شکشن شودھ پتریکا (भारतीय शिक्षा शोध पत्रिका) کے نام سے شائع ہونے والا یہ جرنل باقاعدہ یوجی سی سے منظور شدہ ہے۔[31]
بھارتیہ شکشن منڈل نے چند سال پہلے ملک میں ہورہی ریسرچ کو مخصوص نظریاتی رخ دینے کے لیے ایک تحریک شروع کی ہے۔ ریسرچ فار ریسرجنس فاونڈیشن (Research for Resurgence Foundation RFRF) نامی ایک ادار ہ قائم کیا گیا۔ اس نے اپنشدوں کو بنیاد بناکر ایک مخصوص طریقہ تحقیق (research methodology) تشکیل دیا۔ اس ادارے کے تحت ملک کی اہم جامعات اور علمی اداروں میں (مثلاً آئی آئی ٹی، ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنس، جے این یو، انا یونیورسٹی وغیرہ) ریسرچ کو گائیڈ کرنے والے پروفیسروں اور ریسرچ اسکالرز کے ٹریننگ ورکشاپ کرائے جاتے ہیں اور انھیں خاص موضوعات پر خاص طریقے سے ریسرچ کرنے کے لیے آمادہ کیا جاتا ہے۔ اس کام میں سہولت کے لیے ناگپور میں ترقی یافتہ کمپیوٹر سرورز پر مبنی ایک ڈاٹا سینٹر اور نالج ریسورس سینٹر بھی کام کررہا ہے۔[32]
بیرون ملک سنگھ کے ادارے ان کوششوں کو کمک بھی فراہم کرتے ہیں اور مغربی ملکوں میں بھی ان تصورات کے مطابق نظام تعلیم پر اثر انداز ہونے کے لیے کوشش کرتے ہیں۔ یوایس اے میں سرگرم، ہندو ایجوکیشن فاونڈیشن، وہاں کی تمام پچاس ریاستوں کے 80 شہروں میں اپنی شاخیں شروع کرچکا ہے۔ [33] اسی طرح کا ادارہ یوکے میں، یوکے ہندو ایجوکیشن بورڈ کے نام سے کام کررہا ہے۔ [34] ہندو ایجوکیشن بورڈ جو ورلڈ ہندو ایجوکیشن کانفرنس منعقد کرتا ہے اس میں ہمارے ملک کے علاوہ، یوایس اے، یوکے، آسٹریلیا، سنگاپور، فجی، ترینینداد، ماریشس اور بعض یورپی ملکوں سے بھی مندوبین شریک ہوتے ہیں۔[35] اگلی کانفرنس 4-6 نومبر 2022کو بنکاک میں منعقد ہونے والی ہے۔[36]
سنگھ کی تعلیمی کوششوں کا ایک اہم میدان تعلیمی جہد کاری ہے۔ بہت منظم طریقے سے اور بڑے صبر و استقلال کے ساتھ وہ ملک میں اپنے تعلیمی نظریات کے مطابق ٹھوس تبدیلیوں کے لیے مسلسل کوشش کرتے ہیں۔ مشہور تعلیمی جہد کار، دیناناتھ بترا (پیدائش 1930)کے قائم کردہ شکشا سنسکرتی اتھان نیاس[37] (शिक्षा संस्कृति उत्थान न्यास) اور شکشا بچاؤ آندولن سمیتی (शिक्षा बचाओ आंदोलन समिति) ہے۔[38] اول الذکر کا کام مانیٹرنگ اور ایڈووکیسی ہے جب کہ موخر الذکر عوامی تحریک چلانے کا کام کرتی ہے۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ملکی سطح پر ایک آزاد تعلیمی کمیشن ہونا چاہیے۔ انھوں نے اپنے طور پر ایک اکیس رکنی بھارتیہ شکشا نیتی آیوگ تشکیل بھی دے دیا ہے۔ اس کمیشن کا ملک کے تعلیمی فیصلوں پر غیر معمولی اثر ہے۔
ناشرین کتب اور سرکاری اداروں کو قانونی نوٹسیں دینا، قانونی کارروائیاں کرنا اور عوامی دباؤ کے ذریعے ان کی مطبوعات میں مطلوبہ تبدیلیاں لانا یہ آندولن کا اہم کام ہے۔ این سی ای آرٹی کی متعدد کتابوں میں اپنی مسلسل کوششوں سے بڑی تبدیلیاں لانے میں وہ کام یاب ہوئے ہیں۔ عالمی سطح کے معروف مصنفوں اور سونیا گاندھی جیسی بااثر سیاست دانوں کے خلاف بھی انھوں نے قانونی کارروائیاں کی ہیں۔[39]
سنگھ کی تعلیمی کاوشوں کا یہ تفصیلی جائزہ ہم نے اس لیے پیش کیا ہے کہ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس تحریک نے تعلیم کو کتنی اہمیت دی ہے اور ان کے سماجی اثر و رسوخ میں تعلیم کا کتنا اہم حصہ ہے اور یہ کہ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس تحریک کے وسیع اثرات کاوقتی احتجاجوں اور مزاحمت سے مقابلہ کرلیں گے وہ کتنی سادہ لوحی کے شکار ہیں۔ تعلیمی محاذ پر ایک لمبی اور صبر آزما جدوجہد کے بغیر اس تحریک کا اور اس کے پیش کردہ چیلنج کا مقابلہ ممکن نہیں ہے۔
اس جائزےسے ملک میں ہورہی تعلیمی تبدیلیوں کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ اپنی طویل اور ہمہ گیر کوششوں سے انھوں نے نہ صرف ایک متبادل نظام تعلیم کھڑا کیا ہے بلکہ اس نظام تعلیم کی افادیت پر رائے عامہ کو بھی اس حد تک ہم وار کرلیا ہے کہ اب سرکاری پالیسی بھی تیزی سے انھی کا رنگ اختیار کرتی جارہی ہے۔ نئی تعلیمی پالیسی کی پشت پر بھی یہ طاقتور تحریک ہی ہے۔ خود اس تحریک کے ذمے داروں کا دعویٰ ہے کہ نئی تعلیمی پالیسی میں ہندتو تعلیمی نظریہ سازوں کی ستر فی صد سے زیادہ تجاویز شامل کرلی گئی ہیں۔[40]
قومی تعلیمی پالیسی (NEP)
دو سال قبل اسی ماہ (29 جولائی 2020) مرکزی کابینہ نے، پارلیمنٹ میں باقاعدہ مباحثے کی روایت سے انحراف کرتے ہوئے نئی قومی تعلیمی پالیسی (National Education Policy 2020) کو منظوری دے دی تھی۔ قومی سطح پر نافذ ہونے کے بعد متعدد ریاستوں میں بھی اس کے نفاذ کا آغاز ہوچکا ہے۔ پالیسی پر متعدد تفصیلی تجزیے شائع ہوچکے ہیں۔ یہاں ان تفصیلات سے تعرض کیے بغیر اپنے موضوع کی مناسبت سے، اس پالیسی کے چند پہلوؤں پر ہم تبصرہ کریں گے۔
۱۔ پالیسی کا ایک اہم موضوع تعلیم کا بھارتی کرن ہے، یعنی یورپ مرکوز مغربی نظام کے بجائے ملک کی ضرورتوں اور یہاں کی تہذیب اور قدروں سے ہم آہنگ نظام تعلیم کا فروغ پالیسی کا اہم مقصد ہے۔ یہ بات دستاویز میں متعدد جگہوں پر کہی گئی ہے۔[41] اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں ہوسکتا بلکہ یہ اصول عین مطلوب ہے اور اس کا استقبال ہونا چاہیے لیکن اصل مسئلہ سنگھ کا مخصوص ‘نظریہ بھارت’ (idea of India) ہے جو ملک کی آبادی کے محض ایک چھوٹے سے حصے کی نمائندگی کرتا ہے اور آبادی کے بڑے حصے کے حوصلوں، امنگوں اور ان کے عقائد، نظریات اور تہذیب و قدروں کو عملاً بھارت کا حصہ تسلیم نہیں کرتا۔ مثلاً بھارت کے علوم (Knowledge of India) کے عنوان سے پالیسی میں کہا گیا ہے کہ اس سے مراد ‘قدیم ہندوستان’ (Ancient India) کے علوم اور ‘جدید ہندوستان کے لیے ان کا کنٹری بیوشن’ ہے۔[42] ظاہر ہے بھارت صرف قدیم ہندوستان اور جدید ہندوستان کا نام نہیں ہے۔ عہد وسطی میں ایک شاندار اسلامی دور گزرا ہے جس کا گراں قدر تہذیبی و علمی ورثہ، ملک کا اہم حصہ ہے۔ سکھ مت، بدھ مت، اور بھکتی اور وحدت کی بہت سی تحریکوں نے بھی وسیع علمی و ادبی ورثہ تشکیل دیا ہے، ذات پات کے خاتمے اور برابری کی طاقت ور تحریکیں چلی ہیں، خود ہندو مذہب کے مختلف فرقوں اور ان کے درمیان اصلاح کی بہت سی تحریکوں نے فروغ پایا ہے۔ سنگھ کا نظریہ بھارت ان سب کو نظر انداز کرتا ہے۔ ان سب کو نظر انداز کرکے تشکیل پانے والا نظام تعلیم صحیح معنوں میں ملک کے تمام طبقات کی نمائندگی نہیں کرسکتا۔
۲۔ یہی معاملہ قدروں کا بھی ہے۔ اخلاقی تعلیم اور قدروں کی تعلیم پر جو زور پالیسی میں دیا گیا ہے، ا س سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ سابقہ پالیسیوں میں بھی قدروں کی تعلیم کی بات موجود تھی لیکن عملاً اس پر بہت کم ہی توجہ ہوسکی ہے۔ اگر یہ پالیسی اخلاقیات کو تعلیم کا اہم جز بنانے میں کام یاب ہوتی ہے تو یہ ملک کی بڑی خدمت ہوگی، لیکن یہاں بھی اخلاق کے تصور کو جس طرح مخصوص نظریاتی دائرے میں قید کردیا گیا ہے، وہ نہایت تشویش ناک ہے اور اندیشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں مجوزہ اخلاقی تعلیم بجائے ملک میں بہتر تبدیلی لانے کے، مزید تخریب کاری اور تفریق کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ 1986کی قومی تعلیمی پالیسی میں زیادہ زور جمہوری مزاج، سائنسی مزاج، سیکولرزم، شمولیت وغیرہ جیسی قدروں پر تھا۔[43] زیر نظر پالیسی میں اخلاقیات کے عنوان سے اصل زور قدیم روایتی قدروں یا ہندو قدروں پر ہے۔ اس میں کہا گیا ہے:
‘‘ہندوستانی علوم و افکار کا شاندار قدیم و دائمی ورثہ اس پالیسی کی رہ نما روشنی رہی ہے۔ گیان، پرگیہ، اور ستیہ کے حصول کی کوشش ہندوستانی فلسفے میں انسانوں کا اعلیٰ ترین مقصد رہی ہے۔ قدیم ہندوستان میں تعلیم کا مقصد محض اس دنیا کی زندگی یا اسکول کے بعد کی زندگی کی تیاری کے لیے معلومات کا حصول نہیں رہا بلکہ (اصل مقصد) ذات کی مکمل معرفت اور نجات رہا ہے۔’’[44]
مساوات کو تمام تعلیمی پالیسیوں نے اہم ترین قدر کے طور پر شامل رکھا تھا۔ یہ دستور ہند کی بھی ایک نہایت اہم قدر ہے لیکن یہ نئی پالیسی مساوات کو ایک رہ نما اصول کے طور پر قبول کرنے میں اور عدم مساوات کو ملک کا ایک اہم مسئلہ تسلیم کرنے میں نہایت مذبذب محسوس ہوتی ہے۔
۳۔ پالیسی میں جگہ جگہ سنسکرت پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔ سنسکرت کو متعدد ہندوستانی زبانوں کے ساتھ ایک زبان کے طور پر نہیں دیکھا گیا ہے بلکہ اسے خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ کہا گیا ہے کہ ہر سطح پر سنسکرت کی تعلیم کا نظام رہے گا۔ سنسکرت کو صرف زبان کے طور پر نہیں بلکہ اس سے وابستہ ‘مذہبی و سیکولر علوم’ کو بھی خصوصی اہمیت دی گئی ہے۔ سنسکرت نالج سسٹم کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور اسے نظام تعلیم کا اہم حصہ بنانے کی بات کہی گئی ہے۔[45] سنسکرت پر مبنی قدیم نالج سسٹم نے ملک کے عوام میں بے نظیر تقسیم بھی پیدا کی تھی۔ یہ علوم آبادی کے ایک چھوٹے سے حصے تک محدود تھے اور آبادی کے بڑے حصے کو ان علوم سے عمدًا دور رکھا گیا تھا۔ چناں چہ اس کے نتیجے میں غالب اقلیت (اعلیٰ ہندو ذاتوں)کے تعصبات نے ان علوم میں بھی نفوذ کیا ہے اور ملک کی بہت بڑی آبادی کو ان علوم کو اپنا ورثہ سمجھنے میں مشکل درپیش ہے۔ ایسے میں اسے ملک کے نظام تعلیم کی اہم بنیاد قرار دینا اور اسے ملک کی علمی شناخت بناکر سب پر مسلط کرنے کی کوشش کرنا، یہ نہ صرف غیر منصفانہ عمل ہے بلکہ اس سے تعلیم پر گہرے منفی اثرات مرتب ہونے کا بھی امکان ہے۔
۴۔ ملک کی تاریخ میں یہ پہلی تعلیمی پالیسی ہے جس میں تعلیم کے خانگی کرن کی نہایت واضح الفاظ میں ہمت افزائی کی گئی ہے۔ کہا گیا کہ ‘‘خانگی اور خیراتی زمرے کی تعلیم کے میدان میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے ہمت افزائی کی جائے گی’’[46] اس پالیسی کو اکثر ماہرین ورلڈ بینک کے اعلیٰ تعلیم کے ماڈل کی تائید سمجھ رہے ہیں۔[47] ورلڈ بینک اعلیٰ تعلیم کو ایک قابل تجارت شے باور کراتا ہے۔ یعنی یہ کہ بڑی کمپنیوں کو سرمایہ کاری کرکے تعلیمی ادارے چلانے چاہئیں اور طلبہ کو بھاری فیس دے کر اعلیٰ تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ فیس دینے کے لیے سرمایہ نہ ہو تو بینک سے لون لے سکتے ہیں۔ ہمارے ملک میں اعلیٰ تعلیم اسی رخ پر آگے بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔ لیکن اس پالیسی کے بعد اندیشہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کو سرکاری گرانٹ بتدریج کم کی جائے گی اور انھیں بازار کے بے رحم ہاتھوں کے حوالے کردیا جائے گا۔ عوامی خیراتی شراکت داری (PPP) کے ذریعے تعلیم کی مد کے عوامی فنڈ بھی بڑی کمپنیوں اور تجارتی گھرانوں کے قبضے میں چلے جائیں گے۔[48] ایک طرف تعلیم کے بھارتی کرن پر زور ہے اور دوسری طرف اعلیٰ تعلیم کے میدان میں بیرونی یونیورسٹیوں کے ملک میں داخلے کی راہ ہم وار کی گئی ہے۔[49] متعدد مطالعات[50] موجود ہیں کہ بیرون ملک کی نامور یونیورسٹیوں نے تیسری دنیا میں اپنے جو کیمپس کھولے ہیں وہ محض ان کے لیے کمائی کا ذریعہ ہیں۔ اصل یونیورسٹی کے معیار تعلیم سے ان بیرونی کیمپسوں کی کوئی دور کی نسبت بھی نہیں ہے۔ یہ بھی تعلیم کو نہایت مہنگا اور عام آدمی کی دسترس سے باہر کرنے کی کوشش ہے۔ خانگی اداروں کی بہتات کے نتیجے میں ریزرویشن کی پالیسی بھی بے اثر ہوجائے گی اور کم زور طبقات کو اوپر اٹھانے کی جو کوشش ہوتی رہی ہے اس پر نہایت بے رحم روک لگ جائے گی۔
۵۔ تعلیم کو پیشے سے جوڑنا (vocationalisation) اس پالیسی کی اہم خصوصیت ہے۔ 5+3+3+4 کا جو ماڈل تجویز کیا گیا ہے اس میں بنیادی تعلیم آٹھویں کلاس ہی تک ہوگی۔ کہا گیا ہے کہ نصاب تعلیم پر اس طرح نظر ثانی کی جائے گی کہ پیشہ وارانہ صلاحیتوں کی ٹریننگ نیز قدروں اور تہذیب کی تعلیم کا عنصر بڑھایا جائے گا اور اصل تعلیم کا عنصر کم کیا جائے گا۔[51] ماہرین کو اندیشہ ہے کہ اس کے نتیجے میں سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے غریب طلبہ محض مذہبی اشلوکوں کی تعلیم اور کچھ تکنیکی صلاحیتیں حاصل کرکے نکلیں گے اور اعلیٰ تعلیم کے مواقع سماج کے خوشحال طبقات تک محدود ہوجائیں گے جو خانگی اداروں میں عصری تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کریں گے اور پرائیویٹ یونیورسٹیوں میں داخلے کی اہلیت پیدا کرسکیں گے۔ اس طرح یہ عدم مساوات اور بڑھے گی۔ یہی معاملہ گریجویشن کے کورس میں متعدد ایگزٹ کی پالیسی کا ہے۔ یعنی کہا گیا ہے کہ گریجویشن کے کورس میں ایک سال مکمل کرنے کے بعد ‘سرٹیفیکٹ’ کی سند دی جائے گی۔ طالب علم چاہے تو سرٹیفیکٹ کی سند پر اپنی تعلیم مکمل کرسکتا ہے۔ اسی طرح دوسال مکمل کرنے پر ڈپلومہ، تین سال پر بیچلرز اور چار سال کی تکمیل پر آنرز کی ڈگری دی جائے گی۔ یہ پالیسی اس لحاظ سے تو مفید ہے کہ درمیان میں تعلیم چھوڑنے والے طلبہ کو بھی سندیں ملیں گی لیکن ماہرین کا اندازہ ہے کہ دلت، اقلیت اور دیگر کم زور طبقات میں اس کی وجہ سے ڈراپ آؤٹ کی شرح بڑھ جائے گی۔
۶۔ دستور ہند میں اقلیتوں کا متعین ذکر صرف ایک جگہ آیا ہے (دفعہ 30) اور اس کا تعلق اُن کی تعلیم سے ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دستور میں اقلیتوں کی تعلیم کو کس قدر اہمیت دی گئی ہے۔ تعلیم کے مساوی مواقع کی بات تو دستور کی متعدد دفعات میں تمام شہریوں کے لیے کی گئی ہے لیکن دفعہ30 میں خاص طور پر ان کی تہذیبی قدروں کے مطابق تعلیم کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ دستور کی اس اسپرٹ کے پیش نظر تعلیمی پالیسیوں میں بھی ہمیشہ اقلیتی تعلیم سے متعلق کچھ نہ کچھ خصوصی باتوں کا ضرور ذکر ہوتا رہا ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی 1986 میں چوتھا حصہ (Part IV) تعلیم برائے مساوات کے عنوان سے موجود تھا۔ اس میں درج فہرست ذاتوں، قبائل وغیرہ کے ساتھ اقلیتوں کی تعلیم سے متعلق وضاحت کے ساتھ پالیسی تشکیل دی گئی تھی۔[52] 1992کے پروگرام آف ایکشن میں اقلیتوں کی تعلیم کا مستقل باب قائم کیا گیا تھا۔[53] حیرت کی بات ہے کہ اس نئی قومی تعلیمی پالیسی میں اقلیتوں کی تعلیم کا کوئی وژن نہیں ملتا۔ پوری دستاویز میں اقلیتوں کا ذکر صرف ایک آرٹیکل میں دو جگہ موجود ہے۔ ایک جگہ تمام پس ماندہ طبقات کو ایک ساتھ جوڑ کر سماجی ومعاشی لحاظ سے محروم گروہ (Socially and Economically Disadvantaged Groups SEDG) کا ذکر کیا گیا ہے، اس میں اقلیتوں کو بھی شامل کیا گیا ہے اور اس گروپ پر توجہ کی بات کہی گئی ہے۔[54] (ماہرین نے اس طرح تمام کم زور طبقات کو دیگر غریبوں کے ساتھ ملاکر ایک طبقہ بنادینے کے اپروچ کو بھی سخت نقصان دہ اور غیر حقیقی قرار دیا ہے) پالیسی کی اسی دفعہ کی ایک ذیلی شق میں تعلیمی لحاظ سے پس ماندہ اقلیتوں کے بچوں کی تعلیم کے لیے خصوصی کوششوں کی ضرورت کو تسلیم کیا گیا ہے۔[55] لیکن یہ خصوصی کوششیں کیا ہوں؟ اس کا کوئی ذکر نہیں ہے۔ حالاں کہ اس پالیسی کی دیگر ذیلی دفعات میں معذوروں، خواتین اور دیگر محروم طبقات کی تعلیم کے لیے خصوصی اقدامات کی تفصیل موجود ہے۔
پھر اقلیتوں کی تعلیم میں ان کی تہذیبی و مذہبی قدروں کا لحا ظ کیسے رکھا جائے اور دستور کی رہ نمائی کے مطابق، اقلیتی تعلیمی اداروں کو کیسے فروغ دیا جائے؟ اس پر پالیسی مکمل طور پر خاموش ہے۔
واضح رہے کہ تعلیمی پالیسی کا تفصیلی تجزیہ اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ ہم نے صرف ان چند اہم پالیسیوں کا جائزہ لیا ہے جو ہمارے خیال میں دور رس اثرات کی حامل ہیں اور جن سے عدل و مساوات کے بنیادی تقاضے مجروح ہوتے ہیں۔
ان پالیسیوں کے اثرات کیا ہوں گے؟ سرکاری گرانٹ میں کٹوتی اور خانگی اور کارپوریٹ اداروں کے نظام تعلیم پر غلبے کے نتیجے میں تعلیم بہت مہنگی ہوجائے گی اور پس ماندہ طبقات کے لیے ریزرویشن ختم ہوجائے گا۔ دوسری طرف تعلیم کے نئے ڈھانچے کے نتیجے میں تعلیم کو درمیانی مرحلوں میں منقطع کرنا آسان ہوجائے گا۔ پھر اقلیتوں کی تہذیبی و مذہبی حساسیت کو نظر انداز کرنے کے نتیجے میں مین اسٹریم تعلیم سے ان کی دوری بڑھے گی۔ ان پالیسیوں کی وجہ سے اندیشہ یہ ہے کہ اعلیٰ اور معیاری تعلیم چند مخصوص طبقات تک محدود ہوجائے گی اور دلت، آدیباسی، مسلمان اور دیگر محروم طبقات کے لیے اعلیٰ تعلیم انتہائی دشوار ہوجائے گی۔
اس پالیسی پر تبصرہ کرتے ہوئے سنگھ کے ترجمان آرگنائزر میں شائع ایک مضمون میں کہا گیا ہے:
‘‘قومی تعلیمی پالیسی کا ایک اہم مقصد ہر طالب علم کو کلی تعلیم فراہم کرنا ہے… پالیسی، نصاب تعلیم میں ہمہ گیر تبدیلی کی وکالت کرتی ہے تاکہ اسکول سے لےکر اعلیٰ تعلیم کی ہر سطح پر،کلی تعلیم کو یقینی بنایا جاسکے۔ طلبہ کو بھارت کے شاندار علوم، یہاں کی تہذیب اور عظیم قدروں کی تعلیم دی جائے گی تاکہ وہ ملک کی مالا مال تہذیب اور روایات پر فخر کرسکیں۔’’
اس پالیسی کے نفاذ کی عملی شکل کیا ہوگی؟ اس کا اندازہ بعض ان اقدامات سے ہوتا ہے جو اس پالیسی کے حوالے سے ملک کی مختلف ریاستوں میں کیے جارہے ہیں۔ حکومت گجرات نے سرکلر جاری کیا ہے کہ بھگوت گیتا کی تعلیم کو اسکول کے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ طلبہ گیتا کے اشلوک یاد کریں اور اس کی تشریحات کی اسٹڈی کریں۔ اتر پردیش میں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور بابا رام دیو کی کتابوں کو یونیورسٹی نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ کرناٹک کی حکومت نے نصابی کتابوں میں ٹیپو سلطان سے متعلق مواد میں تبدیلیاں لانے کا اعلان کیا ہے۔[56] نائب صدر جمہوریہ نے اعلان کیا کہ تعلیم کے زعفرانی کرن میں کوئی برائی نہیں ہے اور ہم کو سنسکرت سیکھنا چاہیے تاکہ ہم اپنی مذہبی کتابوں کو پڑھ سکیں جو علوم کا بیش بہا خزانہ ہیں۔[57]
مطلوب رسپانس
اس پوری بحث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندتوکے مجموعی نظام فکر کی گہری چھاپ ہندتو کے تعلیمی نظریات پر بھی موجود ہے۔ اور تعلیم کے محاذ پر بھی ہندتو کے ان علم برداروں کی فکر ہندو اعلیٰ ذاتوں کے ایک چھوٹے سے طبقے کے مفاد اور تہذیب و نظریے کی نمائندگی کرتی ہے۔ اس تعلیمی فکر پر ہمارا فکری و عملی رسپانس کیا ہو؟ اس حوالے سے ہم درج ذیل نکات تجویز کرنا چاہیں گے۔
۱۔ ان کے تعلیمی فکر کا سب سے بنیادی نقص ان کا تصور ہند (Idea of India) ہی ہے۔ وہ ہندوستان کو اعلیٰ ہندو ذاتوں کی چھوٹی سی اقلیت کے مفادات، تصورات، تاریخ اور اس کے ورثے تک محدود سمجھتے ہیں۔ تعلیم کے محاذ پر سب سے زیادہ ضروری یہی ہے کہ اس تصور ہند کو چیلنج کیا جائے۔ ہمارے ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف تہذیبی گروہ آباد ہیں۔ ان میں سے ہر ایک کا اپنا تہذیبی وجود، اپنی تاریخ، اپنا ورثہ اور اپنی سوچ ہے۔ بھارت کا وجود ان سب سے مل کر ہی مکمل ہوتا ہے۔ بھارتی کرن کا ایسا تصور جس میں ان مختلف تہذیبی و مذہبی اکائیوں کو نظر انداز کردیا جائے، نہ صرف نامکمل تصور ہے بلکہ سخت تفرقہ پرداز اور ملک کے لیے نہایت مہلک تصور ہے۔ اس مہلک تصور نے قومی زندگی کے مختلف شعبوں پر نقصان دہ اثرات مرتب کیے ہیں۔ تعلیم پر اس ایکسکلوزوسٹ (exclusivist) تصور کے اثرات بہت دیر پا ہوں گے۔ اس بات کو بڑے پیمانے پر زیر بحث لانے کی ضرورت ہے۔
۲۔ تعلیم کے مغربی تصور کو چیلنج کرنے والی بات، کلی تعلیم (holistic education) کی بات اور تعلیم کو عام کرنے کی بات، یہ سب باتیں ایسی ہیں جن کا استقبال ہونا چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ہندتو کے تعلیمی فکر میں یہ سب باتیں محض نعرے (rhetoric) کی حد تک ہی موجود ہیں۔ تعلیمی فکر کے تفصیلی بیانیے میں ان نعروں کو عمل کا روپ دینے کا کوئی ٹھوس پروگرام نظر نہیں آتا۔ یوگیندر یادو نے اپنے ایک مضمون میں اس کے لیے بہت اچھی مثالوں کا استعمال کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تعلیم کے بھارتی کرن کا ہندتو اپروچ محض تڑکا اپروچ ہے۔ یعنی نوآبادیاتی تعلیمی نظام کی اصل ڈش کو ڈسٹرب کیے بغیر اوپر سے ہندتو کا محض ‘تڑکا’ بڑھادینا تاکہ ہندوستانی رنگ و بو بھی اس ڈش میں شامل ہوجائے۔ یہ تڑکا ازمنہ قدیم کے علمی ورثے کا مبہم حوالہ ہوسکتا ہے، یا ‘گرو ششیہ’ روایت کا ذکر ہوسکتا ہے یا بھارت کے ‘جگت گرو’ ہونے کے دعوے ہوسکتے ہیں۔ وہ اس کے مقابلے میں ‘اچار’ یا ‘مربہ’ اپروچ کی وکالت کرتے ہیں۔ چاہے مٹیریل مغرب سے ہی آئے لیکن اسے بھارتی مسالہ لگاکر، پکاکر، میرینیٹ کرکے، اس طرح تیار کیا جائے کہ مسالہ اندر تک جذب ہوجائے۔ یہ عمل سست رفتار، گہرا لیکن بامعنی عمل ہے اور اسی سے صحیح معنوں میں بھارتی نظام تعلیم کی نشوو نما ہوسکتی ہے۔[58]
اس بحث کو بھی ہمیں بڑے پیمانے پر اٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس اپروچ کی پہلی ضرورت یہ ہے کہ تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہندوستان کی تمام علمی و تہذیبی روایات کی قدر کی جائے اور سب کے کنٹری بیوشن کو تسلیم کیا جائے۔ ہندوستان کے ہر طبقے کی تعلیمی ضرورتوں کو مقصد و فلسفے کی سطح پر بھی محسوس کیا جائے اور اسٹرکچر کی سطح پر بھی۔ مشترک قدروں کو تعلیم کی مشترک بنیاد بنایا جائے اور جن قدروں یا تہذیبی و فلسفیانہ سطحوں پر تنوع پایا جاتا ہے وہاں ہر ایک کو اپنے تہذیبی پس منظر کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا حق اور موقع خوش دلی سے فراہم کیا جائے۔ ایسے ہی اپروچ کے نتیجے میں، ہمارا نظام تعلیم ملک کے تمام طبقات کی ترقی میں معاون ہوسکتا ہے۔
۳۔ سنگھ کے تعلیمی تصورات پر ایک تنقید یہ کی جاتی ہے کہ اس کا مقصد ‘وفادار رعایا’ loyal subjectsکی تیاری ہے، ‘آزاد شہریوں’ (free citizens) کی نہیں۔ انگریز ملک کے باشندوں کو اپنی وفادار رعایا بنانا چاہتے تھے۔ ان کے تعلیمی نظام کا مقصد، اپنے سامراج کی خدمت کے لیے وفادار کارکن تیار کرنا تھا۔ آزادی کے بعد اس بات کی کوشش ہوتی رہی کہ حریت، مساوات، جمہوریت وغیرہ قدروں کو نظام تعلیم کے ذریعے عام کیا جائے۔ تعلیم کے ذریعے آزاد لیکن ذمے دار شہری تیار ہوں۔ وہ لوگ تیار ہوں جو اپنے حقوق سے واقف ہوں اور ان حقوق کا ذمے دارانہ استعمال کرسکیں۔ سنگھ کے تصور تعلیم میں حقوق کا حوالہ بہت کم آتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اصل چیز فریضہ یا ڈیوٹی ہے، ملک کے لوگوں کو حقوق کی بات کم کرنی چاہیے، اصل بات فرائض کی ہونی چاہیے۔[59] ہم اس سے قبل لکھ چکے ہیں کہ سنگھ کے فلسفے میں فرد، محض قوم کا ایک حصہ یا جز ہے اور اصل چیز قوم ہے۔[60] قوم کے مفادات ہی اصل ہیں۔ اس تصور کا اثر ان کے تعلیمی نظریات پر بھی ہے۔ تعلیم میں بھی حقوق کے تعلق سے بیداری لانے پر ان کا زور بہت کم ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی میں بھی اس کاا ثر صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔
اسلامی نظام فکر میں حقوق اور فرائض کا توازن پایا جاتا ہے۔ یہ بحث اٹھانے کی ضرورت ہے کہ فرد کے حقوق کی بھی بڑی اہمیت ہے۔ ریاست اصلاً فرد کے حقوق کی ہی حفاظت کے لیے وجود میں آتی ہے۔ فرد کا اپنے حقوق سے واقف ہونا اور ایک ذمےد ار شہری کے طور پر رول ادا کرنا، یہ اجتماعی ترقی کے لیے بھی ناگزیر ہے۔ نظام تعلیم میں بھی حقوق اور فرائض، دونوں کی تعلیم و تربیت کا متوازن انتظام ہونا چاہیے۔ افراد بیدا ر نہ ہوں اور اپنی حریت اور اپنے حقوق کے سلسلے میں حساس نہ ہوں تو معاشرہ پس ماندگی کی طرف بڑھنے لگتا ہے، استبدادی حکم رانی کی راہیں ہم وار ہونے لگتی ہیں اور ترقی و ذمہ دارانہ کنٹری بیوشن کے داعیے کم زور پڑنے لگتے ہیں۔
۴۔ ششی تھرور جب وزارت فروغ انسانی وسائل میں وزیر تھے تو انھوں نے ہندوستانی تعلیم کے مسائل کو انگریزی حرف ای (E) سے شروع ہونے والے چار الفاظ کی مدد سے بیان کیا تھا۔[61] وسعت (expansion) یعنی تعلیمی اداروں اور تعلیمی عمل کو اتنا وسیع کردینا کہ ہر ہندوستانی کی تعلیم تک رسائی ہوسکے، مساوات (equity) یعنی تعلیم میں صدیوں سے پائی جانے والی عدم مساوات کو دور کرنا، پس ماندہ طبقات، اقلیتوں وغیرہ کو اونچاا ٹھانا یہاں تک کہ فرقوں، ذاتوں اور طبقات کی بنیاد پر عدم مساوات ختم ہوجائے، معیار (excellence) یعنی تعلیم، تعلیمی نصاب، اساتذہ، اداروں وغیرہ کو معیاری بنایا جائے اور روزگار (employment)۔ ان چاروں مسائل کو جب تک توازن سے ایڈریس نہ کیا جائے ملک کے تعلیمی مسائل حل نہیں ہوسکتے۔ ہندتو کی تعلیمی فکر میں ان مسائل کا کوئی حل نہیں پایا جاتا۔ ایک چھوٹے سے طبقے کو احساس برتری اور مصنوعی تفاخر کے جذبات سے آراستہ کرکے کارپوریٹ کی خدمت کے لائق بنادینا، یہ اپروچ خود ان مقاصد سے راست متصادم ہے جو کلی تعلیم کے خوب صورت عنوان سے یہ حضرات نعروں کی صورت میں بیان کرتے رہتے ہیں۔
۵۔ مذکورہ مقاصد کے حصول کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ سرکار تعلیم کی مکمل ذمے داری قبول کرے۔ ہند و تہذیب سمیت، عہد قدیم و عہد متوسط کے تمام معاشروں میں تعلیم کو سماج کی ذمے داری سمجھا گیا ہے۔ تعلیم کے بھارتی کرن کی طرف پہلا اہم قدم یہی ہوسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں سرکار تعلیم کو اپنی اصل ذمے داری سمجھے اور جی ڈی پی کا کم سے کم آٹھ فیصد تعلیم پر خرچ کرنا شروع کرے۔ )اس سال ہمارا تعلیمی خرچ جی ڈی پی کا محض تین فیصد ہے) بنیادی تعلیم ہی نہیں بلکہ اعلی تعلیم بھی سرکار کی ذمےداری ہے۔ ہر طبقے کے طلبہ کی ایک قابل لحاظ تعداد کو سرکار کی جانب سے مفت اعلیٰ تعلیم ملنی چاہیے۔ معیاری تعلیمی ادارے سرکاری خرچ پر قائم ہونے چاہئیں۔
۶۔ اخلاقی قدروں کی تعلیم کا ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ سب کے لیے لازمی تعلیم میں محض متفق علیہ قدریں شامل ہونی چاہئیں۔ ملک کے دستور کی قدریں تمام ہندوستانی عوام کی نمائندگی کرتی ہیں۔ ان کے علاوہ سچائی، ایمان داری، اخوت و احترام، عدل و انصاف، خواتین کا احترام، ماحولیات کا تحفظ، امن و امان اور انسانی جان کا احترام، مساوات، انسانی حقوق وغیرہ ایسی متعدد قدریں ہیں جن پر وسیع اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ اخلاقی تعلیم ان ہی متفق علیہ قدروں تک محدود ہونی چاہیے۔
ان کے علاوہ ہندوستان جیسے ہمہ تہذیبی معاشرے، مختلف مذاہب،مذہبی فلسفوں، اور اخلاقی و روحانی قدروں کی تعلیم کا ایسا انتظام کیا جاسکتا ہے کہ طلبہ کو اپنی پسند کا مضمون منتخب کرنے کا حق دیا جائے۔ کوئی اگر گیتا، یا وید، یا قدیم ہندو روحانیت کا مطالعہ کرنا چاہتا ہے تو اسے اس کا موقع حاصل رہے اور کوئی اسلام کا، عیسائیت کا مطالعہ کرنا چاہے، مغربی سیکولر فلسفہ اخلاق پڑھنا چاہے یا کسی روحانی فلسفےکو پڑھنا چاہے تو اس کا موقع ملنا چاہیے۔
دنیا کے بہت سے ملکوں میں یہ نظام موجود ہے۔ کیمریج کے تحت آئی جی سی ایس ای کا جو نظام پوری دنیا میں رائج ہے اس میں اسلامیات،اسلامک اسٹڈیز، ہندو اسٹڈیز وغیرہ مضامین طلبہ کے لیے دستیاب ہیں کہ وہ چاہیں تو ان میں سے اپنی پسند کے مضامین منتخب کرسکتے ہیں۔ ہندوستان جیسے ملک میں ایسا ہی نظام تعلیم قابل عمل ہے جس میں طلبہ کو اپنی پسند کی اخلاقی، روحانی یا مذہبی تعلیم کا موقع دیا جائے۔ یہی اپروچ یوگا وغیرہ کے سلسلے میں جسمانی تعلیم کے معاملے میں اختیار کیا جاسکتا ہے۔ چاہے تو یوگا لیں یا جاپانی مارشل آرٹ لیں یا جسمانی صحت کا کوئی بھی تسلیم شدہ پروگرام منتخب کریں۔
۷۔ ہم مسلمانوں کے لیے اس پوری تحریک میں یہ بڑا سبق ہے کہ سماج میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کے لیے تعلیم اور تحقیق کی بڑی بنیادی اہمیت ہے۔ تعلیم کے محاذ پر اونچی سطح کی کوششوں کا آج بھی ہمارے یہا ں فقدان ہے اور یہ ہماری کم زوری کا ایک بڑا سبب ہے۔ قومی تعلیمی پالیسی بیک وقت چیلنج بھی ہے اور موقع بھی۔ چیلنج کیسے ہے، اس پر ہم اوپر تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں۔ اگر مسلمان موثر انتظام نہ کریں تو مغربی تہذیب کے بعد مشرکانہ تہذیب کا چیلنج زیادہ طاقت ور تعلیمی چیلنج بن کر سامنے آئے گا۔ لیکن دوسری طرف اس تعلیمی پالیسی میں عوامی خیراتی شراکت داری (PPP) ماڈل، تعلیمی اداروں کی زیادہ سے زیادہ خود مختاری، وغیرہ جیسے امور مواقع بھی فراہم کرتے ہیں کہ ہم زیادہ سے زیادہ آزاد تعلیمی ادارے قائم کرنے پر توجہ دیں۔ ہمارے خیال میں اس حوالے سے درج ذیل باتیں خصوصیت سے قابل توجہ ہیں۔
الف) زیادہ سے زیادہ اسکولوں اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا قیام تاکہ ان میں ہماری تہذیبی و دینی قدروں کے مطابق تعلیم کا انتظام ہوسکے۔
ب) جزوقتی دینی تعلیم کو ایک تحریک بنادینا یہاں تک کہ سرکاری و دیگر اسکولوں اور کالجوں میں جانے والے طلبہ کی موثر دینی تعلیم کا انتظام ہر چھوٹی بڑی مسلم آبادی میں ہوسکے۔
ج) آن لائن، تعطیلاتی اور دیگر اس طرح کے دینی کورسوں کا موثر نظم تاکہ طلبہ کو معاصر نظام تعلیم کے نقصان دہ اثرات سے بچایا جاسکے۔
د) ملک بھر کے نظام تعلیم پر گہری نظر رکھنے، متبادل نظام تعلیم کی تشکیل و نظریہ سازی، اور بروقت پالیسی انٹروینشن کا موثر انتظام، اس کے لیے تحقیق و ریسرچ، ایڈوکیسی اور عوامی بیداری کی خاطر موثر ادارہ سازی۔
حواشی و حوالہ جات
[1] A.G. Noorani (2015) Moonje and Massoleini in Frontline magazine Januray 23, 2015
[2] دیکھیے اسکول کی ویب سائٹ
https://bms.bhonsala.in/Encyc/2019/11/29/About-Us.html
[3]
[4] تفصیل کے لیے دیکھیے ان کی ویب سائٹ
http://davcmc.net.in/
[5]
http://davcmc.net.in/FB8EF082-F397-4A65-A640-E6A79FA736C3/CMS/Page/DAV-Movement
[6] لالہ لاجپت راے کے تعلیمی تصورات کو سمجھنے کے لیے دیکھیں
Lala Lajpat Rai (1966) The Problem of National Education in India; Publications Division, Ministry of Information and Broadcasting, Government of India. New Delhi
[7]
[8] مالویہ اور بنارس ہندو یونیورسٹی کے تعلیمی فلسفے کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ فرمائیں
L. Renold (2005). A Hindu Education: Early Years of the Banaras Hindu University. India: OUP India.
[9] Desh Raj Sirswal () Dr. Ambedkar’s Ideas on Education and Social Change, in Wesleyan Journal of Research, Vol. 4 No. 1 Bankura
[10] مولانا کے تعلیمی تصورات اور خدمات کے لیے ملاحظہ ہو
Abduhu, Rasool. G. (1973). The educational ideas of Maulana Abul Kalam Azad, Sterling Publishers, New Delhi.
[11]
Preeti Trivedi (2017) Architect of A Philosophy; Bhartiya Sahitya Inc,; pages 181-250
[12]
K. Iwanek (2022). Endless Siege: Education and Nationalism in Vidya Bharati Schools. Oxford University Press Oxford. Pages 33-86
[13]
Anirban Ganguly and Avadhesh Singh )2017) Syama Prasad Mookerjee: His Vision of Education; Wisdom Tree; New Delhi
[14]
Dr. Aasha Sharma (2015) राष्ट्रऋषि नानाजी देशमुख के शैक्षिक बिचारों की उपादेयता at https://www.sieallahabad.org/hrt-admin/book/book_file/d5237bfc7e3a7dcbce2c363c11ab2dfc.pdf
[15] ودیا بھارتی کے نظام تعلیم کو سمجھنے کے لیے ملاحظہ ہو
K. Iwanek (2022). Endless Siege: Education and Nationalism in Vidya Bharati Schools. Oxford University Press Oxford.
[16] https://vidyabharti.net/
[17]
Venkatesh Ramakrishnan (1998) “A spreading network” in Frontline November 20.1998 pages 11-13
[18] https://vidyabharti.net/about-vidya-bharati
[19]
Rucha Ambikar (2005) Embodying the Enemy; Seattle University, USA at https://www.academia.edu/1968525/Embodying_the_Enemy;
[20]
K. Iwanek (2022). Endless Siege: Education and Nationalism in Vidya Bharati Schools. Oxford University Press Oxford.
[21] تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو
Krzysztof Iwanek. (2015). The Textbook of Chanakya’s Pupils. Vidya Bharati and Its Gauravsali Bharat Textbook in Uttarakhand. Archiv orientální. 83. 255-+.
[22] https://vidyabharti.net/ethics-spiritual-education
[23]
See Dimension-Other Subjects section on the website https://vidyabharti.net/
[24] http: //www.bsmbharat.org/about-us/
[25] ibid
[26]
Bharatiya Shikshan Mandal (2018) Bharatiya Shikshan Outline: Integrated and Holistic Education Policy; Bharatiya Shikshan Mandal; Nagpur.
[27]
Hindu Education Board (2015) Positioning Bharat as a Knowledge Leader by Re-architecting our Higher Education System; HEB; New Delhi.
[28]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 12
[29] https://vidyabharti.net/vidwat-parishad
[30] تفصیل کے لیے دیکھیں ادارے کی سائٹ
http://www.bsmbharat.org/about-us/
[31] جرنل کی ویب سائٹ
[32] ادارے کی ویب سائٹ
[33] https://hindueducation.org/
[34] تفصیل کے لیے ادارے کی ویب سائٹ ملاحظہ فرمائیں
https://hindueducation.org/
[35] ملاحظہ ہو کانفرنس کی رپورٹ
https://www.hindueducationboard.org/2014-Hindu%20Educational%20Conference%20Report.pdf
[36] https://www.hindueducationboard.org/upcoming-event
[37] https://economictimes.indiatimes.com/news/politics-and-nation/Saffron-outfit-wants-Modi-government-to-revamp-education/articleshow/35509561.cms
[38]
https://www.bhaskar.com/news/RAJ-JHUN-MAT-latest-jhunjhunu-news-035517-1829182-NOR.html
[39]
سنگھ کی تعلیمی تنظیمیں اس سلسلے میں کس صبر و استقلال کے ساتھ اور کتنے بڑے پیمانے پر یہ کوششیں انجام دیتی ہیں، ان کی چشم کشا تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو:
An Ice Age for Indian scholarship
[40] نئی تعلیمی پالیسی پر اس تحریک کے اثرات اور اثر انداز ہونے کے طریقے کو سمجھنے کے لیے دیکھیں ایک اہم مضمون
https://www.thequint.com/news/education/rss-impact-on-new-education-policy-2020-decoding-demands retrieved on 18-06-2022
[41]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 4 para 2 and 4.29 page 16
[42] Ibid; Page 16, 4.27
[43]
Govt of India Deptt of Education Ministry of HRD (1998) National Policy of Education 1986; Para 3.4 Page 5.
[44]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 5
[45] Ibid Page 14, 4.17
[46] Ibid Page 11, 3.6
[47] تفصیل کے لیے دیکھیں
Jandhyala Tilak (2008). Higher education: A public good or a commodity for trade?: Commitment to higher education or commitment of higher education to trade. PROSPECTS. 38. 449-466. 10.1007/s11125-009-9093-2.
[48]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 48, Para 18.11
[49] Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 39 Para 12.8
[50] مثلاً ملاحظہ فرمائیں
The Task Force on Higher Education in Developing Countries (2000) Higher Education in Developing Countries: Peril and Promise; World Bank; Washington DC.
[51]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 12, Paras 4.4. and 4.5
[52]
Govt of India Deptt of Education Ministry of HRD (1998) National Policy of Education 1986; Para 4.8 Page 10
[53]
Govt of India Deptt of Education Ministry of HRD (1998) National Policy of Education 1986 Programme on Action199 ; Page 107-113
[54]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 24 para 6.2
[55]
Ministry of HRD, Govt of India (2020) National Education Policy 2020; Page 24 para 6.2.4
[56]
https://www.hindustantimes.com/cities/bengaluru-news/karnataka-likely-to-drop-tipu-sultan-s-tiger-of-mysore-title-from-textbooks-101648702196190.html
[57]
https://thewire.in/government/whats-wrong-with-saffronisation-of-education-vice-president-venkaiah-naidu
[58]
Yogendra Yadav (2022) at https://theprint.in/opinion/indianising-education-isnt-about-macaulay-or-saffronisation-its-tadka-vs-achar/894811/ retrieved on 18-06-2022
[59] اس خطرناک نقطہ نظر کی ایک جھلک ملاحظہ ہو
https://www.deccanherald.com/opinion/first-edit/rights-not-duties-basis-of-our-republic-1074619.html
[60] سید سعادت اللہ حسینی؛ اشارات، ہندتو کی فکری اساسیات؛ زندگی نو؛ جولائی 2021 ص 11-12
[61]
https://www.dailypioneer.com/2013/avenues/education-2020.htmln