ہندتو کا ہندوستان اور مسلمان

اشارات کے صفحات میں اب تک ہم نے ہندتو کے افکار کو واضح کرنے کی کوشش کی۔ سیکولر سیاست کی ان کم زوریوں پر روشنی ڈالی جس نے اس تحریک کے فروغ میں مدد دی۔ خود مسلم سیاست کی کم زوریوں کا جائزہ لیا۔ مسلمانوں کی حیثیت و پوزیشن کو واضح کرتے ہوئے ان کے مطلوب رویے سے متعلق اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور گذشتہ چھ ماہ سے مختلف موضوعات کے تحت ہم اپنے مطلوب بیانیے کو زیر بحث لارہے ہیں۔ اب اس بحث کو مکمل کرتے ہوئے اس تحریک کی اور اس کے اثرات کی موجودہ عملی صورت حال اور اس کے پیدا کردہ چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کی تدابیر پر کچھ باتیں عرض کرنا چاہتے ہیں۔

ہندتو کی تحریک کیا چاہتی ہے؟
ان صفحات میں اب تک جو بحث کی گئی ہے اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہندتو کے علم بردار کسی مخصوص ایجابی ایجنڈے کی بنیاد پر متحد نہیں ہوئے ہیں۔ ان کے پاس ایسا کوئی مشترکہ پروگرام یا ملک کی تعمیر و ترقی کا کوئی منفرد وژن نہیں ہے جو اس تحریک کی اصل بنیاد بن سکے۔ معاشی و ترقیاتی ایجنڈے کے نام پر جو کچھ وہ پیش کرتے ہیں وہ یا تو کم و بیش وہی باتیں ہیں جو ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں پیش کرتی ہیں یا ایسی باتیں ہیں جو ان کے قدیم لٹریچر میں تو موجود ہیں لیکن آج ان باتوں سے ان کا دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس وقت عملاً کوئی سیاسی گروہ، دین دیال اپادھیائے کے معاشی و ترقیاتی فلسفے اورسودیشی نظریات کے سب سے زیادہ خلاف ہے تو وہ یہی برسر اقتدار گروہ ہے۔ [1]

ہندو راشٹر کا کیا مطلب ہے؟ اس کا سیاسی وژن کیا ہے؟ وہ کیسے موجودہ ہندوستان سے مختلف ہوگا؟ اس کی پالیسیوں اور اس کے وژن کی انفرادیت کیا ہے؟ اس کے حوالے سے بہت سی متضاد باتیں ان کے مفکرین کے یہاں ملتی ہیں۔ جہاں گولوالکر جیسے قدیم مفکرین، ویدوں کی بنیاد پر ایک ریاست کا خواب دکھاتے ہیں[2] وہیں سیشادری جیسے جدید اسکالر اسے ایک غیر سیاسی تصور مانتے ہیں جس کا ریاست سے تعلق نہیں ہے[3]۔ ان وجوہ سے بعض مفکرین کی یہ بات درست معلوم ہوتی ہے کہ جس چیز کو وہ ہندو راشٹر کہتے ہیں وہ ایک نعرے اور چند سطحی جذباتی پالیسیوں سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔[4]

یہ سیاست ساری کی ساری منفی ایجنڈے پر کھڑی ہے۔اس کا سب سے اہم محرک حسد کا جذبہ ہے۔اس حسد کے سرچشمے کئی ہیں۔ معاصر مسلم فرقے کی پرکشش تہذیبی قدریں اور سادہ اور اپیل کرنے والے عقائد، چار دانگ عالم میں اس کا پھیلاؤ اور عالمی حیثیت، نشاۃ ثانیہ کی طاقتور تحریکیں اور ان کی پائیدار و ٹھوس بنیادیں، اور سب سے بڑھ کر اس کا تاریخی ورثہ، ان سب عوامل نے مل کر ‘اجتماعی حسد’ کی ایک منفرد کیفیت کو پروان چڑھایا ہے۔ سیاسی نظریہ ساز گڈا وارتھی نے مشہور فرانسیسی مصنف والٹیر(Francois Voltaire 1694-1778) کا یہ قول نقل کرنے کے بعد کہ آپ کسی ایسی چیز سے نفرت نہیں کرسکتے جس سے آپ دیوانہ وار محبت نہ کریں، بہت صحیح لکھا ہے کہ:

“مسلمانیت یا مسلمان پن سے اگر کسی تنظیم کو ‘محبت ’ہے تو وہ کوئی سیکولر تنظیم نہیں بلکہ آر ایس ایس ہے۔ آر ایس ایس کے اکثر پروگرام، اسلام کے بارے میں ان کے ایک خاص مشاہدے (اور اس کے گہرے اثر) کو ظاہر کرتے ہیں۔ دیگر باتوں کے ساتھ آر ایس ایس کے نزدیک مسلمان ہونے کا مطلب، اتحاد (یا امت واحدہ) کا ایک گہرا احساس، ڈسپلن، باہم اخوت، اور ایک دوسرے کے لیے خلوص و محبت ہے۔ (مسلمان ہونے کا مطلب) ایک دوسرے کے لیے قربانی کا جذبہ اور اپنے فرقے (اور اصولوں )کے لیے ضرورت پڑنے پر جنگ کے لیے بھی تیار رہنے کی صلاحیت ہے۔ جدید دنیا میں یہ آئیڈیل ایک نہایت شاندار خواب کی حیثیت اختیار کرتے ہیں۔ بدترین تشدد کا نشانہ بنے رہنے کے باوجود (آر ایس ایس کے تصور میں ) مسلمان روحانی، اخلاقی اور جذباتی رجسٹر میں بہت بالاتر نظر آتے ہیں۔ ” [5]

اجتماعی حسد کی اسی نفسیات نے نفرت، انتقام اور ایذاپسندی (sadism)کی انتہائی شدید کیفیات کو جنم دیا ہے۔ حالاں کہ گذشتہ ستّر برسوں میں ہندوستانی مسلمان معاشی، سیاسی اور تعلیمی لحاظ سے اس قدر پیچھے ہوچکے ہیں کہ ا ن سے حسد کا بظاہرکوئی سبب باقی نہیں رہا۔ لیکن ان کا تاریخی اور تہذیبی ورثہ، غالباً ان عناصر کے اندر ابھی بھی عدم تحفظ کا اور کم تری کا احساس پیدا کرتا ہے۔ چناں چہ اسی ورثے کو بنیاد بناکر پورے اکثریتی سماج میں خوف پیدا کرنے کی کوشش، اس تحریک کی اور اس کے بیانیوں کی آج سب سے نمایاں خصوصیت بن چکی ہے۔

ماہر سیاسیات راج شری چندرا [6]نے فرقہ پرستانہ تشدد کی موجودہ لہر کی پشت پر تین اہم تصورات کی نشان دہی کی ہے۔ ایک اجتماعی نرگسیت (collective narcissism)، یعنی تاریخ کے حوالے سے خود کی برتری کا ایک واہمہ یامصنوعی تصور یا نوسٹالجیا اور ایک شاندار ماضی کا تصور اور اس پر فخر کا جذبہ۔ ان کے مطابق نرگسیت پر مبنی یہ سرنگی تصور (tunnel vision) حالات و واقعات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہی دکھا پاتا ہے۔ ہم نے گذشتہ شمارے میں اس کا تفصیل سے جائزہ لیا ہے۔ دوسرے، شدید اجتماعی احساس مظلومیت (the collective sense of victimhood) یعنی یہ تصور کہ اس ملک کی اکثریت انتہائی مظلوم ہے۔ اس کے مذہبی مقامات، اس کے تیوہار، جلسے جلوس، اس کی انا اور عزت نفس، اس کی تاریخ اور ورثہ، اس کی ڈیموگرافی، اس کے مفادات، سب کچھ ظلم و استحصال کے شکار ہیں۔ اور ایک پسماندہ کم زور اقلیت، اپنی ‘سازشوں ’ کے ذریعے انھیں برسوں سے ظلم کا شکار بنائے ہوئے ہے اور آج بھی بنارہی ہے۔ تیسرے، جذبہ انتقام (collective revenge) یعنی اس مصنوعی ظلم کا بدلہ لیا جانا چاہیے۔ تاریخ کا انتقام لینا چاہیے۔ منہ بھرائی کا انتقام لینا چاہیے۔ جو کچھ سہولتیں اقلیتوں کو دی جاتی رہی ہیں ان کا انتقام لیا جانا چاہیے۔ جو ‘ترجیحی’ پوزیشن انھیں حاصل ہے وہ چھینی جانی چاہیے۔ جو طاقت و قوت، جو مراعات، جو عالمی اثر و رسوخ اور جو تہذیبی کشش انھوں نے صدیوں سے انجوائے کی ہے، اس سے انھیں محروم ہونا چاہیے اور یہ چیزیں اب ہندوؤں کو حاصل ہونی چاہئیں۔

قوموں کی تاریخ بتاتی ہے کہ ایسے منفی جذبات کی عمر ہمیشہ کم ہوتی ہے۔ تاریخ کے کسی مرحلے پر ایسے جذبات شدید ہیجانی کیفیات ضرور پیدا کرتے ہیں لیکن جب تک ان جذبات کی بنیاد کسی ٹھوس مذہبی یا نظریاتی تصور پر نہ ہو (جیسے صیلبیوں کے یہاں تھی) وہ مستقل تعلقات کی بنیاد نہیں بن سکتے۔

متوازن و درست مشاہدہ، موثر حکمت عملی کی پہلی ضرورت ہے
اس تحریک اور اس کے پیدا کردہ خطرات کا مقابلہ کیسے ہو؟ اس سوال پر غور کرنے کے لیے پہلی ضرورت یہ ہے کہ حالات کا درست تجزیہ اوربالکل ٹھیک مشاہدہ (precise observation) ہو۔ چیلنجوں کے درمیان مشاہدے کی معمولی غلطی بھی آگے کے راستے کو کھوٹا کردیتی ہے۔ جب تک حالات کا درست فہم نہ ہو اس وقت تک نہ مناسب حکمت عملی تک پہنچنا ممکن ہوتاہے اور نہ اس کے موثر نفاذ کا کوئی امکان ہے۔ہمارا خیال یہ ہے کہ اس وقت عام طور پر ہمارے اہل فکر صورت حال کو اس کے تمام زاویوں سے دیکھ نہیں پا رہے ہیں۔ خوف، بے بسی اور ناامیدی کی نفسیات ایسی سرنگ میں پہنچادیتی ہے جہاں سے منظر نامے کا ایک بہت چھوٹا سا حصہ ہی دکھائی دیتاہے اور اسی چھوٹے سے حصے پر اعصاب کا ارتکاز ہوجاتا ہے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا کے شور و غوغا نے ایسی صورت حال پیدا کردی ہے کہ ہر خوف پیدا کرنے والا واقعہ اپنے حجم سے کئی گنا بڑھ کر دکھائی دینے لگا ہے۔ چناں چہ قتل و غارت گری اور فتنہ و فساد کا ہر واقعہ قتل عام (genocide) کی شروعات محسوس ہونے لگتا ہے۔ بل ڈوزر کی بے ہودہ سیاست، ملک گیر سطح پر مسلم آبادیوں کی تباہی کے وسیع منصوبے کی شروعات لگنے لگتی ہے۔ فرقہ پرستوں کی چھوٹی بڑی بزدلانہ شر انگیزیاں بیس کروڑ انسانوں کی وسیع آبادی کے اندر ‘اسپین کی تاریخ ’کے اعادے کا اندیشہ پیدا کردیتی ہیں۔

یہ خوف، یہ شدت احساس اور یہ اجتماعی پیرانوئیا (collective paranoia) ہمارے حوصلوں کو پست کرتا ہے اور آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کی امنگ میں مخل ہوتا ہے۔ اس وقت امت کی بڑی ضرورت یہ ہے کہ وہ ترقی کرے، تعلیم، معیشت اور سیاست کے میدانوں میں آگے بڑھے، اخلاقی وسماجی قوت حاصل کرے اور اپنی کم زوری و انفعالیت (vulnerability) دور کرے۔ احساس عدم تحفظ کی شدت یہ ہونے نہیں دیتی۔ یہ احساس کہ اب جان شدید خطرے کی زد میں ہے، آدمی کے حواس کو مکمل طور پر اپنے تحفظ پر مرکوز کردیتا ہے۔ وہ دوسری ساری فکریں چھوڑ دیتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ ہم حالات کو حقیقی روپ میں دیکھیں۔ ویسے ہی دیکھیں جیسے کہ وہ ہیں۔ نہ کم نہ زیادہ۔

سارے ہندتو وادی یکساں نہیں ہیں
ہندوتو کی تحریک نے جو جذبات پیدا کیے ہیں اس نے کئی طرح کے لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کیا ہے۔ان میں وہ قدامت پسند مذہبی لوگ بھی ہیں جن کی مذہبی علامات سے گہری جذباتی وابستگی ہے اور مذہبی انا کا استحصال کرکے انھیں ساتھ لیا گیا ہے۔ وہ نسل پرست بھی ہیں جو مخصوص ذاتوں کی بالاتری اور روایتی ورن نظام کے احیا کا خواب دیکھتے ہیں۔ وہ قوم پرست بھی ہیں جو ساورکر اور گولوالکر کے تصورات اور ان کے قوم پرستانہ وژن سے متاثر ہیں۔ وہ انتہا پسند بھی ہیں جو بی جے پی اور آر ایس ایس کے انداز کار سے بھی مطمئن نہیں ہیں اور مزید جارح اور سخت موقف کے حامی ہیں۔ وہ مفاد پرست بھی ہیں جو اپنا یا اپنےگروہوں کا معاشی و سیاسی مفاد اِس میں دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں یا اقلیتوں کی پوزیشن کم زور ہو۔بیرون ملک رہنے والے وہ ہندوستانی بھی ہیں جو عیسائیت، اسلام اور یہودیت کے منظم مذہبی تصورات اور ان تصورات پر مبنی تحریکات سے مرعوب ہیں اور ہندوازم کا بھی ایسا ہی منظم اور مشنری روپ چاہتے ہیں۔وہ جرائم پیشہ عناصر بھی ہیں جن کی چھوٹی بڑی مجرمانہ ٹولیوں نے اس تحریک کو جائے پناہ بنالیا ہے۔ ایک تعداد اُن نسبتاً معتدل قوم پرستوں کی بھی ہے جو ہندوستان کی عالمی سطح پر ترقی دیکھنا چاہتے ہیں اور قدیم سیکولر جماعتوں کی موروثی یا بدعنوان سیاست کو اس راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ اس تحریک کی افرادی قوت میں ان سب قسموں کے افراد شامل ہیں۔ ان مختلف النوع عناصر کو جوڑنا اور انھیں ایک تحریک کا حصہ بنانا بلاشبہ ان کا تنظیمی کمال ہے۔ لیکن ایسا اتحاد پائیدار نہیں ہوسکتا اور دیر سویر اس کی فالٹ لائن نمایاں ہوکر ضرورانتشار پیدا کرے گی۔ ہم لوگ جب انھیں دیکھتے ہیں تو ایک مکمل طور پر ہم خیال، ہم آہنگ اور انتہائی منظم گروہ کے روپ میں دیکھتے ہیں۔ جب کہ ایسا نہیں ہے۔

یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ ان مختلف قسم کے افراد کے مفادات اور نظریات میں بھی کافی تنوع پایا جاتا ہے اورمنفی جذبات کی شدت کے اعتبار سے بھی ان کی کئی سطحیں ہیں۔ مسلمانوں سے شدید نفرت رکھنے والے جنونی عناصر بھی ہیں اور قدرے معتدل مزاج لوگ بھی ہیں۔ جب ہم صورت حال کو دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش کریں تو اس حقیقت کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ اس کا لحاظ نہ ہو تو ہمارے تجزیے غلط ہوجاتے ہیں اور غلط تجزیے غلط اور ضرر رساں اقدامات کا ذریعہ بنتے ہیں۔

ہندوستان کے عوام پر اس تحریک کا اثر اب بھی محدود ہے
ہمارے بعض تجزیہ نگار بی جے پی کی مسلسل انتخابی کام یابیوں سے یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ ہندوستان کے کم و بیش تمام غیر مسلم یا تمام ہندو، فرقہ پرست ایجنڈے کے مؤید اور اس کے ہم نوا ہیں۔ یہ بھی بالکل خلاف واقعہ نتیجہ ہے۔ عام طور پر یہ سمجھا جارہا ہے کہ یہ بی جے پی کے سب سے زیادہ عروج کادور ہے۔ لیکن اس دور میں بھی ملک میں بی جے پی کے ووٹروں کی تعداد 38 فیصد سے کم ہے۔ پرشانت کشور کے تجزیے کے مطابق بی جے پی کے ووٹوں کا شمار کنندہ (denominator) چالیس فیصد ہے۔ شمار کنندہ (denominator) کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ایسے لوگ جو بی جے پی کو ووٹ دے سکتے ہیں وہ زیادہ سے زیادہ چالیس فیصد ہیں۔انھیں جو بھی ووٹ ملے گا وہ اسی چالیس فیصد میں سے ملے گا۔ یعنی کم سے کم آدھے ہندو آج بھی بی جے پی کو ووٹ دینے کے لیے تیار نہیں ہیں۔اس بات کی تائید متعدد سروے رپورٹوں سے بھی ہوتی ہے۔ مثلاً پیو ریسرچ فاونڈیشن کی رپورٹ (جس کی کچھ اور تفصیل آگے آرہی ہے) میں کہا گیا ہے کہ ہندو ووٹروں کی انچاس فیصد تعداد نے 2019میں بی جے پی کو ووٹ دیا تھا[7]۔ایک اور سروے، سی ایس ڈی ایس، لوک نیتی، دی ہندو کے سروے میں بی جے پی کو ووٹ دینے والے ہندوؤں کا تخمینہ 44 فیصد کیا گیا ہے[8]۔

پھر جو لوگ ووٹ دیتے ہیں، وہ بھی صرف مسلم دشمنی میں یا بی جے پی کے فرقہ پرست ایجنڈے ہی کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے۔ ووٹ دینے کے مختلف اسباب ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک کے انتخابی نظام میں ووٹروں کی ایک بڑی تعداد، کسی پارٹی کی پالیسیوں سے متفق نہ ہونے کے باوجود انھیں ووٹ دینے پر مجبور ہوتی ہے۔ مسلمان بھی مختلف پارٹیوں سے بے شمار اختلافات کے باجود مختلف وجوہ سے انھیں ووٹ دیتے ہیں۔ ایسا ہی دوسرے ووٹروں کے ساتھ بھی ہوتا ہے۔

ہمارے یہاں سماج کے سنجیدہ مطالعے، سروے اور لوگوں کی سوچ اور رویوں سے متعلق ٹھوس اعداد وشمار مفقود ہیں جس کی وجہ سے محدود مشاہدات اور کم زور بنیادوں پر قیاس آرائیاں ہی ہمارے تجزیوں کی بنیاد بنتی ہیں۔ہمارے مذکورہ بالا احساسات بھی اگر چہ عام مشاہدے ہی کی بنیاد پر ہیں لیکن متعدد سروے رپورٹوں سے ان کی تائید ہوتی ہے۔ اس وقت ہمارے پیش نظر دو اہم سروے ہیں۔ ایک وہ بڑا کل ہند سطح کا تازہ سروے ہےجو امریکہ کے مشہور تھنک ٹینک پیو ریسرچ فاونڈیشن (واشنگٹن ڈی سی) نے کرایا تھا اور جس کی رپورٹ گذشتہ سال (جون 2021 میں) “ہندوستان میں مذہب: رواداری اور تفریق” (Religion in India: Tolerance and Segregation) کے عنوان سے شائع ہوئی۔[9] 234 صفحات کی اس رپورٹ میں ہندوستانی عوام کی سوچ، مزاج اور رویوں کے بارے میں بڑی اہم معلومات اور اعداد وشمار ملتے ہیں۔ سنجیدہ تجزیہ نگاروں اور اہل علم نے عام طور پر اس رپورٹ کو بڑی اہمیت دی ہے۔ پیو ریسرچ سینٹر ایک امریکی ادارہ ہے۔اس کا امکان کم ہے کہ ہندوستان کے معاملات میں اس کے سروے میں کسی قسم کی عصبیت یا سرکاری دباؤ حائل ہو۔ دوسرا سروے وہ ہے جو عظیم پریم جی یونیورسٹی کے سینٹر فار ریجنل پالیٹیکل اکنامی نے سی ایس ڈی ایس اور لوک نیتی کے تعاون سے کرایا اورجس کی ڈھائی سو صفحات کی رپورٹ ‘انتخابات کے دوران سماج اور سیاست’ (Politics and Society Between Elections 2019) کے عنوان سے شائع ہوئی[10]۔

پیو کے سروے کا خلاصہ بیان کرتے ہوئے اس کے محققین لکھتے ہیں:
“ہندوستانی، مذہبی رواداری کے سلسلے میں جوش و خروش کا بھی اظہار کرتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے مذہبی فرقوں کو (دوسرے فرقوں سے) الگ تھلگ بھی رکھنا چاہتے ہیں۔ یہ دو جذبات باہم متضاد محسوس ہوتے ہیں۔ لیکن ہندوستانیوں کے نزدیک ایسا نہیں ہے۔”[11]

اس سروے کے مطابق 85 فیصد ہندو یہ محسوس کرتے ہیں کہ تمام مذاہب کا احترام کرنا انتہائی ضروری ہے۔ [12]جس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہندوستانی عوام کی عظیم اکثریت آج بھی نفرت کے جنون کی شکار نہیں ہے۔اس رپورٹ میں مذہبی تفریق کو سمجھنے کے لیے ایک اشاریہ ‘مذہبی تفریق کا اشاریہ’ (index of religious segregation) تشکیل دیا گیا ہے۔اس اشاریہ میں زیادہ سے زیادہ اسکور 6 ہے جس کا مطلب زیادہ سے زیادہ تفریق میں یقین ہے۔ سروے کے اعداد و شمار کے مطابق ملک میں 13 فیصد ہندوؤں کا اسکور 6ہے۔(مسلمانوں میں یہ تناسب تھوڑا سا کم یعنی 12فیصد ہے) جب کہ 43 فیصد ہندو ایک سے تین کا اسکور رکھتے ہیں۔ یعنی مذہبی تفریق میں یقین نہیں رکھتے۔ [13]رپورٹ میں بہت سے حساس سوالات کے حوالے سے لوگوں کی سوچ کا اندازہ لگانے کی کوشش کی گئی ہے۔ مثلاً شرعی عدالتوں اور دارالقضا کا نظام فرقہ پرستوں کو بہت زیادہ کھٹکتا ہے۔ لیکن اس سروے میں تیس فیصد ہندوؤں نے مسلمانوں کے اس حق کو تسلیم کیا ہے کہ وہ اپنے عائلی معاملات کے تصفیے کے لیے شرعی عدالتیں قائم کریں اور ان سے رجوع کریں۔ [14]

کم و بیش یہی نتائج عظیم پریم جی یونیورسٹی کی رپورٹ سے بھی نکلتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق شدت پسند قوم پرستو ں کا تناسب ملک میں تقریباً ایک تہائی ہے جب کہ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں یہ تناسب 45 فی صد ہے۔[15] جو لوگ مسلمانوں کو وطن مخالف (unpatriotic) سمجھتے ہیں ان کی تعداد ہندوؤں میں ایک تہائی ہے۔ ان میں 12 فیصد بہت زیادہ وطن مخالف سمجھتے ہیں اور باقی لوگ، تھوڑے بہت وطن مخالف سمجھتے ہیں۔ [16] مسلمانوں کو انتہائی امن مخالف اور متشدد (extremely violent) سمجھنے والوں کا تناسب ہندوؤں میں گیارہ فیصد ہے۔[17] مذہب تبدیل کرانے والوں کو سزا دلانے کے چالیس فیصدلوگ مخالف ہیں۔ اعلیٰ ذات کے ہندوؤں میں یہ تناسب 35 فیصد ہے جب کہ دیگر ہندو طبقات میں یہ تناسب چالیس سے بھی زیادہ ہے۔ [18]

پیو فاونڈیشن کے سروے سے متعدد سنجیدہ تجزیہ نگاروں کی اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ بی جے پی کے ووٹروں کی قابل لحاظ تعداد بی جے پی کے فرقہ پرست ایجنڈے سے اتفاق نہیں رکھتی۔ بی جے پی کو ووٹ دینے والے ووٹروں کی محض نصف تعداد ہی یہ سمجھتی ہے کہ سچے ہندوستانی ہونے کے لیے ہندو ہونا نہایت ضروری ہے۔[19]بی جے پی کی تائید کرنے والوں میں 70 فیصد ہندو مذہبی تنوع کو ہندوستان کے لیے مفید سمجھتے ہیں۔[20]پیو کی ٹیم نے ہندتو کے وفادار پیروؤں کی تین خصوصیات نوٹ کی ہیں۔ وہ جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچے ہندوستانی ہونے کے لیے ہندو ہونا اور ہندی بولنا ضروری ہے اور جنھوں نے بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ سروے کے مطابق ہندو عوام میں ایسے لوگوں کا تناسب 30 فیصد ہے۔وسطی ہندوستان (اترپردیش، اتراکھنڈ، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ) میں یہ تناسب سب سے زیادہ یعنی 53 فی صد ہے، مشرق (بہار، جھارکھنڈ اور بنگال) میں 28 فیصد، مغرب (مہاراشٹر و گجرات) میں 26 فیصد ہے جب کہ جنوب(تلنگانہ، کرناٹک، اے پی، تمل ناڈو، کیرلہ) میں محض پانچ فیصد ہے۔ [21]اوپر جس مذہبی تفریق کے اشاریے کا ذکر کیا گیا ہے، اس کے حوالے سے بی جے پی کو ووٹ دینے والوں کےبھی 26 فیصد حصہ کا اسکور صفر ہے یعنی وہ بالکل مذہبی تفریق میں یقین نہیں رکھتے۔ [22]

ان سروے رپورٹوں کے نتائج سے مکمل طور پر اتفاق ضروری نہیں ہے۔ گذشتہ ایک سال میں صورت حال میں تبدیلیاں واقع ہوئی ہیں، یہ بات بھی سچ ہے۔ لیکن ان سے یہ بات ضرور واضح ہوتی ہے کہ اردو اخبارات، اردو سوشل میڈیا اور ہمارے مقررین و واعظین صورت حال کو جس انتہا پر جاکر دیکھتے اور دکھاتے ہیں وہ درست نہیں ہے۔

اس تجزیے سے ہمارے اس مشاہدے کی تائید ہوتی ہے کہ ہمارے ملک میں چار طرح کے لوگ ہیں۔ ایک چھوٹی تعداد اُن شدت پسند فرقہ پرستوں کی ہے جنھیں نفرت، حسد اور غیض و غضب کی شراب پلاکر اندھا کردیا گیا ہے۔ جو مسلمانوں کے بارے میں نہایت شدید نقطہ نظر رکھتے ہیں اور مختلف حساس موضوعات پر انتہاپسندانہ فرقہ پرست نقطہ نظر رکھتے ہیں۔ مذکورہ سروے رپورٹوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کی تعداد ہندو سوسائٹی میں چھ سے دس فیصد کے درمیان ہے۔ ہندی بولنے والے علاقوں میں یہ تناسب زیادہ ہے۔ اس کے بعد مشرقی ریاستوں میں، پھر مغربی ریاستوں میں، پھر شمال مشرق میں اور سب سے کم جنوبی ہندوستان میں ہے۔

دوسری ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو غلط فہمیوں کے شکار ہورہے ہیں۔ پہلے گروہ کے نفرت کے ایجنڈے کو دھیرے دھیرےسبسکرائب کررہے ہیں۔جتنا ہم غافل رہیں گے ان لوگوں کی تعداد بڑھتی رہے گی اور ہماری مشکلات میں اضافہ ہوتا رہے گا۔مذکورہ سروے رپورٹوں کی بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ ہندو آبادی میں یہ تناسب تقریباً بیس سے تیس فیصد ہے۔ اس میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ اس اضافے کو روکنا ہی اس وقت ہماری اسٹریٹجی کا سب سے اہم پہلو ہونا چاہیے۔

تیسرے ایک بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو ملک میں امن و امان چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کے بارے میں کوئی شدید منفی رجحان نہیں رکھتے۔ ان کے حقوق کی بھی تائید کرتے ہیں۔ لیکن خاموش ہیں۔ ظلم اور نفرت کے خلاف آواز بلند کرنے کا حوصلہ و ہمت نہیں پاتے۔ان کی ایک تعداد مختلف وجوہ سے بی جے پی کو ووٹ بھی دیتی ہے۔ ہندو آبادی میں ان افراد کا تناسب پچاس تا ساٹھ فیصد ہے۔ یہ تناسب کرناٹک کے سوا جنوبی ہند کی باقی ریاستوں میں بہت زیادہ ہے اور شمالی و وسطی ہند میں کم ہے۔

باقی پانچ تا دس فیصد لوگ وہ ہیں جو پوری جرأت کے ساتھ نفرت اور تفریق کے خلاف لڑرہے ہیں۔ مسلمانوں سے زیادہ، مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کررہے ہیں۔ان میں مختلف نظریاتی گروہوں کے افراد بھی ہیں، سماجی تحریکوں سے منسلک جہد کاربھی ہیں، ادیب، صحافی و دانش ور بھی ہیں، وکلاء، طلبہ اور اساتذہ بھی ہیں اور عام لوگوں کی بھی خاصی تعداد ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ملک میں ہر جگہ ہیں، یعنی معمولی فرق کے ساتھ شمال، جنوب، وسط ہند، مشرق، شمال مشرق، اور مغرب تمام علاقوں میں ان کا وجود ہے۔

نفرت کا سرچشمہ بھی اصلاً میڈیا ہے اور حالات کی مبالغہ آمیز تصویر کا بھی
ملک میں مسموم فضا پیدا کرنے کے لیے شاطر فرقہ پرست طاقتیں دو اہم ذرائع کو بڑی کام یابی سے استعمال کررہی ہیں۔ ایک تو میڈیا اور سوشل میڈیا اور دوسرےسیاست دان۔ میڈیا اور سوشل میڈیا میں نفرت، تفریق، خدشات اورانتہاپسند افکار جس شدت سے نظر آتے ہیں واقعہ یہ ہے کہ ملک کی حقیقی زندگی میں وہ شدت موجود نہیں ہے۔ میڈیا کے ذریعے نفرت بھی پھیلائی جارہی ہے اور اس نفرت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے خوف ناک پہلو کو بڑھا چڑھا کر دکھایا بھی جارہا ہے۔ میڈیا کے اس مبالغے کا اثر مسلمانوں کے میڈیا اور سوشل میڈیا پر بھی پڑتا ہے۔

یہ ایک طرح کی نفسیاتی جنگ (psychological war) ہے۔ خوف پیدا کرنے والے واقعات کا مسلسل پروپیگنڈہ، مستقبل کی انتہائی بھیانک منظر کشی، ہندتو کے علم برداروں کو انتہائی منظم، انتہائی طاقتور، بے پناہ عملی و ذہنی صلاحیتوں سے آراستہ اورغیر معمولی قوت و اثر کا حامل دکھانا، مسلمانوں، ان کی قیادتوں اور ان کے اداروں کو حد سے زیادہ بےبس و لاچار، کم فہم و بے عقل بلکہ کرپٹ و بے ایمان باور کرانا اور ان سب کے ذریعے مسلمانوں کے حوصلے اتنے پست کردینا کہ وہ مستقبل کے بارے میں کچھ سوچ بھی نہ سکیں، یہ سب اس نفسیاتی جنگ کے مقاصد ہیں۔ بعض نادان مسلمان بھی اس جنگ میں دانستہ یا نادانستہ آلہ کار بن جاتے ہیں۔

پریم جی یونیورسٹی کے محولہ بالا سروے کے بعض اعداد و شمار سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ سخت گیر قوم پرستی اور اکثریت پرستی ہمارے ملک میں اصلاً میڈیا کے ذریعےتخلیق کردہ ایک مصنوعی صورت حال ہے۔ جو لوگ میڈیا کا جتنا زیادہ ایکسپوژر رکھتے ہیں وہ اتنے ہی زیادہ سخت گیر قوم پرست ہیں۔ درج ذیل چارٹ ملاحظہ فرمائیے۔[23] ا س چارٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے جیسے میڈیا اور سوشل میڈیا کا ایکسپوژر بڑھتا جاتا ہے، انتہا پسندی بھی بڑھتی جاتی ہے۔ فیس بک اور ٹوئٹر سے جڑی نوجوان نسل میں انتہا پسندانہ افکار کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ اُن کے مشاہدات و جذبات کی تشکیل میں حقیقی زندگی سے متعلق ٹھوس حقائق کا رول کم اور سائبرستان کی مصنوعی ‘حقیقتوں’ (virtual relalities) کا رول زیادہ ہوتا ہے۔

بڑی آزمائشیں درپیش ہوسکتی ہیں لیکن آزمائشوں ہی سے یہ امت قوت پائے گی۔

حالات جس رخ پر جارہے ہیں، اس سے یہ اندیشے تو یقیناً ہیں کہ ہندوستانی مسلمانوں کی مشکلات بڑھیں گی۔یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان کو بڑی آزمائشیں درپیش ہوں۔اندیشہ ہے کہ کچھ علاقے پھر خوں ریز فسادات کی زد میں آئیں، کچھ لوگوں کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، مسلمانوں کے اداروں اور ان کی اجتماعی ہیئتوں کو تاراج کرنے کی کوششیں ہوں، تعلیم اور معیشت میں ان کی ترقی کی رفتار کو بریک لگانے کی سازشیں ہوں۔ ان کے تہذیبی و مذہبی تشخص اور ان کی عبادت گاہوں کے لیے خطرات بڑھادیے جائیں۔

یہ سب اندیشے درست ہیں لیکن یہ بات سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کی تاریخ میں یہ سب نئی باتیں نہیں ہیں۔ اس ملک کے مسلمانوں نے 1857 کا غدر دیکھا ہے، جس میں انگریزوں نے مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے غیض و غضب کی پوری قوت صرف کردی تھی اور دلی سے کلکتہ تک درختوں پر مسلمانوں کی نعشیں لٹکی ہوئی نظر آتی تھیں۔مسلمان 1947 میں تقسیم ملک کے موقعے پر انتہائی دردناک قتل عام سے گزرے ہیں۔حیدرآباد کے پولیس ایکشن جیسے متعدد بڑے علاقائی سانحوں کا سامنا کیا ہے۔ فسادات کے پیہم سلسلوں کے شکار بنتے رہے ہیں۔ہر زمانے میں مختلف عنوانات سے پولیس اور انتظامیہ کی زیادتیوں کے نشانے پر رہے ہیں۔ فرقہ پرست قوتیں آزادی کے بعد ہی سے سرگرم ہیں اور مسلمان ہر زمانے میں ان کے چیلنجوں کا سامنا کرتے رہے ہیں۔

یہ حالات نئے نہیں ہیں۔ لیکن ان حالات کی بنیاد پر جو شدتِ احساس اور خوف و مایوسی کی جو فضا پیدا کی جارہی ہے، وہ ایک نئی صورت حال ہے اور تشویش ناک ہے۔اس امت کے دشمنوں کی فہرست تیار کی جائے تواس وقت جوسب سے بڑا دشمن ہے وہ، ڈر، خوف یا مایوسی کی نفسیات ہے۔ کسی قوم کے لیے سب سے بڑی تباہی مایوسی و ناامیدی ہے۔ سخت حالات کی عمر مختصر ہوتی ہے لیکن اگر پست ہمتی اور خوف کی نفسیات عام ہوجائے تو اس کے اثرات دیر پا ہوتے ہیں۔ یہ نفسیات زندگی کی امنگ چھین لیتی ہے۔ خود اعتمادی کو مجروح کردیتی ہے۔ آگے بڑھنے اور ترقی کرنے کے حوصلوں کو ختم کردیتی ہے۔ اگر امید کی لو روشن رہے تو بڑی سے بڑی ناکامی اور بھیانک سے بھیانک سانحہ بھی قوموں کی کمر نہیں توڑسکتا۔ وہ اپنی خاکستر میں امید کی چنگاریوں کو چھپائے رکھتے ہیں اور مناسب وقت پر مثبت تبدیلی کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی ان چنگاریوں کو بھڑکاکر شعلہ بنادیتا ہے۔ اس کے برخلاف اگر امید و یقین کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جائے تو سائے اور واہمے بھی دہشت طاری کرنے لگتے ہیں۔ ہوا کے جھونکے سے بھی تباہ کن آندھی کا احساس ہوتا ہے۔ ایسی بزدل قوموں کو مارنے کے لیے کسی دشمن کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اندیشوں اور واہموں کی شکار ہوکر وہ اپنی موت آپ مرجاتی ہیں۔

ڈر اور خوف ایمان کی ضد ہے۔ اللہ پر ایمان رکھنے والا نہ کبھی خوف کا شکار ہوسکتا ہے اور نہ مایوسی کا۔ خوف شیطان کا ہتھکنڈہ ہے۔ اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیۡطٰنُ یُخَوِّفُ اَوۡلِیَآءَہٗ فَلَا تَخَافُوۡہُمۡ وَ خَافُوۡنِ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ وَ لَا یَحۡزُنۡکَ الَّذِیۡنَ یُسَارِعُوۡنَ فِی الۡکُفۡرِ ۚ اِنَّہُمۡ لَنۡ یَّضُرُّوا اللّٰہَ شَیۡئًا ؕ (وہ دراصل شیطان تھا جو اپنے دوستوں سے خواہ مخواہ ڈرارہاتھا۔ لہٰذا آئندہ تم انسانوں سے نہ ڈرنا، مجھ سےڈرنا اگر تم حقیقت میں صاحب ایمان ہو۔ جو لوگ آج کفر کی راہ میں دوڑ دھوپ کررہے ہیں ان کی سرگرمیاں تمھیں آزردہ نہ کریں، یہ اللہ کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکیں گے۔ آل عمران:۱۷۵)یہ یقین عام کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا کی کوئی طاقت بیس کروڑ مسلمانوں کو ختم نہیں کرسکتی۔

ان حالات کی عمر بھی ان شاء اللہ زیادہ طویل نہیں ہوگی۔ یہ دور گزرے گا۔ کوششوں کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ ان حالات سے ہم زیادہ طاقتور اور زیادہ موثر ہوکر نکلیں اور ہمارے ملک میں بھی حالات کے یہ تھپیڑے زیادہ بہتر فضا اور موثر اصلاحات کی راہیں ہم وار کریں۔ان حالات کو فیڈ بیک کی حیثیت سے لینے کی ضرورت ہے۔ ان مشکلات کا اصل مقصد یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہم اپنے احتساب کی طرف مائل ہوں۔ اُن کم زوریوں اور غلطیوں کا ادراک کریں جو اپنی تاریخ میں ہم مسلسل دہراتے رہے ہیں اور آج بھی دہرارہے ہیں۔ اپنے رویوں کو بدلیں۔ زیادہ قوت اور بہتر حکمت عملی کے ساتھ صحیح سمت میں جدو جہد کے لیے آگے بڑھیں۔ سخت حالات بعض قوموں کو کم زور کردیتے ہیں اور انھی جیسےحالات سے بعض قومیں زیادہ طاقتور اور زیادہ بااثر بن کر نکلتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے حوصلے باقی رہیں، خود اعتمادی باقی رہے اور ساتھ ہی جائزہ و احتساب کی اور خود کو بہتر رخ پر بدلنے کی اسپرٹ پروان چڑھے۔ ہمارے اہل فکر اور قیادتوں کی بنیادی ذمے داری انھی جذبات کو پروان چڑھانا ہے نہ کہ مبالغہ آمیز خوف اور مایوسی پیدا کرنا۔

حکمت عملی کا اہم ترین جز، اپنے اصولوں پر استقامت
ان حالات میں اسلام دشمن طاقتوں کو روکنے کا سب سے اہم طریقہ یہ ہے کہ ہم اپنے اصولوں پر پوری استقامت کے ساتھ جم جائیں۔ ایک خدا کی بندگی، اس کے احکام کی پابندی، زندگی کے ہر معاملے میں قرآن اور اسوہ رسول کی پیروی، حق کی دعوت اور اس کے لیے جدوجہد، یہ ہمارے اٹل اصول ہیں۔ ہماری شناخت کچھ نعروں سے یا خاص قسم کے ملبوسات سے نہیں بلکہ اصلاً ان اصولوں سے وابستہ ہے۔رنگ نسل، ذات و فرقہ کے تعصبات سے اوپر اٹھ کر ہر ایک کےلیے عدل و قسط، ہر قسم کے ظلم کا مقابلہ وغیرہ، یہ بھی ہمارے اٹل اصول ہیں۔ مزاحمت کی اصل شکل یہ ہے کہ ان اصولوں پر ہم غیر معمولی استقامت کا مظاہرہ کریں۔ اہل حق جب مشکل سے مشکل حالات میں حق پر ڈٹ جاتے ہیں تو اسی سے حق کا حق ہونا واضح ہوتا ہے۔وہ جب ہر طرح کی مصیبت برداشت کرکے بھی اپنے اصول نہیں چھوڑتے تو سب لوگ ان اصولوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ یہ بھی مشکل حالات کا ایک اہم مقصد ہوتا ہے کہ اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ حق کا حق ہونا واضح کردیتا ہے۔

اٹل اصولوں پر استقامت کے لیے یہ بھی ضروری ہوتا ہے کہ غیر اہم باتوں کے لیے ہمارے اندر لچک ہو۔ اسلام کے ابدی اصولوں پر پوری قوت سے قدم جمادینا اسی وقت ممکن ہوتا ہے جب ہم اپنی اُن عادتوں اور رواجوں کو جن کی حیثیت زیادہ سے زیادہ مقامی تہذیبی مظاہر کی ہے، اصولوں کی حیثیت دینا چھوڑدیں۔ کیا چیز چھوڑی جاسکتی ہے اور کیا نہیں چھوڑی جاسکتی، کون سی باتیں اٹل اصولوں کا درجہ رکھتی ہیں اور کون سی محض اجتماعی پسند کی، اس فرق کا لحاظ ضروری ہے۔

اگر کہیں ظلم ہوتا ہے، جان و مال پر حملے ہوتے ہیں تو اپنے دفاع کی ہر ممکن کوشش ضرور کریں۔ اسلام اس کا حکم دیتا ہےاور ملک کا قانون و آئین اس کو یعنی اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔ ہم پوری بہادری سے، موت سے ڈرے بغیر خود کو، اپنے بھائیوں کواور اپنی بستیوں کو بچانے کی کوشش کریں۔ ہر مظلوم کی حفاظت کریں چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب یا فرقے سے ہو۔ ظلم کے خلاف آواز بھی بلند کریں۔ مظلوموں کے حق کے لیے قانونی جدوجہد بھی کریں۔ لیکن ان کاموں کو سب کچھ نہ سمجھیں۔ یہ رد عمل درست ہونے کے باوجود محض فوری درپیش مسائل کا عارضی رد عمل ہے۔اس پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا ہے۔ یہ ضروری (necessary)ہے لیکن کافی (sufficient)نہیں۔

حکمت عملی کا دوسرا جز، زیادہ سے زیادہ انگیجمنٹ
اوپر ہم نے ملک کی آبادی کو چار گروہوں میں تقسیم کیا تھا۔ اس وقت اہم ترین ضرورت یہ ہے کہ چوتھا گروپ یعنی وہ لوگ جو فرقہ پرستی کے خلاف پوری جرأت سے کھڑے ہوئے ہیں، مضبوط ہو ں۔ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ اس گروہ کی ہر ممکن مدد ہو۔ اس کی تعداد بڑھے۔ تیسرا گروہ، یعنی وہ بڑی اکثریت جو فرقہ پرستی کو پسند نہیں کرتی لیکن خاموش ہے، اس کے ضمیر کو بیدار کیا جائے اور ملک میں امن و امان کے قیام کے لیے اسے آمادہ کیا جائے۔ دوسرا گروہ جو نفرت کے ایجنڈے کا شکار ہورہا ہے، اُسے شکار ہونے سے روکا جائے اور پہلا گروہ جو سب کچھ جان بوجھ کر، فتنہ و فساد کے راستے پر گامزن ہے اسے الگ تھلگ کیا جائے۔

اس کام کا طریقہ یہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ انگیجمنٹ ہو۔ ملک میں فرقہ پرستی کے فروغ کا بڑا سبب فرقوں کے درمیان تفریق ہے۔ یہ تفریق دو طرح کی ہے۔ ایک تو وہ تفریق ہے جسے سماجی نفسیات کی زبان میں رویہ کی تفریق (attitude polarisation)کہا جاتا ہے۔[24] اس کا مطلب یہ ہوتاہے کہ دو گروہوں میں اختلاف شروع ہوتا ہے، پھر ہر گروہ کا اختلافی نقطہ نظر دوسرے گروہ کے رد عمل میں شدید سے شدید تر ہوتا جاتا ہے یہاں تک کہ متضاد خیالات میں شدت کے اعتبار سے دونوں، اس کیفیت پر پہنچ جاتے ہیں کہ ہر ایک ہر واقعے کو اپنی سوچ کے اعتبار سے معنی پہنانا (theorise) شروع کرتا ہے۔ ایک ہی جگہ ایک ہی واقعہ ایک گروہ کو ایک روپ میں دکھائی دیتا ہے اور دوسرے گروہ کو بالکل مخالف روپ میں دکھائی دیتا ہے۔ حالیہ کئی واقعات میں اس کی مثالیں ملتی ہیں۔ بل ڈوزر کے واقعات کو مسلمانوں نے، مسلم آبادیوں کو تاراج کرنے کی ایک بڑی سازش کے روپ میں دیکھا تو غیر مسلموں کی ایک بڑی آبادی نے اسے فسادیوں کو سزا دلانے کی ایک موثر تد بیر سمجھا۔ رام نومی کے واقعات پر مسلمانوں کا تاثر یہ تھا کہ یہ بڑے پیمانے پر فسادات برپا کرنے کی منظم سازش تھی جب کہ ہندوؤں کی ایک بڑی تعداد کے نزدیک یہ مذہبی جلوسوں پر پتھراؤ کی ملک گیر منظم مہم تھی۔ سوچ کی تفریق جب پیدا ہوجاتی ہے تو ٹھوس شواہد کی بھی اپنے اپنے نقطہ نظر سے تاویل ہونے لگتی ہے۔ اور دونوں گروہوں کے درمیان بامعنی ڈائیلاگ ناممکن ہونے لگتا ہے۔

دوسری بڑی تفریق وہ ہے جسے سماجی تفریق (social polarisation) یا مکانی تفریق (spatial polarisation)کہا جاتا ہے۔ یعنی رہن سہن کے لحاظ سے، میل جول کے لحاظ سے، دوستی و قربت کے لحاظ سے ایسی دوری جس کے نتیجے میں بات چیت اور تبادلہ خیال مشکل سے مشکل تر اور کم سے کم تر ہوتا چلاجائے۔ سروے رپورٹیں اس حوالے سے بہت تشویشناک صورت حال پیش کرتی ہیں۔

اوپر جن دو سروے رپورٹوں کا ہم نے حوالہ دیا ہے، اُس کے بعض نتائج چونکانے والے بھی ہیں اور ہمیں سنجیدہ غور اور عمل کی طرف متوجہ کرتے ہیں۔ مثلاً یہ کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوری بڑھ رہی ہے۔ اور ساتھ رہنے، ملنے جلنے اور بات چیت کے مواقع کم ہورہے ہیں۔ 36 فی صد ہندو کسی مسلمان کو اپنے پڑوسی کی حیثیت سے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ [25])کسی ہندو کو پڑوسی کی حیثیت سے قبول نہ کرنے والے مسلمانوں کا تناسب 16 فی صد ہے۔)47 فی صد ہندوؤں اور 45 فی صد مسلمانوں کے دوست صرف اپنے ہم مذہب لوگوں تک محدود ہیں۔ [26]اُن ہندوؤں کا تناسب جو اسلام کے بارے میں کچھ معلومات رکھتے ہیں محض 36 فیصد ہے۔[27] (سکھوں، بدھوں اور جینیوں میں یہ تعداد اور بھی بہت کم ہے)۔

سماجی تفریق لازماً نفرت کا نتیجہ نہیں ہوتی لیکن نفرت کے فروغ کی زمین ضرور فراہم کرتی ہے۔ خاص طور پر رویے کی تفریق (attitude polarisation) دھیرے دھیرے نفرت کو پروان چڑھاتی ہے۔ مذکورہ سروے رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ جتنے لوگوں میں نفرت کا عنصر ہے اس سے کہیں زیادہ لوگوں میں تفریق کا ذہن ہے۔ یہ لوگ آئندہ آسانی سے نفرت والے خیمے میں منتقل ہوسکتے ہیں۔ اس لیے اس تفریق کو ختم کرنے کی سنجیدہ کوشش ہمارے ملی ایجنڈے کا نہایت اہم حصہ ہونا چاہیے۔

اس بات کی ضرورت ہے کہ بڑے پیمانے پر اس صورت حال کو بدلنے کی مہم چلائی جائے۔ تفریق دور کرنے کے لیے روز مرہ کے عام روابط کی بھی اہمیت ہے اور ایسے اداروں اور پلیٹ فارموں کی بھی جو دونوں فرقوں کو ملا سکیں۔[28]جرمن ماہر سماجیات جرگن ہابرماس نے‘عوامی دائرہ’ (public sphere)کا نظریہ پیش کیا تھا۔ عوامی دائرے کی تعریف کرتے ہوئے وہ لکھتا ہے:

“Public sphere is made up of private people gathered together as a public and articulating the needs of society with the state”[29]

عوامی دائرہ، ان خانگی افراد پر مشتمل ہوتا ہے جو ایک ساتھ جمع ہوتے ہیں اور سماج کی ضرورتوں کو ریاست کے سامنے (مشترکہ طورپر ) رکھتے ہیں۔

عوامی دائرہ، سماجی زندگی کا وہ حصہ ہے جس میں افراد ایک دوسرے کے قریب آتے ہیں، عوامی مسائل پر بات چیت کرتے ہیں، ایک دوسرے کی سوچ پر اثر ڈالتے ہیں اور اس طرح سیاسی عمل کو بھی متاثر کرتے ہیں۔ ہابرماس کے مطابق‘زندگی کی دنیا’ (lifeworld) وہ تعلقات اور بات چیت ہے جو عام اور روزمرہ کے انسانی روابط کے ذریعے انجام پاتی ہے۔[30] ان میں دیہاتوں میں چوپالوں کی اور شہروں میں چائے خانوں کی بیٹھکیں، بچوں کے درمیان کھیل کے روابط، خاندانی تقریبات، میلے اور تیوہاروں کے موقعوں پر روابط وغیرہ شامل ہیں۔ ہابرماس کہتا ہے کہ یہ عوامی دائرہ ہی ہےجو نظام پر اثر انداز ہوتا ہے، اس لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ نظام ہی پورے سماج پر حکم ران ہوتا ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ ملک میں موجودہ مسلم دشمنی کی صورت حال کا ایک بڑا سبب رویہ کی تفریق ہے اور اس کا حل یہ ہے کہ پبلک اسپیر میں یا عوامی دائرے میں مسلمان اور غیر مسلم زیادہ سے زیادہ ایک دوسرے سے قریب آئیں۔ ان کے درمیان بامعنی ڈائیلاگ روز مرہ کی بنیاد پر ہو۔ وہ اپنا دین، اپنے اصول اور اپنے عقائد کی تفہیم بھی کریں۔ دعوت دین مسلمانوں کا فریضہ اور ان کی ذمے داری کا تقاضا بھی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مل کر مشترک عوامی دائرہ بنائیں، یعنی عدل و انصاف کے ایجنڈے کو لے کر مشترک جدوجہد کریں۔ اس تناظر میں عدل کی سیاست کی جو بحث اشارات میں ہم مسلسل چھیڑے ہوئے ہیں[31]، اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

حکمت عملی کا تیسر ا جز: حکومتوں سے، ہندتو کے علم برداروں سے، اور سول سوسائٹی سے بامقصد انگیجمنٹ
حکومت اور ہند تو کی طاقتوں کے نامناسب اقدامات، پالیسیوں اور نظریات کی ہم شدید مخالفت کریں، فرقہ پرست عناصر کو سماج میں الگ تھلگ بھی کریں لیکن ساتھ ہی حکومت اور ہندتو کے علم برداروں سے بامقصد مذاکرات بھی شروع ہوں۔ اب یہ تحریک ملک کی ایک نہایت موثر تحریک ہے۔ ہم واضح کرچکے ہیں کہ اس کے تمام عناصر ایک جیسے نہیں ہیں۔ خود اس تحریک کو ممکنہ حد تک اعتدال کی طرف جھکایا جائے اور اس میں نسبتاً اعتدال پسند عناصر کی قوت بڑھے، یہ اب ملک کی اور ملت کی بھی اہم ضرورت ہے۔ حکومت کے قریبی اعتدال پسنددانش وروں اور ارباب اختیار پر اثر انداز ہونے اور ان کے ذریعے حکومت کی پالیسیوں کو ممکنہ حد تک اعتدال پر رکھنے کی جدوجہد ہونی چاہیے۔ ہم دائیں بازو سے بھی اختلاف رکھتے ہیں اور بائیں بازو سے بھی۔ جمہوریت کی بقا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے فروغ کے مشترکہ مقصد کے لیے ہم بائیں بازو سے بھی اشتراک کرسکتے ہیں اور دائیں بازو کے معتدل عناصر کے ساتھ بھی کرسکتے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نظریاتی وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ہم ملک کے ان تمام طبقات کے ساتھ جڑنے کی کوشش کریں جو بنیادی حقوق، عدل و انصاف اور امن و امان کے معروف تقاضوں اور اقلیتوں کے حقوق کے حامی ہیں اور چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ بھی انصاف ہو اور وہ ترقی کریں۔

یہ انگیجمنٹ کیسا ہو اور اس کی بنیادیں کیا ہوں، اس پر ہم دسمبر 2022 سے مئی 2022 تک کے اشارات میں تفصیل سے اپنی بات رکھ چکے ہیں۔مثلاً تاریخ کے حوالے سے جو بحثیں اٹھائی جارہی ہیں، ان میں ہم کیسے حصہ لیں اور کیا بولیں اس پر ہم نے گذشتہ ماہ (مئی 2022) تفصیل سے اپنی معروضات پیش کی تھیں۔ ان مباحث میں متعدد باتیں ایسی ہیں جو ہندتو کے نسبتاً معتدل عناصر کے ساتھ نقطہ اشتراک بھی بن سکتی ہیں۔ اس وقت بھی اصل ہندتو فکر میں یقین رکھنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد حکومت کی معاشی پالیسیوں کے خلاف ہے۔ عدل پر مبنی ہمارا معاشی تصور، دین دیال اپادھیائے کے تصورات کے حامیوں کے ساتھ کامن گراونڈ بن سکتا ہے۔

اس انگیجمنٹ سے ہم کو اپنے رویوں کی ان کم زوریوں کا بھی احساس ہوگا جن کی وجہ سے ہم نادانستہ ان عناصر کی تقویت کا اور ان کے جذبہ حسد کو فروغ دینے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ تمسخر، تضحیک، طنز و طعنے اور اپنی تہذیبی برتری کا موقع بے موقع متکبرانہ اظہار، حمیت جاہلانہ کو بھڑکانے کا ذریعہ بنتا ہے۔قرآن مجید میں معبودان باطل تک کو برا بھلا کہنے سے بھی منع کیا گیا ہے۔ (وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَیَسُبُّوا اللّٰهَ عَدْوًۢا بِغَیْرِ عِلْمٍ۔) اور وہ اﷲ تعالیٰ کے سواجن کو پکارتے ہیں انھیں برابھلانہ کہوکہ وہ بھی بغیرعلم کے حدسے گزرکراﷲ تعالیٰ کو بُرا بھلا کہیں گے۔الانعام 106)

حکمت عملی کا چوتھا جز: عدل پر مبنی سیاست
یہی وہ تناظر ہے جس میں ہم عدل پر مبنی سیاست کو نہایت ضروری سمجھتے ہیں۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کے اصولوں اور ان کے دین کا تقاضا ہے بلکہ اس ملک میں بہتر مستقبل اور باعزت زندگی کا راستہ بھی یہی ہے کہ مسلمان اپنے خول سے نکلیں اور پورے ملک اور ملک کے تمام عوام کی دنیا و آخرت کی بھلائی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔ ان کی شناخت، عام دھارے سے کٹی ہوئی، نامعلوم روایات اور انجان قدروں کی حامل ایک اجنبی قوم کی نہ رہے بلکہ ملک کے تمام انسانوں کی بھلائی اور ان کے فوز و فلاح کے علم بردار ایک متحرک، فعال اور درد مند گروہ کی بنے۔ موجودہ حالات کے پیچھے اللہ کی مصلحت یہی معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان اس بات کا ادراک پیدا کریں اور اپنے سابقہ طرز عمل کو بدل کر نئی شناخت اور نئے ولولے کے ساتھ آگے آئیں۔

اس کام کے لیے درج ذیل پانچ نکات تجویز کرکے ہم یہ بحث مکمل کرتے ہیں۔
ہم اسلام کی دعوت لوگوں کو دیتے رہیں، مکمل اسلام کا اور اسلامی نظام کا تعارف کراتے رہیں۔ یہ ہمارا اصل کام ہو۔ ہم اسلام اور اس کے اصولوں پر پوری استقامت سے قائم بھی رہیں اور اپنی زبان سے، عمل سے، اپنے ارادوں سے، غرض ہر چیز سے اسلام کی شہادت بھی دیتے رہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ اور اس کے متوازی، عدل وقسط کے جس قدر بھی قریب جانا ممکن ہو، قریب جانے کی اور پورے سماج کو لے جانے کی کوشش کریں۔ یہ عدل سب کے ساتھ ہو۔ اس ملک کے تمام انسانوں کو عدل ملے، یہ ہمارا فوری سیاسی ہدف بنے۔

عدل و قسط کی بنیاد پر ہمارا ایک سیاسی ایجنڈا اور ایک سیاسی وژن تشکیل پائے۔ اس ایجنڈے کواسی سلسلہ مضامین میں ہم تفصیل سے واضح کرچکے ہیں۔ ان پر مباحث ہوں اور ایک ملی ایجنڈا واضح ہوکر سامنے آئے۔

اس ایجنڈے کو ہم اپنی تمام سیاسی کوششوں کی بنیاد بنادیں۔ اسے مہمات کا موضوع بنائیں۔ جگہ جگہ عوامی حلقوں میں انھیں زیر بحث لائیں۔ اس پر تفصیلی لٹریچر تیار ہو۔ ویڈیو اور فلمیں بنیں۔ لوگوں کے درمیان ان باتوں کو لے کر ہم جائیں اور مسلسل کوشش کریں۔ یہ‘ عوامی دائرے ’ کی اور اس میں ہماری شمولیت کی بنیاد بنے۔یہاں تک کہ اسلام کی دعوت اور عدل کا یہ ایجنڈا ہماری پہچان بن جائے۔

یہ ایجنڈا ہی ہمارے سیاسی مذاکرات (negotiation)کی اور انگیجمنٹ کی بنیاد بنے۔ حکومت سے، سیاسی پارٹیوں سے، اسی ایجنڈے کو لے کر ہم بات کریں اور اسی کو لےکر عوامی سیاست کریں۔اس کی بنیاد پر سیاسی پارٹیوں پر اثر انداز ہوں اور اس کے لیے چھوٹے بڑے فورم بھی کھڑےکریں۔ 

حواشی و حوالہ جات
1. دین دیال اپادھیائے کے نظریات کے لیے دیکھیے

Deen Dayal Upadhyay, Ed. VR Pandit, (2002), Integral Humanism, Deendayal Research Institute, Delhi.

2. M.S. Golwalkar (1939) We or Our Nationhood Defined, Bharat Publications, Nagpur, Chapter 2.

3. Seshadri Chari, Decoding Hindu Rashtra in India Today, Nov 8, 2019.

4. اس پر ایک دل چسپ بحث کے لیے دیکھیں

Aakar Patel (2020) Our Hindu Rashtra; Westland; NOIDA; see the INTRODUCTION.

5. Ajay Gudavarthy; Are Muslims Targets of Envy or Phobia? In https: //www.newsclick.in/Muslims-Targets-Envy-Phobia; retrieved on 18-05-2022.

6. https: //thewire.in/politics/narcissism-victimhood-and-revenge-the-three-sounds-of-neo-nationalism

7. Neha Sahgal et. al. (2021) Religion in India, Tolerance and Segregation; Pew Research Centre; Washington DC; p. 13.

8. https: //www.thequint.com/news/politics/narendra-modi-hindutva-lok-sabha-election-results-2019-csds-survey-muslims-sikhs#read-more; retrieved on 17-05-2022.

9. Neha Sahgal et. al. (2021) Religion in India, Tolerance and Segregation; Pew Research Centre; Washington DC.

10. CSDS,Lokniti and Azim Premji University (2019) Politics and Society Between Elections; CRPE; Azim Premji University; Bangalore.

11. Neha Sahgal et. al. (2021) Religion in India, Tolerance and Segregation; Pew Research Centre; Washington DC; p. 10.

12. Ibid; p. 7.

13. Ibid; p. 95.

14. Ibid; p. 139.

15. CSDS,Lokniti and Azim Premji University (2019) Politics and Society Between Elections; CRPE; Azim Premji University; Bangalore; p. 137.

16. ibid p. 47.

17. Ibid p. 56.

18. Ibid p. 136.

19. Neha Sahgal et. al. (2021) Religion in India, Tolerance and Segregation; Pew Research Centre; Washington DC; p. 70.

20. Ibid; p. 13.

21. Ibid; p. 14.

22. Ibid; p. 95.

23. CSDS,Lokniti and Azim Premji University (2019) Politics and Society Between Elections; CRPE; Azim Premji University; Bangalore; p. 138.

24. اس موضوع پر تفصیلی مطالعے کے لیے ملاحظہ ہو

Cordelia Fine (2006) A Mind of its Own: How Your Brain Distorts and Deceives; W.W.Norton; New York.

25. Neha Sahgal et. al. (2021) Religion in India, Tolerance and Segregation; Pew Research Centre; Washington DC, p. 10.

26. Ibid; p. 87.

27. Ibid; p. 75.

28. اس موضوع پر ہم اپنی کتاب ‘اقامت دین کی شاہراہ’ میں تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

سید سعادت اللہ حسینی (2018) اقامت دین کی شاہراہ; ہدایت پبلشرز؛ نئی دہلی ص 110تا 124

29. Jürgen Hambermas (1991) The Structural Transformation of the Public Sphere: An Inquiry into a category of Bourgeois Society. Trans. Thomas Burger with Frederick Lawrence. Cambridge, MA: MIT Press; p. 176.

30. Jurgen Habermas. Further Reflections on the Public Sphere. In Habermas and the Public Sphere. Ed. Craig Calhoun. Trans. Thomas Burger; MIT Press; Cambridge; 1992.

31. زندگی نو؛ اشارات؛ دسمبر 2021 تا مئی 2022۔ 

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

error: